“یہ تیرے باپ کا گھر ہے جو اتنی دیر تک پلنگ توڑ رہی ہے، ناشتہ کون بنائے گا تیرا تایا۔۔۔ چل اٹھ اور سیدھا باورچی خانے میں جا”
رات میں ضیغم روشانے سے ناراض ہو کر کمرے سے گیا تھا تو اِس فکر میں روشانے کو کافی دیر بعد میں نیند آئی۔۔۔ اُسے معلوم ہی نہیں ہوا کب صبح ہوئی اور کشمالا اُس کے سر پر آکر کھڑی اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے خاندان کو کوسنے لگی
“سوری مامی میں بس دو منٹ میں کچن میں جاتی ہوں”
روشانے بدحواسی میں کہتی ہوئی بیڈ سے اٹھی اُس کی آنکھیں ابھی بھی صحیح طرح نہیں کھلی تھی،، وہ بالوں کا جوڑھا بنا کر اپنے پاؤں میں سلیپرز پر پہنتی ہوئی واش روم کا رخ کرنے لگی تبھی کشمالا نے اُس کا ہاتھ زور سے پکڑا
“تو مہارانی ہے جو اپنے کام پہلے کرے گی، اپنے جو بھی کام ہو وہ بعد میں کر، جا پہلے سب کے لئے ناشتہ بنا”
کشمالا نے بولنے کے ساتھ ہی اُسے کمرے کے دروازے کی طرف زور سے دھکا دیا،
اُس کا سر کمرے کے اندر داخل ہونے والے کے سینے سے زور سے ٹکرایا۔۔۔ ضیغم نے روشانے کے دونوں بازو پکڑ کر اُس کو تھاما۔۔۔ اگر وہ اِس وقت اتفاق سے کمرے میں داخل نہیں ہوتا تو روشانے کو بہت زور سے کمرے کا دروازہ لگتا
ضیغم سے ٹکر ہونے کے باعث اب روشانے کی پوری آنکھیں کُھل چکی تھی اور ذہن بھی اچھی طرح بیدار ہوچکا تھا۔۔۔ اُس نے ضیغم کے سینے سے سر اٹھا کر اُسے دیکھا جو افسوس اور غصّے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ سامنے کھڑی کشمالا کو دیکھ رہا تھا
“کیا سمجھ رکھا ہے آپ نے اِس کو، یہ کسی کمی کمین کی اولاد نہیں ہے جو آپ نے اِس کے ساتھ ایسا رویہ رکھا ہوا ہے۔۔ کیا بگاڑا ہے اِس نے آپکا،، کیوں رحم نہیں آتا آپ کو اُس پر،، خدا کا واسطہ ہے ماں تھوڑا ترس کھا لیں اِس پر”
کشمالا کا روشانے کے ساتھ سلوک دیکھ کر وہ نہ صرف کشمالا سے ناراض ہوا تھا بلکہ کشمالا پر بگڑتا ہوا بولا۔۔۔ جس پر کشمالا کو بھی ضیغم پر غُصہ آیا
“اس بد ذات کے پیچھے تُو مجھ زبان چلا رہا ہے۔۔۔ ارے ایسا کیا بول دیا میں نے اِس کو،، یہی تو بولا ہے جا کر سب کے لیے ناشتہ بنا۔۔۔ رات سے تو بستر پر پڑی ہے اور کتنا ارام کرے گی”
عام طور پر ضیغم کو غُصے میں دیکھ کر کشمالا خاموش ہو جایا کرتی تھی مگر اِس وقت وہ ضیغم سے زیادہ تیز آواز میں بولی کیونکہ اِس کا بیٹا رباب کی بیٹی کے سامنے اُس کو باتیں سنا رہا تھا
“اگر آپ نے اِس کے ساتھ یہی سلوک کرنا ہے تو ٹھیک ہے میں آج ہی اِس کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے چلا جاتا ہوں۔۔۔ یہ بیوی ہے میری، آپ اِس کے ساتھ نوکروں سے بھی زیادہ بدتر سلوک کریں گیں تو یہ مجھے برداشت نہیں ہوگا”
ضیغم روشانے کے بازو چھوڑ کر کشمالا سے بولا
ویسے ہی ضیغم اور کشمالا کی آوازیں سن کر فیروز جتوئی ضیغم کے کمرے کے اندر داخل ہوا
“چار دن سے تم بخار میں پڑی رہی تو تمہیں اپنی آخرت یاد آ رہی تھی،، ابھی تھوڑا بہت بخار کیا کم ہوا تمہارا،، واپس تم اپنی اوقات میں آگئی۔۔۔ صبح ہوتے ہی لڑائی جھگڑے چیخ و پکار۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں آخر ایسی کون سی آفت آ پڑی ہے”
فیروز جتوئی کمرے میں آنے کے ساتھ ہیں ڈائریکٹ کشمالا پر بری طرح چیخا جس پر ضیغم خاموش کھڑا تھا جب کے روشانے بالکل سہم گئی
“مجھ پر پھٹکار مت برساؤ صبح صبح سائیں، اِس جورو کے غلام کو بھی سمجھاؤ،، جس کی بیوی کو ناشتہ بنانے کے لیے کیا بول دیا، مجھے یہاں سے جانے کی دھمکی دے رہا ہے”
کشمالا فیروز جتوئی سے کہتی ہوئی ضیغم کی طرف اشارہ کرنے لگی
“اِس کی بیوی کیوں ناشتہ بنائے گی، مہینے بعد سسرال میں کام کرنے آئی ہے یہاں، آج ناشتہ سب کے لیے تم بناؤ گی،، کافی دن اپنی ہڈیوں کو آرام دے لیا ہے اب سیدھا یہاں سے باورچی خانے میں جاؤ اور سب کے لیے ناشتہ بناؤ۔۔۔ خبردار جو تم نے شانو کی زرا بھی مدد لی”
ضیغم کی غیر موجودگی اور کشمالا کی طبیعت خرابی کی وجہ سے فیروز جتوئی نے چند دنوں سے اُس سے کافی نرم رویہ رکھا تھا مگر اُس وقت وہ کشمالا کو سخت لہجے میں حکم دیتا ہوا بولا۔۔۔ کشمالا غصّے میں ضیغم اور روشانے کو دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی
“میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ روشی یہاں آئے تو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائے، مگر ماں جو لہجہ اختیار کرتی ہیں اور جو اِس کے ساتھ سلوک کرتی ہیں مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے بابا سائیں۔۔۔ جاؤ روشی ماں کے ساتھ ناشتہ بناؤ جاکر”
ضیغم فیروز جتوئی کو بولتا ہوا ساتھ ہی روشانے کو کچن میں جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔۔۔ اب کی بار اُسے یہاں آکر خود اچھا نہیں لگ رہا تھا
“اسی لئے ہفتے میں دو بار اُس کی مرمت کرتا ہوں تبھی ٹھیک رہتی ہے، کوئی ضرورت نہیں ہے اِسے باورچی خانے میں بھیجنے کی، آج اپنی ماں کو ناشتہ بنانے دو، اُس کا جو ہلکا پھلکا بخار رہ گیا ہے خود ہی اتر جائے گا”
فیروز جتوئی ضیغم کو کہتا ہوا اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ جس پر ضیغم افسوس سے سر ہلانے لگا جبکہ روشانے نے جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا
“سائیں”
ضیغم واش روم کا رُخ کرنے لگا تبھی روشانے نے اُس کو پکارا،، وہ مسکرا کر ضیغم کے پاس آئی اور اُس کے سینے سے لگ گئی، روشانے کو لگا وہ رات والی ناراضگی ختم کر چکا تھا جبھی اُس کے ساتھ ایسی بدسلوکی برداشت نہیں کر پایا
“تمہیں کس نے کہا مجھ سے فری ہونے کو،، کل رات میری بولی ہوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تمہیں”
ضیغم نے اپنی کمر پر باندھے ہوئے روشانے کے ہاتھ ہٹا کر اُسے خود سے الگ کرتا ہوا بولا
روشانے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی وہ روشانے پر نظر ڈال کر واش روم چلا گیا
****
“امی کیا ہوا ژالے کو”
تیمور خان ابھی ابھی ہاہر سے آیا تھا تو اُسے ملازم سے معلوم ہوا کہ ژالے کے لیے ڈاکٹر کو بلوایا گیا ہے تبھی وہ ہال میں موجود زرین سے پوچھنے لگا۔۔۔ کبریٰ خاتون سردار اسماعیل خان اور زرین سے وہ معافی مانگ چکا تھا اور وہ تینوں ہی اُسے اکلوتا ہونے کی وجہ سے معاف کرچکے تھے
“بخار کی وجہ سے کافی کمزور محسوس کر رہی تھی، اماں حضور کے حکم سے ڈاکٹر کو یہی بلوا لیا ہے”
زرین تیمور خان کو جواب دیتی ہو کچن کا رخ کرنے لگی
“ڈاکٹر کے علاوہ اور کمرے میں کون موجود ہے”
تیمور خان پیشانی پر بل لیے زرین سے دوسرا سوال کرنے لگا
“میں ہی موجود تھی وہاں ابھی ابھی ڈاکٹر کے کہنے پر آئی ہوں تاکہ ژالے کو دوا دے سکو”
زرین کے بتانے پر وہ ماتھے پر بل لئے ژالے کے کمرے میں داخل ہوا
“اے ہاتھ چھوڑ اُس کا”
ڈاکٹر بیڈ پر بیٹھی ہوئی ژالے کی نبض چیک کر رہا تھا تیمور خان کمرے کے اندر داخل ہوتا ہوا ڈاکٹر سے بولا ڈاکٹر نے فوراً ژالے کی کلائی چھوڑی اور بیڈ کے پاس رکھی ہوئی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا
“خان میں چھوٹی بی بی کی نبض چیک کر رہا تھا۔۔۔ بی بی حضور کے حکم پر ہی یہاں بلوایا گیا ہے مجھے”
ڈاکٹر تیمور خان کو اپنی صفائی دیتا ہوا بتانے لگا
“ایسی کیا بیماری ہوگئی بی بی کو جو اتنے قریب بیٹھ کر اُس کا علاج ہورہا ہے”
تیمور خان کی بات سن کر ڈاکٹر شرمندہ ہوگیا وہی ژالے تیمور خان کو گھور کر دیکھنے لگی۔۔۔ جب ژالے کو اسٹیچس لگے تھے تب بھی وہ ژالے کے بالکل قریب کھڑا تھا اور تب بھی ڈاکٹر کی وقفے وقفے سے شامت آرہی تھی
“جی وہ کمزوری کی وجہ سے بی پی لو ہو گیا ہے بی بی جی کا۔۔۔ میں بی بی جی کے لیے چند دوائیں اِس پرچے پر لکھ چکا ہوں”
ڈاکٹر ایک بار پھر شرمندہ ہوتا ہوا تیمور خان کو پرچہ دکھانے لگا
“پرچہ جاکر باہر نوشاد کو دے دو اور کمرے سے جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا”
تیمور خان کے حکم پر ڈاکٹر کمرے کا دروازہ بند کر کے کمرے سے باہر نکل گیا
“یہ کون سا طریقہ ڈاکٹر سے بات کرنے کا۔۔۔ تمہیں کیا لگ رہا تھا کیا کر رہا تھا وہ ڈاکٹر میرے ساتھ”
ڈاکٹر کے نکلنے کے ساتھ ہی ژالے تیمور خان کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ اُسے نقاہت اتنی زیادہ محسوس ہو رہی کہ وہ اپنے آپ کو اٹھنے کے قابل بھی نہیں سمجھ رہی تھی
“میری چیزوں کو کوئی دیکھے، چھوئے یا پھر ہاتھ لگائے یہ مجھے کچھ خاص پسند نہیں، سیدھی سی بات ہے تمہیں اب اِن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے”
تیمور خان کمرے کا دروازہ لاک کرتا ہوا ژالے کے پاس آ کر اُس کے زرد چہرے کو دیکھتا ہوا نرم لہجے میں کہنے لگا
“تمہاری چیز۔۔۔ اپنا جملہ ٹھیک کرو خان میں کوئی چیز نہیں ہوں”
ژالے اُسے اپنے قریب آتا دیکھ کر بولی
“چیز نہ سہی مگر میری تو ہو ناں”
تیمور خان بولتا ہوا اس کے اوپر جھگ چکا تھا جس کی وجہ سے ژالے پیچھے ہو کر بیڈ پر لیٹ چکی
“کیا کر رہے ہو خان”
تیمور خان کو اپنے اوپر جھکا دیکھ کر وہ مزاحمت بھی نہیں کر پائی تھی کیونکہ اس میں بالکل طاقت نہیں تھی
“خان آج تمہارا بی پی نارمل کرنے والا ہے، اپنے انداز میں”
تیمور خان بولتا ہوا ژالے کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا۔۔۔ صبح کا غُصہ اور ناراضگی بھولتا ہوا وہ ژالے کے ہونٹوں پر اپنی محبت کی مہر لگاتا ہوا کرسی پر جا بیٹھا
ژالے اُس کے کارنامے پر ابھی بھی بیڈ پر لیٹی ہوئی خاموشی سے اُسے دیکھ رہی تھی جبکہ تیمور خان بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ کر اُس کے اس طرح دیکھنے پر مسکرانے لگا
“شرمانہ ورمانہ نہیں آتا تمہیں دوسری لڑکیوں کی طرح”
ژالے کے دیکھنے پر تیمور خان اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا نارمل انداز میں ژالے سے پوچھنے لگا
“شرم تو تمہیں آنی چاہیے خان، کسی بیمار کو دیکھ کر اس کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ ۔۔۔ ویسے اب تک کتنی لڑکیوں کے ساتھ یہ چھچھوری حرکت کر کے انہیں شرمانے پر مجبور کر چکے ہو تم”
ژالے کے شرمندہ کرنے پر وہ قہقہہ لگا کر زور سے ہنسا
“یہ اسپیشل ٹریٹمنٹ ہے جو پہلی بار خان نے کیا ہے تاکہ تمہاری طبیعت درست ہو سکے”
تیمور خان آنکھ مار کر معنیٰ خیز لہجہ میں بولا
“بد نام گلیوں میں جانے والے انسان کے منہ سے یہ بات کچھ سچی نہیں لگتی کہ اُس نے پہلی بار ایسا کیا ہوگا”
ژالے ابھی تک بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی وہ تیمور خان پر بھرپور طنزیہ انداز میں بولی۔۔۔ کوٹھے پر جانے والا انکشاف کا بھی اُسے روشانے کی زبانی معلوم ہوا تھا۔۔۔ ژالے کی بات سن کر تیمور خان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی وہ کرسی سے اُٹھ کر ژالے کے پاس آکر بیڈ کر بیٹھا اور اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا
“میں اللہ اور اس کے حضور کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے وہاں پر کبھی کسی لڑکی کے ساتھ نہ کچھ ناجائز کیا ہے اور نہ ہی کسی کو چھوا ہے”
تیمور خان ژالے کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنا یقین دلاتا ہوا بولا۔۔۔ ژالے کو تیمور خان سے لاکھ اختلافات سہی مگر اُسے یقین تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی کبھی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا
“لڑکیوں کو ناچتا ہوا دیکھ کر کون سا ثواب ملتا ہے،، مت جایا کرو ایسی بد نام جگہ پر”
اُن دونوں کے نکاح کے بعد سے آج پہلی بار ژالے اُس سے یوں نارمل انداز میں بات کر رہی تھی شاید اپنی طبیعت خرابی کی وجہ سے اُس میں انرجی ختم ہوچکی تھی کہ وہ تیمور خان سے لڑ سکے یا اُس پر غُصہ کر سکے
“نہیں جاؤں گا، اب کبھی بھی نہیں جاؤں گا بس تم اچھا سا ناچنا سیکھ لو،، جب دل چاہے گا تم سے ہی کبھی کبھی فرمائش کر لیا کروں گا”
تیمور خان اتنا سیریس ہو کر بول رہا تھا ژالے کو سمجھ میں نہیں آیا وہ مزاقاً کہہ رہا ہے یا پھر واقعی سنجیدہ ہے۔۔۔ مگر اُس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے
“شراب جیسی گھٹیا چیز کو بھی منہ لگانا چھوڑ دو خان”
ژالے تیمور خان کو دیکھ کر دوبارہ بولی جس پر وہ ژالے کو خاموشی سے دیکھنے لگا
“تم اپنی ساری شرطیں منوا سکتی ہوں اپنے خان سے خدا کی قسم ہر برا کام چھوڑ دوں گا جو کہو گی مان لوں گا،، بس اپنے مرضی سے اپنے خان کی دسترس میں آ جاؤں”
تیمور خان بولتا ہوا ایک بار پھر ژالے پر جھگ چکا تھا۔۔ اُس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کر کے ژالے کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے
وہ بغیر ہِل جُل کے کسی بے جان وجود کی طرح بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی تیمور خان اُس کی گردن پر جُھک کر اس کے قُرب سے مدہوش ہوتا ہوا اُس کا دوپٹہ اتار کر ژالے کی قمیض اُس کے کندھوں سے نیچے سرکاتا ہوا اسکے شولڈر پر ہونٹ رکھ چکا تھا
“خان پیچھے ہٹ جاؤ پلیز”
ژالے بغیر کسی مزاحمت کے لرزتی ہوئی آواز میں بولی تو تیمور خان اٹھ کر بیٹھ گیا اور اُس کا آنسوؤں سے تر چہرہ حیرت سے دیکھنے لگا
“تم مجھ سے محبت نہیں کرتے اِس کے باوجود میری قربت کے لئے ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہو،، میں تم سے محبت کرنے کے باوجود تمہاری یہ شرط نہیں مان سکتی۔۔۔ کیونکہ تم نے میری محبت کی تزلیل جس انداز میں کی ہے میں چاہ کر بھی اُس کو بھول نہیں پا رہی ہو، چلے جاؤ میرے کمرے سے خان پلیز”
ژالے روتی ہوئی بولی تو تیمور خان بغیر کوئی دوسری بات کیے اُس کے کمرے سے باہر نکل گیا
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...