جب شہلا شمعون کے کپڑے لے کر کمرے میں آئی ۔۔
تب وہ نہانے جا چکا تھا ۔۔
کپڑے بیڈ پر رکھ کر وہ گزری شب کی تمام صورتحال کو ذہن میں دہرانے لگی ۔۔
بلیاں تو خیر ایک خوفناک حقیقت تھیں ۔۔
لیکن شمعون کے رویئے کے پیچھے کیا کہانی تھی ۔۔
یہ شہلا سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
ابھی وہ انگلیاں مروڑتی ہوئی شمعون کے عجیب و غریب رویئے کا کوئی سرا ڈھونڈنے میں مگن تھی ۔۔
جب باتھ روم سے کچھ گرنے کی کافی اونچی آواز ابھری ۔۔
شہلا تیزی سے باتھروم کے دروازے کی طرف بڑھی ۔۔
“شمعون ۔۔”
ہلکی سی دستک دے کر شہلا نے پکارا ۔۔
لیکن جواب ندارد ۔۔
“شمعون آپ ٹھیک ہیں ۔۔
پلیز کوئی تو جواب دیں ۔۔”
شہلا کا دل گھبرانے لگا ۔۔
اس کو اندازہ بھی نہیں ہوا تھا کے اس کی آواز میں نمی گھل گئی تھی ۔۔
“شم ۔۔”
اس کی اگلی پکار ادھوری رہ گئی کیونکہ شمعون نے دروازہ کھول دیا تھا ۔۔
لیکن اس کی سیاہ آنکھیں ادھ کھلی سی تھیں ۔۔
جیسے بہت مشکل سے کھول رکھی ہوں ۔۔
اس نے باتھ گائون لپیٹ رکھا تھا ۔۔
اور اس وقت شہلا نے بغور اس کا چہرہ دیکھا ۔۔
زخم تو تھے ہی ۔۔
ساتھ ہی پورے چہرے پر زردی گھلی تھی ۔۔
اس سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔۔
شہلا نے اسے سہارا دینا چاہا لیکن اس وقت شمعون کے حواسوں پر خون کی پیاس سوار تھی ۔۔
اس نے شہلا کو یوں پیچھے دھکیلا جیسے شہلا کو اچھوت کی بیماری ہو ۔۔
شہلا اچانک دور دھکیلے جانے پر زور سے دیوار سے جا لگی ۔۔
شہلا کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی ۔۔
وہ سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
کیوں کر رہا تھا شمعون اس کے ساتھ ایسا ۔۔
حالانکہ بہت بار وہ اس کی بے رونق رہنے والی آنکھوں میں اپنے لیئے ایک خاص جذبہ چمکتے دیکھ چکی تھی ۔۔
پھر کیا وجہ تھی آخر ۔۔
شمعون نے گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھ کر شہلا کے چہرے کو دیکھا ۔۔
اس کے خوفزدہ تاثرات پر دل اور بوجھل ہوگیا ۔۔
لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا ۔۔
یونہی بیٹھے بیٹھے وہ چکراتے سر کے ساتھ شہلا کے چہرے پر پھیلے ہزن و ملال کے تاثرات دیکھتے دیکھتے اچانک پیچھے کو گر گیا ۔۔
شہلا تیزی سے اس کی طرف بڑھی ۔۔
کافی بار اسے پکارا لیکن جواب نہ ملنے پر تیمور آفندی کو بلانے بھاگ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور آفندی نے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی پوری کوشش کی ۔۔
لیکن وہ نقاہت زدہ سا لب سختی سے بھینچے نفی میں سر ہلاتا رہا ۔۔
اس کا رویئہ انہیں حیران پریشان کر رہا تھا ۔۔
وہ منہ سے کچھ بول ہی نہیں رہا تھا ۔۔
بس چڑا ہوا سا اشاروں سے جواب دے رہا تھا ۔۔
درحقیقت شمعون اس وقت اپنی پیاس پر ضبط کر رہا تھا ۔۔
“شمعون بیٹا تمہیں ۔۔”
“بھائی آپ جائیں یہاں سے ۔۔
اور شہلا کو بھی لے جائیں ۔۔
پلیز جائیں ۔۔
اکیلا چھوڑیں مجھے ۔۔
پلیز بھائی ۔۔”
اس کا ضبط اچانک ٹوٹا تو وہ ان کی بات کاٹ کر حلق پھاڑ کے دہاڑ اٹھا ۔۔
شہلا نے بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھ لیئے ۔۔
جبکہ چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوگیا ۔۔
تیمور آفندی خاموشی سے شہلا کو ساتھ لیئے باہر نکلنے لگے ۔۔
لیکن جاتے جاتے اچانک مڑ کر بھائی کی محبت سے مجبور پوچھ بیٹھے ۔۔
“تم اس بلی کو پھینکنے گئے تھے ۔۔
کہیں تمہارے اس حال کے پیچھے وہ بلیاں ہی تو نہیں ۔۔”
پہلے تو شمعون کچھ دیر تک سنجیدگی سے انہیں دیکھتا رہا ۔۔
پھر منہ بنا کر سر اثبات میں ہلا کر چہرہ موڑ لیا ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر تیمور آفندی نے شہلا کو پھر سے چلنے کا اشارہ دیا جو ان کے ساتھ ہی رک گئی تھی اور بھیگی بھیگی الجھی نظروں سے شمعون کو دیکھ رہی تھی ۔۔
کمرے سے نکلنے سے پہلے شہلا نے ایک بار پھر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
اسی وقت شمعون نے بھی اپنا چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھ لیا ۔۔
نظروں سے نظریں ٹکرائیں ۔۔
پھر جانے کیا ہوا کہ الفاظ بے ساختگی میں شہلا کے لبوں سے پھسلنے لگے ۔۔
“میں نے اپنے سب پیاروں کو کھو دیا ہے شمعون ۔۔
اب ایک آپ ہی میرے جینے کی وجہ ہیں ۔۔
جو بھی پریشانی ہے شیئر کر لیں ۔۔
پلیز ٹھیک ہوجائیں ۔۔”
گہری سانس بھر کر وہ شمعون کی ساکت نظروں سے گھبرا کر باہر نکل گئی اور دروازہ بند کر لیا ۔۔
لیکن شمعون کی نظریں ویسے ہی دروازے پر جمی رہیں جہاں کچھ دیر پہلے شہلا کھڑی تھی ۔۔
“اور اگر تمہیں پتہ چل جائے ۔۔
کہ اپنے پیاروں کو تم نے میری وجہ سے ہی کھویا ہے ۔۔
تو ممکن ہے کہ میں جو تمہارے جینے کی وجہ ہوں ۔۔
تم مجھے ہی ختم کرنے پر تل جائو ۔۔”
ہنوز دروازے پر نظریں جمائے شمعون پراسرار سے لہجے میں بڑبڑایا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون سارا دن کمرے میں تنہا بند رہا ۔۔
نہ کسی سے بات کی نہ کچھ کھانے پینے کو مانگا ۔۔
اس کا رویئہ سب کو چونکا رہا تھا ۔۔
لیکن کوئی بھی کچھ اخذ کرنے سے قاصر تھا ۔۔
اور حقیقت جو تھی وہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی ۔۔
رات کے کھانے کے بعد شہلا لان میں لگے جھولے میں جا بیٹھی ۔۔
اس کی مہندی کا رنگ بہت گہرا تھا ۔۔
کتنے فسانے مشہور تھے ۔۔
مہندی کے گہرے رنگ کے حوالے سے ۔۔
سارے جھوٹ نکلے ۔۔
وہ ایک دن کی دلہن تھی ۔۔
کوئی دیکھتا تو یقین نہ کرتا ۔۔
بال صبح سے سنوارے نہیں تھے ۔۔
بس الٹے سیدھے جوڑے میں سمائے تھے ۔۔
سادہ سا آسمانی رنگ کا سوٹ ۔۔
پریشان کن سوچوں سے کملایا ہوا چہرہ ۔۔
“جو کبھی نہ سوچا تھا وہ سب ہو رہا یے ۔۔
اور اچھا نہیں ہو رہا ہے ۔۔”
دل میں بڑبڑاتے ہوئے شہلا نے چونک کر تیمور آفندی کی گاڑی کو اندر داخل ہوتا دیکھا ۔۔
اندر سے بھاگے آتے وجدان نے گیٹ کھولا تھا ۔۔
تیمور آفندی شام سے غائب تھے ۔۔
نہ جانے کہاں گئے تھے ۔۔
ساتھ حمزہ بھی تھا جو گاڑی سے نکل رہا تھا ۔۔
لیکن کوئی تیسری شخصیت بھی ان کے ساتھ تھی ۔۔
لیکن کون ۔۔
شہلا کی کھوجتی نظریں گاڑی کے پچھلے دروازے پر جمی تھیں جب حویلی کی باقی خواتین و حضرات بھی حویلی سے نکل کر گاڑی کی طرف بھاگے ۔۔
شہلا ان سب کے مودبانہ انداز دیکھ کر خود بھی سب خواتین کی طرح دوپٹہ سر پر لے کر ہاتھ باندھ کر آگے بڑھ گئی ۔۔
گاڑی سے نکلنے والے بزرگ شخص کے چہرے پر جاہ و جلال کے ساتھ ایک خاص قسم کا نور اور نرمی بھی تھی ۔۔
شہلا کا سر بلا ارادہ ہی جھک گیا ۔۔
باقی سب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔۔
انہوں نے گاڑی سے نکل کر سب کے سلام کا جواب دیا ۔۔
پھر اپنی روشن آنکھیں سکیڑ کر حویلی کا بغور جائزہ لیا ۔۔
ان کے منہ سے کچھ اجنبی الفاظ نکلے ۔۔
لیکن مطلب پوچھنے کی ہمت کسی سے نہیں ہوئی ۔۔
حویلی کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بھی ان کی نظریں حویلی کا گہرائی سے جائِزہ لے رہی تھیں ۔۔
شہلا دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ یہ باباجی جو بہت بآثر لگتے ہیں ۔۔
حویلی والوں کو ان بلیوں نما بلائوں سے بچا لیں ۔۔
جب اس کے کان میں جویریہ بیگم کی سرگوشی پڑی ۔۔
جو اچھی خاصی اونچی تھی ۔۔
مخاطب تو تیمور آفندی تھے ۔۔
لیکن سنا سب نے تھا ۔۔
“یہ بابا جی اصلی ہیں ناں ۔۔
پہلے کی طرح کسی دھوکے باز کو تو نہیں لے آئے اٹھا کر ۔۔”
“عظیم عورت ۔۔
خدارا چپ کر جائو ۔۔”
تیمور آفندی کے بھنا کر کہنے پر شہلا سمیت سب کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔
اندر پہنچ کر انہوں نے سب کو اشارہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے نہ آئیں ۔۔
پھر لائونج میں چکر کاٹتے ہوئے کچھ پڑھ پڑھ کر شہادت کی انگلی پر پھونکتے ۔۔
اور انگلی سے اپنے سر کے اوپر ایک دو پھیرے لگاتے ۔۔
کافی دیر تک یہ عمل جاری رہا ۔۔
سب سانس روکے “کچھ ہونے” کے منتظر تھے ۔۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ جو ہونا تھا وہ ہو رہا تھا ۔۔
یعنی شمعون اندر اپنے کمرے میں تکلیف کی شدت سے بیڈ پر لوٹ رہا تھا ۔۔
وہ پہلے ہی سخت کمزور تھا ۔۔
اس کا ارادہ رات کو سب کے سوجانے کے بعد حویلی کے کسی مکین کا خون پینے کا تھا ۔۔
لیکن یہ اچانک کیا ہونے لگا تھا ۔۔
شمعون سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔
اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ۔۔
اس کی ایسی حالت پہلے بھی تو ہوئی تھی ۔۔
لیکن کب ۔۔؟
ہاں جب وہ شہلا سے ملا تھا ۔۔
ذہن میں جب جھماکہ ہوا تو اس کی آنکھیں ۔۔
جن کی پتلیاں چھوٹی چھوٹی ہوگئی تھیں ۔۔
پھیل گئیں ۔۔
اس کی آنکھوں میں دہشت واضع تھی ۔۔
“یہاں کیا کر رہا ہے وہ عامل ۔۔”
درد سے کراہتے ہوئے وہ بمشکل بولا ۔۔
“میں مر جائونگا ۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔”
شمعون بے بسی سے اپنی انگلیوں کے پوروں سے ابھرتے ناخن دیکھنے لگا ۔۔
پھر دانت ۔۔
پھر ناک ۔۔
پھر کان ۔۔
ہر چیز تبدیل ہوتی گئی ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سیاہ بلا بن گیا ۔۔
بیڈ پر پڑا شمعون ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے اس کے اندر کیلیں چبھائی جا رہی ہوں ۔۔
اچانک اس کے ایک پنجے میں ۔۔
پھر دوسرے پنجے میں ۔۔
ایک کے اوپر ایک چاروں پنجوں میں ویسے ہی لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خود بہ خود نہ جانے کیسے کھب گئے ۔۔
جیسا ٹکڑا جنگل میں کھبا تھا ۔۔
اب وہ چلنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا ۔۔
ساتھ هى اس بار درد حد سے سوا تھا ۔۔
شمعون اپنی غراہٹ روک نہیں سکا ۔۔
اس کی دہشت ناک غراہٹ سب نے سنی تھی ۔۔
سب کی نظریں نیچے بنے گیسٹ روم کے دروازے پر جم گئیں ۔۔
“یہاں ہے وہ ۔۔
یہاں ہے وہ بلا ۔۔”
اس بزرگ کے پرجوش ہو کر کہنے پر تیمور آفندی اور شہلا نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔
“وہاں تو شمعون تھا ۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...