اس وقت اپنے سامنے تیمور خان کو دیکھ کر روشانے کی خوف سے رُوح فنا ہونے لگی
“کیا لگ رہا تھا تجھے، یہاں ہمارے دشمنوں کے گھر چھپ کر رات گزارے گی اور تیمور خان کو کچھ معلوم نہیں ہوگا، تیری اس حرکت پر آج میں تیری جان لے لو گا”
تیمور خان نے غُصے سے بولتے ہوئے روشانے کی گردن پکڑ کر زور سے دبوچنا شروع کر دیا
“خان مجھے معاف۔۔۔۔ معاف کر دو”
روشانے مشکل سے تیمور خان کے ہاتھ اپنی گردن سے ہٹا کر بول پائی تھی مگر وہ ہاتھوں میں مزید سختی لائے روشانے کی گردن دبوچے جا رہا تھا
روشانے نے کے چیخنے کے ساتھ ہاتھ پاؤں بھی بیڈ پر مارنا شروع کر دیے۔۔۔ اپنے بچاؤ کے لئے وہ بیڈ سے نیچے جا گری اور خوف کے مارے زور سے چیخنے لگی
“روشی۔۔۔۔ روشی کیا ہوا”
ضیغم اُس کی چیخوں کی آواز سن کر روشانے کے کمرے میں آیا تو وہ بیڈ کے نیچے گری ہوئی خوف کے مارے چیخنے کے ساتھ رو رہی تھی
“وہ۔۔۔ خان کہا ہے”
کھڑکی سے چھلکتی ہوئی ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں صبح کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔ روشانے اپنے سامنے بیٹھے ضیغم کو دیکھ کر پریشان ہوتی ہوئی تیمور خان کو کمرے میں تلاش کرنے لگی
“کون خان۔۔۔ کس کی بات کر رہی ہو تم”
ضیغم اتنا تو سمجھ لیا کہ وہ خواب میں بری طرح ڈر گئی تھی مگر کس سے۔۔۔ اُس لیے وہ روشانے سے پوچھنے لگا
“تیمور خان۔۔۔ وہ ابھی یہاں پر موجود تھا۔۔۔ مار ڈالے گا وہ مجھے”
روشانے خوفزدہ ہوکر ضیغم سے بولنے لگی اس وقت اُسے وہ ضیغم سے چہرہ کیا چھپاتی خوف کے مارے اسے اپنے دوپٹے کا بھی ہوش نہیں تھا۔۔۔ ضیغم نے بیڈ پڑا ہوا اس کا دوپٹہ روشانے کو تھمایا تو روشانے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپانے لگی
“تیمور خان نہ ہی یہاں آ سکتا ہے اور نہ ہی تمہیں کچھ کہہ سکتا ہے،، اٹھو شاباش نیچے سے”
ضیغم نے اُس کی آنکھوں میں جابجا خوف کی پرچھائیاں دیکھی تو وہ روشانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا
مگر روشانے نے اس کے ہاتھ کو نظرانداز کرتے ہوئے خود اٹھنا چاہا،، جس کے نتیجے میں اُس کے منہ سے سِسکی نکلی۔۔۔ بے ساختہ اس نے ضیغم کا ہاتھ تھاما ضیغم نے جتانے والے انداز میں اُسے دیکھا اور سہارا دے کر بیڈ پر بٹھانے لگا
“پاؤں میں زیادہ درد تو نہیں ہے” ضیغم اس کے پاؤں کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو روشانے نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔ اب وہ ذرا سا دوپٹہ ہٹا کر اس کی پیشانی کا زخم دیکھ رہا تھا
“شام کو ڈریسنگ کروا لینا”
دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپائے وہ اسے خواب والی لڑکی لگی تو ضیغم اپنے دل میں آئے خیال کی خود نفی کرنے لگا
“مگر ڈرائیور تو تھوڑی دیر میں آنے والا ہوگا مجھے لینے کے لیے”
روشانے اُلجھتے ہوئے ضیغم کو دیکھ کر بولی تو وہ غور سے روشانے کو دیکھنے لگا
“راستے سارے بلاک ہیں،، مشکل ہی ہے تمہارا ڈرائیور آ سکے۔۔۔ سکون سے یہی بیٹھو جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے”
ضیغم اس کی آنکھوں میں پریشانی دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ جو اب دوپٹے میں سے چھلکتی ہوئی اُسے ڈسٹرب کر رہی تھیں
“ایسے کیسے سکون سے بیٹھ سکتی ہوں میں یہاں پر،، پلیز آپ مجھے کسی طرح حویلی چھوڑ آئے”
روشانے کو اس کی بات سن کر گھبراہٹ ہونے لگی تھی اسی لیے وہ بے ساختہ ضیغم سے بولی
“کیوں،، بہت یاد آرہی ہے اپنے ددھیال کی، یا پھر یہ گھر تمہیں جنگل لگ رہا ہے جہاں تم سکون سے نہیں رہ سکتی”
ضیغم اُس کی بات پر اچھا خاصا برا مان کر اُسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا۔۔۔ خواب میں بھی وہ لڑکی دور چلی گئی تھی اور اب وہ بھی جانے کی ہی بات کر رہی تھی
روشانے اُسے غُّصے میں دیکھ کر خاموش ہو گئی۔۔۔ غُصّہ تو اس کا بھی تیز تھا جو وہ پہلی ملاقات میں دیکھ چکی تھی اس لیے خاموش رہنا ہی بہتر تھا
“بھوک تو نہیں لگ رہی تمہیں”
روشانے کی خاموشی محسوس کرکے ضیغم اُس سے پوچھنے لگا کیونکہ کل رات کو بھی اُس نے تکلف سے برائے نام ہی کھانا کھایا تھا جوکہ شمروز جتوئی کے ساتھ وہ بھی نوٹ کر چکا تھا
“اگر میں بولوں گی ہاں، تو آپ کو غُصہ آئے گا۔۔۔ آپ پلیز جا کر سوجائیں”
روشانے کے بولنے پر وہ بنا کوئی جواب دئیے کمرے سے نکل گیا
“اُفف یہ تو سچی میں چلے گئے،، کتنے بدتمیز انسان ہیں، مجھے تو واقعی بھوک لگ رہی تھی”
روشانے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگاتی ہوئی سوچنے لگی تھوڑی دیر میں وہ ناشتے کی ٹرے لے کر کمرے کے اندر داخل ہوا
روشانے دوبارہ اپنا چہرہ چھپاتی ہوئی حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔۔۔ اُس کے گھر کے مرد تو اس طرح خود سے کام کرنا توہین سمجھتے تھے
“یہ دودھ کا گلاس پورا پینا ہے تمہیں”
جس طرح وہ دودھ سے بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ رہی تھی ضیغم اُس کی نظروں کو دیکھتا ہوا بولا
“دودھ مجھے بالکل پسند نہیں”
روشانے بہت آہستہ آواز میں منمنائی
“کوئی فرمائشی پروگرام چل رہا ہے یہاں پر۔۔۔ فوراً اٹھاو گلاس”
ضیغم اب کی بار روعب دار لہجے میں بولا تو روشانے کو ناچار دودھ سے بھرا گلاس اٹھانے پڑا۔ ۔۔ ضیغم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی جسے وہ چھپاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
****
“کیا بنایا ہے جارہا ہے اتنی محنت سے”
ژالے اس وقت کچن میں موجود، چوکلیٹ کوکیز بیک کر رہی تھی کیونکہ وہ تیمور خان کو پسند تھی اور آج تیمور خان گھر پر ہی موجود تھا اور اس کا موڈ بھی خوشگوار تھا اس لئے دوستانہ لہجے میں کچن میں آکر ژالے سے پوچھنے لگا
“محنت کے ساتھ ساتھ محبت سے بھی، چاکلیٹ کوکیز بیک کی ہیں تمہارے لیے تمہیں پسند ہے ناں”
ژالے دھیمے انداز میں بولی اور تیمور خان کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔ اس کی آنکھیں بہت کچھ بول رہی تھی جنہیں دیکھ کر ایک پل کے لئے تیمور خان خاموش ہو گیا۔۔۔ یہ انکھوں کی زبان سمجھنا اتنا بھی مشکل کام نہیں تھا
“دشوار راستے کا انتخاب کیا ہے تم نے،، کچھ حاصل نہیں ہوگا اس راہ پہ چل کر، وقت ابھی بھی ہاتھوں میں ہے، راستہ بدل لو”
تیمور خان ژالے کو سمجھاتا ہوا بولا وہ نہیں چاہتا تھا ژالے کو اس کی طرف سے کوئی بھی خوش فہمی رہے
“راستہ بیشک دشوار ہے مگر غلط تو نہیں ہے نا،، محبت حاصل اور حصول کو سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی خان،، وقت تو ژالے کے ہاتھوں سے کب کا نکل چکا ہے،، اُس نے تمہیں تب سے اپنے دل میں بسایا ہے جب وہ خود اِس جذبے سے واقف نہیں تھی”
ژالے تیمور خان کے سامنے آ کر بولی۔۔۔ آج اس نے پہلی بار تیمور خان کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا شاید زرین پر اُس کا راز اشکارہ ہوچکا تھا تبھی وہ تیمور خان کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کر گئی تھی
“تم اچھی لڑکی ہو ژالے، مگر مجھے روشانے پسند ہے،، ابھی سے نہیں بچپن سے اور میں اُسی سے شادی کروں گا”
تیمور خان نے اُس کے جذبات کا خیال کئے بنا اسے اپنی پسند کا بتادیا جس سے ژالے کا دل کرچی کرچی ہوگیا۔۔۔ وہ زخمی نظروں سے تیمور خان کو دیکھنے لگی
وہ ژالے کو ایک نظر دیکھ کر کچن سے جا چکا تھا۔۔۔ ژالے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی بیک کیے ہوئے کوکیز نکالنے لگی۔۔۔ اپنے کمرے میں آکر وہ اپنی خالہ سے موبائل پر بات کرنے لگی۔ ۔۔۔ کبریٰ خاتون سے اجازت لے کر وہ چند دن خالہ کے پاس رکنا چاہتی تھی۔۔۔ زخم نیا تھا اور تازہ بھی بھرتے بھرتے وقت تو لگتا ہی
****
دوبارہ ضیغم کی آنکھ کُھلی تو صبح کے دس بج رہے تھے وہ اپنے کمرے سے نکل کر لیونگ روم میں آنے لگا مگر وہاں ایک جذباتی منظر اُس کا منتظر تھا۔۔۔ دائیں طرف صوفے پر شمروز جتوئی اور اُس کے برابر میں روشانے بیٹھی تھی دونوں کی آنکھیں اشکبار تھیں اور سامنے ٹیبل پر پرانا فیملی البم کُھلا ہوا رکھا تھا یقیناً اِس وقت شمروز جتوئی اور روشانے، رباب کا ذکر کر کے اور تصویریں دیکھ کر افسردہ ہو گئے تھے
روشانے اس وقت کالج یونیفارم کی بجائے رمشا کے ڈریس میں موجود تھی، ہلکے سبز رنگ کے کپڑوں میں وہ ضیغم کو اپنے دل کے بہت قریب لگی ضیغم گلا کھنگارتا ہوا لیونگ روم کے اندر داخل ہوا تو دونوں ہی اُس کی طرف متوجہ ہوئے روشانے نے فوراً دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپالیا
“کیا تم نے یہاں آتے ہی رونے والی بیماری چاچو کو بھی لگا دی ہے”
ضیغم روعب دار لہجے میں روشانے کو گھورتا ہوا بولا اور ان دونوں کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا
“کیا تم بچی کو آنکھیں دکھا کر بلاوجہ کا روعب ڈال رہے ہو،، ہم دونوں تو رباب کا ذکر کر رہے تھے باتوں میں وقت گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوا”
شمروز جتوئی اپنی آنکھیں خشک کرتا ہوا ضیغم کو بتانے لگا تب شمروز کا موبائل بجنے لگا تو وہ اٹھ کر روم سے باہر نکل گیا۔۔۔
روشانے ابھی بھی سر جھکائے اُداس بیٹھی تھی،، ضیغم دوپٹے میں چھپا ہوا اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر شمروز جتوئی والی جگہ پر بیٹھا ساتھ ہی البم اٹھا کر رباب کی تصویر دیکھنے لگا
“کتنی عجیب بات ہے ناں، آج میں نے پہلی بار اپنی ماما کو دیکھا ہے ورنہ اس سے پہلے تو صرف تائی ماں سے اُن کے بارے میں سنا ہی تھا”
روشانے کے بولنے پر ضیغم اُسے دیکھنے لگا اس پل ضیغم کا دل شدت سے چاہا کہ وہ اس لڑکی کی آنکھوں سے آنسو پوچھ ڈالے جو کہ اب سیدھا اس کے دل پر گر رہے تھے
“میں نے اپھو کو دیکھا ہی نہیں ان سے ڈھیر سارا پیار اپنا حق سمجھ کر وصولتا رہا ہو، خوب لاڈ اٹھاتا، فرمائشیں پوری کرواتا تھا اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر وہ ہمارے درمیان ہوتی تب بھی وہ تم سے زیادہ مجھے پیار کرتی”
ضیغم روشانے کو بہلانے کے غرض سے بولنے لگا
“وہ کیسے ہمارے درمیان ہو سکتی تھی بھلا، اُن سے تو ان کی زندگی ہی چھین لی تھی بڑے ماموں نے، کیوں اتنی بے رحمی سے مار ڈالا اُنہوں نے میرے بابا کو”
روشانے کے انداز میں شکوہ یا غُصہ نہیں تھا بلکہ اس کی آواز میں محرومی تھی اپنے ماں باپ سے بچھڑنے کا درد،، اُس کی بات پر جیسے ضیغم کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا۔۔۔ اسکے اپنے باپ نے کتنی بےرحمی سے مار ڈالا تھا اس لڑکی کے باپ کو۔ ۔۔۔ ضیغم کو اپنے سامنے بیٹھی لڑکی پر ترس آنے لگا
“تم اپنے بڑے ماموں کے بیٹے سے اس کی زندگی چھین کر اپنا بدلہ پورا کر لو، قسم کھا کر کہتا ہو اُف تک نہیں کروں گا”
ضیغم ٹیبل پر موجود فروٹ باسکٹ سے چھری اٹھا کر روشانے کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
“میں اتنی بے رحم اور ظالم ہرگز نہیں ہو سکتی کہ اپنی محرومیوں کا بدلہ کسی کی جان لے کر پورا کرو”
روشانے ضیغم کے ہاتھ سے چھری لے کر واپس رکھنے لگی تبھی بےاختیاری میں ضیغم، اُس کے چہرے سے دوپٹہ ہٹانے لگا
ایک بار پھر وہ دور کہیں اپنے خواب میں پہنچ چُکا تھا۔۔۔ اُسے بس اتنا یاد تھا کہ اگر کوئی بھیانک آواز آئے تو وہ مڑ کر نہیں دیکھے گا،،
وہ روشانے کو اپنے سے دور جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا
خواب میں تو وہ اُس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا مگر اِس وقت روشانے کا چہرہ دیکھتے ہوئے ضیغم کا دل گواہی دینے لگا اگر وہ خواب میں بھی اُس پوشیدہ چہرے سے آنچل سرکا دیتا تو لازمی، وہ یہی چہرہ ہوتا جو اس وقت اس کے سامنے موجود تھا۔۔۔ اب وہ با آسانی اُس کے آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے چُن رہا تھا
جبکہ دوسری طرف ضیغم کی حرکت پر روشانے چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔۔۔ اُسے آنسو صاف کرتا دیکھ کر روشانے کا دل بے اختیار زور سے دھڑکا تھا۔۔۔
“ساری زندگی اپھو کی طرح نہ صرف تمہارے لاڈ اٹھا سکتا ہوں بلکہ تمہاری ساری فرمائشیں بھی پوری کر سکتا ہوں۔۔۔ تم چاہو تو مجھ سے ڈھیر سارا پیار بھی وصول سکتی ہو”
ضیغم دھیمے لہجے میں روشانے سے کہہ رہا تھا اور وہ حیرت سے پوری آنکھیں کھولے ضیغم کو دیکھ رہی تھی
وہ اس بات کو بڑھاوا نہیں دے سکتی تھی کیونکہ اس میں اپنی ماما کی طرح ہمت نہیں تھی اس لیے دوبارہ اپنا چہرہ دوپٹے سے چھپاتی ہوئی،، وہ صوفے پر تھوڑے فاصلے سے بیٹھ گئی
“طبیعت کیسی ہے تمہاری،، میرا مطلب ہے، پاؤں میں درد تو نہیں ہے اب”
ضیغم اس کی حرکت پر بنا کسی ردعمل کا اظہار کرے اب خود بھی نارمل لہجے میں اُس کی طبیعت پوچھنے لگا ۔ ۔ ۔ وہ اپنےخواب والے سحر سے آزاد ہوچکا تھا
“کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں، اب تو چلنے میں بھی درد نہیں ہو رہا”
روشانے اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی کہنے لگی مگر اُسکی آنکھیں بے تاثر تھی
“ریئلی ذرا چل کر تو دکھاؤ”
ضیغم کی بات سن کر وہ کنفیوز ہو کر اُسے دیکھنے لگی مگر وہ منتظر تھا اسی لیے روشانے صوفے سے اٹھ کر چلنے لگی
“گڈ، اب یہاں سے باہر نکل کر سیدھا جا کر الٹے ہاتھ پر مڑو وہاں پر کچن موجود ہے، جلدی سے جا کر میرے لئے ناشتہ بنا کر لاؤ”
وہ صوفے پر مزید ریلیکس ہوکر بیٹھتا ہوا روشانے کو حکم دینے لگا جبکہ روشانے منہ کھولے ضیغم کو دیکھنے لگی
“کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو کیا ابھی بھی کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی میں نے”
ضیغم سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو وہ نفی میں سر ہلا کر کمرے سے باہر نکل گئی
روشانے کے کمرے سے جانے کے بعد کے ضیغم کے چہرے کے تاثرات ایک دم سنجیدہ ہو گئے۔۔۔ اُسے اپنی بات کے نظر انداز کیے جانے پر برا نہیں لگا تھا،، وہ جان گیا تھا روشانے کم ہمت لڑکی ہے۔۔۔ اور جو اس کا اپنا دل خواہش کر بیٹھا تھا،، اس خواہش کی تکمیل ایک ناممکن سی بات تھی
****
“روشی تمہیں معلوم نہیں ہے اگر بڑے خان، اماں حضور یا تیمور خان میں سے کسی کو بھی معلوم ہوگیا کہ تم شمروز جتوئی کہ شہر والے گھر میں وجود ہوں تو تمہارے ساتھ ساتھ میں بھی بری طرح پھنسو گی”
شام میں جب زرین کی کال آئی تو وہ روشانے کو بولنے لگی
“تائی ماں آپ تو ایسی باتیں کرکے مجھے ڈرا رہی ہیں”
روشانے واقعی ڈر گئی تھی مگر اسے معلوم تھا زرین جو کچھ کہہ رہی ہے وہ سچ ہے
“ڈرا نہیں رہی ہوں بچے سمجھ آ رہی ہو تجھے، میں نے اور ژالے نے یہاں پر سب سنبھال لیا ہے کسی کو شک بھی نہیں گزرا ہے۔۔۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے آج ڈرائیور نہیں آ سکا وہ کل صبح تمہیں لینے کے لیے آئے گا اور یہاں حویلی چھوڑ دے گا۔۔۔ اگر کوئی سر کی چوٹ کے بارے میں پوچھے تو رونے یا گھبرانے مت بیٹھ جانا،، کہہ دینا کالج میں گر گئی تھی۔۔۔ کل صبح تک جلدی جلدی حویلی پہنچو، تین چار یہاں گزار لو پھر واپس چلی جانا ”
زرین اسے ڈھیر ساری نصیحتیں کرکے فون رکھ چکی تھی تب ضیغم کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوا اندر آیا
روشانے زرین کی کال سن کر پریشان ہو گئی تھی، اس لیے بے خیالی میں ضیغم کو دیکھے گئی،، ضیغم اُس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر فرسٹ ایڈ باکس ہاتھ میں تھامے چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اس کے دوپٹے کا سرا روشانے کے چہرے تک لا کر اس کا چہرہ کور کرنے لگا،، تو روشانے پوری طرح ہوش میں آئی
“کوئی پریشانی ہے” ضیغم فرسٹ ایڈ باکس کو ٹیبل پر رکھتا ہوا اُس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھنے لگا تو روشانے نے نفی میں سر ہلایا
“یہ نقاب کس عمر میں کرنا شروع کیا تم نے”
ضیغم روشانے سے پوچھتا ہوا اسکی پیشانی سے ہلکا سا دوپٹہ سرکا کر اُس کا زخم دیکھنے لگا
“باقاعدگی سے نقاب نہیں کرتی، بس دادی حضور کا حکم ہے کہ کسی غیر کے سامنے اپنا چہرہ نہ دکھایا کرو”
روشانے کی بات سن کر ضیغم اُسے گھور کر دیکھنے لگا
“کیا تیمور خان سے بھی چہرہ چھپاتی ہو”
ضیغم نے سوالیہ نظروں سے روشانے کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر اُس نے نفی میں سر ہلایا
“اُن سے چہرہ کیوں چھپاؤں گی وہ غیر تو نہیں ہیں،، گھر کے ہی فرد ہیں ناں” روشانے اُسے سمجھاتی ہوئی بولی تو ضیغم کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی
“وہ غیر کیوں نہیں ہے وہ بھی تو کزن ہے، جیسے میں کزن ہوں، ایک گھر میں رہنے سے کیا ہوتا ہے جب اسے چہرہ نہیں چھپاتی تو پھر مجھ سے بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے،، ہٹاؤ اس دوپٹے کو اپنے چہرے سے”
آخری جملہ ضیغم نے اُسے حاکمانہ لہجے میں کہا تو روشانے نے اپنے چہرے سے دوپٹہ ہٹا لیا
“یہ کام چاچو سے نہیں ہوا جاتا،، اس لیے انہوں نے مجھے کہا کہ تمہاری ڈریسنگ کردو اب سیدھی ہو کر بیٹھ جاؤ بلکل”
ضیغم اس کی پیشانی پر لگی ہوئی بینڈچ اتارنے لگا تو روشانے زور سے اپنی آنکھیں بند کر لی
ضیغم اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا روشانے کے چہرے کی معصومیت نے اور حسین نقش نے لمحہ بھر میں پھر سے ضیغم کو اپنے سحر میں جکڑ لیا،، وہ ایک بار پھر کہیں کھو سا گیا۔۔۔
اُس کے چہرے سے نظریں ہٹانا ضیغم کو ایک مشکل کام لگا
وہ یہاں اُس کی بینڈیج کرنے آیا تھا لیکن اب خود کو بے بس محسوس کرتا، وہ کسی سحر میں جکڑا ہوا وہ روشانے کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ روشانے جو کافی دیر سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھی،، اپنے چہرے کو ضیغم کی نظروں کے حصار میں محسوس کر کے آنکھیں کھولے اُسے دیکھنے لگی
“کک۔ ۔۔۔ کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں”
روشانے ہچکچاتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی،، تو اُسی پل ضیغم کسی سحر سے آزاد ہوا
“چہرہ ڈھک لو اپنا”
ضیغم کی بات سن کر روشانے حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگی کیونکہ تھوڑی دیر پہلے اُسی نے چہرے سے دوپٹہ ہٹانے کا حکم دیا تھا اور اب وہ خود ہی چہرے ڈھکنے کو کہہ رہا تھا۔۔۔ ضیغم کی بات مانتے ہوئے اس نے دوبارہ اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا
اُس کے چہرے کو ڈھکنے میں ہی ضیغم کو اپنی عافیت لگی ورنہ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر بے اختیار ہو جاتا تھا اور اتنی بے اختیاری خطرناک ثابت ہوسکتی تھی،، پائیوڈین کی مدد سے وہ روشانے کی پیشانی کا زخم صاف کرنے کے بعد ڈریسنگ کرتا ہوا سوچنے لگا
“گڈ تم تو کافی بہادر ہو، میں سمجھ رہا تھا بینڈیج کرتے ہوئے کافی ڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑے گی تمہارے ساتھ”
ضیغم روشانے کے بینڈیج کرنے کے بعد اُسے دیکھتا ہوا بولا
“نہیں میں بالکل بہادر نہیں ہوں مگر ایک بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔۔ یوں ڈانٹ ڈپٹ کرکے،، کسی کمزور پر اپنا روعب جما کر طاقتوار انسان کو آخر کونسی تسکین ملتی ہے”
روشانے آہستہ آواز میں ضیغم سے پوچھنے لگی وہ اس طرح پہلی بار اپنی زندگی میں کسی مرد سے بات کر رہی تھی بنا ڈرے
“جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ایسے ہی سارے انسان ایک جیسے نہیں ہوتے روشی”
ضیغم اُس کو دیکھتا ہوا بولا
“روشی مجھے پیار سے تائی ماں کہتی ہیں”
روشانے اُسے جتانے والے انداز میں بولی کیونکہ وہ دوپہر میں بھی اُسے روشی روشی کہہ کر مخاطب کر رہا تھا
“میرے منہ سے ہی سن کر اُنہوں نے بولنا شروع کیا ہوگا۔۔۔ اپھو کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ میں پیار سے روشانے کو روشی کہوں گا”
اب کی بار ضیغم اُس کو جتاتا ہوا بولا جس پر روشانے اُسے کنفیوز ہوکر دیکھنے لگی
“تمہیں معلوم ہے تمہاری پیدائش کے تمہارا نام، یعنی روشانے کس نے رکھا تھا”
ضیغم کو محسوس ہوا جیسے وہ اُس سارے واقعے سے لاعلم ہے، تبھی وہ روشانے سے پوچھنے لگا
“تائی ماں نے ہی تو رکھا تھا”
روشانے فوراً بولی
تب ضیغم نے روشانے کو اس کی پیدائش والے دن کا واقعہ بتایا جب وہ اسکول جانے کی بجائے رباب سے ملنے چلا آیا تھا
روشانے کو یہ بات سن کر کافی حیرت ہوئی،، اگر یہ بات سچ تھی تو تائی ماں نے اُسے لاعلم اس لیے رکھا ہوگا کیوکہ یہ بات دادی حضور کے علم میں ہرگز نہیں ہوگی
“روشی”
ضیغم کی بات سن کر روشانے کمرے سے جانے لگے تب ایک دم اسے ضیغم نے پکارا۔۔۔ روشانے پلٹ کر کے ضیغم کو دیکھنے لگی
“کل تمہارے یہاں سے جانے کے بعد،، میرا مطلب ہے تم دوبارہ یہاں ہم سے ملنے آؤں گی ناں،، چاچو تمہیں بہت مس کریں گے۔۔۔ چچی اسد اور وفا بھی تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے”
ضیغم روشانے کو اپنے دل کی حالت سے بے خبر رکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔وہ چاہتا تھا کہ روشانے دوبارہ یہاں آئے،، شاید وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ روشانے اسے بھولے نہ
“ماموں کہہ رہے تھے کہ وہ شام میں میری، مامی اور بچوں سے بات کروائیں گے۔۔۔ ماموں کو دیکھ کر آتی ہوں شاید وہ ابھی فری ہوں گے”
ضیغم کی بات کو یکسر نظر انداز کر کے وہ کمرے سے جانے کے لیے دوبارہ مڑی۔۔۔ روشانے جانتی تھی کہ اس کی حویلی کا کوئی فرد نہیں چاہے گا کہ روشانے ان لوگوں سے کوئی تعلق رکھے۔۔۔ اور وہ اتنی دلیر نہیں تھی کہ چوری چھپے اُن لوگوں سے ملتی
“روشی”
ضیغم نے اُسے دوبارہ پکارا۔۔۔۔ اب کی بار اُس کی آواز میں کافی بےبسی تھی روشانے دوبارہ پلٹ کر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
ضیغم کا دل چاہا وہ اُسے ایک بار پھر چہرے سے دوپٹہ ہٹانے کا کہہ دے، ایک دفعہ پھر ضیغم کے دل میں اُس کا چہرہ دیکھنے کی خواہش جاگی تھی۔۔۔ معلوم نہیں وہ یہ چہرہ پھر کبھی دیکھ سکے گا کہ نہیں۔۔۔۔ روشانے جو اُس کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی وہ بنا کچھ بولے خود ہی کمرے سے باہر چلا گیا
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...