کمرے میں پھیلی خاموشی میں مدغم ہوتے اسکے آنسو خشک ہوچکے تھے۔ وہ اب کہ بالکل خالی خالی سی ارسل کے سینے سے لگی ہوئ تھی۔ پھر آہستہ سے گیلی سانس اندر کو کھینچتی پیچھے ہٹی۔ تھکی تھکی سی آنکھیں اٹھا کر ارسل کو دیکھا جو سنجیدگی سے گردن جھکاۓ لالہ رُخ کو ہی تک رہا تھا۔ اس نے خشک پڑتے لبوں پر زبان پھیری تھی۔۔ کندھوں پر جانے کیوں منوں بوجھ آگرا تھا لمحوں ہی میں۔۔
“میں تیار ہوں ارسل۔۔”
اسکی نحیف سی آواز ابھری تھی۔ اداسی میں ملفوف نگاہوں میں گلابی سے ڈورے بھی چمک رہے تھے۔ ارسل نے اسے بغور دیکھا تھا۔۔
“کس چیز کے لیۓ؟”
“آپکو آزاد کرنے کے لیۓ۔۔”
لیکن اب کہ اسکی آواز مضبوط تھی۔ واضح اور فیصلہ کن۔۔ وہ اسکے جواب پر چند پل نگاہیں سکیڑے اسے دیکھتا رہا اور پھر گہرا سانس لے کر گویا ہوا۔۔
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے لالہ رُخ۔۔؟”
“فرق پڑتا ہے ارسل۔۔ اس سب سے آپکو۔۔ مجھے اور آمنہ کو فرق پڑتا ہے۔ اور میں کسی بھی جذبے کے زیرِ اثر یہ بات نہیں کہہ رہی ہوں آپ سے۔ میں بہت دنوں سے تذبذب کا شکار تھی لیکن اب میرے آنسوؤں نے مجھ پر چڑھی گرد جھاڑ دی ہے۔ اب مجھے سب کچھ بہت واضح دکھائ دینے لگا ہے۔۔”
ارسل اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ کھلی کھڑکی کے پار پگھلتی رات، اب کہ ان کے کمرے میں چہرہ ذرا آگے نکالے، جھانک رہی تھی۔ ایک سرسراتا جھونکا ارسل کے بالوں کو اڑاتا ہوا گزرا تو وہ یکلخت سمجھ کر سر ہلانے لگا۔ پھر بھوری آنکھیں اٹھا کر لالہ رُخ کو دیکھا۔
“ہماری زندگیوں کا فیصلہ ہمارے والدین نے کیا تھا رُخ۔۔ اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ تم مجھے آزاد کرتی ہو یا میں تمہیں۔ ہمیں ساتھ رہنا ہے۔۔ ہمیں ساتھ رہنا ہی ہوگا۔۔ ہماری علحیدگی کی کوئ صورت نہیں ممکن نہیں ہے۔”
اسکا تجزیہ بہت بے رحم اور حقیقی تھا۔ لالہ رُخ کو جانے کیوں سینے میں چبھن سی ہونے لگی۔ اسکا دم گھٹنے لگا تھا۔
“ہمارے نہیں ارسل۔ صرف آپ کے بابا نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ میرے والدین نے یہ فیصلہ مجھ سے پوچھ کر کیا تھا اور میرے ہامی بھرنے کے بعد ہی اس رشتے کو مزید آگے بڑھایا گیا تھا۔ میرے ساتھ کوئ زبردستی نہیں کی تھی کسی نے بھی۔ یہ میرا اپنا فیصلہ تھا۔۔ اور میں۔۔ اس فیصلے کو واپس لینے پر بھی قادر ہوں۔۔”
اسکے بہت بے رحم تجزیے کے جواب میں رُخ نے بھی ہر قسم کی نرمی کو بالاۓ طاق رکھ کر جواب دیا تھا۔ ارسل کی آنکھیں لمحے بھر کو اسکا جواب سن کر حیرت سے پھیلیں۔
“تم کیا کرنا چاہتی ہو رُخ۔۔؟”
“کہا نا آزاد کرنا چاہتی ہوں آپکو خود سے۔”
“لیکن یہ بہت نا مناسب سی بات ہے۔۔”
“جو فیصلے انسانی زندگی کے ساتھ میل نہیں کھائیں ناں ارسل۔۔ نا مناسب وہ ہوتے ہیں۔۔ انہیں درستگی کی جانب کھینچ کر لاتی کوششیں نہیں۔۔”
وہ بہت سنجیدہ لگ رہی تھی۔ اسکی پچھلی کمزوری ہر گزرت لمحے عنقا ہوتی جارہی تھی۔ چہرہ جو جذبات سے دہک رہا تھا آہستہ آہستہ سپاٹ ہونے لگا۔۔
“لیکن تم ایسے کیوں کروگی۔؟”
“اسی لیۓ کیونکہ آپ اس شادی سے خوش نہیں ہیں۔”
“کیا کوئ تکلیف دی ہے میں نے تمہیں۔۔؟”
اسے سمجھ نہیں آیا کہ مزید کیا پوچھ کر اسے کسی بھی خطرناک ارادوں سے باز رکھے لیکن شاید اب وہ سارے فیصلے کرچکی تھی۔ جبھی تو اسکے جھکے کندھے سیدھے ہوگۓ تھے۔۔ نگاہیں اٹل تھیں۔۔
“میں بچی نہیں ہوں ارسل کہ آپکے احساسات کا ادراک نہ کرسکوں۔ مجھے پتہ ہے آپ مجھے پسند نہیں کرتے۔ آپ مجھے کبھی پسند نہیں کرسکتے اسی لیۓ۔۔”
وہ ٹھہری تھی۔۔ پھر دہکتی ناک اور گلابی آنکھوں سے سجا چہرہ ذرا اوپر کو اٹھایا۔ اسکی آنکھوں میں مضبوطی سے دیکھا۔
“میں اب آپکو مزید پریشان نہیں کرونگی۔ میں اب آپکی زندگی میں کسی بھی تکلیف کا باعث نہیں بنونگی۔ میں چلی جاؤنگی جلد ہی اور آپکو کبھی اور گلٹی نہیں کرونگی۔ میں شیر بابا سے بھی بات کرلونگی۔۔ آمنہ سے بھی۔۔ میں آپکے لیۓ یہ آسانی کرنا چاہتی ہوں۔۔ مجھے اس سے مت روکیں پلیز۔۔”
اس آخری بات پر اسکی آنکھیں ایک بار پھر سے نمی کے باعث جگمگائ تھیں۔ ارسل کو تکلیف ہوئ۔۔ اسکی خوشی کے لیۓ وہ اپنا سب کچھ قربان کر کے بڑی بہادری سے اسکی زندگی سے جانے کا فیصلہ سنا رہی تھی۔ اور ایک وہ تھا۔۔ کہ ٹھیک سے اپنا فیصلہ بھی نہ سنا سکا تھا۔۔ ایک وہ تھا کہ جس نے اپنے وعدوں سے انحراف کیا تھا۔۔ ایک وہ تھا کہ ڈٹ کر اپنے لیۓ مقابلہ بھی نہ کرسکا تھا۔۔
“یہ۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے لالہ رُخ۔ میں تمہیں ایسے تمہارے حق سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔ اس میں تمہارا کوئ قصور نہیں۔۔”
“مجھے محض حق نہیں چاہیۓ ارسل۔۔ مجھے محبت چاہیۓ۔۔ جو آپ مجھ سے نہیں کرتے۔۔ حقوق تو میں آپ سے لے سکتی ہوں۔۔ محبت کیسے لوں؟”
وہ لاجواب سا ہوگیا تھا۔ تحلیل ہوتی رات میں ہر جانب گہری اداسی گھلنے لگی تھی۔ اسے خوش ہونا چاہیۓ تھا۔۔ کہ وہ اسکی زندگی سے جانے کا فیصلہ کررہی تھی۔۔ یہی تو چاہا تھا اس نے اب تک لیکن پھر یہ خالی پن۔۔ یہ کھوکھلی سی کسک کیوں اٹھ رہی تھی دل میں۔۔؟
“تم ترس کھارہی ہو مجھ پر رُخ؟”
“نہیں ارسل۔۔”
اس نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا تھا۔ اسکی معصومیت پر اتنی تکلیف میں بھی لب مسکرانا نہیں بھولے تھے۔
“یہ آپکا حق لوٹا رہی ہوں میں آپکو۔ کیا ہوا جو آپ یہ جرأت نہیں کرسکے تو؟ میں تو یہ کرسکتی ہوں نا ارسل!۔۔ میں پٹھان گھرانے کی ایک باہمت بیٹی ہوں۔ میں اگر اپنا حق لینا جانتی ہوں تو دوسرے کا حق انہیں دینا بھی جانتی ہوں۔ آپکو آزادی سے اپنا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔۔ آپکو اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے۔۔ یہ حق آپکو اللہ نے دیا ہے۔ میں اسے آپ سے چھین کر آپکی مزید گنہاگار نہیں بننا چاہتی۔۔ ”
اور پھر وہ اسکے سامنے رکی ہی نہیں۔ خاموشی کے ساتھ اسکے برابر سے نکل گئ۔ دروازہ کھل کر بند ہونے کی آواز کمرے کے سرد سکوت کو زخمی کرتی دم توڑ گئ۔۔ لیکن ارسل اپنی جگہ خالی چہرہ لیۓ جما رہا۔ پھر وہ آہستہ سے اپنے بیڈ پر آبیٹھا تھا۔۔ سر دونوں ہاتھوں میں گرالیا۔۔ گہرا سانس لے کر اندر جمع ہوتی گھٹن کو کم کرنا چاہا۔۔
آمنہ کا سراپا اگلے ہی پل اسکی نگاہوں کے سامنے لہرایا تھا۔ اسکی محبت سے لبریز آنکھیں۔۔ اسکا انداز۔۔ اسکی چاہت۔۔ اسکی عادت۔۔ وہ پھر سے وہیں کہیں پیچھے سرد راہداریوں میں اسکے ساتھ چلتے راستوں پر کھوگیا تھا۔۔ وہ وہیں پہنچ گیا تھا جہاں سے چلا تھا۔۔ اسکے آس پاس اپنی پہلی محبت کی خوشبو بکھرنے لگی تھی۔۔ لیکن پھر اسی عکس میں دو سیاہ رنگ آنکھیں تحلیل ہونے لگیں۔۔
وہ اگلے ہی پل گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ تیزی سے سر کے بالوں میں ہاتھ چلا کر بڑھتی بے چینی کم کرنے کی کوشش کی لیکن جواب ندارد۔۔ اسکے رگ و پے میں ہر گزرتے لمحے لالہ رُخ کی باتیں چبھن کی سی صورت اترنے لگی تھیں۔
تاریکی میں گھلتی سرد ہوا کے جھکڑ اب تک سارے ماحول کو خنک سا تاثر دیۓ ہوۓ تھے لیکن پھر بہت آہستگی سے۔۔ یہ خنکی۔۔ سرد سی۔۔ رگوں کو چیرتی ٹھنڈ میں بدلنے لگی۔۔ سرد جذبات کی مانند خاموش اور بے جان کردینے والی ٹھنڈ۔۔! جو انسان کو کسی بھی نرم گرم سے جذبے کا اسیر نہیں چھوڑتی۔۔ ایسی ٹھنڈ جو وجود پر چڑھتی، انسان کو جما دیا کرتی ہے۔۔ بلاشبہ آج رات ایسی ہی ٹھنڈ پڑنے والی تھی۔۔ یخ۔۔ سرد۔۔ رحم سے خالی۔۔!
***
وہ خاموشی سے آ کر رمشہ کے کمرے میں لیٹ گئ تھی۔ رمشہ نے بھی اس سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ لالہ رُخ ہمیشہ اعلیٰ قسم کے جوش و ولولے کے ساتھ اسکے کمرے میں داخل ہوا کرتی تھی لیکن آج کی لالہ رُخ بہت چپ تھی۔۔ خاموش اور اداس۔۔ وہ اسکے ساتھ ہی بیڈ پر دراز تھی۔۔ آنکھوں پر بازو رکھے۔۔ کمبل منہ تک تانے۔۔ رمشہ نے اسے دیکھ کر ہلکے سے ہاتھ ہلایا اور چھوٹا سا “شب بخیر” کہہ کر سونے لیٹ گئ۔
لالہ رُخ نے کروٹ دوسری جانب لے لی تھی۔ نگاہوں کے سامنے بار بار ارسل کا بے بس، پریشان سا چہرہ ابھرتا تو وہ اور بے کل ہوجاتی۔۔ اگلے ہی پل اسے گزری باتیں یاد آنے لگی تھیں۔۔
اس نے شیر افگن کی باتیں سن لی تھیں۔ وہ اس دن ارسل کے آفس گئ تھی لیکن پھر وہ شیر کی جانب سے کسے گۓ بہت تکلیف دہ جملوں پر وہیں ٹھہر بھی گئ تھی۔ انکی جانب سے کیۓ گۓ بے رحم تبصروں کے بعد شاید۔۔ اب۔۔ وہ تھوڑا بہت ارسل کو سمجھنے لگی تھی۔۔ پھر اس نے اسکی مدد کرنے کا سوچا لیکن آخر میں وہ اسکی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کا باعث ہی بنی۔۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ جو تکلیف سے کسی کو بچانا چاہیں تب بھی تکلیف ہی سے دوچار کردیا کرتے ہیں۔۔ وہ بھی ایسی ہی تھی۔۔ اسفند لالہ کا پرتُو۔۔ انکا عکس۔۔
اس نے ہمیشہ اپنے حق کے لیۓ لڑائیاں کی تھیں۔ جو اسکا ہے وہ اسکا ہے۔۔ وہ کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔۔ درمیان میں جو بھی آۓ گا وہ اسے روندتی ہوئ گزر جاۓ گی۔۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاۓ گی۔۔ اس نے یہی سیکھا تھا۔۔ اس نے اسی طریقے سے زندگی گزاری تھی۔۔ ارسل کو بھی وہ ایسے ہی حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔ وہ زبردستی اسے اپنے ساتھ رکھنے پر مصر تھی۔۔ وہ اس سے اپنے حق کی محبتیں، سکون اور آخری عمر کے ساتھ کا مطالبہ کررہی تھی یہ جانے بغیر کہ انسان تو انسان ہوا کرتے ہیں۔۔ وہ چیزیں نہیں ہوتے کہ جن پر تسلط جما کر انہیں اپنے نام کروالیا جاۓ۔۔ وہ کوئ زمین کا ٹکڑا یا پھر کسی جائیداد کا حصہ نہیں ہوتے کہ جن کے لیۓ سالہا سال عدالتوں میں دھکے کھا کر۔۔ انہیں اپنی ملکیت میں سمیٹ لیا جاۓ۔۔
انسان، انسان ہوتے ہیں!
اور وہ ہمیشہ انسان ہی رہتے ہیں۔۔
دل کے معاملات میں زور زبردستی کبھی بھی اچھے نتائج کو لیۓ انسان پر وارد نہیں ہوتی۔۔ بس یہ بات شاید زور آور سی لالہ رُخ کو بہت دیر سے سمجھ آئ تھی۔ اسے اس بات کا ادراک بہت دیر سے ہوا تھا۔۔ کہ انسانوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوۓ مصنوعی خدوخال نہیں بلکہ روح کے معاملات کا دھیان رکھا جاتا ہے۔۔ بس یہیں غلطی ہوگئ تھی اس سے اور اب وہ اسی غلطی کو سدھارنا چاہتی تھی۔۔ پھر بھلے ہی اس غلطی کو سدھارتے اسکی اپنی روح زخمی ہوجاتی۔۔ وہ ارسل کے لیۓ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی تھی۔۔ بس تھوڑا سا ہی سہی۔۔ ہاں۔ وہ الگ ہوجاۓ گی۔۔ وہ یہ کرلے گی۔۔ وہ سب کو منا بھی لے گی۔۔ وہ یہ کرسکتی تھی۔۔ اسے یہی کرنا چاہیۓ۔۔
اب کہ مضبوط سی لالہ رُخ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر تکیۓ میں جذب ہونے لگے تھے۔ اس نے حتی الامکان اپنی بکھرتی سانسوں کو سمیٹے رکھا۔۔ دل دکھ رہا تھا، آنکھیں رو رہی تھیں لیکن وہ اب خود کو اس گھن چکر بنی زندگی سے الگ کرلینا چاہتی تھی۔۔ وہ شاید یہ خود کے لیۓ بھی کررہی تھی۔ اسکی بھی انا اور عزت نفس اس سب میں مجروح ہوئ تھی۔۔ اسکا شوہر اسکے علاوہ کسی اور لڑکی کو چاہتا تھا۔۔ وہ اس کے ساتھ شرافت سے پیش آتا تھا تو اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اسکے ساتھ چپکی رہتی۔۔
اسکی اپنی زندگی بھی تھی۔۔ وہ خود کو ساری زندگی کسی کی بھیک سی محبت میں دھول نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ ہاں وہ یہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
اس نے زکام زدہ سی سانس اندر کو کھینچ کر آنکھیں صاف کیں اور پھر پلکیں موند گئیں۔۔ نیند روٹھ چکی تھی اور پلکوں کے پار اب تک بھورا سا ارتکاز جگمگا رہا تھا۔۔ اسکے آنسو ایک بار پھر سے بہنے لگے تھے۔۔
***
اگلے کئ دن انکے درمیان سے بہت خاموشی سے گزر گۓ تھے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کا سامنہ تو کیا۔۔ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی ترک کردیا تھا۔۔ ارسل جب آفس جاتا تو وہ جاگتے ہوۓ بھی کمبل منہ تک تانے سوتی رہتی۔۔ اور جب وہ رات کو واپس پلٹتا تب تک وہ سوجایا کرتی تھی۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو وقت دے رہے تھے۔۔ سمجھنے کے لیۓ خاموشی ضروری تھی اسی لیۓ ان دونوں کے درمیان بھی گانٹھا گیا خاموش معاہدہ واضح لکیر کی مانند ابھرا ہوا تھا۔
اگلے دن وہ بہت بوجھل سا اپنے کمرے سے آفس کے لیۓ تیار ہو کر نکل رہا تھا۔ بے خوابی کے باعث آنکھوں کی ماورائ سی جوت بجھی ہوئ تھی اور زندگی اسکے وجود سے روٹھی ہوئ لگتی تھی۔
اس نے گہرا سانس لے کر قدم زینوں کی جانب پھیرے اور پھر قدم قدم زینے اترنے لگا۔۔ لاؤنج میں آج بہت دنوں بعد خاصی رونق لگی ہوئ تھی۔۔ لالہ رُخ سیاہ بالوں کو ہاف باندھے رمشہ کے ساتھ چاۓ پیتی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔ ساتھ براجمان رمشہ بھی اسے اپنے کالج کا کوئ قصہ سنا رہی تھی اور وہ ہنستی ہنستی دوہری ہوئ جارہی تھی۔۔ اسکی ہنسی ارسل کو بہت کھوکھلی محسوس ہوئ۔۔
اس نے اپنے پچھلے ایام کی کمزوری گھر والوں کے سامنے ظاہر نہیں کی تھی اور کہیں اسکے اندر مچی توڑ پھوڑ ان پر عیاں نہ ہوجاۓ اسی لیۓ وہ اتنے بلند و بانگ قہقہے لگا کر ہنس رہی تھی۔ روح جب خاموش ہوجاۓ تو پھر کھوکھلے قہقہے خالی پن سے عبارت ہونے لگتے ہیں۔
وہ گردن میں ابھرتی گلٹی کو نگل کر زینے اترا اور پھر نیچے چلا آیا۔ دادی جو تسبیح کے دانے گراتیں لالہ رُخ کی کھلکھلاتی ہنسی پر، مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھیں۔۔ اسکی جانب متوجہ ہوئیں۔۔
“اسلام علیکم۔۔ آفس جارہے ہو بیٹا۔۔؟”
انہوں نے رُخ کے عین پیچھے کھڑے ارسل کو مخاطب کیا تو وہ اور رمشہ چونکیں۔۔ ایک ساتھ ہی چہرہ پھیر کر اسے دیکھا۔ وہ بہت بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔۔ خاموش۔۔ خالی۔۔
لالہ رُخ نے چہرہ واپس پھیر لیا۔ اسکے اندر بھی سیاہ رات کی گہری اداسی اترنے لگی تھی۔۔
” وعلیکم سلام۔۔ جی دادی۔۔ آفس جارہا ہوں۔۔”
“ناشتہ یہیں کروگے یا پھر آفس جاکر کروگے۔۔؟”
دادی نے اسے باہر کی جانب بڑھتے دیکھا تو پوچھ ہی لیا۔ انہیں لالہ رُخ اور ارسل کے درمیان کا تناؤ بخوبی محسوس ہوا تھا۔ سمیرا بھی اب کے لاؤنج ہی میں چلی آئ تھیں۔
“جی دادی آفس ہی میں کرلونگا۔۔ ابھی دل نہیں۔۔”
“اچھا سنو۔۔”
اور اب کے ایک بار پھر اسکے قدم ٹھہر سے گۓ تھے۔ اس نے پلٹ کر سمیرا کو دیکھا تھا۔ رُخ نے خود کو پلٹ کر اسے دیکھنے سے باز رکھا۔۔ وہ اسے وقت دینا چاہتی تھی۔۔ ابھی یوں اسکے سامنے آ کر وہ اسے کسی بھی قسم کے گلٹ کا شکار نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
“اگلے ہفتے شادی ہے اسفندیار کی۔ لالہ رُخ کو شاپنگ پر لے جاؤ۔۔”
“ارے نہیں آنٹی۔۔ میں پچھلے ہفتے ہی تو رمشہ کے ساتھ کر آئ تھی شاپنگ۔ اور ویسے بھی میری شادی کے بھی تو کپڑے، جیولری وغیرہ ایسے ہی رکھیں ہیں سب۔ وہی پہن لونگی۔۔ ”
اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا لالہ رُخ نے اس تک آتے سوال کا جواب بھی خود ہی دے دیا تھا۔ جانے یہ لڑکی اور کتنے احسان کرنا چاہتی تھی اس پر۔۔! اس نے سر ہلا کر اللہ حافظ کہا اور پھر باہر کی جانب بڑھ آیا۔ ہر گزرتے لمحے جانے کیوں اسکا بوجھل دل مزید بوجھل ہوتا جارہا تھا۔۔
لالہ رُخ نے گہرا سانس لے دکھتے دل کو نظر انداز کیا اور پھر زبردستی مسکرا کر رمشہ کی جانب دیکھا۔
“کیا تم مجھے سکھاؤ گی کہ پینٹنگ کیسے کرتے ہیں۔۔؟”
***
دوپہر تک گھر کا کام نپٹا کر جب وہ دونوں فارغ ہوئیں تو رمشہ اسے نیچے بنے تہہ خانے میں لے آئ۔ وہاں ہر جانب رنگ ہی رنگ بکھرے تھے۔ رمشہ نے آگے بڑھ کر لائٹ جلائ تو پل بھر کو تاریک سا تہہ خانہ روشنیوں میں نہا سا گیا۔ ہر جانب کینوس پر کچھ نہ کچھ رنگوں سے سجایا گیا تھا۔۔ بہت سی پینٹنگز بھی جابجا دیواروں پر آویزاں تھیں اور رنگوں سے بہت ہی با معنی سجاوٹ کی گئ تھی۔
“مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی اچھی پینٹر ہو۔۔”
اس نے ایک پینٹنگ کی جانب بغور دیکھتے ہوۓ متاثر ہو کر کہا تو رمشہ ہنس پڑی۔۔ پھر رنگوں کے کٹ سمیٹ کر ایک جانب رکھتی کہنے لگی۔۔
“بھابھی یہ پھپھو کی پینٹنگز ہیں۔۔ انہیں بہت شوق تھا پینٹنگ کرنے کا۔۔ یہ جتنی بھی مہارت سے بنائ گئ پینٹنگز ہیں نا۔۔ یہ پھپھو کی ہیں۔۔ میں تو بس ٹھیک ہی بناتی ہوں۔۔ انکے جانے کے بعد بھی میں اس بیسمنٹ کی صفائ معمول کے مطابق کرواتی ہوں۔۔ کیا ہوا جو وہ چلی گئیں۔۔ انکی پینٹنگز تو آج بھی زندہ ہیں نا۔۔”
وہ آخر میں اداسی سے بولی تو لالہ رُخ نے گہرا سانس لیا۔۔ دیواروں پر سجی کئ پینٹنگز میں سے ایک پر وہ ٹھہر گئ تھی۔ نیلے رنگ کی جھیل پر لہراتے سنہری بادلوں سے سجی پینٹنگ۔۔ درخت، خوشحالی، سبزہ۔۔ ہر جانب اس میں خوشی ہی خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی لیکن پھر اسی پینٹنگ کے ایک حصے میں سیاہ پانی کی بارش برس رہی تھی۔۔ یوں گویا۔۔ سنہری روشنی سے سیاہ رات کا سفر واضح کیا گیا ہو۔۔ وہ اس گہری سی مہارت پر حیران سی کھڑی رہ گئ تھی۔۔ رمشہ بھی اسکا ارتکاز محسوس کر کے اب کہ اسکے ساتھ آکھڑی ہوئ تھی۔۔ پھر ہولے سے بولی۔۔
“یہ اس رات کی پینٹنگ ہے جب پھپھو کو۔۔ قتل کیا گیا تھا۔۔ ”
اس نے آنکھیں اگلے ہی لمحے بند کرلی تھیں۔ تکلیف رگوں میں اترنے لگی۔۔ بوجھل دل دکھنے لگا۔۔
“شاید انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بھی روشن سی زندگی سے سیاہ کال کوٹھڑی میں جا کر سونے والی ہیں۔ دادی ہمیشہ کہتی ہیں کہ انسان کو اسکی موت کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے۔۔ اور بھابھی مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ بالکل ٹھیک کہتی ہیں۔۔ ہمارا انجام قریب آرہا ہوتا ہے۔۔ ہمیں ادراک تو ہو ہی جاتا ہوگا نا۔۔”
اس نے آخر میں پلٹ کر اسے دیکھا تو وہ پھیکا سا مسکرائ۔۔ پھر کھلی ہتھیلی اسکی جانب بڑھائ۔۔
“لاؤ مجھے بھی برش دو۔۔ آج میں بھی تمہیں بنا کر دکھاؤں کوئ نمونہ۔۔”
رمشہ اگلے ہی پل ہنس دی تھی۔
اب وہ دونوں اپنے اپنے کورے کینوس کے سامنے کھڑین پینٹنگ کررہی تھیں۔ رمشہ کے ہاتھ رنگوں کے ساتھ بہت مہارت سے چل رہے تھے لیکن رُخ سے تو توبہ تھی۔۔ اسکی زبان ذرا سی باہر تھی، آنکھیں انہماک سے کینوس پر جمی تھیں اور ناک پر سیاہ رنگ بھی لگ چکا تھا۔۔ اس نے اگلے ہی پل ادھر ادھر ہاتھ مار کر بے نیازی سے برش ایسے چلایا جیسے واہ واہ کیا بنادیا ہے میں نے۔۔ پھر رمشہ کو دیکھا جو سنجیدگی سے اپنی پینٹنگ کی جانب متوجہ تھی۔
“رمشہ میں نے بنالی ہے۔۔”
اس نے پینٹنگ کے عین سامنے کھڑے ہو کر کہا تھا۔ ایسے کہ وہ مکمل طور پر اسکے پیچھے چھپ گئ تھی۔ رمشہ نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اگلے ہی پل ہنس پڑی۔ اسکی ناک پر لگا سیاہ رنگ بتارہا تھا کہ اس نے کیسی زبردست زور آزمائ کی ہوگی پینٹنگ کے ساتھ۔۔
“اچھا دکھائیں تو۔۔ ”
“نہیں۔۔ پہلے تم وعدہ کرو کہ ہنسو گی نہیں۔۔”
رمشہ نے جلدی سے سر اثبات میں ہلایا اور جیسے ہی لالہ رُخ پینٹنگ کے سامنے سے ہٹی تو رمشہ کی آنکھیں تحیر سے پھیلیں۔۔ ایک پل کی خاموشی اور اسکا بھرپور قہقہہ گونجا تھا تہہ خانے میں۔۔ رُخ نے برا مان کر اسے دیکھا۔۔
“تم نے کہا تھا تم نہیں ہنسوگی۔۔”
“میں نہیں ہنس رہی۔۔”
وہ جھک کر ہنستی ہوئ ڈھٹائ سے نفی بھی کررہی تھی۔ لالہ رُخ ایک بار پھر سے پینٹنگ سے سامنے آکھڑی ہوئ تھی۔
“بس ایک بات بتادیں۔۔ یہ بنایا کیا ہے آپ نے۔۔”
وہ اپنی نم آنکھیں صاف کرتی سیدھی ہوئ تو اس نے خفا خفا نگاہوں سے اسے دیکھا۔ وہ جلدی سے اپنا برش رکھ کر اسکے قریب آئ تھی۔۔
“اچھا بتائیں تو کیا ہے یہ۔۔؟”
“یہ ایک قلم ہے جو کہ کسی انسان کے ہاتھ میں ہے۔۔ اور وہ کاغذ پر کچھ لکھ رہا ہے۔۔ پھر دوسری طرف ایک بلی بھی کھڑی ہے اپنے پنجے اٹھاۓ۔۔ اس انسان پر جھپٹنے کے لیۓ تیار۔۔ لیکن جو میں نے ایک طرف کلاشن کوف بنائ ہے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ آدمی اس بلی کے کسی بھی حملے پر اسے ہلاک کردینے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔”
رمشہ آنکھیں پھاڑے اسکی وضاحت سن رہی تھی اور پھر جیسے ہی رُخ ایک بار پھر سے پینٹنگ کے سامنے سے ہٹی تو وہ ایک بار پھر ہنس دی۔۔ آگے بڑھ کر بغور اس قلم تھامے ہاتھ کو دیکھا۔۔ وہ ہاتھ تو نہیں البتہ ایسا لگ رہا تھا گویا سانپ پتّہ کھا رہا ہو۔۔ اور دوسری جانب اس نے بلی بنائ تھی۔۔ اللہ کی پناہ تھی اسکی بلی سے۔۔ وہ بلی کے علاوہ باقی سب کچھ لگ رہی تھی۔۔ ایک اور تکونے پر اس نے کلاشن بنائ تھی جو ان دونوں کارناموں سے قدرے بہتر تھی۔۔ شاید اسی لیۓ کہ اسکی طبیعت بھی ایسی ہی تھی۔۔ جنگجوؤں کی مانند۔۔
وہ ایک بار پھر سے ہنستی ہوئ پیچھے ہوئ تو لالہ رُخ نے آگے بڑھ کر سبز رنگ اپنی انگلی پر لگایا اور پھر اسکے رخسار پر رنگ لگاتی پیچھے ہوئ۔۔ شرارت سے اسکی سیاہ آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔ رمشہ نے بھی جواباً اسکے رخسار پر رنگ سے بھریں تینوں انگلیاں پھیریں تو وہ ہنستی ہوئ باہر کی جانب بھاگی۔۔ رمشہ اسکے پیچھے تھی۔۔ رنگوں سے بھری تھالی ہاتھ میں لیۓ۔۔
“نہیں۔۔ نہیں۔۔ اچھا رکو۔۔ پلیز ۔۔”
وہ ہنستی ہوئ اسے بمشکل خود سے دور کرتی آگے کی جانب بھاگی ہی تھی کہ لاؤنج میں سامنے سے آتے ارسل سے بری طرح ٹکرا کر پیچھے کو گری۔۔ رمشہ بھی اسکے عین پیچھے ہی تھی۔۔ اسکے ٹکراتے ہی وہ بھی توازن قائم نہ رکھنے پر گری تھی۔۔ ارسل نے بوکھلا کر اسے ہاتھ دیا۔۔ وہ ابھی ابھی آفس سے کوئ فائل لینے گھر پر آیا تھا کہ اس آفتاد سے ٹکرا گیا۔۔
لالہ رُخ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔ وہ ٹھہر سا گیا۔۔ اسکی ناک، رخسار ، انگلیوں پر جابجا رنگ لگا ہوا تھا۔ لالہ رُخ نے خوفزدہ ہو کر ارسل کے کپڑوں کو دیکھا تھا۔۔ وہاں رنگ لگ گیا تھا۔۔
“کیا ہوا۔۔؟ اٹھو۔۔”
اس نے ہاتھ بڑھا رکھا تھا۔۔ رُخ نے اگلے ہی پل اسکا ہاتھ تھاما اور اٹھ کھڑی ہوئ۔ رمشہ بھی اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔
“بھائ آپکے کپڑے خراب ہوگۓ ہیں۔۔”
رمشہ کے بتانے پر اس نے گردن جھکا کر اپنے سوٹ کو دیکھا اور پھر کراہ کر لالہ رُخ کی جانب دیکھا تھا۔
“یہ کیا کیا دیکھو تم نے! اور ایسی بھی کیا مصیبت آگئ تھی جو بھاگ رہی تھیں تم۔۔؟ حلات دیکھو کیا کررکھی ہے اپنی تم نے۔۔ منہ دھو جا کر۔۔”
وہ اپنے دل میں ابھرتی بے چینی کو اسے ڈانٹ کر خاموش کروارہا تھا۔ پھر اوپر کی جانب بڑھا تو وہ بھی رمشہ کی جانب خاموش نگاہوں سے دیکھتی اوپر کی جانب بڑھ گئ تھی۔ ارسل اب ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کرتا، سفید شرٹ کے کف کھول رہا تھا۔ پھر آہستینیں اوپر کی جانب چڑھا کر بغور اسے دیکھا۔ وہ اب ڈریسنگ روم کے اندر جارہی تھی۔۔ پھر تھوڑی دیر بعد منہ دھو کر باہر چلی آئ۔۔ اب ارسل نے اٹھ کر کپڑتے تبدیل کیۓ اور باہر چلا آیا۔۔ بالوں میں برش چلاتے ہوۓ اسے دیکھا۔۔
“کیا جو تم نے مجھ سے کہا تھا وہ اب بھی ویلڈ ہے۔۔؟”
وہ چونکی۔۔ اسکی جانب دیکھا۔۔ پھر آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“ٹھیک ہے پھر لالہ رُخ۔۔ میں کل تک تمہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کردونگا۔۔ بس آج کا دن تمہارے انتظار کا آخری دن ہے۔۔”
اس نے سنجیدگی سے کہا اور پھر اگلے ہی پل۔۔ فائل ہاتھ میں لیۓ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ لالہ رُخ خالی خالی سی کھڑی رہ گئ تھی۔ اسے پتا تھا کہ ارسل کا فیصلہ کبھی بھی اسکے حق میں نہیں ہونے والا تھا۔ وہ کبھی اسکے لیۓ درست تھی ہی نہیں۔۔ وہ اسکے جوڑ کی تھی ہی نہیں۔ دو آنسو لڑھک کر اسکے رخسار پر پھسلے تو اس نے ہاتھ کی پشت سے انہیں رگڑ دیا۔۔ اسی لمحے اسکا فون بجا تھا۔۔
اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا فون اٹھا کر کان سے لگایا۔۔ پھر مسکرائ۔۔
“کیسے ہیں لالہ؟”
“میں ٹھیک ہوں لالے۔۔ تم کہاں گم ہو۔۔؟ کب آرہی ہو گھر پر۔۔؟ اب تو سب مہمان بھی آنا شروع ہوگۓ ہیں۔ ”
اس کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ آ ٹھہری تھی۔ اگر اب آی نا لالہ تو شاید واپس نہ جاؤں اپنے گھر۔۔ اس نے دل میں سوچا تھا پھر چہکی۔۔
“آجاؤنگی بھئ۔۔ اب ایسی بھی کیا جلدی ہے آپکو میرے آنے کی۔۔؟ ویسے تو بڑا لڑتے رہتے ہیں مجھ سے ۔۔”
اسفند شاید دوسری جانب ہنسا تھا۔
“میں وہ لڑائ ہی تو مس کررہا ہوں پاگل۔۔ آجاؤ جلدی۔ کوئ لڑنے والا ہی نہیں۔۔ رامین سے تو بحث کرنا ہی بیکار ہے۔۔ اسے تو ایک سے دوسری بات کرتے ہوۓ صدی لگ جاتی ہے۔۔ رہے فرقان لالہ تو انکے اپنے اتنے مسئلے ہیں کہ وہ مجھ سے ایک دو کام کی بات ہی کرلیں بہت ہے انکی صحت کے لیۓ۔۔ اب آخر میں تم ہی بچتی ہو ناں۔۔ تو میں تمہی سے کہونگا۔۔”
وہ اسکی عجیب و غریب منطق سن کر ہنس پڑی تھی۔ لیکن یہ عجیب سی ہنسی تھی کہ جس میں اسکے رخسار تیزی سے بھیگتے جارہے تھے۔
“لالہ۔۔ کیا آپ مجھے لینے آجائینگے آج۔۔؟”
“ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔ کب آؤں بتاؤ۔۔”
“آ۔۔ آج شام تک لالہ۔۔ میں انتظار کرونگی۔۔”
اب کہ دوسری جانب موجود اسفند چونکا تھا۔
“لالہ رُخ۔۔ سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟ ارسل تو ٹھیک ہے نا تمہارے ساتھ ؟”
اسکے استفسار پر وہ جلدی سے بولی تھی۔۔
“جی لالہ۔۔ بس میری تھوڑی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آجکل شاید اسی لیۓ آواز ایسی لگ رہی ہے۔ آپ شام تک آجائیے گا میں ویٹ کرونگی۔۔”
ایک سانس میں کہہ کر اس نے فون کان سے ہٹا کر گہرا سانس لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اسفند اس سے کوئ اور بات پوچھ کر اسے لاجواب کردیتا۔۔ بہتر یہی تھا کہ وہ جلدی سے بات ختم کردیتی۔۔ اور جو اسے بہتر لگا تھا اس نے وہی کیا تھا۔۔ دوسری جانب اب ارسل اپنی گاڑی کا دروازہ بند کرتا گلاس ڈور سے سجے ریسٹورنٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ اسی ریسٹورینٹ کی جانب ۔۔ جس میں وہ ہمیشہ آمنہ سے ملا کرتا تھا۔۔ آج وہ اس سے ایک بار پھر سے ملنے جارہا تھا۔۔ انجام سے بے غرض ہو کر۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...