حصار ذات کوئی راستہ تو دے مجھ کو ۔۔۔۔۔۔!
بڑے دنوں سے تمنا ہے خود کو پا لینے کی ۔
“ماما آپ فرح خالہ کے سسرال گئی تھی تو پونچھی کیوں نہیں”
“بیٹاراستے میں گاڑی خراب ہوگئی تو وہی اسے صحیح کروایا بہت تھکاوٹ سی محسوس ہو رہی تھی تبھی واپس ا گئی ۔۔۔”
“ماما آپ ابھی میرے ساتھ چلیں فرح خالہ گھر وہاں امبرین کی زبردستی کسی بوڑھےآدمی سے شادی کروائی جا رہی ہے” نسرین یہ بات سن کر پریشان ہو گئی ۔
“ماما اپ جلدی چلے کہی دیر نہ ہو جائے” ۔۔
“اچھابیٹا چلو ! انہو نے ایک مضبوط لہجے میں جواب دیا ۔۔۔
!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
“چل نیچے کم بخت چل تجھ سے اتنا پیار کیا یہ نتیجہ دیا تو نے جیسی ماں بد کردار تھی ویسی تو کاش میرے پتر پر چلی جاتی ۔۔۔۔مولوی صاحب نکاح پڑھاؤ اس کا جلدی ۔۔۔۔”
وہ اس کو سيڑیو سے گھسیٹ کر نیچے لائی تھی وه رو رہی تھی اس کے ہونٹو کے پاس سے لال دھار ندی کی طرح بہہ رہی تھی اس میں بولنے کی اب ہمت نہیں تھی آج اسے اپنی ماما پر غصہ آیا تھا نہ جانے کیوں پر آج انجانے میں ہی سہی اسے دکھ ہو رہا تھا اپنی ماما پر اور وہ اپنے اپ کو سوچنے سے روک بھی نہیں سکی ۔۔۔۔ “میں نے ایک ایسے وجود سے جنم لیا جسے یہ لوگ بد کردار کہتے ہیں ۔۔۔۔۔”
“بیٹھ ادھر چل مولوی پڑھا نکاح ۔۔۔۔۔”
“اماں کی ہویا اینا غصہ۔۔۔۔۔۔۔۔”
“اکبر تو چپ کر جا میری ناک کٹوا دی ہے اس نے بس لے جا بیا کر ۔۔۔۔”
وہ ٹکر ٹکر اماں اور اکبر کو دیکھتی رہی اور خود کو ایک نوک دار زمین پر چلنے کے لیے تیار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
“#روک #جائیں۔۔۔۔۔۔۔”
سب ایک دم مڑ کر دیکھنے لگے جہاں سے آواز آئی تھی
” یہ شادی ہرگز نہیں ہو سکتی ۔۔”
“کیوں تيرے باپ کا راج ہے ۔۔۔۔۔”
اماں کو طیش آ گیا ۔۔۔۔
“ہاں میرے باپ کا راج ہے ۔۔۔سلمان انکل میرے بھی کچھ لگتے ہے ۔۔۔
اورامبرین ہماری امانت تھی اپ کی طرف اور اب ہم اسے لینے آئے ہیں۔۔۔
خالہ خالو کی وصیت میں یہی لکھا ہے کہ ان کی زندگی سے چلے جانے کے بعد یہ ہماری ذمے دارى ہے اور اب ہم اسے لے کر جا سکتے ہیں ۔۔۔
اسکی پڑھائی کا انتظار تھا وہ تو ہوہی ختم اب اسکی شادی نہیں ہو سکتی اکبر انکل کے ساتھ ۔۔۔
اٹھو امبرین ماما ساتھ جا کر کار میں بیٹھو میں آ تا ہو ۔۔۔۔”
سفیان كو طيش آ گیا تھا انکی باتو پر اس نے غرائی ہوئی آواز میں امبرین کو حکم دیا ۔۔۔۔۔
“اور ہاں امبرین اپنی کيمتی چیزیں لے لو اب تم دوبارہ یہاں کبھی نہیں آؤ گی ۔۔۔”۔
“أى أى أى۔۔۔ چل چل بیٹا اپنا منہ بند کر اور نکلتا بن ہایے میری بچی مجھ پر بوجھ نہیں ہے چل نہ کر تو اکبر سے شادی ۔۔۔۔”
اماں امبرین کو پیار کرتی ہيں ۔۔۔۔
“ہاے میری بچی میں تو بھائی کے پیار میں مری جا رہی تھی میری جان اینا واڈا جرم میں کیوں کرو ۔۔۔
نا نا بیٹا جہاں تو کہے گی وہاں تیری شادی ہو گی” ۔۔۔۔۔
امبرین کو اماں کا بدلتا روپ دیکھ کر بہت غصہ آیا ۔۔۔۔
“۔واہ اماں واہ ابھی تو میں آپ کے لیے ایک ناپاک وجود تھی بد کردار تھی کچھ دیر پہلے تو آپ مجھے اس آگ میں جلنے کے لیے پھینک رہی تھی ایک دم آپ کو کیا ہو گیا یہ سن کر اپ کی عقل ٹھکانے آ گئی میرے باپ نے اپنی تمام جائیداد میرے نام جو کر دی تھی اور اب اپ کو پتا ہے میں یہاں سے گئی سب چلا جاہے گا کیوں یہ بھی میرے بابا کی وصیت ہے کہ میں اپ کے ساتھ نہ رہو بڑے ہو کہ کیوں کے وہ جانتے تھے اپ کیسی ہیں ۔۔۔۔
میں آج تک اپ کی جائز وہ ناجائز باتیں مانتی رہی جیسا اپ نے کہا ویسے ہی رہی کبھی باہر کی دنیا نہیں دیکھی ہمیشہ یہ سوچ کر کہیں کل لوگ یہ نہ کہیے میں بھی ماں جیسی نکلی آپکی ہر بات مانی پر اماں میرا دل کہتا ہے میری ماں ویسی نہیں جیسی اپ بتاتی ۔۔۔۔ہیں
میں جا رہی ہو ۔۔۔۔اب ۔۔۔۔ہمیشہ ہمیشہ ۔۔۔کے لیے “اپنی ” شہادت کی انگلی اپنے سینے پر رکھ کے وہ بولی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت تکلیف تھی اس کی آواز میں کب کے جمع کیے آنسو اس کے گالو میں لڑیو کی مانند اس کی آنکھوں سے گرنے لگے پر پروا کس کو تھی( آج وہ اپنے بچپن سے لے کے آج تک کے سفر کو تہ کر رہی تھی اذیت سے تکلیف سے کیا کچھ نہیں تھا آج اس کی انکھو میں دل ٹوٹننے کا درد اپنا گھر چھوڑنے کا درد وہ سامنے کھڑی عورت جیسی بھی تھی پر اس کی دادی تھی جنہو نے اسے پالا اس سے محبت کی پر آج اسے یہ جان کر بہت دکھ ہوا سب پیسو کے لیے کیا تبھی آج شادی بھی اسی وجہ سے کروا رہی تھی تاكہ جائیداد انہی کی رہے ۔۔۔ واہ رے قسمت تو کیسا کھیل کھیلتی ہے معصوم لوگو کے دل اجار کر کیا سکوں ملتا ہو گا تجھے میرے تو ماں باپ نے مجھ سے وفا نہیں کی تو یہ لوگ کیا کریں گے) وہ سوچ کر رہ گئی پر بول نہ پائی بولا تو صرف اتنا کہ ۔۔۔۔۔۔چیزيں یہاں سے لے کر جا رہی ہو اور جب میں اپنے پیرو پر کھڑی ہو جاؤ گی تو یہ سب اپ سے لے لو گی اب اور نہیں۔۔۔۔”
اماں حیران ہو گئی ۔۔۔۔
“نہیں بیٹا تو پاگل ہو گئی ہے ایسا کچھ نہیں ہے یہ تیرا گھر ہے یہ سب تیرا ہے میں اندھی ہو گئی تھی میری بچی مجھ بوڑھی کو چھوڑ کر مت جا میری بچی”۔۔۔۔۔۔۔۔وہ امبرین کے پھیچے اس کے کمرے میں گئی وہ بولتی جا رہی تھی لیکن آج امبرین سن نہیں رہی تھی آج اس کا دل ٹوٹا تھا آج بہت تکلیف تھی ۔وہ نہیں جانتی تھی وہ کیا کرے بس وہ جانا چاہتی تھی اس کا دماغ آج سہی جگہ پہ نہیں تھا اور ہوتا بھی کیسے آج اس کو بچپن سے چاہنے والی اس کا آج سودا کر رہی تھی یہ سودا ہی تو تھا ۔۔۔وہ اپنا سر جھٹک کے اپنا سامان پیک کرنے لگی ۔۔۔
“بس انٹی بس کر دیں” ۔۔سفیان جو کب سے کہڑا ان کی باتیں سن رہا تھا۔لیکن آخر کار بول ہی پڑا ۔۔پھر دونو اگےپیچھے باہر نکلے سفیان امبرین کا سامان لے کے باہر آیا ۔۔۔۔۔اماں وہی کہڑی اسے جاتے دیکهتى
رہی ۔۔ سفیان نے سامان گاڑی میں رکھا اور امبرین سے کہا ۔۔
“چلوامبرین ۔۔گاڑی میں بیٹھو”۔۔۔۔ وہ پیچھے والا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی اور نسرین اگے بیٹھ گئيں ۔۔۔۔
اور سفیان نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی ۔۔
“تم ٹنشین نہ لو تم بھی میری بچی ہو جیسے سفیان لوگ ہیں ۔۔۔
فرح کو میں نے ماں بن کے پلا ماما پاپا کے چلے جانے کے بعد تم بھی میرے لئے ویسی ہی ہو اور تم مجهے بہت پیاری ہو میری جان ريلكس ہو جاؤں کچھ دن ریسٹ کر کے اپنی ادھوری اسٹڈیز پوری کرنا ۔۔۔۔۔
فرح بھی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی پر اس کی قسمت میں نہیں تھا پر تم ضرور بننا بیٹا تم چاکو تو اسی یونیورسٹی میں دوبارہ شروع کر سکتی ہو ۔۔۔”
“نہیں خالہ میں اب وہاں نہیں پڑھو گی اپ مجهے کسی اور یونیورسٹی میں اڈميشن کروا دے ۔۔”
“اوکے بیٹا جیسی تمہاری مرضی اور بیٹا بھول جاؤ جو ہوا ۔۔”
“جی خالہ ۔۔۔’
نسرین بیگم تھوڑی سی گردن موڑ کر اسے دیکھتی ہیں اور سمجھاتی ہیں ۔۔اور وہ ان کی آخری بات پر صرف جی بول پاتی ہے ۔۔۔۔۔نسرین” ہوں” کہہ کر دوبارہ اگے دیکھنے لگی ۔۔۔۔سفیان پورے دھیان سے ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔۔۔
یہ گلیاں یہاں میرا بچپن لڑکپن ۔۔اور۔ جوانی ۔۔آ ا ہا ۔۔۔جوانی وہ “بھی آدھی ۔۔۔۔پر یہاں کی کوئی ایسی یاد نہیں ہے میرے پاس جس کو یاد کر کے دکھ ہو کہ میں۔ یہاں سے کیوں جا رہی ۔۔میں يہاں سے صرف آنسو لے کر جا رہی ہو ۔۔اماں اپ نے بچپن سے لے کر اب تک ایسا کیوں کیا میرے ساتھ میری ماں بھاگی تھی تو میری کیا غلطی تهى لاوارسوں سے بھی بتتر سلوک کیا اپ نے اور آج ۔۔اگے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی ۔۔۔”
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“دیکھ اکبر دیکھ اپنی ماں جیسی نکلی چلی گئی اپنے عاشق ساتھ کوئی اس سے پوچھے میرے سر پے دھول جھونک کر کیوں گئی کیا کہو گی اپنے بھائی سے کلموہی میرے منہ پر کالک لپ کر چلی گئی ہے ۔۔۔ہاے میں مر گئی ۔۔۔”
اماں زور زور سے دونو ہاتھ سینے پے مارتے ہوے چلا رہی تھی پر کون چپ کرواتا انہیں کون اتا جو آنسو صاف کرتا ایک ہی تھی جو ہر پل ساتھ دیتی تھی ۔۔وہ بھی گئی باقی سب بھی چلے گئے۔
وہ ا کيلى بيٹھی روتی رہتی ہیں چیختی ہیں پكارتى ہیں امبرین کو پر وہاں کوئی نہیں جو آ کر ان کی سنے وہ اپنے پاؤ پر گرنا شروع ہو گئی اور آنسو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
نمرہ بیگم سوات کے چهوٹےگاؤں مالا کنٹ کی رہنے والی تھی سوات جو اپنی مثال خود ہے اور اس کا یہ گاؤں بہت خوبصورت تھا ۔۔۔۔ وہ اپنی امى کے ساتھ روز صبح بڑی پہاڑی پر جاتی تھی جہاں پر اس کے دادا رہتے تھے اس کے سامنے ان کی امى کی قبر تھی جس کی وه دیکھ بھال کرتے تھے اس وجہ سے وه کبھی نیچے نہیں اتے تھے ۔۔نمرہ اور اس کی والدہ روز صبح ان کو ناشتہ دینے جاتے تھے اسی طرح دوپہر اور رات کا بھی وہ ساتھ دینے جاتی تھی ۔۔۔۔
نمرہ بیگم نے صرف ميٹرک تک پڑھا تھا ۔پڑھائی میں وہ بہت اچھی تھی اگے نہ پڑھنے کی وجہ ان کے کالج کا دور ہونا تھا ۔۔ابّو تھے نہیں ایک دادا ابّو اور امّاں تھی دادا ابّو کی کچھ زمینے تھی جہاں پر کھیت تھے وہاں سے جو پیسا اتا وہی ان کے گھر کی گاڑی چلاتا تھا ۔۔۔جب وہ بیس کی لائن کراس کر رہی تھی ان کے ليے ملک صاحب کے بڑے بیٹے ریاض ملک کا رشتہ آیا جس کو ان کے دادا نے ہاں کر دی وہ لوگ تھے بھی اچھے لیکن ریاض ملک اچھا نہیں تھا ۔۔۔اس بارے میں زوہیب صاحب ( نمرہ کے دادا ) نہیں جانتے تھے اور ان نے شادی کر دی نمرہ کی وہاں۔۔۔۔ نمرہ کی شادی کے کچھ مہینے بعد اس کے دادا چل بسے ۔۔
ریاض ملک زوہیب صاحب سے ڈرتا تھا ۔۔۔تبھی شروع کے مہینے بہت اچھے گزرے ملک صاحب اور ان کی اہلیہ زیادہ تر اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ کراچی میں رہتے تھے ۔۔ کیونکہ وہ وہاں پڑھ رہی تھی اور ملک صاحب کا کہنا تھا بچياں ہوسٹل میں خراب ہو جاتی ہیں تبھی وہ وہاں ان کے ساتھ گھر میں رہتے جو ان نے بنایا تھا کچھ ارسہ پہلے ۔۔جو اب کام آ رہا تها۔۔۔۔۔۔
اسی وجہ سے ریاض صاحب کو چھوٹ ملی ہوئی تھی گھر میں دو اور بھائی تھے لیکن سب اپنی زندگی میں مگن تھے کسی کو کسی کی پروا نہیں تھی نمرہ کی امی تنہا ہو گئی تھی ان نے جائیداد جو بچی کچی تھی کیوں کے ابّا کے مرنے کے بعد ان کے پوتے جنہوں نے زندگی میں نہیں پوچھا اب ا گئے تھے ۔۔۔اور جو زمین بچی تھی وہ بنجر تھی ۔۔۔جسے ریاض ملک نے اونے پونے دامو میں بیچ دیا ۔۔۔ نمرہ کی شادی کے 2 سال بہت اچھے گزرے مشکل تو تب ائی جب ان کی کوئی اولاد نہ ہوہی جس کی وجہ سے ریاض انہیں آئے دن کہتے میں دوسری شادی کر لو گا وہ بہت پریشان تھی انہو نے نمرہ کو مارنا بھی شروع کر دیا ان نے صبر کیا بہت اس کا صلہ ان کو سلمان کی سورت ملا لیکن اولاد ہونے کے بعد بھی وه سہی نہ ہوئے نشہ شروع کر دیا سب نے سمجھایا وہ نہ سمجھے ۔۔۔ملک صاحب کے چلے جانے کے بعد وہ اور زیادہ نشہ کرنے لگے اور اس وقت سلیمان یونیورسٹی سے پاس اوٹ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا وہ نمرہ کو نہ مارے سلیمان بچپن سے لے کر جوانی تک ماں کو باپ کے ہاتھو پٹتا دیکھ رہا تھا ۔۔۔لیکن اب اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا وہ اکثر بول جاتا تھا ابو کے سامنے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ریاض نمرہ کو کمرے میں بند کر دیتا اور کھانے کو نہ دیتا وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر جاتا ہے یہ دیکھے بغیر کے کون جیا کون مرا ۔۔۔۔ ریاض کی موت نے جہاں ان کو سکوں دیا وہاں ان کو وحشی بنا دیا فرح کے آ جانے کے بعد ان کو اس سے نفرت ہو گئی کیوں کے سلمان فرح سے بہت پيارکرتے تھے وہ نہیں چاہتے تھے وہ بھی اپنے ابو کی طرح بنے اور یہ چیز نمرہ کو ایک آنکھ نہ بھائ اور وہ آئے دن کچھ ایسا کرتی جس سے سلمان فرح پے چیلائے پر ایسا کبھی نہیں ہوا امبرین کے دنیا میں آ جانے کے بعد بھی نمرہ کے دل میں لگی اگ نہ بوجھى۔۔۔۔۔۔
اس رات بہت تیز بارش ہو رہی تھی سلمان نہیں جانا چاہ رہا تھا پر جانا ضروری تھا کیونکہ یہ نيو کنٹریکٹ کی پارٹی تھی نہ اٹينڈ کرتا تو مسئلہ ہو جاتا تبھی وہ جانا چاہتا تھا تبھی وہ اور فرح جانے کے لئے نکل گئے لیکن اوپر والے کو کچھ اور ہی منظور تھا راستے میں بارش کی وجہ سے سلمان سے گاڑی ڈسبيلنس ہو گئی اور پھر کیا ہوا کون جانے کیا ہوا وہ وہی جانے جن پے گزری تھی امبرین اس وقت چھ ماہ کی تھی جب اس نے اپنے والدین کو کھو دیا ۔۔۔۔
سلمان اور فرح کے چلے جانے کے بعد کچھ دن نمرہ بہت روہی پھر اسے صبر آ گیا پر اس کی دل میں۔ نفرت اور بڑھ گئی فرح کی اس نے اپنے دل میں ٹھان لی وہ امبرین کو بدظن کرے گی اس کی ماں سے ۔۔۔۔۔اور ان نے ایسا کیا پر وہ کامیاب نہ ہو سکھی۔۔۔۔۔۔
سلمان اپنی جائیداد اپنی بیوی کے نام کر چکا تھا اور یہ بھی وصیت تھی جب بیٹی بڑی ہو جائے تو جائیداد اس کی ہو جاہے گی اسی بات کی وجہ سے نمرہ کے بھائی چاہتے تھے سب انہی كو مل جائےاور اسى وجہ سے پلان بنایا کہ نمرہ کا ہمارے سوا کون ہے اس طرح کہہ کر اپنے جانسے میں کرے گے اور کہے گے اگر ہمارا ساتھ چاہتی ہو تو امبرین کی شادی چھوٹے اکبر سے کر دو ۔۔۔۔لیکن ان کا پلان کامیاب نہ ہوا ۔۔۔۔۔
اورامبرین ان سب کو چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔۔۔
اماں اس کے جانے کے بعد سوچنے لگی کے اس نے کتنا غلط کیا صرف ریاض کی وجہ سے اس نے اسے محبت نہ دی تو اس سے اپنے بہو اور بیٹے کی محبت دیکھی نہیں گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...