ناول جنت کی تلاش بیک وقت رومانوی ، سیاسی اور سماجی ناول ہے۔ جس میں تاریخی حوالوں کو بھی بروئے کار لایا گیا ہے۔ چنانچہ ہم اسے تاریخی عنصرسے خالی بھی نہیں کہہ سکتے ۔ ناول کاآغاز کوئی چونکا دینے والا یا پر کشش نہیں ہے۔ اس کا آغاز سیدھے سادے انداز میں سفر نامے جیسا ہے۔ کہانی نگار نے شروع میں تشریحات کے ذریعے قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جس کی وجہ سے فنی طور پر ناول کے انداز کو دھچکا سا لگا ہے۔ ناول کی پوری فضاءپر تین بڑے کرداروں میں شامل امتل چھائی ہوئی ہے۔ امتل کا بھائی عاطف اور دوست وسیم بھی کہانی کے بڑے کردار ہیں لیکن مرکزی حیثیت امتل کو ہی حاصل ہے۔
امتل اور اس کا بھائی پڑھنے والے کو ہر وقت شکوک و شبہات اور پس و پیش میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یہ بات الجھا دیتی ہے کہ مانسہرہ کے ڈاک بنگلے اجنبیوں کی طرح رہتے ہوئے جبکہ اس سے پہلے امتل اور اس کے بھائی عاطف کی وسیم کے ساتھ دعا و سلام بھی نہیں ہوئی تھی اچانک عاطف وسیم سے آکر کہتاہے کہ میرا روالپنڈی میں ضروری کام ہے میری بہن میرے ساتھ نہیں جانا چاہتی تم اس کا خیال رکھنا یہاں آپ سے بہتر ہمیں کوئی نظر نہیں آتا وغیرہ ۔ اور امتل کا کھلنڈرے چھوکروں کی طرح وسیم کی جیپ میں اگلی سیٹ پر بیٹھ جانا سچا سہی لیکن ہمیں ضرور عجیب سا لگتا ہے۔
اسی طرح رات کو امتل کا بیمار پڑ جانا اور عاطف کا وسیم کے پاس آنا اور کہنا کہ میں اور چوکیدار ڈاکٹر کو لانے جارہے ہیں اُن کے پاس گاڑی موجود ہے اور بیمار کو جلد ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ جائیں اور ڈاکٹر کو لائیں اور تب ڈاکٹر بیمار کا معائنہ کرے بھائی جاتے ہوئے اپنی بہن کو ڈاکٹر ہی کے پاس کیوں نہیں لے کے جاتا۔ تاکہ جلد از جلد ڈاکٹر کی رائے لی جا سکے۔ لیکن شاید جان بوجھ کر امتل کو کسی مرد کے حوالے کرنا چاہتا ہے اس لیے کہ آئندہ بھی وہ اس قسم کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے۔ گلگت اور سکردودریائوں سے خوف کھانے کا حیلہ بناتے ہوئے وہ امتل اور وسیم کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امتل لڑکی ہو کر دریائوں سے نہیں ڈرتی اور عاطف مرد ہو کر دریائوں سے لرزاں ہے۔ یہ ایسے واقعات اور حالات ہیں کہ جن میں کوئی فطری پن دکھائی نہیں دیتا۔بلکہ ایک زبردستی اور جبر دکھائی دیتا ہے۔ جیسے ٹھنڈے سریے کو کسی نے طاقت سے ٹیڑھا کر دیا ہو۔
علاوہ ازیں امتل اور وسیم سے روالپنڈی سے جہازمیں بیٹھ کر کراچی چلے جاتے ہیں یہاں (مانسہرہ ) وہ جس فوکسی میں سڑکوں پر فراٹے بھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ کراچی میں بھی ان کے پاس ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ جہاز میں فوکسی کو نہیں لے جاسکتے تھے۔ آیا ان کے پاس اس طرح کی دو گاڑیاں تھیں یا ایک ہی گاڑی کراچی کیسے پہنچی یہ وہ کڑیاں ہیں جو کہانی میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے خلا کا باعث بنتی ہے۔ امتل کا کردار خود کشی کی ناکام کوشش بھی کرتا ہے۔ ذاتی طورپر مجھے اور تمام انسانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی نامراد شخص کے ساتھ ٹوٹ کر ہمدردی کرے لیکن وہ خود کشی کرنے میں ناکام رہی ہو۔ جس نے خود کشی کی آرزو میں بھی ناکامی کا منہ دیکھا۔ اس کی مایوسی اور حسرت ناگفتہ بہ ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ امتل سے ہمیں ذرہ برابر ہمدردی یا محبت نہیں ہوتی۔ ہم اس کی اس نامرادی اور مایوسی کے پس منظر میں کارفرما حالات و واقعات کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کردار میں کہیں بھی کمزوری یا مظلومیت دکھائی نہیں دیتی ۔
پورے ناول میں ہمیں امتل کسی بھی جگہ مجبوری اور لاچاری سے دو چار نظر نہیں آتی ۔ وہ ایک سخت چٹان اور ناقابلِ تسخیر طاقت دکھائی دیتی ہے۔ علم و فضل اور بحث و مباحثے میں بھی کوئی اسے زیر نہیں کر سکتا ۔آغاز کے تھوڑی دیر بعد ہی قاری بھی اس کے استدالال پر ایمان لے آتا ہے۔ اور اس کاذہن یقین کر لیتا ہے کہ امتل ہر مشکل سے مشکل سوال کا جواب بڑی کامیابی کے ساتھ دے سکتی ہے۔ ہم پہلے سے جان لیتے ہیں کہ امتل کسی مسئلے کوگھتی کی طرح سلجھا ئے گی ۔ اور وہ واقعی وہ ایسا جواب دیتی ہے کہ سوال کرنے والا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
سوال ہے اور اس کے بعد ایسا مکمل جواب اور سخت جواب کہ اس لامتناہی سلسلے نے بے شک ناول کو اکتاہٹ اور بوریت سے بھی دوچار کر دیاہے۔ شروع سے لے کر آخر تک سوال جواب کی ایک ہی حیثیت رہتی ہے جس پر امتل مکمل طور پر حاوی ہے۔ دنیا جہاں کاکوئی سوال نہیں جس کے جواب میں امتل لوگوں کا منہ بند نہ کرسکے اس کی مرضی کے خلاف کوئی لفظ نہیں بول سکتا اس مرضی کے خلاف سیر و سیاحت کا پروگرام نہیں بن سکتا وہ کہیں بھی زیر نہیں دکھائی دیتی وہ ہر مقام پر زبردست ہے۔
ناول نگار نے اس ناول میں نفسیاتی حوالوں سے بھی انسان کے دل میں جھانک جھانک کر دیکھا ہے۔ انسان کی شخصیت کے حوالے والدین سے ملتے ہیں یہ کسیایک امتل کی بات نہیں بلکہ شاید وہ شخصیت جس ماں اپنے خاوند سے محبت کی بجائے نفرت کرتی ہو اور یہ نفرت بچے کی رحم میں موجودگی کے دوران بھی ہو تو ناول نگار کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح امتل جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ۔ امتل کی شخصیت پر اس کی ماں کے جذبات کا بڑا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ تلخی تمام عمر اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔اسے کسی سے بھی محبت نہیں اس کی ساری بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ زندگی کسی کو کیا دیتی ہے اور موت سے کیا ملتا ہے ۔ اس کی شخصیت کے نزدیک زندگی اور موت دنوں لا یعنی حوالے ہیں ۔ ان دونوں سلسلوں میں کوئی ثمر نہیں دونوں خالی ہیں۔ امتل کی باتوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی اور موت کی بدولت سب کچھ عارضی ہے اور بے معنی ہے۔
کیا رنگ دوستی کا کیا روپ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
اب میری زندگی میں آنسو ہے اور نہ آہیں
لیکن یہ ایک میٹھاسا روگ میرے جی کا
اک تنکہ آشیانہ ایک راگنی اثاثہ
سبھی لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہیں مرد جنس کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتے بلکہ ناول میں کھل کر بیان کیاگیا ہے کہ لوگ جنسی بھیڑےے ہیں امتل بلاامتیاز سبھی کو ایک جیسا سمجھتی ہے اس لیے کہ اس نے دھوکے کے فریب یا زبردستی کا جنسی مشاہدہ کیا ہوا ہے۔ اب اس کی نفسیات کا یہ فطری پہلو ہے کہ اسے ہر مرد کے روپ میں ”سمیع“ دکھائی دیتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں فطری طورپر انسان مایوسیوں اور بدگمانیوں کی اتاہ گہرائیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ دنیا سے کنارہ کشی اور موت کی آغوش میں پناہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ لیکن مایوسی اور ناکامی کی حد یہ ہے کہ اسے آغوش اجل میں بھی پناہ نہیں ملتی اسے موت بھی زندگی ہی کی طرح دھوکہ و فریب دکھائی دیتی ہے۔ اُسے خدشہ لاحق رہتا ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ اس کی نظریں وقت کی تاریکیوں کو چیر کر تاریخ کی وسعتوں میں سرگرداں ہو جاتی ہےں تو معلوم ہوتا ہے کہ خاک میں کیا صورتیں ہو ں گی کہ پہناں ہو گئیں۔
نہ گور ِ سکندر نہ ہے قبر ِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اوّل و آخر فنا ظاہر و باطن فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ناول نگار نے مجموعی طور پر پاکستان اور پھر بالخصوص پاکستان کے دوصوبوں ایک صوبہ سرحد اور دوسرا بلوچستان (کوئٹہ ) کوموضوعِ بحث بنایا ہے۔ دونوں صوبوں کی تہذیب و ثقافت بھی واضح کیا گیا ہے۔ کوئٹہ میں ان لوگوں کی بڑی بڑی پگڑیوں ، شلواروں اور لمبی لمبی قمیصوں کی روشنی میں تہذیب، تمدن ، اور ثقافت کی جھلکیاں پیش کی گئیں ہیں۔ قہوہ دونوں صوبوں کی مشترکہ روایت ہے۔ جسے کھانے کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی مہمان نوازی اور خلوص کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اوگی کا تھانیدار ہو ، ناران کی اماں حوا یا مینگورہ کا وزیر خان اور اس کی خوبصورت بیوی مہمان نوازی میں سبھی ایک دوسرے سے بڑ ھ کر ہیں۔
امتل جیسی لڑکیاں اپنے مخصوص حالات کے تحت بے شک نسوانیت کھو بیٹھتی ہیں۔ لیکن انھیں اپنی نسوانیت کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب ناران کی اماں حواامتل کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ہچکچاتی ہے۔ اور سوات میں مرغزار کے راستے میں وزیر خان کی بیوی امتل سے ہاتھ ملانے کے بجائے شرما جاتی ہے۔ یہاں پر ایسی بلندی اور ایسی پستی دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف امتل ہے کہ وسیم جیسے غیر مرد کے ساتھ پتلون پہنے جیپ کی اگلی سیٹ پر براجمان شانے سے شانہ ملائے بڑی شان کے ساتھ پرُ پیج سڑکوں پر منڈلاتی رہتی ہے۔ تو دوسری طرف نسوانیت اور معصومیت سے مالا مال اماں حوا اور وزیر خان کی بیوی بھی ہے ۔ ایک طرف تو یہ حال ہے لڑکی اور لڑکے میںتمیز نہیں کی جاتی شہروں کے ہسپتال ، میٹرنٹی روم ، نرسنگ ، لیڈی ڈاکٹر ، انجکشن دوائیاں ، پرہیز ، ناز نخرے ، زبردست خوراکیں اور کیا کیا ہیں مگر ادھر اماں حوا کا ایک بچہ جھونپڑے میں پیدا ہو جاتا ہے دوسرا ندی کے کنارے کپڑے دھوتے ہوئے اور تیسرا بھیڑیں چراتے ہوئے یہ وہ اشارے ہیں جو حقیقت اور معنویت پر سوچنے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔
ناول نگار کی ہر لمحے یہی کوشش دکھائی دیتی ہے کہ نہ صرف زندگی بلکہ موت سے بھی اپنے آپ کو دور سمجھنے والے لوگ زندگی اور موت جیسی سچائیوں کے قریب تر آجائیں ۔ زندگی میں غریب بھی ہیں اور سرمایہ دار بھی غریبوں کے زخم بڑے گہرے ہیں ۔ ان کے جھونپڑے ، لباس اور روٹی سے بے نیاز ننھے منے بچے بھی زندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ غریب لوگ اپنے دل کے ناسور چاٹتے ہوئے زندگی کا گوہ گراں کاٹ دیتے ہیں۔ لیکن زندگی تو بہر حال زندگی ہے۔ تو اسے پیمانہ امروز و فردہ سے نہ ناپ ، جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی ۔ کچھ تو ویسے غریب ہیں اور غریب ممالک سرمایہ دار سامراج کے ہاتھوں لٹے پٹے ہیں ۔ معیشت کی جنگ جاری ہے۔ بڑی مچھلیاںچھوٹی مچھلیوں کو نگل رہی ہے۔ ناول میں یہ پیشن گوئی کی گئی ہے۔ کہ یورپ کسی بھی وقت فیصلہ کرے گا کہ ایشیاءپر پانچ ہائیڈروجن بم داغ دئےے جائیں ۔ تاکہ تیس ، چالیس کروڑ عوام کو لقمہ اجل بناتے ہوئے ان سے رہ جانے والے لقمے وہ خود کھاتے رہیں۔ ناول میں یہ حقیت بھی واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے۔ کہ دنیا میں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا جب تک امریکی برتری کا جنازہ نہ اُٹھ جائے۔ حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا اور سوچا جائے تو واقعی ناول نگار کی بات درست نظرآتی ہے۔ امریکہ پوری دنیا پر ا س لیے قبضہ کرنا چاہتی ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے نوالہ چھین لے جس وقت یہ ناول لکھا جارہا تھا اس وقت امریکہ نے عراق او ر افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن امریکہ کے گذشتہ جارحانہ کردار کی روشنی میں ناول نگار کا کہنا مستقبل میں بھی درست ثابت ہو رہا ہے۔ اور یہ صورت ِحال رور بروز گھمبیر ہوتی چلی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں اس ناول میں مشرق و مغرب کے تہذیب و ثقافت کے درمیان فرق کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ مشرق مادیت میں اپنے آپ کو مغرب سے پیچھے سمجھتا ہے۔ اور اس کی اندھی تقلید میں سرگرداں ہیں۔ جبکہ مغرب میں روحانیت کا فقدان ہے۔ اور اس سلسلے میں اہل ِ مغرب کی نظریں اہل مشرقی پر لگی ہوئی ہیں۔ مغرب میں روحانی فقدان کے باعث رشتوں کا تقدس ختم ہو چکا ہے۔ مادہ پرستی کے طوفان میں نفسانفسی اور خود پرستی کا دور دورہ ہے۔ بیٹیاں اور بیٹے بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہاوسسز میں چھوڑ کر نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں اس لیے کہ انہیں اپنے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی ناگفتہ بہ صورت ِ حا ل میں بوڑھے والدین کبھی کبھار پھولوں کا گلدستہ تحفے میں وصول کرکے بالکل اسی طرح شادماں نہیں ہو سکتے جس طرح پنجرے کے پنچھی کو دوچار پھول فراہم کیے جائیں۔ تو وہ انھیں گلشن کانعم البدل نہیں سمجھتا۔ ناول میں ایکضعیف عور ت کی مثال کے علاوہ انگریز سیاح کی آپ بیتی بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے۔ انگریز سیاح اپنے آپکو اس لیے لعن طعن کرتا ہے کہ جب اس کا والد فوت ہو رہا تھا تومذکورہ سیاح سمیت اُ س بوڑھے شخص کے پاس اولاد میں سے کوئی بھی نہیں تھا سب اپنے والد کو حیات وموت کے رحم و کرم پر چھوڑ تے ہوئے کہیں دور جا بسے تھے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے جوانوں کی یہ کیفیت جب بوڑھی ہو جاتی ہے تو ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔ جو انھوں نے اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ روا رکھا تھا۔ ناول میں ایسی مادہ پرستی پر سے خوبصورت انداز میں پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے گاہے گاہے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ:
خرد ارفروز مرا درس حکیمان ِ فرنگ
سینا افروخت مرا صحبت صاحب نظراں
غریباں رازیر گی ساز حیات
شرقیاں را عشق راز کائنات
ناول میں جنت کی تلاش پر دو پہلوئوں سے غور کیا جا سکتا ہے ایک تو یہ کہ اس مادی دینا میں انتہائی ، بے چینی اور انتشار ہے۔ امتل کے روپ میں انسان کسی ایسی جگہ کی تلاش میں سرگرداں ہے جہاں سکون ہو خوشی ومسرت ہو، دکھ درد کی بجائے عیش و دوام ہو ایک تو یہ سکون و راحت کی جگہ جنت ہے۔ دوسرا حوالہ خوبصورت مناظر فطرت کا بنتا ہے۔ اس لیے کہ حسن و جمال کے نمونے قدرتی مناظر ہی میں ہے۔ حسن معنی کے بے حجابی کے لیے شہر نہیں بلکہ جنگل ہی بہترین وسیلہ ہو سکتے ہیں۔ مظاہر فطرت میں حسن مطلق یا خالق کائنات کا حسن جلوہ فرما رہتا ہے۔ یہ اور بات کہ خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و دمن ورنہ ، مظاہر فطرت کے ذریعے شان ِ خداوندی اپنے جلوے اپنی مخلوق پر نچھاور کرتی ہے اس لیے کسی نے کہا ہے کہ :
ایسے فرسودہ مظاہر سے نکل کر اب تو
مجھ سے ملتے وہ کسی اور بہانے آئے
ٹھہرا ہے منظر وہیں جنگل میں آج تک
بچھڑے ہوئے ہیں حسن کے جس کارواں سے ہم
ناول میں حسن معنی کی تلاش اور اس کی شان کے ثبوت کے طور پر کوئٹہ کے دلکش مناظر ، ہزارہ کی جھیل ، سیف الملوک ، سکردو کی جھیل ست پارہ ، اور ”دیواسائی “ کے مقام پر رنگ ، برنگ پھولوں کے مناظر کو خالق ِ کائنات کی شانِ کبریائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اسپینی سیاح کی زبانی کہلوایا گیا ہے ۔ کہ جھیل سیف الملوک بیان کی گرفت میں نہیں لائی جا سکتی ۔ جیسےکہ خدا کے تصور کوبیان نہیں کیا جاسکتا یہ خود دیکھنے کی چیز ہے۔ اس لیے کہ :
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
کھولی ہیں ذوق ِ دید نے آنکھیں تیری اگر
ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یا ر دیکھ
گویا کہ ہر عیاں میں ہے وہ نہاں ٹک سو چ اس لیے کہ:
بہ نگاہِ آشنائے چوں درونِ لالہ دیدم
ہمہ ذوق و شوق دیدم ہمہ آہ و نالہ دیدم
خالق کائنات کا جلال و جمال جگہ جگہ دعوت ِ نظارہ دے رہا ہے۔ اس لیے کہ نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت ِ جمال اپنی زیبائی اور پھر سب سے بڑھ کر :
کوہ و دریا و غروب آفتاب
من خدا رادیدم آں جا بے حجاب
جنت ایک خوبصورت اور دلکش مقام ہے۔ جھیل سیف الملوک ، جھیل ست پارہ ، دیوسائی اور کائنات کے سبھی قدرتی مناظر جنت کی مثالیں ہیں ان مثالوں کی وساطت سے ہم اسی دنیا میں جنت الفردوس کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ انسان جس سکون و راحت متلاشی ہے۔ قدرتی مناظر کے دیدار سے واقعی انسان کو گو سکون قلب اس لیے میسر آجاتا ہے کہ شاید ایسے مناظر کے وسیلے سے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر جلا ل و جمال کے قریب تر ہو جاتاہے۔
ناول میں رفتہ رفتہ محسوس اور غیر محسوس طریقے سے زندگی سے نفریں لوگوں کو زندگی کے قریب لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ جو لوگ زندگی سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں ۔ وہ انسانوں کے منفی ہتھکنڈوں سے تنگ ہو کر زندگی اور انسان کو نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ وہ انسان جس نے جنت نظیر کرہ ارض پر فساد برپا کیا۔ انسانیت کو تہس نہس کرنے کے لیےنت نئے ہولناک سائنسی ایجادات کیے۔ ایٹم بم بنائے ، تاکہ ہنستے کھیلتے مسکراتے بچوں جوانوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو صفحہ ہستی سے مٹادے۔ ہاتھ پائوں کٹے اور ریڑھ کی ہڈی ٹوٹے ہوئے مفلوج کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگتے پھریں ۔ زیریلی گیس سے گھٹ کر بہن بھائی ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیں ۔ اور پھر ظالم آخر ان کی ویڈیو فلمیںبناتے ہوئے بے یار ومدد گار لاشوں پر اشیائے خوردونوش ہوائی جہازوں کے ذریعے گراتا پھرے۔
یہ تو حشر ہے زمین کا۔ ناول کے حوالے سے ایسی نام نہاد انسانیت پر کڑا طنزبھی ہے۔ کہ اگر ایسے انسان کو چاند، یا کسی دوسرے سیارے پر آباد کر دیا جائے تو یہ وہاں بھی خونریزی کا بازار گرم کر دے گا۔ رشوت، لوٹ کھسوٹ، اور چور بازاری سے جمع کی ہوئی دولت انسان کو نودولتیہ بنا دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سنگ دل آرام پسند ، سست و کاہل اور عیش و عشرت کا دلدادہ ہوتے ہوئے دوسرے کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں رکھتا ۔اٹالین سیاح اور کراچی سے تعلق رکھنے والے آنکھوں کے ڈاکٹر کے حوالے سے زورِ بازو سے کمانے اور پھر اسے غریبوں میں تقسیم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ تاکہ انسان کی تخلیق کا خدائی مقصد حقوق العباد کی روشنی میں پورا ہوسکے۔
اٹالین سیاح ہاتھ کی محنت سے اخباریں بیچتے بیچتے ارب پتی ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے صرف اتنی رقم چھوڑ دیتا ہے کہ جس کے ذریعے وتعلیم حاصل کر سکے ۔ اور بعد میں کارزارِ حیات میں اپنی شخصیت کے ظاہری جوہر دکھائے ۔ یہاں پر یہ پیغام صاف سنائی دیتا ہے کہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہونا چاہےے۔ بلکہ ذاتی کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لیے نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے چاہےے۔ اس لیے اٹالین سیاح اپنی تمام تر دولت غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے خیرات کر دیتا ہے۔
آنکھوں کے ڈاکٹر کی بیوی سلطانہ شراب نہیں پیتی لیکن اس میں جرات رندانہ پائی جاتی ہے۔ وہ شرابی ڈاکٹر کے اس لیے تھپڑ مارتی ہے کہ وہ شراب پی کر آپریشن کر رہاتھا اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ جس کے نتیجے میں ایک معصوم ، یتیم غلط جگہ کٹ لگنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو گیا تھا۔ لیکن یہ وہ موڑ ہے جس نے ڈاکٹر کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ وہ تائب ہو کر اپنی باقی زندگی اور مال و دولت غریبوں کی ہمدردی اور غمگساری کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ کراچی سے جاکر گلگت میں فری آئی کیمپ لگاتا ہے۔ غریبوں کی خاطر سادہ زندگی اختیار کر دیتا ہے۔ اپنے وقت کے لحاظ سے ٥٣روپے کا مرغا اس لیے نہیں خریدتا کہ یہ پیسے بھی کسی غریب مریض کی مدد میں خرچ کرے گا۔ اور اپنے مہمانوں کو کڑی کےساتھ روٹی کھلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
زندگی سے بھاگے ہوئے لوگ دوبارہ زندگی میں اس وقت رجوع کر سکتے ہیں کہ برے انسان نیک ہو جائیں ۔ورنہ انسانوں کے برے رویے کے ردعمل میں لوگ یہ کہتے رہیں گے کہ ٹھکرانہ دے جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم ۔ ہ، لوگ دوسروں کو بڑی بڑی نصیحتیں کرتے ہیں لیکن خود اندر سے خالی ہیں۔ وسیم ڈ چ جوڑے کو تو باقاعدہ نکاحکرنے کا مشورہ تو دیتا ہے لیکن خود گیسٹ ہائوس میں وہی کرنے لگتا ہے جو ڈچ جوڑا پہلے سے کر رہاتھا۔ اسے انسان کی منافقت کہےے یا خطا صورتِ حال یہی ہے۔
ناول میں تخلیقی عمل کو ایک زبردست ، لاجواب ، لازوال اور بے مثال عمل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہی و ہ عمل ہے جس کے ذریعے حسن کے مختلف روپ تخلیق ہو کر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ حسن کو تخلیق کرنے والا بھی حسین وجمیل اور بے نظیر ہے۔ جنت بھی اُسی نے تخلیق کی ہے۔ جنت بھی حسن و جمال کا ایک مرقع ہے۔ اس لازوال اور بے مثال کی شان ر ِ بوبیت تخلیقی ہی کے ذریعے ثابت کی گئی ہے۔ خواہ وہ تخلیق چاند سورج ، ستاروں یا دوسرے نظاروں اور مرغزاروں کی ہو یا کائنات یا کسی انسان کی تخلیق ہو ہر تخلیقی عمل اُس کے خالق کائنات ہونے کی دلیل ہے۔ یہاں بھی انسان کو انسان کے کام آنے اور دکھ درد میں شریک رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔ کہاں نلتر کا دور دراز علاقہ اور کہاں کراچی کی وہ لڑکی جو پوری طرح سے عورت بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ انسانیت کے دکھ درد میں شامل ہو جاتی ہے اوربچے کی پیدائش کے موقع پر غریب چوکیدار اور معصوم زچہ کی مدد کرتی ہے۔ یہ تخلیق اور تخلیقی عمل اللہ تعالیٰ کی شان دکھائی دیتا ہے۔ کہ جو ناف کا رشتہ کٹ جانے کے بعد بچے اور ممتا کے درمیان سینے کا رشتہ جوڑ دیتا ہے۔ گویا کہ مناظر کا تخلیقی عمل ہو یا انسان کا تخلیقی عمل زندگی سے بھاگے ہوئے اُن لوگوں کو دوبارہ زندگی کی طرف مائل کر دیتا ہے جو کسی چیز کا یقین بھی نہیں رکھتے ۔ اس لیے تو آخر میں امتل کہہ دیتی ہے کہ میں بھی ایک تخلیق کرنا چاہتی ہوں اور ایک بچے کو جننا چاہتی ہوں۔