پانچویں نشانِ حیدر کی کہانی
اگرآپ جہلم میں ہیں توریلوےسٹیشن کےپچھواڑےپراناگرینڈٹرنک روڈگزرتاہےجومشین محلےکی طرف جاتاہے۔ اس روڈپرمحلے سے مخالف سمت میں ریلوےسٹیشن سےچند قدم کےفاصلےپر ایک چبوترےپرکھڑی یادگارمیجرمحمداکرم شہیدنشانِ حیدرکویادکرتی ہے ۔
میجرصاحب 1971 کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان میں ھِلّی کےمحاذپرہندوستانی سپاھ کےساتھ دلیری سےلڑتےہوئےجس وطنِ عزیزپرنثارہوگئےتھےوہ انکی شہادت کےکچھ دس دن بعددو لخت ہوگیاتھا۔ میجراکرم مشرقی پاکستان کےمحاذ پرلڑنےوالےواحد شہیدتھےجنہیں دلیری کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر عطا ہوا۔
انکی یونٹ 4 فرنٹیئرفورس رجمنٹ، تُن پور باونجہ نےانہیں بہادری کےدوسرےبڑےاعزاز ہلالِ جرات کےلیےنامزدکیا تھا۔
یونٹ کی نامزدگی کومعجزانہ طورپربریگیڈ کمانڈرتجمل حسین ملک نے ایک درجے اوپر نشانِ حیدرکے لیے بڑھا دیا تھا۔ جنگی اعزازات کی نامزدگی کے سلسلے میں میجر جنرل ریٹائرڈ تجمل ملک کافی سخت گیر واقع ہوئے تھے اور اسکا ذکر ہم کچھ آگے چل کر کریں گے۔
فی الوقت جہلم کی یادگار کو پلٹتے ہیں جہاں ایک لوح مختصراً محاذ پر میجر اکرم کے کارنامے کا احوال بیان کرتی ہے، مگر یہ ہمارے شہید افسر کی لوحِ مزار نہیں ہے۔ نشانِ حیدر پانے والوں میں میجر اکرم دوسرے شہید ہیں جو پاکستان کی سرزمین میں دفن نہیں ہیں۔
اسوقت کےمشرقی پاکستان کےبقاء کی جنگ لڑتےشہیدوں کوہم نےجس دھرتی میں دفن کیاتھاوہ 1971کےدسمبرمیں بنگلہ دیش کےنام سےبیگانی ہو گئی تھی۔ شہیدسےمتعلق دستیاب عام معلومات کےمطابق ان کی قبر دیناج پورمیں ھِلّی کےقصبےکےنزدیک غیرمعروف گاؤں بولدار میں ہے۔
میجراکرم کی کمپنی ھِلّی کےشمال میں چارکئی گاؤں میں دفاع لیے ہوئےتھی۔ بٹالین ہیڈکوارٹرتھوڑاپیچھےبولدار گاؤں میں تھا۔ رائےباغ کےمورچوں سے لڑتےہوئےمیجراکرم شہیدہوئےتو ان کاجسدِخاکی بٹالین ہیڈکوارٹرلایاگیاتھامگرتدفین وہاں نہیں ہوئی تھی۔ ہمارے شہید افسر کامدفن بولدارگاؤں میں نہیں ہے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہونے والا ھِلّی کا معرکہ عسکری تاریخ میں ایک عمدہ دفاعی جنگ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ہندوستانی سپاہ کے تمام کیل کانٹے سے لیس ایک زبردست حملے کو پاکستانی 4 ایف ایف بٹالین نے جس ثابت قدمی سےناکام بناتے ہوئے دفاعی جنگ لڑی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مشرقی فرنٹ پر جہاں پاک فوج کی اکثریت پس قدمی اور شکست وریخت کا منظر پیش کررہی تھی، ھِلّی کے مورچے حملہ آور سپاھ کے لیے لوچے کے چنے ثابت ہوئے۔ اور اس میں ایک نمایاں کردار میجر اکرم شہید اور ان کی زیرِکمان چارلی کمپنی نے ادا کیا۔
ھِلّی کا محاذ پاک بھارت جنگ سے بھی پہلے 22/23 نومبر کی درمیانی رات کُھل گیا تھا اور 16 دسمبر کو ڈھاکہ میں پاکستانی سپاہ کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد بھی 18 دسمبر تک بوگرہ شہر کے گلی کوچوں میں یہ جنگ جاری رہی۔
ہندوستانی 20ماؤنٹین دویژن چارانفنٹری اورایک آرمرڈبریگیڈکی قوت کےساتھ پاکستانی 205بریگیڈکی نفری سےبرسرِپیکارتھا۔
ہندوستان کی نظریں بوگرہ پرتھیں کہ وہاں قبضہ کرکےشمال میں برسرِپیکارپاکستانی سپاہ کوبقیہ مشرقی پاکستان سےکاٹ دے۔ بوگرہ کی صورت کچھ یوں تھی کہ ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے ھِلّی سے گزر کر جاتی ہے صاحبو جیسا کہ جنگوں میں دستور ہے کہ حملہ آور کے ارادے بھانپ لینے کے بعد دفاع لینے والی سپاہ مورچوں میں اترتی ہے تو 22/23 نومبر کی درمیانی رات آنے والےحملےسےنمٹنے کے لیے 4فرنٹیئر فورس، تُن پور باونجہ ھِلّی اور اس کے نواح میں کھودے اپنے مورچوں میں اتری۔
میجر اکرم کی چارلی کمپنی شمال کی طرف ذرا ہٹ کے چارکئی کے گاؤں میں مورچہ زن تھی اور حملہ آور سپاہ ان سے ابھی کچھ دوری پر تھی۔
ابھی تو پہلے پہلے وار اپنے سینوں پر جھیلنے کے لیے ھِلّی کے عین قلب میں میجر جولین پیٹر کی ڈیلٹا کمپنی کے جوان تھے۔ پے درپے پست ہوتے حملوں سے منہ کی کھائی تو ہندوستانی سپاہ کچھ دفاعی کمزوری کی سُن گن لینے ھِلّی سے شمال کو گھومی تو میجر اکرم کی پلٹن کی خبر لائی۔
30 نومبر کو رائے باغ میں میجر اکرم کی چارلی کمپنی کے جوان ان پر پل پڑے تو حملہ آوروں کو سرحد کے پار دھکیل دیا۔ چار کلومیٹر پر پھیلے رائے باغ کےمورچے چارلی کمپنی نے آباد کیے تو پلٹن کوجیسےخبرہوگئی کہ آنےوالاوقت میجراکرم کاوقت تھا۔
رائےباغ کےدُھول اڑاتےاور آگ اُگلتےمورچوں نےحملہ آوروں کی ہرتازہ لہر کوخون میں نہلا دیاتھا مگر اپنے دفاع سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے تھے۔ 4/5 دسمبر کی رات پیدل سپاہ کی براہِ راست مدد میں ہندوستانی 69 کیولری کے ٹینک بھی تھے 4 ایف ایف کی چارلی کمپنی کا دفاع تین پلاٹون اپ میں لگاتھا اورمیجراکرم سب سےاگلےمورچوں میں دفاعی جنگ لڑ رہےتھے۔ محاذکی گرمی میں کب ان کےہاتھ ٹینک شکن ہتھیارلگااورکب وہ مورچےسے باہر نکل ایک جست بھر کے فاصلے پر آگے بڑھتے ٹینکوں پر نشانہ باندھے بیٹھے تھے کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔
اگر آپ آج کی تاریخ میں 4 فرنٹیئر فورس کےکمانڈنگ آفیسر کے دفترمیں مہمان بنتےہیں توچائےپیتےگپ شپ لگاتے دفتر میں آویزاں ایک آئل پینٹنگ نظر پڑتی ہے۔ مورچے سے باہر جھانکتا ایک سپاہی دوربین سے کچھ دیکھ رہا ہے، سامنے حملہ آور سپاہ کی صفوں میں آگ کےشعلوں میں گھرےتین ٹینک نظرپڑتے ہیں۔
اس منظرنامے کے کلیدی مقام پر مورچوں سے باہر کھُلے میدان میں ہمارا سپاہی 40 ملی میٹر راکٹ لانچر سے بکتر شکن گولہ فائر کررہا ہے۔ یہ ہمارے میجر اکرم ہیں جو تین ٹینکوں کو نیست و نابود کرکے چوتھے شکار پر فائر گرا رہے ہیں۔
کچھ ہی لمحوں میں اس چوتھے ٹینک کی مشین گن آگ اُگلےگی اور میجر اکرم شہادت کا رتبہ پالیں گے۔ مگر ابھی آن کی آن میں وہ اس تصویر میں زندہ ہیں مگر ان کے بالکل ساتھ ہی 4 ایف ایف کا ایک اور سپوت چاروں شانے چت پڑاہے جیسے یہ جان کی بازی ہارچکا ہے۔
میجر اکرم کی کمپنی کا بے جگری سے لڑا معرکہ بریگیڈ کمانڈر تجمل ملک نےاپنی آنکھوں سےنہیں دیکھا تھا۔
مگر ھِلّی میں موجود بریگیڈ کی جنگ کے ابتدائی پینتروں میں چار ایف ایف کے مہروں کو ایک جوش کے عالم میں جھپٹتے اور دشمن کو پسپا ہوتے دیکھا تھا۔ اپنی کتاب Story of My Struggle میں وہ بتاتے ہیں کہ مشرقی محاذ پر انہوں نے ابھی تک بہادری کے اعزاز کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا تھا۔
اس میں جو واحد تفریق انہوں نے روا رکھی وہ میجر اکرم شہید تھے۔ تجمل حسین ملک جنہوں نے 1965 کی جنگ 3 بلوچ کے کمانڈنگ افسر کی حیثیت میں واہگہ میں لڑی تھی جنگی اعزازوں کے لیے اپنے سپاہیوں کی نامزدگی کے معاملے میں سخت گیر جانے جاتے تھے اور کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتے تھے۔
تن پور باونجہ کےقائم مقام کمانڈنگ آفیسرلیفٹیننٹ کرنل ممتاز (کرنل عباسی زخمی ہوجانے کے باعث محاذ سےپیچھے اسپتال میں زیرِ علاج تھے) نے بریگیڈ کمانڈر کو بریفنگ دینے کے بعد میجر اکرم شہید کی نامزدگی آگےکی۔ یونٹ نےاپنے اس سپوت کوبہادری کے دوسرےبڑےاعزاز ہلالِ جرات کےلیےنامزد کیا تھا بریگیڈیئر تجمل کا کہنا ہے کہ بہادری کےکارناموں کی اس تفصیل نے ان پر ایک کیفیت سی طاری کردی تھی اور بے اختیار سے ہوکر انہوں نے میجر محمد اکرم شہید کی اعزازی درخواست کو ایک درجے اوپر بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر کے لیے نامزد کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے1971 کی جنگ کےمشرقی محاذپر واحد نشانِ حیدر ہونے کا اعزازمیجر اکرم شہید کی قسمت میں لکھا۔ ہماراجری افسر ہراعتبار سےاس اعزاز کاحقدار تھا۔
4 ایف ایف کی براوو کمپنی کےکمانڈر اسوقت کے میجر اور آج کے بریگیڈیئر ریٹائرڈ آصف ہارون راجہ جب ھِلّی کی جنگ کا نقشہ کھینچتے ہیں توچارلی کمپنی کی بےمثل قربانیوں کااحوال بھی بیان کرتےہیں۔
میجر اکرم کی شہادت کے بعد جب وہ کمپنی کی کمان سنبھالنے آرہے تھے تو انہوں نے کٹے پھٹے جُثوں والے غازی پلٹتے دیکھے، کسی کا سرکُھلا ہوا، کسی کا جبڑا، کسی کا بازو اور کسی کی ٹانگ غائب۔ اس کمپنی نے چار اور پانچ دسمبر کی رات ہندوستانی سپاہ کی پیادہ بٹالین اورٹینکوں کےمتواترحملے اپنے سینوں کےزور پرسہارےتھے۔ شہداء اورزخمی نکال کر پلاٹون کی نفری 37 سےگھٹ کراب صرف 7 رہ گئی تھی۔
میجراکرم تین ٹینکوں کوتباہ کرنےکےبعد چوتھےکانشانہ لیتےہوئے اس ٹینک کی 50. مشین گن کی گولیاں آنکھ اورحلق میں لگنےسے شہیدہوگئےتھے مورچوں سے آگے کھلے میدان میں میجر اکرم کا جسدِ خاکی پڑا تھا مگر دشمن کے عین سامنے ڈٹے ہونے اور مسلسل فائر میں اسے اٹھانا ممکن نہیں تھا۔ پلٹن کو واپس بولدار کی طرف پس قدمی کے احکام مل چکے تھے اور شہید کمپنی کمانڈر کو مورچوں کے آگے چھوڑ کر پلٹ جانے میں یونٹ کی عزت پر حرف آتا تھا۔
اب یہاں اپنے جنگی مضمون میں بریگیڈیئر راجہ لکھتے ہیں کہ میجر صاحب کی لاش کی ریکوری بذاتِ خود ایک آپریشن تھا جسکی تفصیل وہ کسی اور مضمون میں بیان کریں گے۔ صاحبو ہمیں بہت تلاش بسیار کے باوجود بریگیڈیئر راجہ کا کوئی اور مضمون ھِلّی کی جنگ یا میجر اکرم شہید کے بارے میں نہیں ملا۔
یہاں سے ہم ملیر کینٹ کی اس دوپہر کو پلٹتے ہیں جب میں 4 ایف ایف کے کمانڈنگ افسر کے دفتر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا جہاں میجر اکرم کی ھِلّی کی محاذِ جنگ کی آئل پینٹنگ آویزاں تھی۔ کرنل افضال سے پی ایم اے پلاٹون کمانڈری کے دنوں سے واقفیت تھی مگر اُس دن تُن پور باونجہ میں میری خاص آؤ بھگت کی وجہ یہ تھی کہ میں میجر اکرم کے حوالے سے ان کی کہانی کہنے کا مواد اکٹھا کرنے آیا تھا۔ صوبیدار میجر نے یونٹ انفارمیشن روم سے کچھ دستاویز مہیا کیں۔ وہیں حوالدار امیرنواز اور نائیک یار دل کے انٹرویو تھے اور میجر آصف ہارون کی کہانی بھی۔
سامنے کے مورچوں سے بیس سے تیس گز آگے عین دشمن کی ناک کے نیچے سے میجر اکرم شہید کا جسدِ خاکی نکال کر لانے کی ذمہ داری میجر راجہ نے امیر نواز اور یار دل کے سپرد کی تھی جسے ان دونوں دلیروں نے جوانمردی سے نبھایا تھا۔
پانچ اور چھ دسمبر کی رات چاندنی چٹکی ہوئی تھی جب اسوقت کے لانس حوالدار امیر نواز اور سپاہی یار دل اگلے مورچوں سے رینگتے ہوئے میجر اکرم کی لاش تک پہنچے۔ میجر صاحب کا ہیلمٹ اور راکٹ لانچر ایک طرف کو پڑے تھےاور ساتھ ہی ایک طرف سپاہی لعل خان کی لاش پڑی تھی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو لعل خان ہمارا آئل پینٹنگ والا سپاہی ہے جو اپنے کمانڈر کے ساتھ دفاعی مورچوں سے بھی آگے دشمن کے ساتھ بے جگری سے لڑتاہوا شہید ہوا۔ امیر نواز اور یار دل کا کام دوگنا ہوگیا تھا۔ انہیں جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے دونوں شہید واپس لے کر جانے تھے۔ میجر اکرم کو امیرنواز کی مدد سے جب یاردل نے کندھے پر اٹھایا تو ان کے کچھ کچھ کھلے بازو ٹھنڈ میں پڑے رہنے سے اکڑ سے گئے تھے۔ امیرنواز نے میجر صاحب کا لانچر اور ہیلمٹ سنبھالا اور یہ مختصر پارٹی اپنے کمپنی کمانڈر کا جسدِ خاکی واپس مورچوں میں اتار رینگتے ہوئے واپس آئے اور شہید سپاہی لعل خان کا جسدِ خاکی اور ہتھیار کندھوں پر لاد واپس ہوئے۔
امیر نواز کہتا ہے کہ ایک گرم ہوتے محاذ پر ان کا بچ کر واپس آجانا ایک معجزہ ہی تھا۔
یہاں سے دونوں جسدِ خاکی پہلے براوو کمپنی ہیڈ کوارٹر چنگ گرام لائے گئے اور وہاں سے سٹریچر پر بٹالین ہیڈکوارٹر بولدار منتقل کردیے گئے۔ یہاں سے مقامی طور پر بنائے تابوتوں میں میجر اکرم اور لعل خان کے جسدِ خاکی تدفین کے لیے گاڑی میں بوگرہ روانہ کردیے گئے۔
میجر اکرم نشانِ حیدر کی تدفین بوگرہ میں فائر بریگیڈ اسٹیشن کے مقابل قبرستان میں آرمی ایجوکیشن کور کے صوبیدارمیجر اعظم علوی کی زیرِ نگرانی انجام پائی۔ یہ احوال ہمیں ایس ایم اعظم علوی کی زبانی پتہ چلتا ہے۔
’بوگرہ کے قبرستان میں جہاں زمین تھوڑی پست تھی قبر کے لیے ایک اونچی ٹیکری کا انتخاب کیا گیا تاکہ سیلابی پانی سے حفاظت ہوسکے۔ ہماری بڑی خواہش تھی کہ ہم شہید کا منہ دیکھیں۔ چنانچہ ہم نےتابوت کا ایک تختہ کھلوایا۔ چہرہ اور سینہ بالکل سلامت تھا۔ صرف بائیں آنکھ میں گولی کا ایک زخم تھا۔
گولی دماغ کو چیر کے نکل گئی تھی۔ بائیں طرف گردن اور کندھے پر خون جما ہوا تھا۔ ہم نےشہید کے چہرے کو قبلہ رو کیا اور تابوت بند کرکے قبر میں اُتار دیا۔ تابوت پر ٹین کی دو چادریں ڈالیں۔ چادروں پر پیڑوں کی ٹہنیاں پھیلائیں اور اوپر سے مٹی ڈال دی۔
جب ہم نےفاتحہ کےلیے ہاتھ اُٹھائےتو سورج غروب ہورہاتھا۔ ہرطرف سناٹاتھااورہوکاعالم۔ میرےدل نےکہاارضِ وطن توسلامت رہےہم نے کیسےکیسےچاندسورج تیرےاوپرنچھاورکیےہیں۔‘
صاحبوجہلم کےمشین محلےسے ہزاروں میل دور ایک دھرتی جو اب ہمارے لیے اجنبی ہے اور جسے وہاں کے باسی سونار بنگلہ بلاتے ہیں، وہاں بوگرہ شہر میں فائر بریگیڈ اسٹیشن کے مقابل جو قبرستان ہے وہیں ایک اونچی ٹیکری پر ایک بے نامی قبر میں ہمارا پانچواں نشانِ حیدر ابدی نیند سو رہاہے۔ جن لوگوں کی اس نے جنگ لڑی وہ اس کی قبر کا نشان تک دیکھنے کے روادار نہیں۔
اب ہم میں سے کوئی جائے تو دُعا کے دو شبد کہہ کے خبر لائے کہ ہمارے شہید کا مدفن کس حال میں ہے . . .
ـــ
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
ھِلّی کا اکرم
دیارِ غیرکا شہید
ـــ
پانچویں نشانِ حیدر کی کہانیاگرآپ جہلم میں ہیں توریلوےسٹیشن کےپچھواڑےپراناگرینڈٹرنک روڈگزرتاہےجومشین محلےکی طرف جاتاہے۔ اس روڈپرمحلے سے مخالف سمت میں ریلوےسٹیشن سےچند قدم کےفاصلےپر ایک چبوترےپرکھڑی یادگارمیجرمحمداکرم شہیدنشانِ حیدرکویادکرتی ہے pic.twitter.com/zqMrhucNqX
— imran (@meemainseen) December 6, 2022