رات کے ایک بجے کا وقت جب وہ حویلی پہنچا۔۔۔ اس وقت تقریباً سب اپنے کمرے میں سو چکے تھے۔۔۔ ضیغم سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے تک پہنچا اور آئستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تاکہ روشانے کی نیند ڈسٹرب نہ ہو مگر خالی کمرہ دیکھ کر ضیغم کو حیرت ہوئی،، وہ اپنے کمرے سے باہر آیا تو اس کی نظر نیچے پورشن پر کمرے پر پڑی جس کا دروازہ تو بند تھا مگر اندر لائٹ آن تھی کچھ سوچ کر ضیغم سیڑھیاں اترتا ہوا اُس کمرے تک آیا اور بناء دستک کے دروازہ کھول دیا
اُسے سامنے تخت پر ہی روشانے لیٹی ہوئی نظر آئی۔۔۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے وہ روشانے کے پاس آنے لگا۔۔۔
قدموں کی آہٹ پر روشانے نے آنکھیں کھلیں تو وہاں ضیغم کو دیکھ کر اُسے ایک پل کے لیے حیرت ہوئی مگر دوسرے ہی پل وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی اور فوراً دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپالیا۔۔۔۔ ضیغم کی نظریں روشانے کے سُوجھے ہوئے پاوؤں پر گئیں جنہیں دیکھ کر اُس کا دل بری طرح تڑپا۔،۔۔ روشانے کے سامنے تخت پر بیٹھ کر ضیغم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اس کے پاؤں کو چھونا چاہا۔۔۔ روشانے نے فوراً اپنے پاؤں پیچھے کرلیے۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے وقت وہ روشانے کے گال پر بھی سرخی دیکھ چکا تھا۔۔۔ روشانے کے اسطرح چہرہ چھپانے پر ضیغم کو بہت تکلیف ہوئی تھی
“کس نے کیا ہے یہ سب”
اپنی لاتعلقی پر خود کو ملامت کرتے ہوئے وہ روشانے کے چہرے سے دوپٹہ ہٹا کر آہستہ سے اُس سے پوچھنے لگا
“کیا فرق پڑتا ہے اس سے”
روشانے سر جھکا کر آہستہ آواز میں بولی۔۔ ضیغم کا دل بری طرح دکھنے لگا۔۔۔ شہر روانگی سے پہلے فیروز جتوئی اسے باور کروا چکا تھا کہ روشانے حویلی میں اُس کی بیوی کی حیثیت سے رہے گی اور شمشیر جتوئی نے موبائل پر اُسے کوئی ایسی انہونی بات نہیں بتائی تھی
“ماں نے کیا ہے یہ سب تمہارے ساتھ”
ضیغم روشانے کے چہرے کو تھام کر اونچا کرتا ہوا اپنی بات کی تصدیق کرنے لگا،، تو روشانے کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے
وہ آنسو نہ صرف اس کا درد کی بیان کر رہے تھے بلکہ چیخ چیخ کر کشمالا کو قصور وار ٹہرا رہے تھے۔۔۔ ضیغم نے روشانے کے آنسو صاف کر کے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھانا چاہا
“کیا کر رہے ہیں سائیں”
روشانے ایک دم پیچھے ہوئی۔۔۔ کشمالا کی غیر موجودگی میں بھی وہ کشمالا سے خوفزدہ تھی
“اپنے کمرے میں لے جا رہا ہوں”
اُس کے پیر چلنے کے قابل نہیں تھے اِس لیے ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا
“مامی بہت ناراض ہو گیں”
روشانے نفی میں سر ہلا کر اُسے منع کرنے لگی
“میری بات سے انکار کرو گی تو میں ناراض ہو جاؤں گا”
ضیغم نے اسے جتنے پیار سے دھمکایا، اتنی ہی نرمی سے اُسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا
اب بھلا روشانے اُسے کیسے ناراض کر سکتی وہ کزن ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کا شوہر بھی تھا۔۔۔۔ ضیغم اسے بازوؤں میں اٹھائے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کشمالا کے بے رحمانہ رویہ کے بارے میں سوچ رہا تھا،، جبکہ روشانے اتنے نزدیک سے بہت غور سے ضیغم کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی ضیغم کو اپنے اوپر روشانے کی نظریں محسوس ہوئی تو اُس نے فوراً روشانے کو دیکھا،، روشانے جلدی سے اپنی نظریں جُھکا گئی
اپنے بیڈ روم میں لا کر اُس نے روشانے کو بیڈ پر بٹھایا خود کمرے سے باہر چلا گیا۔ ۔۔۔ چند منٹ بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دودھ سے بھرا گلاس تھا
“یہ پینا ضروری ہے”
وہ بے چارگی سے ضیغم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
“بہت ضروری ہے جلدی سے پیو”
دودھ کا گلاس روشانے کو تھمانے سے پہلے وہ اُسے میڈیسن پکڑا چکا تھا۔۔۔ کیوکہ روشانے کے جسم میں حرارت کو وہ محسوس کرچکا تھا
کڑوی گولی منہ میں رکھنے کے بعد وہ جس طرح منہ بناتے ہوئے دودھ پی رہی تھی،، کوئی اور وقت ہوتا تو ضیغم کو ہنسی آجاتی۔۔۔۔ ابھی وہ خاموشی سے روشانے کو دودھ پیتا ہوا دیکھ رہا تھا
دودھ کا خالی گلاس جب روشانے نے بیڈ کے قریب سائیڈ ٹیبل پر رکھا تو ضیغم نے اُس کے بالوں سے کیچر نکالا۔۔۔ روشانے کے گھنے بال اُس کی کمر پر بکھر گئے۔۔۔ وہ پہلی بار روشانے کے بالوں کی لمبائی دیکھ رہا تھا، ضیغم کی نظریں خود پر محسوس کرکے روشانے نے اپنی پلکیں جھکالیں۔۔۔ ضیغم چند سیکنڈ بناء پلکیں جھپکائے اُسے دیکھتا رہا
“لیٹ جاؤ”
روشانے کی طبیعت کے احساس کرتا ہوا وہ اُسے بولا
“اور آپ”
روشانے جھجھکتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی۔۔۔ ضیغم اس کی بات پر چونک کر روشانے کا نروس چہرہ دیکھنے لگا
“نیند نہیں آ رہی مجھے، تم ریلیکس ہوکر سو جاؤ”
روشانے کی گھبراہٹ اور طبعیت کے پیش نظر ضیغم اُس کو دیکھتا ہوا بولا
پاکٹ سے اپنے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر نکالتا ہوا وہ کمرے میں موجود بلکونی میں چلا گیا۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ کمرے میں واپس آیا تب تک روشانے گہری نیند سو چکی تھی
زیرو بلب کی روشنی میں وہ روشانے پر ایک نظر ڈال کر آہستہ سے الماری کھول کر وہ اپنا آرام دہ سوٹ نکالنے لگا۔۔۔۔ جب وہ بیڈ پر روشانے کے برابر میں لیٹا تب اس کی نظر روشانے کے گال پر پڑی
اُس کی ماں نے تو بے حسی کی انتہا کر دی تھی۔۔۔ ضیغم کو کشمالا کے رویہ پر بے انتہا دکھ ہوا تھا۔۔۔ کشمالا غصّہ میں تھی اِس بات کا ضیغم کو اندازہ تھا مگر وہ روشانے کے ساتھ اس حد تک بدترین سلوک کرے گی۔۔۔ اگر یہ اُسے معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی روشانے کو یہاں چھوڑ کر نہیں جاتا
ضیغم نے آگے ہاتھ بڑھا کر روشانے کے گال کو چھونا چاہا مگر پھر یہ سوچ کر اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا کہ روشانے کی نیند ڈسٹرب ہو گی۔۔۔ وہ خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا
****
صبح ضیغم کی آنکھ کھلی اپنے برابر میں بے خبر سوتی ہوئی روشانے کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا، کل رات اس نے کھانا نہیں کھایا تھا اس لیے اِس وقت اُسے کافی بھوک محسوس ہو رہی تھی،، فریش ہو کر وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا
سیڑھیاں اترتا ہوا وہ ہال میں آیا تو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے سب لوگ اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔ کشمالا ہفتے بعد اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ کر خوشی سے مسکرا اُٹھی
“کب آئے شہر سے” ضیغم شمشیر جتوئی کے گلے لگا تو وہ خوش ہو کر اپنے پوتے سے پوچھنے لگا
“کل رات کو ہی ارادہ بن گیا تھا۔۔۔ کافی لیٹ آنا ہوا ہے اِس لیے آپ سب کو جگانا مناسب نہیں لگا”
ضیغم شمشیر جتوئی کو بتاتا ہوا اب فیروز جتوئی سے مل رہا تھا
“آؤ ناشتہ کرو” ضیغم فیروز جتوئی سے ملتا ہوا،، کشمالا سے ملے بغیر فیروز جتوئی کے برابر میں کرسی پر ہی بیٹھ گیا۔۔۔
کشمالا کے چہرے سے ایک دم مسکراہٹ غائب ہوئی، وہ اُس سے ملا تک نہیں تھا نہ اسکے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ وہ جب شہر سے آتا۔۔۔ ہمیشہ کشمالا کے برابر والی کرسی پر بیٹھتا اور کشمالا خود اسے ساری چیزیں نکال کر دیتی
ضیغم ٹیبل پر موجود ایک ایک چیز پلیٹ میں رکھنے لگا، کشمالا اسے دیکھ کر سُسر اور شوہر کو ناشتہ دینے لگی
“روشانے نہیں دکھ رہی بلاؤ اُسے اور سمجھاؤ کہ ناشتہ وہ صبح سب کے ساتھ ہی کیا کرے”
شمشیر جتوئی کشمالا کو دیکھ کر بولا تو ضیغم خاموشی سے کیٹل سے کپ میں چائے بھرنے لگا
“شانو جا روشانے کو بُلاکر لا”
کشمالا نے کہتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں شانو کو پیچھے کے راستے سے روشانے کے کمرے میں جانے کو کہا
“روشی اُس کمرے میں نہیں ہے جہاں آپ نے شانو کو بھیجا ہے، وہ میرے کمرے میں موجود ہے”
ضیغم کشمالا کو دیکھ کر بلند آواز میں بولا
“شانو یہ ناشتہ میرے کمرے میں لے کر جاؤ اور چھوٹی بی بی کو صحیح سے ناشتہ کرواؤ”
ضیغم ناشتے کی پلیٹ شانو کو دیتا ہوا بولا
“کیا کر رہی ہے وہ تیرے کمرے میں” کشمالا غُصے میں دانت پیستی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی جبکہ شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کشمالا کو دیکھنے لگے
“اصولاً تو اُسے میرے کمرے میں ہی ہونا چاہیے،، بیوی ہے وہ میری۔ ۔۔۔ آپ کو اتنا غُصہ کیوں آ رہا ہے”
ضیغم اب دوسری پلیٹ میں اپنے لئے ناشتہ نکالتا ہوا کشمالا سے پوچھنے لگا
“یہ کس طرح کی بات کر رہے ہو اپنی ماں کے سامنے، شرم نہیں آرہی تمہیں اور یہ الگ کمرے کا کیا چکر ہے”
شمشیر جتوئی ضیغم کو ٹوکتا ہوا ساتھ ہی کشمالا سے پوچھنے لگا
“اوہ تو آپ کے علم میں نہیں ہے یہ بات،، روشی میرے کمرے کی بجائے ہفتے بھر سے اُس کمرے میں رہ رہی تھی جہاں پر اکثر رات کو دیر ہوجانے کی وجہ سے گھر کے ملازموں کو ٹھہرایا جاتا ہے”
ضیغم شمشیر جتوئی کو بتانے لگا جس پر شمشیر جتوئی کے ساتھ ساتھ فیروز جتوئی بھی حیرت سے کشمالا کو دیکھنے لگا
“شمروز کے قتل کے بدلے اُسے یہاں لایا گیا ہے”
اپنی طرف فیروز جتوئی کی خونخوار نظر اٹھتی دیکھ کر کشمالا ضیغم کو آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی
“چاچو کے قتل کا روشی سے کوئی تعلق نہیں ہے ماں،، چاچو اُس کی بھی ماموں تھے۔۔۔۔ یوں قتل کو بنیاد بناکر آپ یا پھر کوئی بھی اُس کے ساتھ بدترین سلوک کرے گا تو یہ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا”
ضیغم ناراض لہجے میں کشمالا کو دیکھ کر بولنے لگا
“کیا کیا ہے تم نے روشانے کے ساتھ” شمشیر جتوئی ضیغم کی بات سن کر خاموش ہو گیا جبکہ فیروز جتوئی غُراتا ہوا کشمالا سے پوچھنے
“موبائل چھپا کر اپنے ساتھ لائی تھی آپ لوگوں کے دشمن سے باتیں کر رہی تھی، جس کی ذرا سی سزا دی ہے میں نے”
کشمالا مجرم بنی ہوئی فیروز جتوئی کو بتانے لگی اب اُسے ضیغم کے حویلی آنے پر خوشی ہونے کی وجہ سے غُصہ آ رہا تھا
“ماں کسی کو مار مار کر اُس کے ہاتھ پاوں سُجھا دینا زرا سی سزا نہیں ہوتی”
ضیغم کشمالا کی بات پر اسے ملامت کرتا ہوا بولا
“تُو خاموش کر، خوب نظر آرہا ہے مجھے،، کیسے ایک ہی رات میں اُس نے شیشے میں اتارا ہے تجھے”
کشمالا ضیغم کو جھڑکتی ہوئی بولی
“خاموش تم رہو مالا اور یہ بات یاد رکھو کہ وہ رباب کی بیٹی بھی ہے۔۔۔ آئندہ اس کے ساتھ اس حویلی میں کوئی بھی برا سلوک نہیں ہونا چاہیے اور ضیغم تم روشانے کو اچھی طرح سمجھا دو،، سرداروں سے اب اس کا ہر تعلق ختم ہو چکا ہے۔۔۔ آئندہ وہ ان لوگوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے سے پرہیز کرے”
شمشیر جتوئی اپنی بہو کو دیکھتا ہوا بولا اور ساتھ ہی اس نے ضیغم کو بھی خبردار کردیا
شمشیر جتوئی کی بات سن کر کشمالا کا منہ بن گیا وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔۔۔۔ فیروز جتوئی بھی غُصہ میں کشمالا کے پیچھے کمرے میں جانے لگا
“بابا سائیں پلیز یہاں پر بیٹھیں، مجھے آپ سے اور دادا سائیں سے ضروری بات کرنا ہے”
ضیغم اُسے واپس کرسی پر بٹھاتا ہوا بولا۔۔۔ وہ جانتا تھا فیروز جتوئی اس عمر میں آکر بھی ہاتھ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتا تھا۔۔۔ جو بھی تھا وہ اپنی ماں کے ساتھ اتنا برا نہیں کرنا چاہتا تھا جتنا وہ اُس کی بیوی کے ساتھ کرچکی تھی
“چاچو کے نہ ہونے سے آفس کا کافی لوڈ مجھ پر پڑ گیا ہے۔۔۔ آپ دونوں تو یہ جانتے ہی ہیں، شہر میں اب میں اپنے فلیٹ میں رہتا ہو۔ ۔۔ اس لیے وہاں پر کھانے اور دوسرے کاموں کے لیے مجھے کافی پرابلم ہورہی ہے۔۔۔ تو میں سوچ رہا ہوں کہ اب روشی کو اپنے ساتھ لے جاؤ”
ضیغم باری باری اُن دونوں کو دیکھتا ہوا بولنے لگا
“کوئی ضرورت نہیں ہے اُسے اپنے ساتھ لے کر جانے کی،، کام کا زیادہ ہی مسئلہ آرہا ہے تو کوئی کام والی رکھ لو۔۔۔ بیوی یہاں پر ہے تو ہفتے بعد یہاں کا چکر بھی لگالیا ہے تم نے، ورنہ تو مہینے مہینے ہم تمہاری شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں”
شمشیر جتوئی باروعب انداز میں بولا تو ضیغم خاموش ہوگیا
“بابا سائیں لیں جانے دیں اسے اپنی بیوی کو اپنے ساتھ۔۔ اِس طرح سے ذمہ داری کا بھی احساس ہو گا اور اپنی سے جڑے رشتوں کی قدر بھی آئے گی”
فیروز جتوئی ضیغم کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر شمشیر جتوئی سے بولا
تب شمشیر جتوئی نے ضیغم کو روشانے کو ساتھ لے کر جانے کی اجازت دے دی جس پر ضیغم نے سکھ کا سانس لیا
“تھینکس دادا سائیں میں کوشش کروں گا ہر ہفتے چکر لگایا کرو اور بابا سائیں آپ یہ بات دل سے نکال دیں کہ میں اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر نہیں کرتا”
ضیغم فیروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا اور ناشتہ کرنے لگا آج رات میں ہی اسے روشانے کو اپنے ساتھ لے کر نکلنا تھا
****
شانو اسے تھوڑی دیر پہلے ہی ناشتہ کروا کر کمرے سے باہر نکلی تو ضیغم کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ بے ساختہ روشانے کا ہاتھ اپنے دوپٹے پر گیا
“خدا کا خوف کرو، میری بیوی بننے کے بعد بھی تم مجھ سے چہرہ چھپاؤ گی”
ضیغم روشانے کی حرکت نوٹ کرتا ہوا بولا اور اُس کے سامنے آ کر بیڈ پر بیٹھا۔۔۔ کل رات کی بانسبت اب وہ کافی بہتر لگ رہی تھی
“پرانی عادتیں فوراً نہیں چلی جاتیں تھوڑا وقت تو لگتا ہے”
روشانے ضیغم سے یہ نہیں بول سکی کہ اُسے چہرہ چھپانے کا حکم، خود اُسی کی ماں نے دیا ہے
“پھر تو مجھے کچھ ایسا کرنا چاہیے،، کہ شرم اور پردے والی عادت جلدی ختم ہوجائے”
ضیغم اس کا ہاتھ تھام کر بولا تو روشانے کا دل زور سے دھڑکا وہ فوراً پلکیں جھکا گئی ضیغم روشانے کا نروس سا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔
ضیغم کی بات سن کر روشانے کے چہرے پر نہ ہی کوئی ناگوار تاثُر ابھرا تھا،، نہ ہی اس نے بےزار ہوکر یا بہانے سے ضیغم سے اپنا ہاتھ چھڑوایا تھا۔۔۔ ضیغم اس کا ایک ایک انداز نوٹ کر رہا تھا۔۔۔ جس سے وہ اندازہ لگا سکے کہ روشانے اس کے ساتھ خوش ہے کہ نہیں
“کچھ سوچ رہی ہو یا پھر کچھ پوچھنا چاہتی ہو”
اُس کی خاموشی محسوس کر کے چند سیکنڈ بعد ضیغم روشانے سے پوچھنے لگا
“کیا آپ کل رات سو گئے تھے”
جو وہ پوچھنا چاہ رہی تھی اس کو سمجھ نہیں آیا کیسے پوچھے اور اس چکر میں وہ الٹا ہی سوال پوچھ بیٹھی
“میرے خیال میں رات تو سونے کے لیے ہی ہوتی ہے۔۔۔ تم کیا سوچ رہی ہوں کل رات جاگ کر مجھے کیا کرنا چاہیے تھا”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ ضیغم کی بات سن کر روشانے ایک دم سٹپٹا گئی
“نہیں وہ میرے پوچھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔ مطلب کہ آپ کل رات کو کہاں پر سوئے تھے”
روشانے ضیغم کی بات سے مزید کنفیوز ہو کر دل میں آیا سوال اس سے پوچھنے لگی۔۔۔
“یہی اِس بیڈ پر تمہارے پاس”
ضیغم یونہی اس کا ہاتھ تھامے غور سے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا
“یہی بیڈ پر میرے پاس”
روشانے آہستہ آواز میں بڑبڑائی، اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی۔۔۔ اسکے ہاتھ کا لرزنا ضیغم محسوس کرچکا تھا
“کیوں کیا نہیں سو سکتا۔۔۔ یا تم نے مائنڈ کیا میرے یہاں سونے پر”
ضیغم اُس سے سوال کرتا ہوا اب بھی اسکے چہرے کی تاثرات دیکھ رہا تھا
“ہرگز نہیں، میرا مطلب ہے میرا وہ مطلب بھی نہیں تھا میں کیو مائنڈ کرو گی”
روشانے اس کی بات پر مزید نروس ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اسے ڈر تھا وہ کسی بات کا مائنڈ نہ کر جائے۔۔۔ ضیغم چند سیکنڈ خاموشی سے اُسے دیکھتا رہا
“شہر چلنا ہے میرے ساتھ”
اچانک سے پوچھتے ہوئے ضیغم نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی تھام لیا۔۔۔ جس پر روشانے حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر اُسے دیکھنے لگی
“واقعی آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے”
وہ اس کے اتنے قریب اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر بیٹھا ہوا تھا روشانے یہ بات بھول گئی اور بے یقینی سے ضیغم سے پوچھنے لگی جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو
“اگر تم میرے ساتھ جانا چاہو گی تو ضرور لے کر جاؤں گا”
ضیغم کی نظریں روشانے کی آنکھوں گالوں کے بعد ہونٹوں کا طواف کر نے لگی۔۔۔ ساتھ ہی وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے انگوٹھے سے نرمی سے سہلانے لگا مگر روشانے اس کا انداز اسکی نظروں کا نوٹس لیے بغیر شہر جانے والی بات پر حیرت ذدہ تھی
“سب سے اجازت مل جائے گی ناں”
روشانے اُس سے اپنا خدشہ ظاہر کرتی ہوئی بہت آس سے پوچھنے لگی تو ضیغم اس کے انداز پر مُسکرایا
“میں سب سے اجازت لے چکا ہوں تم پیکنگ کر لو ہمیں رات تک نکلنا ہوگا”
ضیغم نے بولتے ہوئے نرمی سے روشانے کا ہاتھ دبایا۔۔۔ ضیغم کا موبائل بجنے لگا تو وہ بیڈ سے اٹھ کر موبائل پر کال رسیو کرتا ہوا باہر نکل گیا
ضیغم کے کمرے سے جانے کے بعد روشانے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور یہ مسکراہٹ کافی دنوں کے بعد اس کے لبوں پر آئی تھی جیسے اُسے آزادی کا پروانہ ملا ہو، ویسے ہی کشمالا کمرے کے اندر داخل ہوئی
“تو ایک رات میں ہی پھسا لیا تُو نے میرے بیٹے کو اپنے حسن کے جال میں۔۔۔ زیادہ مسکرانے کی ضرورت نہیں ہے یہ خوشی میں زیادہ دیر تک قائم ہونے نہیں دوں گی۔۔۔ بہت جلد تجھے یہاں سے دفع کرو گی،، پھر اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرواؤ گی تجھ سے بھی زیادہ خوبصورت لڑکی سے۔۔۔ ابھی تو شہر جا اور چند دن خوش ہو لے”
کشمالا روشانے کو دیکھ کر زہر خواندہ لہجے میں بولی اور روشانے کی خوشیاں ملیامیٹ کرتی ہوئی کمرے سے چلی گئی
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...