وہ بہت دلگرفتگی سے آمنہ کے سامنے بیٹھا تھا۔ ریسٹورینٹ کے قدآور گلاس ڈور سے، چمکتی دھوپ اندر کو گررہی تھی۔ لیکن وہ اس سردی میں گھلتی نرم دھوپ کی جانب متوجہ نہیں تھا۔ وہ تو اپنے سامنے بیٹھی، ایک پیاری سی لڑکی کی برستی آنکھوں کے سامنے براجمان،خود کو بے حد بے بس محسوس کررہا تھا۔
“آ۔۔ آمنہ۔۔”
“کوئ لفظ مت کہیں آپ ارسل۔۔! وہ سب وعدے، وہ سارے خواب، وہ زندگی بھر ساتھ نبھانے کے پختہ عزائم۔۔! وہ سب کیا ہوۓ ارسل۔۔! میں نے اپنے گھر والوں کو روکے رکھا۔۔ کتنے ہی اچھے رشتے ٹھکراۓ میں نے آپکے آسرے پر ارسل۔۔ اور آپ۔۔ آپ اب مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ مجھ سے شادی نہیں کرسکتے۔۔!”
اسکی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ ارسل نے بے اختیار ہی لب آپس میں مس کیۓ تھے۔
“آپ نے تو کہا تھا کہ پٹھان اپنی زبان کے بہت پکے ہوتے ہیں۔ وہ اپنا سر تو کٹواسکتے ہیں لیکن کبھی اپنی زبان سے نہیں مُکر سکتے۔ پھر اب یہ سب کیا ہے۔۔؟ یا تو آپ پٹھان نہیں ہیں یا پھر آپکی زبان شروع دن سے ہی سچی نہیں تھی۔۔!”
ہک ہاہ۔۔! یہ والا طعنہ بہت زور سے لگا تھا ارسل کو۔ اب وہ اسے کیا بتاتا کہ اسکے والد صاحب اس سے کہیں زیادہ پٹھان تھے۔ وہ زبان دے دیں تو دوبارہ انحراف کی جانب کبھی نہیں پلٹتے۔ نہیں مطلب کبھی کبھی انسان سے غلطی بھی ہوجاتی ہے۔۔ کبھی اسکے منہ سے کچھ جذباتیت میں بھی نکل جاتا ہے۔۔ پتہ نہیں یہ پٹھان لوگ ہر چیز کو زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں بنالیتے ہیں۔۔؟ اسے ہمیشہ سے ہی اپنے باپ کی اٹل زبان اور چٹان سے عزائم پر غصہ آیا تھا۔۔ کیا کرے اب وہ اپنے باپ کا۔۔! بلکہ باپ کو تو چھوڑو، اب وہ اپنا کیا کرے۔۔!
“آمنہ میری بات۔۔”
“ارسل مجھے اب آپکی کوئ بات نہیں سننی! مجھے اب آپکی کسی بھی بات پر اعتبار نہیں ہے۔ مجھے لگا تھا کہ آپ باقی مردوں سے الگ ہیں۔ آپ اپنی بات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔۔ لیکن ارسل آپ۔۔ آپ نے میری ہر امید پر پانی پھیر دیا۔ انسانوں سے رشتے جوڑتے اب سو سو بار سوچونگی میں۔ رشتے بناتے وقت ہزار خدشات ڈسیں گے مجھے اور اسکے ذمہ دار۔۔ صرف اور صرف آپ ہونگے ارسل۔۔!”
اگلی کوئ بھی بات سنے بغیر، اس نے سامنے رکھا بیگ جھپٹا اور آنکھیں رگڑتی باہر نکلتی چلی گئ۔ ارسل نے بھاری سی سانس لی۔ پھر آنکھیں لمحے بھر کو موند کر سر کرسی کی پشت سے ٹکادیا۔ کھڑکی سے گرتی دھوپ، اب تک اپنی بھر پور تمازت سے جگمگا رہی تھی۔
***
سرِ شام ہی اسے سنگھار آئینے کے سامنے بٹھایا گیا۔ اسکا دھلا دھلایا سا چہرہ بھی جگمگا رہا تھا۔ اگلے کئ لمحات بیوٹیشن اسے سنوارتی رہی۔ لیکن اس سے مزید اب بیٹھا نہیں جارہا تھا۔ بار بار ہلنے کی وجہ سے دو تین دفعہ اسے بیوٹیشن سے جھاڑ بھی پڑ چکی تھی۔ ابھی بھی ذرا سی جنبش کی وجہ سے، احتیاط سے اسکی آنکھوں کو سجاتی بیوٹیشن نے ہاتھ روکا۔ پھر اسے گھورا۔۔ اس نے پورے دانت نکال کر ہلکا سا “سوری” کہا تھا۔ آج کے دن غصے میں نہیں آنا۔۔ آج تو شادی ہے ناں بھئ۔۔
وہ خود کی سوچ پر ابھی بیوقوفووں کی طرح مسکرا ہی رہی تھی کہ کمرے کے بند دروازے کے پار سے بہت سی آوازیں ابھریں۔ اسی وقت کمرے کا دروازہ کھول کر رامین اور گل لالہ اندر آئ تھیں۔
“آپ مجھے اس ٹانگ جتنی لڑکی سے بات تو کرنے دیں ایک دفعہ۔۔ میرے بیٹے کو میری شکایتیں لگاتی پھرتی ہے یہ۔۔ ہمت کیسے ہوئ اسکی۔۔!”
اور یہ لیں جی۔۔ سارے غصے میں نہ آنے کے عزائم گۓ تیل لینے۔۔!
رامین کی ساس اب زور زور سے بول رہی تھیں اور ساتھ فاطمہ انہیں ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کررہی تھیں۔۔
“بچی ہے بھابھی۔۔ غلطی ہوگئ۔۔”
اور اس بچی نے دانت پیستے ہوۓ، سر پر سجا سرخ دوپٹہ دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اٹھنے ہی لگی تھی کی رامین نے اسکے کندھوں پر زور ڈال کر اسے دوبارہ بٹھایا۔۔
“شادی ہے تمہاری آج۔ بلاوجہ کیوں موڈ خواب کرنے لگی ہو اپنا۔۔؟”
رامین کے پچکارنے پر بیوٹیشن اب ذرا حیرت سے لالہ رُخ کو تک رہی تھی۔ اور لالہ رُخ رامین کے آئینے میں نظر آتے عکس کو گھور رہی تھی۔
“شادی ہے تو کیا مطلب۔۔؟ ان محترمہ سے میں نے ویسے بھی دو دو ہاتھ کرنے تھے۔ مجھے تو ابھی تک افسوس ہورہا ہے کہ اس دن لاؤنج میں تمہارے شگوفے کے ساتھ ان کی ماں کیوں موجود نہیں تھیں۔۔”
اور میٹھی سی مسکان والی لڑکی کی زبان اب شعلے اگل رہی تھی۔ رامین نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا۔۔
“منگیتر ہیں میرے وہ اور عنقریب شوہر بھی ہو ہی جائیں گے۔۔ لیکن تمہیں دیکھو۔۔ کیسے منہ بھر کر شگوفہ کہہ رہی ہو انہیں۔۔”
“ہاں تو تم بھی کہہ لیا کرو۔ اس میں کیا ہے۔۔ بلکہ ایک کام کرنا۔۔ انہیں تو پشتو کا ایک لفظ بھی چھو کر نہیں گزرا۔ اپنی بھڑاس تم ان پر پشتو میں نکال لینا۔”
“اور اگر انہوں نے پوچھ لیا کہ میں کیا کیا نیک کلمات ان کے لیے اپنے منہ سے نکال رہی ہوں۔۔ تو کیا ہوگا پھر میرا۔”
“لو۔۔ تمہیں اتنی سی بات سنبھالنے نہیں آتی۔۔ کہہ دینا عربی میں جوش و خروش والی شاعری پڑھ رہی تھی میں۔۔”
پیچھے کھڑی گل لالہ کی ہنسی بے ساختہ نکلی تھی۔ بیوٹیشن نے بھی بمشکل لبوں پر ابھرتی مسکراہٹ روکی تھی اور رامین۔۔ رامین کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ پھر پیار سے اپنی دلہن بنی کزن کو دیکھا۔ وہ اسے اس سمے اور بھی پیاری لگی۔ وہ اسکے حق کے لیۓ خود کا موڈ خراب کررہی تھی۔ وہ اسے بدتمیز لوگوں سے عتاب سے بچانے کے لیۓ کسی بھی حد تک جاسکتی تھی۔۔ ہاں۔۔ ایسا لالہ رُخ ہی کرسکتی تھی۔ زبان بھلے ہی تیز دھار جیسی تھی اس کی۔۔ لیکن دل۔۔ بقول۔۔ ارمغان کے۔۔ سونے کا پایا تھا اس نے۔
“اچھا اب پلیز مسکرادو رُخ۔ ارسل بھائ کے سامنے یہ تنے نقوش اور بھنچے جبڑے لے کر جاؤگی تو کیا بنے گا ان کا۔۔؟”
“ان کا جو بھی بننا ہوگا وہ بن جاۓ گا، فی الحال تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم نے ان لوگوں کو آزادی دی ناں رامین تو وہ عنقریب تمہارے سر پر چڑھ کر ناچیں گے۔ تم کامپرومائز کرو۔۔ ضرور کرو۔۔ ہر لڑکی اپنا گھر بچانے کے لیۓ ایسا کرتی ہے لیکن۔۔ ”
وہ لمحے بھر کو ٹھہری تھی۔ سنجیدہ اور بے حد زیرک سیاہ آنکھیں رامین کو ہی تک رہی تھیں۔
“اگر تم نے انہیں اپنی ذات پر بات کرنے سے نہیں روکا۔۔ یا انہیں بلاوجہ کے رعب سے باز نہیں رکھا تو یاد رکھنا پھر۔ ساری زندگی ان کی غلامی کرتے گزارنی پڑے گی تمہیں۔ کبھی بھی خود پر کسی کو مت بولنے دیا کرو رامین۔ لوگ آپکی خاموشی کی قدر نہیں کرتے۔ لوگ اس خاموشی کو آپکی بزدلی پر محمول کر کے ہمیشہ اپنے خراب موڈ کی بھڑاس آپ پر اتارتے رہیں گے۔ ان کے لیے وہ سب آسان مت کرو۔ انہیں اپنی بے عزتی کرتے رہنے کو “نارمل” مت ہونے دو۔۔”
وہ اس کی کڑوی لیکن کڑی باتوں پر پھیکا سا مسکرا کر رہ گئ تھی۔ اب وہ اسے کیا بتاتی کہ ہر کوئ لالہ رُخ نہیں ہوتا۔۔ بہت سی رامین بھی ہوا کرتی ہیں۔ ڈرپوک اور بزدل۔۔ ہلکا سا جھک کر اپنے یخ ہاتھ سے اسکا رخسار تھپتپا کر وہ سیدھی ہوئ تھی۔ اسی اثناء میں دروازہ کھول کر افغان داخل ہوۓ تو سب لڑکیاں کمرے سے باہر نکل گئیں۔ وہ بنا پلکیں جھپکاۓ اس تک آۓ تھے۔ ابھی کل ہی کی تو بات تھی جب چھوٹی سی لالہ رُخ ان سے کسی بات پر ضد کررہی تھی۔۔ اور آج۔۔ آج وہ دلہن بن کر کسی اور کے گھر رخصت ہورہی تھی۔ وقت اتنی جلدی کیسے گزر سکتا تھا!
“موڈ کیوں آف ہے۔۔؟”
انہیں دیکھتے ہی اس کے بگڑے تیوروں کا اندازہ ہوگیا تھا۔
“بھوت نات کی باتیں کانوں میں پڑ چکی ہیں میرے۔۔”
اس نے آنکھیں گھما کر اپنی بیزاریت چھپانے کی کوشش ہرگز نہیں کی تھی۔ اس نے خود کے اصل جذبات کو چھپانے کی سعی کبھی کی ہی نہیں تھی۔ اسے یہ سب نہیں آتا تھا۔ جو ہوں۔۔ جیسی ہوں۔۔ قبول کریں۔۔ اور اگر قبول نہیں کرنا تو بھاڑ میں جائیں۔۔
“رُخ۔۔ بیٹے آج تو موڈ ٹھیک کرلو۔۔”
“آپکو پتہ ہے میں صبح سے مسکرا رہی تھی۔۔ ہنس رہی تھی۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا خود سے۔۔ کہ آج کسی بھی بات پر غصہ نہیں کرنا۔۔ لیکن نہیں۔۔ کچھ لوگوں کا وجود ہی آپکا پارہ گھمانے کے لیۓ کافی ہوتا ہے۔۔”
“اللہ ارسل کا محافظ ہوگا۔۔”
“کیا کہا آپ نے۔۔؟”
انکی بہت دھیمی سی برجستہ سرگوشی اسکے کانوں سے بچ نہیں سکی تھی۔ انہوں نے مسکرا کر کان کی لو کھجائ۔
“ارسل کو دعا دی ہے۔۔”
“بالکل۔۔ میرے عتاب سے حفاظت کی دعا۔۔ سب سمجھتی ہوں میں بابا۔۔”
“سمجھتی ہو تو غصہ ذرا کم کیا کرو۔ وہ بچارہ اگر کمزور دل کا ہوا تو کیا بنے گا اسکا۔۔؟”
“کمزور دل۔۔؟ لڑکے بھی کمزور دل ہوتے ہیں کیا۔۔؟”
اس نے اپنے پختون گھرانے میں شاز ہی کسی لڑکے کو کمزور دل کا دیکھا تھا۔ اب اسے کون بتاتا کہ اس جہان کے پار بھی ایک اور جہاں آباد ہے۔۔
“بالکل۔۔ لڑکے بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کا دل بھی کمزور ہوسکتا ہے۔ تم نے صرف فرقان لالہ اور اسفندیار جیسے لوگوں کو ہی آس پاس دیکھا ہے۔ ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا بچے۔۔ بعض لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔۔ نازک طبیعت رکھتے ہیں۔۔ لڑکے بھی نازک ہوسکتے ہیں۔۔”
بابا کی باتوں پر وہ لمحے بھر کو حیران ہوئ تھی۔ حیران آنکھیں ان پر جماۓ وہ پل بھر کو لاجواب بھی ہوئ تھی۔
“لڑکے اور نازک۔۔ ارسل کو دیکھ کر لگتا تو نہیں ہے بابا۔ وہ تو اتنے مضبوط قد کاٹھ کے، اونچے سے مرد ہیں۔ بالکل اسفند لالہ اور فرقان لالہ جیسے۔۔ پھر وہ نازک کیسے ہوسکتے ہیں۔۔؟”
اسکی بات سن کر افغان بے ساختہ ہی مسکرادیۓ تھے۔
“ہوسکتے ہیں بچے۔۔ وہ جسمانی طور پر مضبوط ہوں تب بھی وہ عادت و اطوار میں نزاکت سے کام لے سکتے ہیں۔ اور یہ وہ کوئ جان بوجھ کر نہیں کرتے۔۔ بلکہ وہ پیدا ہی ایسے کیۓ جاتے ہیں۔۔”
انکی عجیب و غریب سی باتوں پر کندھے اچکا کر اس نے اپنا سراپا ان کی جانب پھیرا تھا۔
“اچھا بتائیں۔۔ میں پیاری لگ رہی ہوں ناں۔۔؟”
وہی بیٹیوں کا باپ سے تعریفیں کروانے کا آزمودہ نسخہ۔۔
“ہاں۔۔ بہت بہت پیاری لگ رہی ہو تم۔۔ ہمیشہ ہی پیاری لگتی ہو۔۔”
وہ آگے بڑھ کر ان کے سینے سے آلگی تھی۔ رخصتی کا وقت قریب آرہا تھا۔ اور جیسے جیسے اس وقت کی قربت بڑھتی جارہی تھی، رُخ کا دل بھی ساتھ ہی رکتا جارہا تھا۔ بابا کو چھوڑ کر جانا۔۔ اس جیسی شیرنی کے لیۓ بھی بہر حال بہت کٹھن تھا۔۔
***
ارسل نے سفید کرتا شلوار پر سیاہ واسکٹ زیب تن کر رکھی تھی۔ اگرچہ وہ اس شادی سے خوش نہیں تھا لیکن وہ پھر بھی، ماں اور دادی کے لیۓ خوش دکھ تو سکتا تھا ناں۔۔ شیر افگن کے لیے اسکے دل میں کو رنجش نہیں تھی۔۔ بس وہاں خاموشی چھا گئ تھی۔۔ وہ اب ان سے گلہ تک نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
رات۔۔ شادی کی رسمومات سے فارغ ہو کر وہ کمرے کی جانب پلٹا تو دیکھا وہ لڑکی گردن جھکاۓ، گھونگٹ نکالے۔۔ اس کے بیڈ پر بیٹھی، اسکی منتظر تھی۔ لمحوں ہی میں اسکے اندر غصہ ابلا تھا۔ اگر جو یہ لڑکی اس جگہ نہ ہوتی تو۔۔ آج اس جگہ آمنہ ہوتی۔۔ طیش کی ایک تیز لہر نے اسکے جسم کا احاطہ ساعتوں میں کیا تھا۔ بمشکل گہرا سانس لے کر اس نے محض اتنا ہی کہا۔۔
“مہربانی کریں۔۔ آپ میرے بستر سے ہٹ جائیے۔۔ مجھے نیند آرہی ہے۔۔”
ابھی اس کے لفظوں نے ساکت فضا میں اپنی جگہ بھی نہ بنائ تھی کہ اس لڑکی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ساتھ اس نے گھونگھٹ بھی اٹھالیا تھا۔ ارسل اب اپنی کلائ پر بندھی گھڑی اتار رہا تھا۔
“کیا کہا آپ نے۔۔؟”
اور اس کی توقع کے برعکس اس لڑکی نے جلدی سے بستر چھوڑنے کے بجاۓ ، حیران سا سوال کیا تھا۔
“میں نے کہا مجھے نیند آرہی ہے۔۔ میرے بیڈ سے اتریں۔۔”
“پھر کس کے بیڈ پر جاؤں۔۔”
اور اب کہ سر جھکا کر گھڑی اتارتا وہ چونکا تھا۔ ایک لمحے کے لیۓ چہرہ اٹھا کر سنگھار آئینے میں اس جھلملاتے عکس کو دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ اسے پتہ تھا کہ وہ خوبصورت ہوگی۔۔ وہ پٹھان تھی۔۔ اسکا خوبصورت ہونا بنتا تھا۔۔ لیکن وہ اتنی خوبصورت ہوگی۔۔ اسکا اسے اندازہ نہیں تھا۔
“کہیں بھی جائیں لیکن یہاں سے ہٹیں۔۔”
“میں آپکے رویے کو سمجھ نہیں پارہی ارسل۔۔ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ۔۔؟”
وہ واقعی اسکے بے تکے سے مطالبے پر جزبز ہوئ تھی۔ ارسل ٹھنڈے تاثرات لیۓ پلٹا۔
“میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں مس لالہ رُخ۔۔ کہ مجھے نیند آرہی ہے۔۔ میں تھکا ہوا ہوں اور مجھے سونا ہے۔ اسی لیۓ بغیر کسی مزید بحث کے۔۔ آپ اپنا بھاری لباس سنبھالیں اور میرے سونے کی جگہ خالی کریں۔۔”
آن کی آن میں، رُخ کی آنکھیں جھلملا اٹھی تھیں۔ وہ آنکھیں جو ناسمجھی سے سکڑی ہوئ تھیں لمحے بھر میں سپاٹ ہوگئیں۔ پھر وہ اپنا فرشی لہنگا سنبھالتی بستر سے اتری اور ڈریسنگ روم میں داخل ہونے کے بعد دروازہ “ٹھاہ” کی آواز سے بند کیا۔ ارسل بے اختیار ہی اسکے دروازہ زور سے بند کرنے پر چونکا تھا۔ اسے ایسے “ٹھاہ” دروازہ دے مارنے کی توقع نہیں تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ کچھ ہی لمحوں بعد وہ ڈریسنگ روم سے نکلی، کامدار لباس اس نے لا کر صوفے پر ڈال دیا تھا اور زیورات سنگھار آئینے پر رکھ دیۓ تھے۔ ارسل پر ایک بھی نگاہِ غلط ڈالے بغیر وہ بھنچے لب لیۓ بیڈ تک آئ اور کمبل منہ تک اوڑھ لیا۔ وہ اسکی ساری کارروائ ناسمجھی سے دیکھتا رہا۔ پھر سر کھجاتا خالی صوفے کو دیکھنے لگا۔ اصولًا تو رُخ کو اس صوفے پر سونا چاہیۓ تھا۔
“میں نے آپ سے کہا کہ میرے بیڈ سے ہٹیں اور آپ الٹا آکر یہاں سو رہی ہیں۔ اٹھیں یہاں سے۔۔”
وہ اس کے سر پر پہنچ کر جھنجھلایا تھا۔ رُخ نے ایک جھٹکے سے کمبل ہٹایا۔
“مجھے بھی نیند آرہی ہے اور میں بھی تھک چکی ہوں۔ اسی لیۓ میں بھی سو رہی ہوں۔ اور یہ صرف آپکا بستر نہیں ہے۔۔ یہ اب میرا بھی بستر ہے۔ سمجھے آپ۔ اگر اتنا ہی شوق ہے آپکو تو اس صوفے پر سوجائیں۔۔”
“میں اس صوفے پر سوؤں۔۔؟”
“نہیں تو کیا پھر میں وہاں سوؤنگی۔۔؟”
اس نے ایسے غرّا کر سوال کیا تھا کہ وہ جھرجھری لے کر پیچھے ہٹا۔ یہ کونسی مخلوق سے شادی ہوگئ تھی اس کی۔۔ ؟ اس نے تو سنا تھا کہ رُخ بڑی معصوم اور خاموش سی ہے۔۔ لیکن اس کے بیڈ پر قبضہ جما کر لیٹی یہ لڑکی تو کہیں سے بھی اس کردار پر پورا نہیں اتر رہی تھی۔۔ کہیں وہ کسی اور کی بیوی تو نہیں اٹھا لایا۔۔!
خیال اگرچہ بھونڈا تھا مگر ارسل نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔
“سنیں آپ۔۔ لالہ رُخ ہی ہیں ناں۔۔؟”
اور اس کے اس قدر احمقانہ سوال پر رُخ اتنے غصے میں بھی اپنی حیرت نہیں چھپا پائ تھی۔
“یہ کس قسم کا گھٹیا سوال آپ رات کے دو بجے کررہے ہیں مجھ سے۔۔؟”
ائیں۔۔! اس نے ایک بار پھر سرکھجایا۔۔ ایسا کیا پوچھ لیا تھا اس نے۔۔؟
“جو بھی ہے۔۔ میں آپکے ساتھ اپنا بستر شیئر نہیں کرسکتا۔۔ آپ ابھی کہ ابھی میری جگہ سے ہٹیں۔۔”
وہ بھی ٹین ایجرز کی طرح ضد کرنے لگا تھا۔ رُخ نے پہلے اسے گھورا پھر سمجھ کر سر ہلاتی بستر سے نکلی۔
“ٹھیک ہے۔۔ آپ کھلے ہو کر سو جائیں اپنے بستر پر۔۔ میں ایسا کرتی ہوں رمشہ کے کمرے میں جا کر سو جاتی ہوں۔”
اور جھانسی کی رانی نے بیڈ پر رکھا تکیہ جھپٹا تھا۔ پھر جیسے ہی دروازے کی جانب بڑھی، ایک جھٹکے سے ارسل نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ پہلی دفعہ دیکھا تھا اس نے ارسل کی بھوری آنکھوں کو اتنے قریب سے۔۔ اور اسے داد دینی چاہیۓ تھی۔۔ وہ آنکھیں معصوم تھیں۔۔ معصوم اور ذرا گھبرائ ہوئیں۔ اس نے کبھی کسی لڑکے کی ایسی آنکھیں نہیں دیکھی تھیں۔
اسکے محو سے تاثر کو محسوس کر کے وہ بے اختیار ہی کھنکھارا تھا۔ رُخ چونکی۔۔ پھر اسکے ہاتھ میں قید اپنی کلائ دیکھی۔ لمحوں ہی میں وہ لطیف سا احساس کمرے کی فضا میں عنقا ہوگیا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا۔ پھر سپاٹ نگاہیں ارسل کے حیران چہرے پر جمائیں۔
“یہ میری زندگی ہے ارسل افگن! کسی ناول یا ڈرامے کا سین نہیں کہ میں جا کر صوفے پر سوجاؤں اور آپ خوابِ خرگوش کے مزے اپنے بستر پر لیتے رہیں۔میں نے جب ایک دفعہ کہہ دیا کہ میں اس غیر آرام دہ سے صوفے پر نہیں سوؤنگی تو اسکا مطلب ہے میں نہیں سوؤنگی۔ اور اگر آپکو اتنا ہی مسئلہ ہے میری موجودگی سے تو آپ جا کر اپنے ابو کے کمرے میں سو سکتے ہیں۔ میں بزدلوں کی طرح آپکو نہیں روکونگی۔۔ کیونکہ میں اپنے فیصلوں پر ڈٹ کر کھڑی ہونے والی لڑکی ہوں۔۔ آپکی طرح اپنے کیۓ گۓ فیصلوں پر پچھتانے والی نہیں۔۔!”
اوۓ ہوۓ۔۔ کیا کبھی تم نے کسی پٹھانی کو غصے میں آتے دیکھا ہے۔۔؟ دیکھنا بھی مت۔۔ اپنی زندگی بھر کی ریاضت پر لات مارنے کو دل چاہے گا۔ ارسل کا دل بھی یہی چاہ رہا تھا۔ پھر اس نے ایک نگاہ سر سے لے کر پیر تک اس پر ڈالی تھی۔
“سوجائیں آپ یہاں پر۔۔ کوئ تماشہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے بخوبی پتہ ہے کہ میں کیا کررہا ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہیۓ۔ بنا کسی بات کو جانے، اتنے بڑے بڑے تاثرات آپ نہ ہی قائم کریں تو بہتر ہوگا۔۔”
اس نے اسکے ہاتھ سے تکیہ لے کر بیڈ پر پھینکا اور پھر جا کر بے بسی سے صوفے پر لیٹ گیا۔ بے دھیانی میں صوفے پر لیٹتے وقت اسے اس کا کامدار سا لباس بری طرئ چبھ گیا تھا۔ ائ۔۔ وہ بمشکل اپنی پشت سہلاتا سیدھا ہو بیٹھا۔ پھر دانت پیس کر کمبل سر تک تان کر لیٹی لالہ رُخ کو دیکھا۔ اگلے ہی لمحے بے حد بردبار سے ارسل نے اسکا لباس صوفے سے جھپٹا اور ابھی وہ اسے ڈریسنگ روم میں رکھنے کے لیۓ اٹھا ہی تھا کہ زمین پر جھولتے دوپٹے میں الجھ کر دھم سے زمین پر آگرا۔ دھڑام کی آواز پر رُخ نے بے ساختہ ہی کمبل چہرے سے ہٹایا تھا۔ پھر زمین بوس ہوۓ ارسل کو دیکھا۔۔
“بہت اچھا ہوا۔۔”
اتنا کہا اور غڑاپ سے چہرہ کمبل کے اندر کرلیا۔ ارسل نے گہرا سانس لیا اور آنکھیں بند کرکے زور زور سے سر نفی میں ہلانے لگا۔ اسکے کان ہتک کی وجہ سے بے طرح سرخ ہورہے تھے۔ پتہ نہیں کس گناہ کی سزا مل رہی تھی اسے۔۔ ماں نے تو کہا تھا کہ بیویاں اللہ کی جانب سے تحفہ ہوتی ہیں۔۔ پھر یہ کس طرز کا تحفہ دیا گیا تھا آخر اسے۔۔؟
تھکن کے باعث دکھتا سر لیۓ وہ اٹھا اور پھر اسکا لباس صوفے کی پشت پر ہی ڈال کر لیٹ گیا۔ گہرا سانس لے کر آنکھیں موندنا چاہیں لیکن ایک طویل اور تھکا دینے والا سفر نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔۔! جانے وہ اس لڑکی کے ساتھ زندہ کیسے رہے گا۔۔؟
وہ ٹھہرا ایک دھیمے مزاج کا شریف سا انسان اور رُخ۔۔ رُخ ٹھہری چنگیز خان کے لشکر کا آخری سپاہی۔۔! پتہ نہیں آگے اسکی زندگی اسے کون کون سے رنگ دکھانے والی تھی۔۔!!
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...