فائز اپنے کیبن میں بیٹھا کسی مریض کی فائل اسٹڈی کر رہا تھا کہ ایک دھاڑ کے ساتھ دروازہ کھلا۔ آنے والے کے انداز سے وہ پہچان گیا کہ کون ہوگا۔
” کام کے ٹائم کیوں نازل ہو گئے ہو سر پر میرے؟ ”
وہ سر اٹھائے بغیر بولا۔
” یار وہ اصل میں ناں میری منگنی ہو رہی ہے۔ پہلے تو فالتو لوگوں کو بلانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ پر تیری اس مسکین سی صورت پر رحم آگیا۔ اسی لیے دعوت نامہ لے کر آیا ہوں۔ اور ہاں اب ایک اہم بات بغیر گفٹ کے آنا ممنوع ہے۔ میرے پہرے دار صرف اسی کو اندر آنے دیں گے جس کے ہاتھ میں گفٹ ہوگا۔ ”
زوار نے تقریر کے سے انداز میں بات مکمل کی۔
” ہو گیا تیرا؟ تو انویٹیشن کارڈ یہاں رکھو اور تشریف لے جائو۔ میں مصروف ہوں ابھی۔ ”
اس نے ابھی بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔
زوار اپنے نظر انداز کیے جانے پر اس کی ساری فائلز بکھیر کر چلا گیا۔
زوار اور فائز بچپن سے ساتھ تھے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں بھی ساتھ ہی تھے۔ اور اب جاب بھی ساتھ کر رہے تھے۔ ان کی دوستی مثالی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک اپنے گلے پر دبائو محسوس کرکے اسکی آنکھ کھلی۔
خود پر جھکے خوفناک شکل کا ماسک پہنے وجود کو دیکھ کر جو ہلکے ہلکے اسکا گلا دبا رہا تھا اس کی فلک شگاف چیخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
کہ کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور رمشا کی آواز اسکے کانوں میں پڑی جسے سنکر اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولی۔
آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلے اس نے رمشا کو دیکھا۔
اسکے بعد نظر گھمانے پر اسکے بابا ہاتھ میں کیک لئے کھڑے ہوئے دکھائی دیئے ۔
ان کے برابر میں اذان وہ خوفناک شکل والا ماسک لئے کھڑا تھا ۔ پورے کمرے میں نظر دوڑانے پر پتہ چلا کہ اسکا پورا خاندان اسے برتھ ڈے وش کرنے کے لئے اس کے کمرے میں موجود تھا ۔ وہ ایک دم سے اذان کو مارنے کے لئے لپکی کہ اظہار صاحب نے کیک ٹیبل پر رکھ کر اسے کاٹنے کے لئے بلالیا۔
سب کی تالیوں کے شور میں اس نے کیک کاٹا اور سب سے پہلے اظہار صاحب کو کھلایا پھر نسرین بیگم کو اور پھر باری باری سب کو۔
جب فائز کو کھلانے کے باری آئی تو اس نے آنکھوں میں معنی خیز سی چمک لئے اس کا ہاتھ پکڑ کر کیک کھایا اور نا محسوس انداز میں اس کی انگلیوں کو اپنے لبوں سے چھوا کسی اور نے محسوس کیا ہو یا نہ کیا ہو زوہا نے محسوس کرکے ہاتھ فورا کھینچا ۔۔
اس کی اس حرکت سے فائز کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
سب اس کو باری باری تحفے دے رہے تھے کہ رمشا کی بات پر سارے فائز کی طرف متوجہ ہوئے۔
“ارے !!! فائز بھائی آپ زوہا کے لئے گفٹ نہیں لائے۔ ”
فائز نے افسردہ سی شکل بناتے ہوئے جواب دیا۔
” گفٹ تو میں لانا بھول گیا۔ ”
“کوئی بات تم آ گئے ہماری خوشی میں شامل ہو گئے ہمارے لئے یہی بہت ہے۔ ”
جواب اظہار صاحب کی جانب سے آیا۔
” جی جی فائز بھائی کوئی بات نہیں اگر آپ بھول گئے تو۔ ”
زوہا نے بھی باپ کی تائید کی۔
پھر ایک ایک کرکے سب اس کے کمرے سے چلے گئے سب کے جانے کے بعد وہ دروازہ بند کرکے بیڈ پر بیٹھ کر سب کی محبتوں کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگی۔
کہ اسے لگا کہ اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ہے وہ اسے اپنا وہم جان کر نظر انداز کر گئی۔
پر دوبارہ دستک ہونے پر اس نے دروازے کے پاس جا کر پوچھا کون تو جواب آیا۔
“دروازہ کھولو میں ہوں فائز۔ ”
اس نے دروازہ کھولا تو فائز نے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا۔
“فائز بھائی آپ اتنی رات کو یہاں سب ٹھیک تو ہے۔ ”
زوہا نے پوچھا۔
” ہاں وہ تمہارا برتھ ڈے گفٹ دینے آیا تھا۔ ”
” پر وہ تو آپ لانا بھول گئے تھے ناں۔ ”
” پاگل ہو میں تمہارا برتھ ڈے گفٹ لانا بھول سکتا ہوں بھلا۔ ”
فائز نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔
“وہ تو بس میں تمہیں کچھ الگ انداز میں دینا چاہتا تھا۔ ”
پھر اپنے ٹراؤزر کی جیب میں سے ایک چھوٹی سی مخملی ڈبی نکال کر اس کے سامنے کی۔
” یہ کیا ہے۔ ”
زوہا نے اس کے ہاتھ سے ڈبی لیتے ہوئے کہا۔
“کھول کر دیکھو۔ ”
زوہا نے کھول کر دیکھا تو اس میں خوبصورت سی سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔
“یہ میرے لیے؟ ”
زوہا نے اس کی طرف بے یقین نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں صرف تمہارے لئے۔ ”
” پر یہ تو بہت مہنگی ہے سوری فائز بھائی میں اسے نہیں رکھ سکتی۔ ”
زوہا نے انگوٹھی کی ڈبیا اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
” میرے تحفے کی کوئی حیثیت نہیں تمہاری نظر میں یعنی یہ ہے میری اوقات کہ تم میرے لائے ہوئے تحفے کو قبول بھی نہیں کر رہی۔ ”
” میرا وہ مطلب نہیں تھا فائز بھائی۔ ”
زوہا جلدی سے بولی۔
” تو پھر یہ رکھو تم۔ ”
“پر ”
زوہا منمنائی۔
” پر ور کچھ نہیں بلکہ لائو یہ مجھے دو۔ ”
فائز نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی لے کر اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنا دی اور ایک نظر زوہا پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زوہا ۔۔ زوہا ۔۔ زوہا۔ ”
رمشا ایک ہی سانس میں اسکو آواز دیتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
“ہاں کہو۔ ”
زوہا نے کتابوں میں منہ دیئے ہوئے ہی اسے جواب دیا۔
“یار بات سنو میری۔ ”
رمشا نے اس کی کتابیں ایک طرف کرکے خود اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔
“یار ہم اتنے دن سے گھر میں رہ کر تیاری کر رہے ہیں تو میں تو بور ہو گئی تو فائز بھائی کے ایک دوست کی منگنی کا انویٹیشن آیا ہے۔ انہوں نے ہمیں بھی چلنے کا کہا ہے۔ تو میں تم سے پوچھنے آئی تھی کپڑے کون سے پہن کر چلیں؟؟؟؟ ”
“نہیں رمشا میں تو نہیں جا پائوں گی۔ ”
زوہا نے انکار کیا۔
“یار کچھ نہیں ہوتا ایک دن کی تو بات ہے تم ایک رات زیادہ جاگ کر پڑھ لینا بیلینس ہو جائے گا۔ ”
رمشا سمجھی زوہا اپنی پڑھائی کی وجہ سے منع کر رہی ہے پر ایسا نہ تھا وہ اصل میں فائز کے ساتھ کہیں جانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ فائز کی بدلتی نظریں اور انداز اسے پریشان کر رہے تھے۔
“نہیں رمشا تم چلی جائو میرا موڈ نہیں۔ ” زوہا نے پھر انکار کیا ۔
“موڈ ووڈ کو چھوڑو وہ خود ہی اچھا ہو جائے گا وہاں جا کر خود ہی بن جائے گا ارے پوچھو تو سہی منگنی ہے کس کی اور کہاں ہے۔ ”
“کہاں ؟؟؟؟؟ ”
زوہا نے بے دلی سے پوچھا۔
” ارے وہ جو فائز بھائی کے دوست ہیں نا زوار بھائی ان کی منگنی کا فنکشن ہے اور یو نو واٹ گائوں کا فنکشن ہے۔ آج سے پہلے ہم نے گائوں کا کوئی فنکشن بھی اٹینڈ نہیں کیا تو میں بہت ایکسائیٹڈ ہوں فنکشن اٹینڈ کرنے کے لئے تو چلو نہ پلیز پلیز۔ چل لو میرے لئے۔ ”
وہ جو منع کرنے والی تھی رمشا کے اتنے اصرار کرنے پر ذہن سے ساری سوچوں کو جھٹک کر جانے کے لئے مان گئی۔
اب دونوں سر جوڑ کر فنکشن میں پہنے والے کپڑوں کو ڈسکس کرنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...