“تم؟” مہمل نے مشوانی سے پوچھا جو اوپر آیا تھا۔
وہ آرام سے صوفے پر بیٹھتا بولا “تمہاری خوشی منانے آیا ہوں۔ کیا یہ بھی حق نہیں اب مجھے؟”
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں بیٹھو تم!” مہمل نے کہا۔
تھوڑی دیر میں مولوی صاحب اور سب لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔
قبول و ایجاب کا مرحلہ شروع کیا گیا۔
مہمل نے سادہ سفید جوڑا پہنا ہوا تھا۔
“مہمل خان یوسفزئی ولد جہانگیر خان یوسفزئی کیا آپ کو حماد لغاری ولد فیصل لغاری۔۔۔۔۔۔۔” مولوی صاحب بول رہے تھے جبکہ مہمل کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔
“قبول ہے!”
پہلا مرحلہ طے کیا گیا
مولوی صاحب دوبارہ کلمات دہرا رہے تھے۔ مہمل کی نظریں مشوانی پر پڑی جسکے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور پھر اس نے اسفر کی طرف دیکھا جسکی آنکھوں میں چیتے جیسی چمک تھی۔
اس سے پہلے کے دوسری بار قبول ہے کہا جاتا، حماد کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو گئی اور اسے چکر آنے لگے تھے۔
نکاح کو چھوڑ کر سب اس وقت حماد کو لے کر ہسپتال نکلے تھے۔
مہمل مشوانی کے پاس سے گزری تو داؤد مشوانی سے اسے عجیب نظروں سے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ “یہ سب کیا ہے؟” لیکن مہمل چہرے پر مسکراہٹ لئے باہر نکل گئی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“نور آج آپ کچھ پریشان ہیں؟” شاہ نے نور سے پوچھا جو پارکنگ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
“نہیں تو! آپ کو ایسا کیوں لگا؟” نور نے جواب دیا۔
” اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا ہم کافی پی سکتے ہیں؟” شاہ نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
“ڈاکٹر شاہ پھر کبھی سہی ابھی مجھے گھر جانا ہے۔” نور نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا۔
“آپ کا نمبر کیوں بند آ رہا ہے؟” شاہ نے اس سے پوچھا تو وہ اچانک مڑی۔
“سوری وہ کل سے فون کی بیٹری لو ہے اور مجھے چارج کرنا یاد نہیں رہا۔” نور نے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
جیسے ہی گاڑی مین روڈ پر ڈالی گئی پیچھے سے وہ نکل کر فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھا۔
“تم؟” نور نے اس سے پوچھا لیکن عرصہ ہوا وہ حیران ہونا چھوڑ چکی تھی کیونکہ یہ شخص کبھی سیدھا کام نہیں کرتا تھا۔
“ہاں میں!” اسنے ڈھٹائی سے کندھے اچکائے۔
“چلو یہ بتاؤ کہ شاہ فون ٹیپ کر چکا ہے تو وہ سب کچھ جان چکا ہوگا میسجز اور کالز کی مدد سے، بلکہ ای میلز بھی اس کے لئے کافی ہونگی۔” نور نے پوچھا۔
“نہیں ایسا نہیں ہے تمہارا ای میل اکاؤنٹ میں نے لوگ آؤٹ کر دیا تھا دو ہفتے پہلے۔” اسنے دانت نکالے۔
“کیا مطلب تم میرے فون کی بھی چیکنگ؟” نور کو غصہ آیا تھا۔
” اچھا چھوڑو فکر نہ کرو شاہ کو کالز اور میسجز کے بارے میں ابھی کچھ نہیں پتہ۔ وہ صرف یہ سمجھتا ہے کہ کوئی تمہیں ڈرا رہا ہے۔ اس لئے اسنے تمہارا اور اسکا فون ٹیپ کیا ہے۔” اسنے آرام سے کہا۔
“ایک منٹ اسکا فون بھی ٹیپ ہے اور میرا بھی جبکہ ہمارے فون کی سیکیورٹی بہترین تھی۔ جسکو اس شہر کا کوئی ماہر توڑ نہیں سکتا تھا تو پھر یہ کیسے ہوا؟” نور کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا۔
” نہیں ایک شخص ایسا ہے جو توڑ سکتا تھا اور وہ شخص اس سیکیورٹی کو سیٹ کرنے والا تھا۔” اسنے قہقہہ لگا کر کہا۔
” تم نے شاہ کے کہنے پر یہ سب کیا؟” نور کا منہ حیرت کے مارے کھل گیا تھا۔
” دیکھو میں نے اسے کالز اور میسجز نہیں دیے بس نمبر ڈیٹیل دی اور یہ میرا کام ہے میں انویسٹیگیٹر ہوں اور اگر میں یہ کام نہ کرتا تو شاہ کو مجھ پر شک ہو جانا تھا۔” اس نے وضاحت دی،
“میری گاڑی سے اترو!” نور نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی تھی۔
“ارے یار کیا ہو گیا ہے؟ ایسے کیوں کر رہی ہو؟” اسنے کہا مگر اسکے اترتے ہی نور نے گاڑی آگے بڑھا دی جبکہ وہ آرام سے ہڈی سر پر چڑھا کر ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“لالہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے ہیں تیس کے ہو گئے ہیں؟” اسوہ نے شاہ سے پوچھا۔
“اسوہ مجھے پہلے اپنے دشمن کو ختم کرنا ہے۔” شاہ نے اسے جواب دیا۔
ل”الہ پورا سال ہو گیا مہمل خان کو غائب ہوئے۔ اسنے گھر بسا لیا ہوگا۔ لڑکیاں کدھر اتنا انتقام لیتی ہیں بھول جائیں۔” اسوہ نے ضد کرتے ہوئے کہا تھا۔
” اسوہ بچے تم اسکو نہیں جانتی۔ خیر بس وہ کام ختم کر لوں پھر میں شادی کر لونگا۔” شاہ نے اسے کہا۔
“مطلب لالہ کوئی پسند ہے آپ کو؟” اسوہ نے شرارت سے کہا۔
” ہاں جی لیکن ابھی بتا نہیں سکتا لیکن تم بتاؤ تمہارے رشتے والے آئے تھے۔ کیا بنا اسکا؟” شاہ نے پوچھا۔
“لالہ مجھے شادی نہیں کرنی میرے جیسی لڑکی کسی گھر کو کیا آباد کریگی؟” اسوہ نے کہا اور فون بند کر دیا۔
” اسوہ بچے!” عمیر اسکے پاس آیا۔
“جی عمیر لالہ!” اسوہ فوراً کھڑی ہوئی۔
” اسفندیار تم سے ملنا چاہتا ہے۔” عمیر نے اسے بتایا۔
” لالہ مجھے نہیں کرنی شادی وہ بہت اچھے ہونگے لیکن میں نہیں کر سکتی۔ میں نہیں بھول سکتی سب۔” اسوہ کی آنکھوں میں نمی تھی۔
“اسوہ چھ سال گزر گئے ہیں۔ سب بھول چکے ہیں۔ تم بھی آگے بڑھ جاؤ۔” عمیر نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ رو دی تھی ۔
آ” چھا بس لالہ کو رلانا ہے کیا؟ شام کو اسفندیار حویلی آئے گا اور بات کرنی پڑے گی تمہیں اس سے۔ یہ تمہارے عمیر لالہ کا حکم ہے۔” عمیر نے اسے رعب سے کہا اور وہ بس اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
سب لوگ ہسپتال میں موجود تھے۔
حماد کو زہر دیا گیا تھا لیکن اسکی جان بچ گئی تھی۔
مہمل اسکے پاس کمرے میں ملنے گئی تو وہ اس پر پھٹ پڑا۔
“تم نے زہر دیا ہے مجھے تمہاری شیشی تھی وہ۔”
“میں نے ایسا کیوں کرنا تھا حماد؟” مہمل بوکھلائی۔
“کیونکہ تم بھی یوسفزئی ہو ظالم دھوکے باز یوسفزئی۔” حماد غرایا تھا۔
“بکواس بند کرو اپنی۔” مہمل نے غصے سے کہا۔
“تمہیں حقیقت معلوم کئے بغیر الزام نہیں لگانا چاہیے تھا۔ سنو میں اپنے بیگ میں سے سب چیزیں نکال کر چیک کر رہی تھی جب میرے دوست وہاں آئے اور مجھے زبردستی لے گئے اور غلطی سے وہ شیشی وہاں رہ گئی۔ وہ شیشی سر درد کی گولیوں کی تھی لیکن اس میں زہر کی گولیاں اس لئے رکھیں تھیں تا کہ جب مجھے یہ لگے کے میں انتقام نہیں لے سکتی تو زہر کھا لوں۔ اور یہی بات مجھے مضبوط رکھتی تھی لیکن تم جیسے کم ہمت انسان کے سر میں مشوانی کو دیکھ کر درد ہو گیا، جس پر تم نے میری شیشی سے سر درد کی گولی کھائی جو کہ زہر کی تھی تو اس میں میرا کیا قصور؟” مہمل نے اسے سب بتایا۔
” اوہ میرے خدا مگر۔۔۔۔” حماد کچھ کہنے لگا کہ مہمل نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
” بس! مجھے کسی شکی آدمی سے شادی نہیں کرنی۔ آئندہ میرے سامنے مت آنا۔”
مہمل کمرے سے باہر نکلی تو اسفر اسکی طرف آیا تو مہمل اسے بولی “شکریہ!”
” ارے میں نے کچھ نہیں کیا سب آپ نے سوچا تھا۔” اسفر نے جواب دیا۔
” لیکن میرے دوستوں کو سہی ٹائم پہ اندر آپ نے بھیجا تھا ورنہ ہم نے پکڑے جانا تھا۔” مہمل مسکرائی اور پھر بولی “میری مدد کیوں کرنا چاہتے ہیں آپ؟”
“ارے فیس کے لئے جو میں کام کرنے کے بعد لونگا۔ مجھے یوسفزئی خاندان سے کچھ چاہیے جو آپ مجھے دوگی جب آپ یوسفزئی خاندان سے جیت جاؤ گی۔” اسفر نے سر کھجا کر کہا۔
” وہ تو میں ضرور دونگی لیکن آپ ہو کون؟” مہمل نے پوچھا۔
“میں وکیل ابن وکیل!” اسفر نے سر کو خم دے کر کہا۔
” ہممم وکیل کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ کرتے ہوآپ۔ خیر پھر ملینگے۔” مہمل نے کہا اور سامنے سے آتے مشوانی کی طرف بڑھ گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“ہیلو کیسے ہو تم!” نور نے اسے فون کیا۔
“آ گئی خاکسار کی یاد یا پھر تمہارا انویسٹیگیٹر پھر سے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے۔” اگلے نے طنز کیا۔
“نہیں لیکن نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے مجھ سے، میں ایک عجیب دوراہے پر پھنس گئی ہوں۔” نور نے الجھن آمیز لہجے میں کہا۔
” تمہیں کرنا ہے جو بھی کرنا چاہو کر لو۔” اگلے نے سختی سے لب بھینچے تھے ۔
می” ں تمہارا دل دکھاتی ہوں لیکن۔۔۔۔” نور کے الفاظ ادھورے تھے، جس پر اس نے ہنس کر کہا “رہنے دو نور یوسفزئی! شکاریوں کے منہ سے معذرت اچھی نہیں لگتی۔”
فون بند ہو گیا تھا جبکہ نور کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ننگے پاؤں صحرا میں کھڑی ہے جہاں اسے دو چیزیں چاہیے لیکن وہ صرف ایک کا انتخاب کر سکتی ہے
اور وہ چیزیں ہیں۔
اس گرم صحرا کے لئے جوتے۔
اور۔۔۔
پیاس بجھانے کے لئے پانی!
اور یہاں نور ہمت ہار رہی تھی کیونکہ وہ دونوں حاصل کرنا چاہتی تھی مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“کیسی ہو مہمل خان؟” مشوانی نے پوچھا۔
“ٹھیک ہوں لیکن تم یہاں خیریت؟” مہمل نے سوال کیا۔
“سوچا کہ تمہارے منگیتر کا حال پوچھ لوں۔” مشوانی نے کہاتو وہ بولی “میں اسے چھوڑ چکی ہوں۔ اس لئے اسکی ضرورت نہیں ہے۔”
“واقعی یہ تو حیرانی کی بات ہے خیر چلو تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں رقیہ بوا پریشان ہو رہی ہونگی۔” اس سب کے بعد مشوانی نے اسے کہا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم!” اسوہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
” وعلیکم السلام! مجھے اسفندیار کہتے ہیں۔” اسفند نے تعارف کرایا۔
” جی بیٹھیں!” اسوہ نے اسے بیٹھنے کا کہا۔
“آپ اس رشتے سے انکار کی وجہ کیوں نہیں بتا رہیں۔” اسفند نے پوچھا۔
“میں۔۔۔” اسوہ کچھ کہتے ہوئے رک گئی۔
“دیکھیں آپ کھل کر بات کر سکتی ہیں۔ میں ان مردوں میں سے نہیں جو جھوٹی انا کی خاطر عزت کی حفاظت نہیں کر پاتے۔” اسفند نے اسکی جھجک ختم کرنا چاہی۔
“میرا ماضی داغدار ہے اور آپ جیسے شریف انسان کیلئے تو میرا ماضی ایک طمانچہ ہوگا۔” اسوہ نے کرب سے آنکھیں میچی تھیں۔
” آپ مجھے بتائیں تو سہی۔” اسفند نے زور دے کر کہا تو اسوہ نے سب سنانا شروع کیا۔
چھ سال بعد وہ ماضی کا واقعہ کسی کو سنا رہی تھی۔
“میں پندرہ سال کی تھی۔
جیسے اس عمر میں لڑکیاں ہوتی ہیں ویسی ہی تھی شوخ چنچل لیکن کہتے ہیں نا کہ خوشی کے پیچھے غم ہوتا تو اسی طرح میری خوشیوں کو بھی نظر لگی تھی۔ میرا دہم کا رزلٹ آیا تو میں نے بہت اچھے نمبر لئے تھے۔
خان بابا نے مجھے سب سہیلیوں کے ساتھ باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔
وہ بہت خوبصورت دن تھا بادلوں کی وجہ سے موسم خوشگوار تھا۔ میں گل بانو کے گھر گئی تھی جہاں سب جمع تھے۔
مجھے چھوڑ کر تو عمیر لالہ آئے تھے لیکن میں انکی ہدایت کے خلاف سہیلیوں کے ساتھ کھیتوں میں نکل گئی۔
اور شاید یہی میری غلطی تھی۔
وہاں کچھ لوگ آئے اور مجھے زبردستی بے ہوش کر کے لے گئے۔ میری سہیلیوں نے بہت شور کیا لیکن دن کے وقت کھیتوں میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔”
اسوہ نے یہاں رک کر اسفند کو دیکھا جو اس کو بہت غور سے سن رہا تھا۔
روایتی لباس میں ملبوس سر پر چادر لئے اسوہ اسکے سامنے بیٹھ سب سنا رہی تھی۔ آنسو اسکی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔
ایک نظر اسفند پر ڈال کر اسنے دوبارہ کہنا شروع کیا۔
“وہ لوگ مجھے کسی ایسی جگہ پر لے گئے جہاں آگے پیچھے آبادی نہیں تھی اور وہاں میں نے انسے بہت بار درخواست کی منت کی لیکن انھیں رحم نہیں آیا اور انھوں نے میرے سر سے چادر چھین لی اور یہاں پر میری عزت۔۔۔۔۔۔۔” اسوہ ابھی کہہ رہی تھی کہ اسفند یار بولا۔
“بس اسوہ مجھے سب معلوم ہو گیا ہے۔”
اسوہ نے سر اٹھایا اسکی چادر سر سے ڈھلک چکی تھی۔ لیکن اسفند یار اٹھا اور چادر اسکے سر پر ڈال کر بولا “امید ہے آپ کا فیصلہ میرے حق میں ہوگا۔” اور کمرے سے باہر نکلنے لگا تو اسوہ بولی “یہ سب سننے کے بعد بھی؟”
“جی اسکے بعد بھی کیونکہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔” اسفند نے کہا اور چلا گیا جبکہ اسوہ وہیں سن سی بیٹھی تھی اسے نہیں پتہ چلا کہ کب عمیر اسکے کمرے میں داخل ہوا۔ لیکن اسکا ضبط تب ٹوٹا جب عمیر نے اسے کہا کہ “کب تک تڑپانا چاہتی ہو سبکو کیوں نہیں زندگی کی طرف لوٹتی۔” اور پھر چھ سالوں کے بعد وہ چیخ چیخ کر روئی تھی اپنا سارا غبار اسنے باہر نکالا تھا۔
زندگی میں پہلی بار جہانداد خان یعنی خان بابا کی آنکھیں اپنی بیٹی کو یوں بکھرتے دیکھ کر نم ہوئیں تھیں جبکہ گل خانم تو بیٹی کو یوں دیکھ کر خود رو رہیں تھیں۔ لیکن پھر اسوہ نے شادی کے لئے رضامندی دے کر سب کو خوش کر دیا تھا۔
لیکن حویلی کو یہ دھڑکا ضرور تھا کہ اسکی خوشیوں کو پھر سے نظر نہ لگ جائے کیونکہ اس حویلی میں جو ظلم ڈھائے گئے تھے انکی سزا تو کسی کو پوری کرنی تھی نا!!
لیکن جو قسمت کو منظور۔۔۔۔۔۔۔!
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل اس سب کے بعد سکون سے میڈیکل کالج جانے لگی کیونکہ اسکی پڑھائی کا حرج ہو رہا تھا۔
عمیر یوسفزئی انکے گروپ کا حصہ تھا لیکن وہ ماضی سے ناواقف ہونے کی بنا پر مہمل خان کے بارے میں وہ سب نہیں جانتا تھا جو شاہ کو معلوم تھا۔
اسفر سعید نے مہمل کی مدد کرنا شروع کی لیکن مشوانی کو وہ شروع سے کھٹکتا تھا لیکن ہر دفعہ مہمل کا پلان ناکام ہو جاتا تھا۔
اسفر کے بقول مشوانی شاہ کو خبر کر دیتا ہے اس لئے اب جو بھی کیا جائے گا وہ مشوانی کو نہیں بتایا جائے گا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“اسلام علیکم!” شاہ نے فون اٹھایا۔
“وعلیکم السلام! آپ کا کام کر دیا گیا ہے مہمل خان سب بھول کر اب اپنی زندگی میں سیٹ ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔” دوسری طرف سے کہا گیا
اور اسکا خاندان؟ شاہ نے پوچھا۔
“انکے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا سوائے اس بات کے کہ اسکا کوئی نہ کوئی تعلق پشاور میں رہنے والے جہانداد خان یوسفزئی سے ہے۔” اگلے نے کہا تو شاہ نے فون بند کر دیا۔
اس کے لئے اتنا ہی بہت تھا کہ مہمل اب انکی زندگیوں سے دور جا چکی ہے۔
اب وہ آگے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم امی!” مہمل گھر آئی۔
تین سال گزر چکے تھے وہ میڈیکل کے چوتھے سال میں تھی۔
“مہمل تمہارے ابو کی طبیعت بہت سخت خراب ہے۔” رقیہ بیگم نے اسے بتایا تو اسکے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔
وہ فوراً اپنے بابا کو ہسپتال لے کر گئی جہاں ڈاکٹر نے اس کی پریشانی بڑھا دی تھی۔
جہانگیر خان جو آگے ہی معذور تھے نہ ہاتھ ہلا سکتے تھ۔ے نہ ٹانگیں بول بھی نہیں سکتے صرف سانسوں کی ڈور چل رہی تھی جو مہمل اور رقیہ بیگم کے لئے بہت بڑی بات تھی۔ لیکن ڈاکٹر کے مطابق انھیں برین ٹیومر ہے جو کہ آخری سٹیج پر ہے ان کا فوری علاج ضروری تھا جس کے لئے ایک بڑی رقم چاہیے تھی
مہمل ڈھے سی گئی تھی۔
اسکی زندگی اس سے امتحان پر امتحان لئے جا رہی تھی۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ قسمت ہر بار اسے ہی کیوں ہارنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔
وہ مشوانی کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن اپنے باپ کی زندگی کے لئے اسے اپنی انا کو ختم کرنا ہی تھا اور اسفر کی تمام ہدایات کو پس پشت ڈالنا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“ڈاکٹر نور میری بہن اسوہ کی شادی ہونے والی ہے اور مجھے بہت خوشی ہو گی اگر آپ اس میں شرکت کریں۔” شاہ نے نور سے کہا جو وارڈ کا راؤنڈ لگا رہی تھی۔
“ضرور کیوں نہیں میں ہر صورت شرکت کروں گی۔” نور نے مسکرا کر کہا۔
“یہ تو میرے لئے باعث اعزاز ہوگا۔” شاہ نے ہنس کر کہا۔
” وہ کیوں؟” نور نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے کہا۔
” اس لئے کہ کھڑوس لیڈی ڈاکٹر میری بہن کی شادی پر آئے گی۔” شاہ نے جواب دیا تو وہ ہنستے ہوئے بولی
” امید کرتی ہوں آپ کی بہن آپ کی طرح کھڑوس نہیں ہوگی۔”
” نور مجھے آپ سے ایک ذاتی نوعیت کی بات کرنی ہے۔ ہم کب اس پر بات کر سکتے ہیں؟” شاہ نے کہا تو نور اسے دیکھنے لگی۔
” کہیں شاہ وہی بات کرنا چاہتا ہے جو مجھے لگ رہی ہے یا کوئی اور؟” نور نے سوچا۔
“کیا سوچ رہی ہیں؟” شاہ نے اس سے پوچھا۔
” کچھ نہیں ہم اسوہ کی شادی کے بعد بات کریں گے۔” نور نے کہا اور چلی گئی ۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
ہر ایک کچھ نہ کچھ کرنا چاہ رہا ہے لیکن قسمت بہتر جانتی ہے کہ کیا ہوگا اور کیا نہیں۔
ماضی سب کے سامنے آنے والا ہے لیکن شاید یہ ماضی کچھ لوگوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو جائے۔
انتقام لیکن رکنے والا نہیں وہ احساسات اور جذبات کو کچل دینا جانتا ہے۔
لیکن انتقام کے شعلوں سے جلائی جانے والی آگ کے بعد کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
سوائے راکھ کے!
انتقام کے بات صرف ایک ہی چیز بچتی ہے
اور وہ ہے راکھ!
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...