“بہت ضدی ہوتی جا رہی ہو تم روشی کتنی بری بات ہے، آج تم نے ڈرائیور کو پھر یونہی خالی ہاتھ بھیج دیا۔۔۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تمہیں”
روشانے بیڈ پر تین ماہ کے حازم کو لیے بیٹھی، اُس سے باتوں میں مشغول تھی، حازم ہاتھ پاؤں چلاتا ہوا روشانے کو اِس کی باتوں کا رسپانس دے رہا تھا۔۔۔ زرین روشانے کے پاس اُس کے کمرے میں آتی ہوئی بولی
“تو آپ کیا چاہ رہی ہیں تائی ماں، میں ڈرائیور کا پیغام سن اُس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر حویلی چلی جاتی”
روشانے الٹا زرین سے پوچھنے لگی حازم اپنی طرف توجہ ہٹتی دیکھ کر مزید زور زور سے ہاتھ پاؤں چلانے لگا
“ہاں تمہیں وہاں پر جانا چاہیے تھا کشمالا کی بات سننے، نہ جانے وہ تم سے کیا کہنا چاہتی ہو”
زرین روشانے کے پاس بیٹھتی ہوئی اُسے سمجھانے لگی
“انہیں کیا کہنا ہوگا بھلا مجھ سے، ہو سکتا ہے میرے پہنچنے پھر کوئی نیا ڈرامہ کری ایڈ کر کے دوبارہ الزام لگا دیں مجھ پر، کچھ بعید نہیں ہے اُن سے”
روشانے نے زرین کی بات کا جواب دیتے ہوئے بیڈ پر لیٹے ہوئے حازم کو گود میں اٹھا لیا۔۔۔ اُس کا پیٹ بھرا ہوا تھا روشانے اُسے تھوڑی دیر گود میں لے کر ٹہلتی تو وہ سو جاتا
“توبہ کرو روشی بچے، آدھا دھڑ اُس کا مفلوج ہو چکا ہے، اِس حالت میں اُس کے بارے میں ایسا سوچ رہی ہو، کیوں اتنی تلخ ہوتی جا رہی ہو، ایسی تربیت کی تھی میں نے تمہاری۔۔۔ میری جگہ اگر رباب زندہ ہوتی تو وہ بھی یہی بولتی، ایک دفعہ جاکر کشمالا کی بات سن آؤ۔۔۔ ساس ہی نہیں مامی بھی ہے وہ تمہاری”
زرین اُسے مزید سمجھاتی ہوئی بولی ساتھ ہی اُس کی گود سے حازم کو لے کر کاٹ میں لٹا دیا کیوکہ وہ اب سو چکا تھا
“بچے بہت مشکل ہوتا ہے کسی کو معاف کرنا جس نے آپ کے ساتھ ناجائز کیا ہو یا دل دکھایا ہو میں مانتی ہو، سب باتوں کو بھول جانا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے فیصلے خدا پر چھوڑ دے۔۔۔ اب تھوڑی دیر خود بھی آرام کر لو فجر کی جاگی ہوئی ہو”
زرین روشانے کو بولتی ہوئی کمرے سے جانے لگی تو روشانے افسردہ سی ہونے لگی
دو دن پہلے ہی تیمور خان نے اُس سے اپنے کیے گئے عمل کی معافی مانگی تھی اور روشانے نے اُسے بری طرح جھڑک دیا تھا اور صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اُس سے کلام تک نہ کرے اور نہ ہی اُس کے بچے کو گود میں لیا کرے
“آپ کہاں پر جارہی ہیں”
زرین کو اپنے کمرے سے جاتا ہوا دیکھ کر روشانے اُس سے پوچھنے لگی
“خان کے پاس جا رہی ہوں کیوں تمہیں کوئی کام ہے”
زرین رک کر روشانے سے پوچھنے لگی جس پر روشانے نفی میں سر ہلا کر بیڈ پر لیٹ گئی
دو ماہ پہلے کشمالا کا سیڑھیوں سے پاؤں پھسلا جس کی وجہ سے اُس کی بیک بون متاثر ہوگئی تھی۔۔۔ اُسی دوران اُس کی شوگر بھی کافی ہائی رہنے لگی تھی۔۔ وہ دو ماہ سے اب مسلسل بستر پر لگ چکی تھی۔۔۔ ضیغم جو اُس دن روشانے کو لینے آیا تھا اُس کے بعد وہ دوبارہ نہیں آیا، نہ ہی اُن دونوں کا کوئی کانٹیکٹ ہوا۔۔۔ البتہ حویلی سے آج ڈرائیور کو تیسری بار بھیجا گیا تھا کیونکہ کشمالا روشانے سے ملنا چاہتی تھی مگر ہر بار کی طرح روشانے نے آج بھی اُسے خالی ہاتھ بھیج دیا تھا
****
حازم کو گود میں اٹھائے اُس نے حویلی میں قدم رکھا جہاں سے اُسے نکالا گیا تھا
“ارے روشانے تم آگئی”
آرزو پہلے اُسے دیکھ کر حیران ہوئی پھر مسکراتی ہوئی اُس کی طرف بڑھی روشانے نے اشارے سے اُسے سلام کیا دل آویز بھی روشانے کو دیکھ کر اُس کے پاس چلی آئی، وہ تینوں بہنیں اٍس وقت حویلی میں موجود تھیں
“یہ حازم ہے ناں، میرا بھتیجا میرا گڈا،، دو جلدی سے اسے مجھے”
آرزو ایکسائٹڈ ہوتی ہوئی بولی اور روشانے کی گود سے حازم کو لے لیا
“اچھا ہوا تم آ گئی ماں کافی یاد کر رہی تھی تمہیں، اُن کی حالت اب بالکل ٹھیک نہیں ہے روشانے”
دل آویز روشانے کو بول رہی تھی مگر روشانے کی نظر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ضیغم پر ٹکی ہوئی تھی، جو اُسی پر اپنی نظریں جمائے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔۔۔
آرزو حازم کو لے کر ضیغم کے پاس آئی۔۔۔ وہ مسکراتی ہوئی حازم کو دیکھ کر ضیغم سے کچھ کہہ رہی تھی، جس پر ضیغم بھی مسکرا کر حازم کو دیکھ رہا تھا
“سن رہی ہو ناں روشانے میری بات”
دل آویز کی آواز پر روشانے چونکی
“جی آپی کچھ کہہ رہی ہیں آپ”
روشانے دونوں بہن بھائی کی طرف سے نظریں ہٹاتی ہوئی دلآویز سے پوچھنے لگی
“میں کہہ رہی تھی ماں سے ایک بار مل لو، وہ بہت زیادہ اذیت میں ہیں اِس وقت”
دل آویز روشانے کو دیکھ کر افسردگی سے بولی تو روشانے دلآویز کے ساتھ کشمالا کے کمرے میں چل دی۔۔۔ اُس نے ایک بار دوبارہ حازم کی طرف دیکھا جو کہ اب فیروز جتوئی کی گود میں تھا
****
سیڑھیوں سے گرنے کے سبب کشمالا کی بیک بون متاثر ہوئی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی، اوپر سے کشمالا کی بدقسمتی یہ ہوئی اُس کی ٹانگ پر عجیب سا زخم بنتا چلا گیا،، شوگر ہائی ہونے کی وجہ سے وہ زخم پھیلنے لگا جس کی وجہ سے اُس آدھی ٹانگ گل چکی تھی، اسکی آدھی ٹانگ کاٹنا پڑی۔۔۔۔ چند دن گزرنے کے بعد پھر ویسے ہی زخم اُس کی دوسری ٹانگ پر بھی پھیلتا چلا گیا جس میں سے ہر وقت پس نکلتا اور خون رستا رہتا۔۔۔ اب اُس میں اتنی طاقت نہیں بچی تھی کہ وہ اپنی دوسری ٹانگ بھی کٹوا دیتی
وہ اپنی پر حالت پر خود چیخیں مار مار کر روتی،، اللہ سے توبہ کرتی اور سب سے معافیاں مانگتی
“میں نے تیرے ساتھ بہت برا کیا، تُو نے یہاں سے جاتے وقت کہا تھا نا کہ مجھے اوپر والا معاف نہیں کرے گا، تُو دیکھ میری حالت، اوپر والے نے میرے سارے گناہوں کی، مجھے میری زندگی میں ہی کیسی سزا دے دی۔۔۔ جو گناہ میں نے رباب کا نکاح نامہ چھپا کر کیا اور جو برا سلوک میں نے تیرے ساتھ کیا۔۔۔ اے ضیغم وہاں کیوں کھڑا ہے یہاں آ میرے پاس”
کشمالا روتی ہوئی روشانے سے بول رہی تھی اُسے معلوم ہی نہیں ہوا کب ضیغم کمرے میں آگیا۔۔۔ روشانے نے پلٹ کر دیکھا وہاں پر ضیغم ہی نہیں فیروز جتوئی، شمشیر جتوئی کے علاوہ پلورشہ اور آرزو بھی کمرے میں موجود تھی۔۔۔ کشمالا کے بلانے پر ضیغم چلتا ہوا اُس کے پاس آیا
“اِس نے تیمور خان کو نہیں بلوایا تھا وہ میسج میں نے مانو سے کروایا تھا تاکہ تیرے دل میں اپنی بیوی کے لیے بدگمانی آجائے اور بچے کی خبر مجھے تب معلوم ہوئی جب یہ موبائل پر اپنی تائی ماں کو بتا رہی تھی”
کشمالا روتی ہوئی اب ضیغم کی غلط فہمی دور کر رہی تھی وہ ضبط کرتا ہوا کشمالا کی بات سننے لگا یہ سب اُس کو آرزو پہلے ہی بتا چکی تھی
کشمالا روتی ہوئی اپنے تمام تر پوشیدہ گناہ اور زیادتیوں کی معافی مانگ رہی تھی، کمرے میں موجود سب نفوس خاموش کھڑے تھے
دلآویز پلورشہ اور آرزو کی آنکھیں اشکبار تھیں جبکہ ضیغم کی آنکھیں ضبط کے مارے سرخ ہو چکی تھی۔۔۔۔ روشانے اپنے سامنے بستر پر لیٹی ہوئی اُس عورت کو دیکھ رہی تھی جس کا کروفر اور غرور آج خاک میں مل چکا تھا
اب وہ باری باری ہاتھ جوڑ کر شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی سے معافی مانگ رہی تھی، وہ رباب کے ساتھ بہت کچھ غلط کر چکی تھی، ذریاب خان کی جان اُس کی وجہ سے گئی تھی
“روشانے تُو مجھے معاف کردے،، دیکھ میں بہت اذیت سے گزر رہی ہو بہت تکلیف میں ہوں، اللہ سے روز اپنے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں،، روز اپنے لیے موت کی دعا کرتی ہوں مگر مجھے موت بھی نہیں آتی۔۔۔ اللہ مجھ سے بالکل ناراض ہو چکا ہے تُو معاف کرے گی تو وہ بھی مجھے معاف کر دے گا۔۔۔ میری مشکل آسان ہو جائے گی میں اِن دو ماہ میں بہت اذیت سہہ چکی ہوں”
کشمالا زارو قطار روتی ہوئی روشانے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی
“میں نے آپ کو معاف کیا مامی، اللہ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے”
روشانے نے یہاں آنے سے پہلے بالکل نہیں سوچا تھا وہ ایسا بولے گی مگر کشمالا کی حالت دیکھ کر روشانے بولتی ہوئی اُس کے کمرے سے باہر نکل گئی،، اب وہ حازم کو لے کر جلدی سے یہاں سے نکلنا چاہتی تھی
“روشانے”
شمشیر جتوئی کی آواز پر اُس نے مڑ کر دیکھا ڈیڑھ سال میں وہ خود کافی کمزور ہو چکا تھا۔۔۔۔ شمشیر جتوئی کے اشارے سے پاس بلانے پر روشانے اُس کے قریب آئی
“میری رباب کی بیٹی”
شمشیر جتوئی روشانے کو گلے لگا کر زاروقطار رو رہا تھا ایک ایک کر کے سب ہی کشمالا کے کمرے سے نکل چکے تھے اور وہاں خاموش کھڑے تھے
شمشیر جتوئی کے بعد فیروز جتوئی ہے روشانے کو گلے لگایا وہ اُس سے معافی مانگنے لگا جبکہ دلآویز پلورشہ اور آرزو کے ساتھ ضیغم خاموش کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا
آج پہلی بار اُسے ضیغم کی بیوی کی حیثیت کی بجائے رباب کی بیٹی سمجھ کر مان دیا گیا تھا
****
“آپی حازم کہا ہے۔۔۔ اب مجھے نکلنا ہوگا بڑے خان اور تائی ماں انتظار کر رہے ہوگے میرا”
آرزو اُسے دوسرے کمرے میں لے کر آ گئی تھی دلآویز اور پلورشہ بھی وہی پر موجود تھی۔۔۔ اُسے یہاں آئے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے اور آدھے گھنٹے پہلے دلاویز حازم کو شمشیر جتوئی کے بلوانے پر روشانے کے پاس سے لے گئی تھی
“حازم کو اُس کے بابا اپنے کمرے میں لے گئے ہیں،، اب تمہیں حازم کو لینے اُس کے بابا کے پاس جانا پڑے گا”
دل آویز کی بات سن کر اور اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر روشانے بالکل خاموش ہو گئی جبکہ پلورشہ اور آرزو بھی اُس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
“آپی پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں ناں سیریلی کافی دیر ہوگئی ہے”
روشانے نے اب آرزو کی مدد لینی چاہیے کیونکہ وہ ضیغم کے کمرے میں جانے سے گریز کر رہی تھی
“تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے حازم کے بابا سائیں تمہیں بھی پکڑ کر اپنے کمرے میں رکھ لیں گے”
آرزو کی بات پر دلاویز پلورشہ ہنسنے لگیں
“میں کیوں بلاوجہ ڈرنے لگی حازم کے بابا سائیں سے، ابھی لے کر آتی ہو حازم کو”
دلآویز اور پلورشہ کو ہنستا ہوا دیکھ کر روشانے آرزو سے بولی
****
ہاتھ میں ہلکی سی لرزش کے بعد اُس نے بیڈ روم کا ذرا سا دروازہ کھولا سامنے بیٹھ کر اُسے حازم لیٹا ہوا نظر آیا، یہ اُس کے سونے کا ٹائم تھا اور وہ بیڈ پر لیٹا ہوا سو رہا تھا۔۔۔ وہی دروازے سے باہر کھڑے کھڑے اُس نے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی جب کوئی نظر نہیں آیا تو روشانے آئستہ سے کمرے کے اندر داخل ہوئی مگر دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ پلٹنے پر مجبور ہوئی
“اپنے کمرے میں کون اس طرح چوری چھپے آتا ہے”
ضیغم کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا روشانے کے پاس آیا اپنے بازو کھولتا وہ اُسے حصار میں لینے لگا
“سائیں پلیز میں یہاں حازم کو لینے آئی ہو”
روشانے جلدی سے پیچھے ہوتی ہوئی ضیغم سے بولی
“اور حازم کا باپ۔۔۔ اُس کی کوئی ویلیو نہیں رہی تمہاری نظر میں”
ضیغم اب اُس کے یوں پیچھے ہٹنے پر برا مانتا ہوا بولا
“ویلیو کی بات مت کریں سائیں ورنہ بات بہت آگے تک جائے گی”
روشانے بول کر پلٹنے لگی تاکہ حازم کو اٹھا سکے مگر اُس سے پہلے ضیغم اُس کا بازو پکڑ کر، اس کا رخ اپنی طرف کر چکا تھا
“ساری اُن باتوں کو ختم کر دو روشی جس سے صرف بات بڑھے اب جبکہ آج تم میرے کمرے میں آگئی ہو تو ہم دونوں کی بات بہت آگے تک جانے دو”
ضیغم بولتا ہوا اُسے مزید خود سے قریب کرنے لگا
“میں یہاں پر مامی کی بلانے پر آئی تھی سائیں، اب مجھے جانا ہے پلیز”
روشانے آہستہ سے اُس سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی مگر اپنے بازو پر سختی دیکھ کر روشانے ضیغم کو دیکھنے لگی جو اُسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا
“ماں کو معاف کر دیا تم نے، اپنے نانا اور ماموں سے شکوے دور کرلیے میری بہنوں سے ہنس کر بات کر رہی ہوں تو پھر مجھے کس جرم کی سزا دے رہی ہو”
ضیغم خود اُس کا بازو چھوڑ کر روشانے سے پوچھنے لگا
“اتنا دنیا کے بدلنے پر دکھ نہیں ہوتا لیکن وہ شخص جسے آپ اپنی دنیا سمجھ بیٹھے وہ بدل جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے سائیں۔۔۔ سمجھ لیں کہ مجھے سب سے زیادہ دکھ آپ کی بے اعتباری نے دیا ہے”
روشانے کے بولنے پر ضیغم اُسے خاموشی سے دیکھنے لگا
“غلط بات مت کرو روشی بے اعتباری میں نے نہیں تم نے بھی میرے ساتھ برتی ہے۔۔۔ جب ہمارے فلیٹ میں تیمور خان آیا تھا تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا، وہ حویلی میں رات کے پہر آیا ماں نے تم پر سوال اٹھایا، کیا میں نے اُس وقت تم پر اعتبار نہیں کیا یا پھر اپنی ماں کا ساتھ دیا، نہیں بلکہ اُن کے تمہارے خلاف بولنے پر الٹا اُن سے ناراض ہوا تھا۔۔۔ جب میں نے تم سے پوچھا کہ ماں کی بات میں کتنی سچائی ہے،، کیا تم نے میرا اعتبار کیا۔ ۔۔ نہیں،، مجھے ہر بات سے لاعلم رکھا، صحیح ہے مجھے تیمور خان کا نام لینے سے غصہ آ جاتا تھا لیکن میں خود اُس وقت تم سے پوچھ رہا تھا تو کیا تمہارے سچ بولنے پر غُصہ کرتا۔۔۔ اُس دن جب ماں نے مجھے کال کرکے حویلی میں آنے کو کہا تو غُصہ مجھے تمہارے کچھ نہ بتانے پر اور بیوقوف بننے پر آیا۔۔ میں نے بے اعتباری کو جواز بنا کر نہ تم سے اپنا تعلق ختم کیا نہ دوسری شادی کی۔۔۔ اس لیے تم مجھے بے اعتبار کہہ کر کٹھہرے میں نہیں کھڑا کر سکتی اور رہی تمہیں سزا دینے کی بات، تو وہ میں خود بھی تم سے دور رہ کر سہہ چکا”
ضیغم کے وضاحت دینے پر سوتا ہوا حازم اٹھ چکا تھا تبھی روشانے نے اُسے جلدی سے گود میں لیا ورنہ وہ رونا شروع کر دیتا
“میں دوبارہ کوئی وضاحت نہیں دوں گی سائیں”
روشانے حازم کو گود میں لیے ضیغم سے بولی
“میں تم سے کوئی وضاحت مانگ ہی کب رہا ہو، جو گزر گیا ہے اُسے فراموش کر کے ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنا چاہیے، اپنے بیٹے کا سوچنا چاہیے”
ضیغم روشانے کی گود میں حازم کو دیکھتا ہوا بولا جو کہ نیند میں خلل پیدا ہونے کے باعث ابھی بھی اپنی آنکھیں مسلسل رہا تھا
“مجھے واپس جانا ہے سائیں تائی ماں میرا انتظار کر رہی ہوگیں”
روشانے کے بولنے پر ضیغم اسے دیکھنے لگا
“اب تم میرے اور اپنے علاوہ حازم کے ساتھ بھی بہت غلط کر رہی ہو”
ضیغم کی بات سن کر روشانے حازم کو لے کر اُس کے کمرے سے باہر نکل گئی
******
پیاس کی وجہ سے اُس کی آنکھ کھلی تو تیمور خان نے سائیڈ ٹیبل پر خالی جگ کو دیکھا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا، اُس کی نظر سوتی ہوئی ژالے پر پڑی کمرے میں ہیٹر ان ہونے کے باوجود کمرے کا درجہ حرارت کم تھا۔۔۔ وہ صوفے پر اپنی گرم شال پاؤں تک ڈالے سمٹی ہوئی لیٹی تھی تیمور خان اپنا کمفرٹر اتارتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔۔ وہ اپنی پیاس کو فراموش کرکے کمفرٹر ہاتھ میں لیتا ہوا سوتی ہوئی ژالے کے پاس آیا
فزیوتھراپسٹ سے زیادہ ژالے کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ وہ آہستہ
آہستہ اب چلنے کے قابل ہونے لگا تھا فیزیوتراپسٹ کے علاوہ ژالے اُسے خود بھی ہلکی پھلکی ایکسرسائز کرواتی۔۔۔ وہ تھکنے لگ جاتا تو اُس کی ہمت بڑھانے کے لیے خود اُس کے ساتھ اسٹیپ کرتی،، ڈاکٹر کی تجویز کردہ ٹیوب سے اُس کے ہاتھ پاوں پر مساج کرتی، اُس کے ساتھ خود آہستہ آہستہ لان میں چہل قدمی کرتی۔۔۔ وہ اوپر کمزور دکھنے والی لڑکی اندر سے اتنی با ہمت تھی یہ تیمور خان کو اب اندازہ ہو رہا تھا
گرمائش کا احساس فراہم ہوتے ہی ژالے نے آنکھیں کھول کر اپنے اوپر کمفرٹر کو دیکھا، صوفے پر اُس کے سامنے تیمور خان بیٹھا اُسی کو دیکھ رہا تھا
“تمہیں اٹھنے کی کیا ضرورت تھی خان میری تو بس تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگ گئی تھی”
ژالے تیمور خان کو بولتی ہوئی اٹھنے لگی، تیمور خان نے اُسے شانوں سے تھام کر دوبارہ لٹا دیا
“لیٹی رہو مجھے بیڈ پر سکون نہیں مل رہا ہے، یہاں تمہارے پاس سکون ملے گا”
تیمور خان بولتا ہوا اُس کے سینے پر اپنا سر رکھ چکا تھا جس پر ژالے ایک پل کے لئے سٹپٹائی پھر خاموشی سے تیمور خان کے شانوں کے گرد اپنا بازو حائل کرتی ہوئی کمرے کی چھت کو دیکھنے لگی
“کیا سوچ رہی ہو”
تھوڑی دیر تک تیمورخان یونہی لیٹا رہا پھر ژالے سے پوچھنے لگا
“تمہارے اندر جو تبدیلی رونما ہوئی ہے اس کے بارے میں سوچ رہی ہوں آخر تم کیوں چاہتے کہ میں اپنے فیصلے میں ثابت قدم نہ رہو، مت اتنے اچھے بنو خان، میرے اتنے قریب مت آؤ میرے جانے کے بعد تمہیں بہت تکلیف ہوگی”
ژالے کی بات سن کر تیمور خان نے سر اٹھا کر ژالے کو دیکھا وہ بھی اسی کو دیکھ رہی تھی
“یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمہاری ایسی باتیں مجھے تکلیف دیتی ہیں، کیوں کرتی ہو تم دور جانے کی بات۔۔۔۔ نو ماہ میں نے کتنی اذیت، کتنے تکلیف میں گزارے ہیں کیا میرے لیے یہ سزا کافی نہیں،، ژالے مجھ سے محبت کرنے کے باوجود تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہوں آخر کیوں”
تیمور خان اُس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
“تمہارے ایکسیڈنٹ کے بعد تمہارے وجود میں جان باقی نہیں رہی تھی، تم اوپر سے اندر سے پوری طرح ٹوٹ گئے تھے، بکھر گئے تھے تب تمہیں میں نے سمیٹا۔۔۔ اب جو تمہارا نیا روپ سامنے آیا ہے مجھے اِس سے دوبارہ محبت ہونے لگی ہے خان، لیکن ٹھیک ہونے کے بعد اگر تم دوبارہ پرانی ڈگر پر چل پڑے تو میں بری طرح ٹوٹ جاؤں گی۔۔۔ بالکل تمہاری طرح اوپر سے بھی اور اندر سے بھی۔ ۔۔۔ میں نے تمہیں سمیٹ لیا تھا مگر مجھے سمیٹنے والا پھر کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ اپنے ٹوٹنے سے بکھرنے سے ڈر لگتا ہے مجھے خان”
ژالے کی بات سن کر تیمور خان اٹھ کر صوفے پر بیٹھا اور ژالے کو بھی اپنے سامنے بٹھا دیا
“پرانا والا خان اس ایکسیڈنٹ میں ہی مر چکا ہے ژالے، یہ جو اِس وقت تمہارے سامنے بیٹھا ہے یہ بالکل مختلف انسان ہے۔۔۔ میری بات یاد رکھنا یہ تیمور خان بے شک خود ٹوٹ جائے گا مگر تمہیں کبھی نہیں ٹوٹنے دے گا اور نہ ہی تمہیں خود سے کبھی دور ہونے دے گا”
تیمور خان نے بولنے کے ساتھ ہی ژالے کو اپنے سینے میں چھپا لیا
“اچھی بیوی کا ملنا کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتا،، میں حیران ہو کہ خدا نے تمہیں نہ جانے میرے کونسے عمل کے بدلے مجھے عطا کر دیا۔۔ میں خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آج یہ وعدہ کرتا ہوں،، کہ آگے زندگی میں تمہیں اچھا شوہر اچھا ہم سفر بن کر دکھاؤں گا”
تیمور خان ہلکی آواز میں ژالے کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا ژالے سر اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی تو تیمور خان مسکرانے لگا
“اوکسجن کی اہمیت رکھتی ہو تم میرے لیے میری زندگی میں۔۔۔ اگر تم مجھ سے دور گئی تو میں کبھی بھی سانس نہیں لے پاؤ گا”
تیمور خان کے بولنے پر ژالے اپنا ہاتھ تیمور خان کے ہونٹوں پر رکھ دیا،، جسے تیمور خان نے چومنے کے بعد ژالے کو ایک بار پھر اپنے سینے سے لگا لیا
*****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...