بھیگی بھیگی سی صبح میں گرم لچھے دار پراٹھوں کی مہک رچی بسی تھی۔ خان ہاؤس میں معمول کی گہماگہمی تھی۔ خوش گپیوں کے دوران ناشتے کے ساتھ انصاف کیا جارہا تھا۔ وہ ماتھے پر بل ڈالے بے دلی سے ناشتہ کررہا تھا۔
“کیوں برخوردار! یہ ماتھے پر آٹھ بل کس سوگ میں ہیں۔۔؟”
شیر افگن اپنے ازلی شوخ و دبنگ لہجے میں گویا ہوۓ تھے۔
“اپنی شادی کے سوگ میں۔۔”
ارسل نے چڑ کر کہا تھا۔ رمشہ نے ابلتے قہقے کو ابلنے سے باز رکھا نہیں تو بھائ نے اسے پھر بازار سے کوئ چیز جو نہیں لا کر دینی تھی۔ لیکن افسوس کہ شیر افگن کو ایسی کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ بڑے ٹھنڈے انداز میں گویا ہوۓ۔۔
“آخری اطلاعات کے مطابق شادی کوئ ایسے سوگ کا نام نہیں جس پر سوگ منایا جاۓ۔”
” میرے لیۓ تو کسی سوگ سے کم بھی نہیں ہے۔ غضب خدا کا۔۔ اتنی زبردستی تو لڑکی والوں نے لڑکی کے ساتھ نہیں کی ہوگی، جتنی آپ لوگ میرے ساتھ کررہے ہیں۔۔ ”
اس کا موڈ سخت خراب تھا۔ اب کہ رمشہ زور سے ہنس پڑی تھی۔
“بااااااس۔۔ ہم نے جو کہہ دیا وہ ہو کر رہے گا سمجھے میاں۔۔! شادی تو تمہاری وہیں ہوگی جدھر ہم چاہیں گے۔ اور یہ جو دماغ میں خناس بھرا ہے ناں کہ میں نے اپنے مطابق لڑکی سے شادی کرنی ہے۔۔ اس زہر کو نکال دو اپنے دماغ سے۔ ہمارے پٹھان گھرانوں میں زبردستی صرف لڑکیوں کے ہی نہیں بلکہ لڑکوں کے ساتھ بھی کی جاتی ہے اور تمہارے ساتھ بھی ہم زبردستی ہی کررہے ہیں۔۔ سمجھے تم۔۔؟”
بڑا ہی وہ کیا کہتے ہیں۔۔ مردانگی پر کاری وار جیسا سوال کیا تھا شیر افگن نے۔ اس نے لب بھینچ کر اپنے دبنگ والد کی جانب دیکھا تھا۔ وہ خوب گرجنے کے بعد ٹیبل سے اٹھ رہے تھے۔
“اللہ کا واسطہ غصہ نہ کریں۔۔ بچہ اب بڑا ہوگیا ہے۔۔”
سمیرا بیگم نے دہل کر اپنے شوہر کی جانب دیکھا تھا۔
“بچہ بڑا نہیں۔۔ گدھا ہوگیا ہے۔۔”
وہ کہہ کر کچن سے نکل گۓ تھے۔ دادی اور رمشہ اب مل کر ہنس رہی تھیں۔ سمیرا بیگم نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائ۔
“ہنس لیں۔۔ ہنس لیں۔۔ کھل کر ہنسیں۔ یہ گھٹ کر ہنسنے میں کیا مزا آۓ گا۔۔؟”
وہ اب لال بھبھوکا چہرہ لیۓ ٹیبل سے اٹھ رہا تھا۔ گھر کی تینوں خواتین نے اس کے اٹھتے ہی گہرا سانس بھرا تھا۔۔
***
جس طرح شیر افگن اپنے پختون گھرانے کے ایک ہی چشم و چراغ تھے، اسی طرح ارسل بھی انکا ایک ہی لختِ جگر تھا۔ اس سے چھوٹی بیٹی رمشہ تھی۔ گھر کا ماحول انتہائ خوشگوار تھا۔ شیر افگن کے برعکس ارسل کا مزاج خاموش اور خاصہ سنجیدہ تھا۔ شیر افگن تو عمر کے اس حصے میں بھی شوخ و شرارتی تھے۔ اور یہ شرارت وہ اتنے ٹھنڈے انداز میں کرتے کہ آگے والا اپنی بے عزتی محسوس کرتے کرتے رہ جاتا۔
اس سارے عرصے میں ارسل اپنی پڑھائ مکمل کر کے شیر افگن کے ساتھ بزنس سنبھالے ہوۓ تھا۔ اب مسئلہ اسکی شادی کا تھا۔ وہ وہاں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا جہاں اس کے گھر والے چاہتے تھے۔ بلکہ وہ اپنی کلاس میٹ آمنہ کو پسند کرتا تھا۔ اور اس کا یہ حوصلہ اسی لیۓ اتنا بڑھا تھا کیونکہ اس یک طرفہ پسند کی بات صرف اسی تک محدود نہیں تھی۔ آمنہ بھی اسے پسند کرتی تھی اور بارہا وہ اپنی پسند کا اظہار بھی کرچکی تھی۔ وہ ایک ماڈرن گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔ ارسل کے پختون گھرانے میں خاصی “مس فٹ ” سی۔۔ مگر وہ پھر بھی بضد تھا کہ اسے ہی بیاہ کر لاۓ گا۔ سارا گھرانہ سلطان راہی بنا، ہاتھ میں یہ بڑا سا گنڈاسہ لیۓ اس کے بھونڈے سے فیصلے کے خلاف تھا۔ اور چلو وہ باقی سب کو تو منا ہی لیتا لیکن شیر افگن جیسی بڑی سی چٹان کو سر کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
وہ اپنی پختون برادری میں اس کے لیۓ رشتہ بھی دیکھ چکے تھے، جسے وہ قبولنے کے لیۓ ہرگز بھی تیار نہیں تھا۔ مگر پھر بھی سب گھر والوں کے سامنے مجبور ہو کر اس نے ہتھیار ڈال ہی دیۓ تھے۔ اور اسی زور زبردستی کے رشتے کے باعث وہ بے حد چڑچڑا رہنے لگا تھا ، مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔۔ ؟ جو ہونا تھا وہ تو ویسے بھی ہو کر رہنا تھا۔۔ اس نے چار و ناچار اپنے گھر والوں کے سامنے گھٹنے ٹیک ہی دیۓ تھے۔۔
“ارسل وہ ایک سلجھی ہوئ اور بہت پیاری سی بچی ہے بیٹا۔ تمہارے بابا تمہارے لیۓ بنا سوچے سمجھے کوئ فیصلہ نہیں کرسکتے۔ تم یوں چڑچڑے مت رہو بچے۔۔ تم اس کے ساتھ بہت خوش رہوگے۔۔”
وہ ایک رات عشاء پڑھنے کے بعد ماں کے ساتھ آ بیٹھا تو وہ اسکی اتری شکل دیکھ کر آہستہ سے بولیں۔ اگر جو ان کی یہ آواز شیر کے کانوں میں پڑ جاتی تو ارسل کی وہ درگت بنتی کہ سارا شہر سنتا۔
اس نے تنگ ہوتے دل کے ساتھ آہستہ سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔ وہ مسکرائیں پھر اس کے بالوں سے بھرے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
“میں نے خود دیکھا ہے بچے اسے۔۔ وہ بہت بردبار اور دھیمے مزاج کی لڑکی ہے۔۔ وہ ضرور تمہاری عمر بھر کا بہترین ساتھی ثابت ہوگی”
اور اس نے ایک بار پھر سے بھاری دل لیۓ سر ہلادیا تھا۔۔
***
دوسری جانب اس بردبار اور دھیمے مزاج کی لڑکی نے اپنے سیاہ بالوں کو ایک انداز سے کندھے کے اس طرف جھٹکا تھا۔ اس نے سیاہ لباس کی ہتھیلیوں تک کو چھوتی آستینیں سپاٹ چہرے کے ساتھ اوپر چڑھائ تھیں۔ اس کے سفید رنگ میں گھلی ہلکی سی سرخی اس پر بات پر گواہ تھی کہ وہ سخت طیش میں کسی ایک نہ ایک کی تو ہڈی پسلی آج برابر کرنے ہی والی تھی۔ برف ہوئ راہداری سے گزرتے اس نے سیاہ پرکشش آنکھوں کو پلکوں کی جنبش سے جھپکایا اور بابا کے کمرے کو جاتے راستے پر مڑ گئ۔
“اسے روکو۔۔ ارے کوئ تو روکو اس سر پھری لڑکی کو۔۔ یہ میرا رشتہ تڑواۓ گی آج۔۔”
منگنی کے سرخ جوڑے میں ملبوس ایک آنکھ کا مٹا لائنر لیۓ وہ فکر مندی سے ساتھ چلتی گل لالہ سے بولی تھی۔ جوابا ً گل لالہ نے مزے سے کندھے اچکاۓ تھے۔۔
“آج تو تمہارے وہ ڈرپوک منگیتر اور انکی ماں گئیں۔۔ لالہ رخ کا غصہ جانتی نہیں ہو کیا تم۔۔ لفظوں کی ایسی مار مارے گی کہ اگلا سانس نہ آۓ گا تمہاری ساس صاحبہ کو۔۔”
سرخ جوڑے والی لڑکی نے جھنجھلا کر گل کو دیکھا تھا۔ پھر تقریباً بھاگتے ہوۓ وہ راہداری سے گزر کر اسی طرف کو مڑی جدھر ابھی لالہ رخ مڑی تھی۔
“کوئ گڑبڑ نہیں ہونی چاہیۓ۔۔ بہت مشکل سے بابا نے یہ رشتہ طے کیا تھا۔ اب اگر لالہ رخ نے کچھ کباڑا کیا تو میری شادی کبھی نہیں ہوگی۔۔ پلیز تم روکو ناں اسے گل لالہ۔۔”
اس نے ساتھ ساتھ تیز قدم اٹھاتی لڑکی سے کہا تو وہ جھرجھری لے کر تیزی سے چلنے لگی۔۔
“خدا سے معافی مانگو رامین آپی۔ غصے میں تو وہ پہاڑ، پتھر یہاں تک کہ انسانوں کو نہیں چھوڑتی۔۔ اور تمہیں لگتا ہے کہ وہ میری بات مانے گی۔۔! چہ کبھی نہیں۔۔ ویسے اگر اتنی ہی فکر تھی اپنے رشتے کی تو لالہ رخ کو بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ تمہاری ساس نے ایک دفعہ پھر تمہارے سانولے رنگ پر چوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بار بھرے مجمعے میں تمہاری بے عزتی بھی کی تھی۔۔”
“اچھا۔۔ اور اگر میں نہ بتاتی تو جیسے اسے کبھی پتا ہی نہ چلتا۔۔ کیا زبردست بات کی ہے ویسے تم نے گل لالہ”
“ابھی بس یہ دعا کریں کہ بابا کی کلاشن میں کہیں گولیاں لوڈ نہ ہوں۔۔ نہیں تو آج لالہ رُخ ان کو آتش بازی کے وہ منظر دکھاۓ گی کہ اللہ کی پناہ۔۔”
اس کی بات سن کر رامین نے واضح طور پر سر سے پیر تک جھرجھری لی تھی۔ ایک تو یہ افغان چچا اور ان کی کلاشن۔ جب پتا ہے کہ ایسی طوفانی بیٹی اللہ نے تحفے میں دی ہے تو کیوں یہ منحوس کلاشن کوف چوبیس گھنٹے لوڈ کیۓ رہتے ہیں۔۔ ؟ ادھر ذرا اس کا دماغ گھومے اور ادھر وہ کسی کی سیدھی کھوپڑی گھمادے۔ وہ جیسے ہی لاؤنج کی جانب مڑی تو اپنی جگہ ہی ساکت ہوگئ۔ ادھر موجود بہت سے نفوس سانس روکے، سینے پر ہاتھ باندھے ، تنے نقوش کے ساتھ تڑاتڑ بولتی لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔ صد شکر کہ اس وقت رامین کی ساس موجود نہیں تھی۔۔ صرف ان کا سپوت موجود تھا۔۔ رامین کا نام نہاد منگیتر۔۔
“سمجھتی کیا ہیں آپکی والدہ محترمہ خود کو۔۔؟ کہ ہماری لڑکی کے رنگ روپ پر وہ اس طرح بکواس کریں گی اور ہم چپ چاپ سن کر سب کچھ پی جائنگے۔۔ ! مطلب کہ واؤ۔۔ کونسی دنیا میں رہتی ہیں وہ بھئ۔۔ کس خیالی دنیا کی ملکہ ہیں وہ۔۔؟ اگر اتنا ہی رنگ روپ سے مسئلہ تھا تو نہ آتیں رشتہ لے کر۔۔ ہماری بہن کونسا مری جارہی تھی ان کے گھونسلے جیسے گھر میں رخصت ہونے کے لیۓ۔۔ ویسے آپ ذرا مجھے ایک بات بتائیں جاوید بھائ۔۔ کبھی آپکی امی نے خود کو۔۔ چلیں خود کو تو چھوڑیں۔۔ آپکو نظر بھر کر دیکھا ہے۔۔؟ کیا کبھی انہیں احساس ہوا ہے کہ وہ کس شگوفے کی شادی کرنے جارہی ہیں۔۔!”
فاطمہ بیگم نے بے اختیار بہت سا تھوک نگلا تھا۔ دوسری جانب افغان نے بے اختیار ابھرتی مسکراہٹ دبائ تھی۔۔ باقی سب تو ٹھیک تھا مگر “شگوفہ” ۔۔ اف ۔۔ اس ایک لفظ نے لمحے بھر کو ان کے پیٹ میں گدگدی سی کی تھی۔ فاطمہ نے بے یقین نگاہوں سے افغان کی ابھرتی ہنسی کو دیکھا تھا۔۔ حد ہے مطلب کے۔۔
“ش۔۔ شگوفہ۔۔؟”
بچارہ جاوید صدمے میں گھرا بس یہی بول پایا تھا۔
“لو جی۔۔ آپ کو تو ذرا سے شگوفے پر اعتراض ہوگیا اور ادھر آپکی والدہ محترمہ ہماری بہن کو جانے کیا کیا ناگوار بول کر گئ ہیں۔ ایک بات میری آپ ذرا دھیان سے سنیں اور اسے اپنی وہ کھاتی پیتی سی امی کے بھی گوش گزار کردیجیۓ گا۔۔ اگر شادی کرنی ہے اور ہماری لڑکی کو عزت سے رکھنا ہے تو ہی اسے بیاہ کر لے کر جائیں لیکن اگر شادی کے بعد بھی کالی صورت اور کھوٹے نصیب جیسی بکواس کرنی ہے تو مہربانی کریں۔۔ چھوڑ جائیں ہماری بہن کو یہیں۔۔ ”
وہ جو اس کی شعلہ بیانی پر سن ہوا کھڑا تھا لمحے بھر کو لب کھول کر دوبارہ بند کرگیا۔۔ پھر ماتھے پر آتا پسینہ آستین سے صاف کر کے بہت سا تھوک نگلا۔ اس کی سیاہ چبھتی آنکھوں کے سامنے بات مکمل کرنا محال تھا۔ ادھر آپ ذرا سا چوکیں۔۔ ادھر وہ آپکو آپکے اپنے ہی لفظوں کی موت ماردے۔۔
“لیکن مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا لالہ رُخ۔۔ شاید تمہیں کوئ غلط فہمی ہوئ ہے۔۔ بہت بڑی غلط فہمی۔۔ میری امی ایسے کبھی نہیں کہہ سکتیں۔۔ وہ تو بہت۔۔ ”
“وہ تو خیر سے بہت کچھ اور بھی کہہ سکتی ہیں لیکن انہیں موقع نہیں ملا۔ یہی کہنا چاہ رہے ہیں ناں آپ۔۔ بس اب زیادہ ان کی طرفداری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پورا خاندان بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ کتنی میٹھی زبان استعمال کرنے والی وضع دار سی خاتون ہیں۔۔ لیکن معذرت۔۔ مجھ سے مزید ان کی کوئ عزت افزائ سنی نہیں جاۓ گی۔۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی امی کو سمجھائیں۔۔ اور یہ گردن ہر بات پر “ہاں جی ہاں جی” میں ہلانے کے بجاۓ کبھی نفی میں بھی ہلا لیا کریں۔۔ اس سے گھر کے علاوہ باہر بھی تھوڑی بہت عزت بڑھ ہی جاۓ گی آپکی۔۔”
خدایا۔۔ فاطمہ نے تو اپنی بیٹی کی ڈستی زبان پر اپنا دل ہی تھام لیا تھا۔ ان کے برعکس افغان نے لب دبا کر جاوید کے بھڑکتے سے سرخ رنگ کو دیکھا تھا۔ اگر بات غلط ہوتی تو وہ ضرور اسے ٹوکتے لیکن پھر بھی وہ اسے ٹوکنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے کیونکہ وہ لالہ ر ُخ تھی۔ اسے آگے والے کو لفظوں سے “سریہ سے زمیں پر دے مارنے” کا ہنر آتا تھا۔
“کہنا تو نہیں چاہیۓ لیکن چلیں کہہ دیتی ہوں۔۔ بس ایک دفعہ اللہ کی طرف سے دی گئ شکل و صورت پر زہر اگلنے سے پہلے اگر آپکی وہ پیاری امی جان۔۔ شادیوں میں۔۔ اپنے کتھئ چہرے پر چمکتے سلور بیس کو قریب سے دیکھ لیں تو کبھی کسی کی رنگت پر چوٹ کرنے کا موقع نہ ملے انہیں۔ بھوت نات کا فیمیل ورژن لگتی ہیں آپکی امی۔۔”
اور یہ تھا بالکل آخری جھٹکا۔ کیا اسے کسی کا سر کھولنے کے لیۓ کلاشن کی ضرورت تھی۔۔؟ اوں ہوں۔۔
ایک آخری سخت نگاہ جاوید کے سراپے پر ڈالتے اس نے سر جھٹک کر رخ موڑا تھا۔ پیچھے کھڑی آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیۓ، رامین بے ساختہ مسکرائ تھی۔ رُخ بھی لمحے بھر کو اس سارے عرصے میں پہلی دفعہ مسکرائ تھی۔ پھر اس کے ساتھ سے گزر کر پیچھے کھڑے ساکت لاؤنج کو زہر آلود نگاہ سے دیکھا اور آگے بڑھ گئ۔۔ اب اس لاؤنج میں محض سانسوں کی آوازیں آرہی تھی۔
تو یہ تھی ہماری انتہائ سلجھی ہوئ اور بردبار سی لڑکی۔۔ خاموش طبع اور وہ کیا کہتے ہیں معصوم۔۔ ہاں جی معصوم سی۔۔ پتا نہیں کیوں لیکن فاطمہ کو لمحے بھر کو ارسل پر ترس آیا تھا۔۔ اور ترس تو مجھے بھی آرہا ہے۔۔ چہ۔۔ بیچارہ ارسل۔۔
***
شادی کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی۔۔ اگلے ہفتے بارات تھی سو یہ چہل پہل یقینی سی بات تھی۔ وہ پہلے ہی بیزار تھا اور اب تو طبیعت اور ہی سست ہونے لگی تھی۔ رمشہ نے بھی اسے بے حد تنگ کر رکھا تھا۔ وہ آتے جاتے اسے “بچہ بڑا ہوگیا ہے” کہہ کر چھیڑتی اور جھپاک سے غائب ہوجاتی۔ اس وقت بھی وہ لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا بیزاری سے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔
“برخوردار۔۔ ایسے کیا فارغ بیٹھے ہو۔۔؟ جاؤ جا کر بازار سے مٹھائ لے کر آؤ۔۔”
شیر افگن گرجتے برستے لاؤنج میں داخل ہوۓ تھے۔ ایک تو ان کی انٹری کسی خطرے سے خالی نہیں ہوا کرتی۔ ارسل نے جل کر سوچا تھا۔۔ چار و ناچار اٹھنا ہی پڑا۔
“یہ شکل پر بارہ کیوں بج رہے ہیں۔۔؟”
دادی نے اپنے لخت ِ جگر کا چہرہ بوڑھی نگاہوں کی گرفت میں لے کر پوچھا تھا۔
“ابھی بارہ بج رہے ہیں۔ شادی میں اسکی شکل پر پورا ایک بجے گا اماں جی۔۔”
وہ مزے سے بول کر چینل سرچ کررہے تھے۔
“توبہ۔۔ چہرہ ہے یا گھڑیال۔۔”
رمشہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی تھی۔ ساتھ خالہ کی بیٹیاں بھی ہنس پڑیں۔ خفت سے ارسل کے کان سرخ ہوۓ تھے۔۔
“ماشااللہ۔۔ کتنا نور آرہا ہے ارسل کے چہرے پر۔۔”
سمیرا بیگم سارے قصے سے بے خبر لاؤنج میں آتے ہی بولی تھیں۔ اشارہ ارسل کے سرخ پڑتے چہرے کی جانب تھا۔
“جی۔۔ اور اکثر یہ نور انکے چہرے پر ٹھیک ٹھاک بے عزتی کے بعد برستا ہے۔”
شیر افگن کی زبان ایک بار پھر چٹخارہ سا جملہ بول کر خشک میوہ جات کی جانب متوجہ ہوئ تھی۔
“بہت شکریہ اس نور کے لیۓ۔۔ ”
وہ جل کر کہتا باہر نکل گیا تھا۔ پیچھے لڑکیوں کے قہقہے سے لمحے بھر کو لاؤنج نہا گیا تھا۔
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...