ایان نے سافٹ وٸیر لانچ کرنے سے قبل ہی ماٸکروسافٹ کمپنی کا مہنگے داموں بیچ دیا۔
” تم نے ایسا کیوں کیا۔؟“
ولیم خوش نہیں لگ رہا تھا، اسکے سپید چہرے پر ناراضگی کے تاثرات تھے۔
” مجھے یہ پیسہ ڈریم پراجیکٹ پر لگانا ہے۔“
ایان اسے لیپ ٹاپ پر اپے پراجیکٹ کے متعلق بتانے لگا۔
” یہ سافٹ وٸیر حساس اداروں کے استعمال کے لیے بناٶں گا، جو نا تو ہیک ہو سکے گا، نا ہی ایک سے زیادہ ڈیوائسز پر لوکیٹ ہو سکے گا۔“
ایان نے مسکراتی نظر لیپ ٹاپ کی روشن سکرین پر ڈالی اور پھر ولیم کی سمت دیکھا جوبہت متاثر لگ رہا تھا۔
” تم واقعی گریٹ ہو۔“
ولیم نے خوشی کا اظہار کیا۔
ایان مسکرا کر رہ گیا۔
“اچھا اب میڈیا سے کیا کہنا ہے۔”
ولیم نے ایل ای ڈی سے باہر میڈیا کے جم غفیر کو دیکھا۔
“انہیں تم سنبھال لو یار۔ ”
ایان اکتائے لہجے میں بولا۔
ولیم نے کندھے اچکا دیے۔
ایان سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے نیے پراجیکٹ سافٹ ویر کو دیکھنے لگا۔
“یہ ایک محنت اور وقت طلب پراجیکٹ ہے۔ ”
ایان پراجیکٹ کی ڈسکریپشن سیٹ کرنے لگا۔
ولیم نے میڈیا والوں کو ٹال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کی کرنیں نائک پیلس کی درو دیوار سے ٹکراتی عجب روشنی منعکس کر رہیں تھیں، دوپہر اپنے عروج پر تھی، کیلگری پر بادلوں نے آج پھر چھٹی لےلی تھی، شزا نائک ساریہ اور شہروز نائک کے ہمراہ دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہوئی تھی۔
اس نے ریموڈ اٹھا کر ایل ای ڈی آن کی اور نیوز چینل پر چھوڑ دیا۔
” ایان ملک نے اپنا سافٹ وئیر لانچنگ سے قبل ہی مہنگے داموں بیچ دیا۔”
اینکر گلا پھاڑ رہی تھی۔
“ایان ملک کی یہی اوقات تھی۔”
شزا نائک تنفر سے بولتی سر جھٹک کر نیوز کی طرف متوجہ ہوئی۔
ساریہ نائک نے بھی استہزایہ انداز میں سکرین پر ابھرتی ایان ملک کی تصویر کو دیکھا۔
“نائک سافٹ وئیر کمپنی کے برابر آنے کی کسی کی اوقات بھی نہیں ہے۔”
ساریہ مغرور لہجے میں بولی تھی، جبکہ شہروز نائک کو چپ لگ گئ تھی، شاید یہ خبر انکی من پسند نہیں تھی، وہ اٹھ کے بالاج کی بیل کے سلسلے میں نکل گئے۔
” مام ٹریٹ تو بنتی ہے ناں۔ ”
شزا ساریہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
“شیور مائی لو۔”
ساریہ کھلے دل سے مسکرائی تھی، اسکے کندھوں سے پریشانی کا ایک بوجھ سرک گیا تھا، نائک سافٹ وئیر کمپنی کا معیار و مقام اب بھی باقی تھا۔
شزا نے کچھ سوچتے ہوئے لیپ ٹاپ اٹھایا اور کمپنیز کی ریٹنگ چیک کرنے لگی، انکی کمپنی کی ریٹنگ اب بھی ہائی تھی، شزا نائک تفاخر سے مسکرائی، اور سافٹ وئیرز کی ریٹنگز چیک کرتے اسکے خوبصورت تراشیدہ لپ سٹک سے مزین ہونٹوں کا کٹاو لمحوں میں سکڑ گیا۔
اس نے سختی سے لب بھینچ لیے۔
“مام اسکے سافٹ وئیر کی ریٹنگز بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔”
شزا نائک کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔
” ایان ملک کے ٹیلنٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ”
ساریہ سنجیدگی سے بولی تھی۔
” ہمارے سافٹ وئیر کے مقابلے اسکا سافٹ وئیر لانچنگ سے قبل بک گیا ہے تو کچھ تو خاص بات ہوگی ناں۔ ”
ساریہ نائک لیپ ٹاپ اپنی سمت موڑتے ہوئے دیکھنے لگی۔
” ہی از جینیس۔”
ساریہ نے کہا تو شزا غصے سے بلبلا اٹھی۔
” مام وہ ہمارا دشمن ہے۔ ”
شزا کو ایان کی تعریف بری لگی۔
“دشمن کو اسکی خوبیوں اور اسکی فطرت سے مات دی جا سکتی ہے۔ ”
ساریہ نائک کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
شزا نے سر اثبات میں ہلایا۔
” اگر میں اسے اپنے جال میں پھسا لوں مام۔ ۔۔۔؟”
شزا ابرو اچکاتے ہوئے ساریہ نائک کی طرف رائے طلب نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
ساریہ ہنس دی۔
” اونہہ۔۔۔۔۔تم سے اسکا غصہ، ایٹیٹیوڈ برداشت ہی نہیں ہوگا۔ ”
ساریہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔
” یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔”
شزا مغرورانہ انداز میں گویا ہوئی۔
” ہی از ویری میچور۔ ۔۔۔اسے لڑکیوں کی لت نہیں ہے۔ ”
ساریہ نائک ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بولی۔
” مام آپ کو لگتا ہے مرد پھسل نہیں سکتے۔”
شزا سوالیہ انداز میں بولی تھی۔
” جو واقعی مرد ہوتے ہیں، وہ نہ حسن پر پھسلتے ہیں نہ دولت پر۔۔۔۔۔”
ساریہ نائک افسردگی سے بولی تھی۔
” لیکن ایان ملک کو پھسلنا پڑے گا۔ ”
شزا فیصلہ کن انداز میں بولتی چکر کاٹنے لگی، بلیک جینز اور وائٹ شرٹ زیب تن کئے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، وہ ایان کو ٹریپ کرنے کی سازش سوچ رہی تھی۔
” تمہارا دل آ گیا ہے اس پر۔”
ساریہ نائک نے اسے تنقیدی نظروں سے گھورا۔
شزا نائک کے چلتے گویا زمین نے جکڑ لیے،وہ ایڑھیوں کے بل گھومی، بازو سینے پرباندھے وہ بے حد سنجیدگی سے ساریہ کو دیکھنے لگی۔
” جب مجھے کوئی پسند ہوگا، مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔”
شزا جتاتے لہجے میں بولی تھی۔
ساریہ نائک بنا کچھ بولے اپنے موبائل میں غرق ہو گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے تھکن کا شدید احساس ہو رہا تھا، کمر کی چوٹ میں ٹیسیں اٹھنے لگیں تو ایان نے لیپ ٹاپ بند کیا اور سیٹ سے ٹیک لگا کر گہرا سانس خارج کیا، دیوار گیر گھڑی پر نگاہیں پڑیں تو شام کے پانچ بج رہے تھے۔
” اوہ نو۔ ۔۔۔جیمز بڈھے کی خبر لینی تھی۔”
ایان عجلت میں چیزیں سمیٹتا ہوا کھڑا ہوا، تھکن پور پور میں سرائیت کر رہی تھی۔
اس نے ہاتھ بڑھا کہ سیٹ کی پشت سے کوٹ اٹھا کر بازو پر رکھا اور لیپ ٹاپ لیے آفس سے نکل آیا، ولیم جا چکا تھا۔
باہر نکلتے ہی کیلگری کی فضا پر چھائی تازگی نے استقبال کیا، موسم قدرے صاف تھا، البتہ سورج کی کرنیں زدری میں گھلی ہوئیں لگ رہیں تھیں، شیشے کی عمارتوں کے پیچھے چھپے سورج کا منظر عجب دلکشی لیے ہوئے تھا۔
ایان جانتا تھا، وہ اپنے اپارٹمنٹ میں چلی گئ ہوگی، گاڑی کارخ موڑ کر اس نے پیشانی مسلی، جیل سے سیٹ کیے ہوئے بال سٹائل سے نکل کر ہیشانی پر بکھر رہے تھے۔
اپارٹمنٹ کے سامنے گاڑی روک کر وہ اترا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر آیا تھا، ہوا کے دوش پر اسکی ٹائی اڑ کے بغل سے ہوتے ہوئے پیچھے جا رہی تھی، رسٹ واچ پر نگاہیں دوڑاتا وہ اپارٹمنٹ کے دروازے کے سامنے رکا، اسکا اندازہ بلکل ٹھیک تھا۔
دروازے پر دستک دیے وہ کھلنے کا منتظر تھا، چند ثانیے گزرے تھے اسکے قدموں کی مدھم سی چاپ ایان کو سنائی دی۔
دروازہ کھولا تو ہلکے زرد کپڑوں میں ملبوس بال بکھرے بکھرے سے اسکے شانے پر گرے تھے، وہ شاید سوئی ہوئی تھی۔
وفا نے ایک طرف ہو کر اندر آنے کا راستہ دیا۔
ایان آہستگی سے قدم اٹھاتا اندر آگیا، وفا اسکے پیچھے پیچھے چلی آئی اور بیڈ پر بیٹھ گئ۔
” کیسی ہو۔۔۔؟”
ایان نے بات کا آغاز کیا، وفا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” ٹھیک ہوں۔”
وفا آہستگی سے بولی۔
” تمہیں مجھے پوچھنا چاہیے تھا۔”
ایان سنجیدگی سے اسے دیکھتا، کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔
وفا جی بھر کے شرمندہ ہوئی۔
” کیسے آنا ہوا؟”
وفا نے کھلبلی مچاتا سوال کیا۔
” تمہاری بہت یاد آ رہی تھی، ان فیکٹ میں بہت تڑپ رہا تھا۔”
ایان سنجیدگی سے بھنویں سکیڑ کر بولا۔،وفا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” جیمز سے ملنے جانا ہے، اسلیے آیا ہوں، جلدی ریڈی ہو جاو۔”
ایان نے خفگی سے گھورتے ہوئے کہا تو وفا سر ہلاتی اٹھ گئ۔
بلیک جینز اور پنک گھٹنوں تک آتی شارٹ فراک پہنے، سر پر سٹالر اوڑھے وہ بیگ لیے اسکی طرف بڑھی، ایان نے توصیفی نگاہ اسکے سراپے پر ڈالی اور بنا ظاہر کیے اسکے آگے آگے نکل گیا ۔
وفا اسکی تقلید میں قدم بڑھاتی ہوئی گاڑی تک آئی۔
” کیا سوچا تم نے۔۔۔؟”
ایان نے گاڑی سینڑل کیلگری کے روڈ پر ڈالی۔
” کس بارے میں۔۔۔؟”
وفا یکسر ایان بنی تو ایان سخت نظروں سے اسے گھورا۔
” بچےاڈاپٹ کرنے کے بارے میں۔۔۔۔۔۔”
ایان پیشانی پر بل ڈالے چڑ کر بولا تھا، وفا نے رخ موڑ لیا۔
اس نے ابھی کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔
” میں زبردستی بھی تمہیں اپنے ساتھ رکھ سکتا ہوں، کوئی قانون میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن میں تمہیں تمہاری رضامندی سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔”
ایان نے نرم لہجے میں کہا تھا۔
” میں فلحال کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہی۔”
وفا مدھم لہجے میں بولتی ہوئی چپ ہو گئ۔
” اگر ہم خود ہی خود کا خیال نہیں رکھیں گے وفا، تو کوئی ہمارا خیال رکھنے کو نہیں آئے گا۔”
ایان کا لہجہ پہلے کی نسبت نرم تھا۔
وفا خاموشی سے سنتی رہی۔
” تم اپنی ہی سب سے بڑی دشمن ہو وفا، دوسروں کی کی گئ زیادتیاں تمہیں یاد ہیں، کبھی خود کی خود پر کی گئ زیادتیوں کا حساب لگانا، لوگوں نے تمہیں دکھ پہنچایا ہے یا تم نے خود۔”
ایان کا لہجہ سختی میں بدل گیا۔
وفا نے چونک کر اسے دیکھا، وہ سنجیدگی دے ڈرائیو کر رہا تھا۔
” کوئی تب تک ہمیں دکھ نہیں پہنچا سکتا، جب تک ہم خود اس دکھ کے لیے راضی نہ ہوں۔”
” تم نے ہمیشہ یہی سوچا لوگ تمہں دکھ دیتے رہے ہیں، لیکن تم نے کبھی سوچا تم نے ان کو خود تک پہنچنے کی اجازت کیوں دی۔”
ایان نے اسکے جھکے سر کو دیکھا تھا۔
” انسان اپنے حالات کا خود زمہ دار ہوتا ہے، خود سے محبت کرنا سیکھو۔”
ایان نے گاڑی سگنل پر روکی تھی۔
” خود سے محبت ہوتی ہے تو خواہشیں سر اٹھاتی ہیں، میرے پاس خواہشوں کا مان رکھنے کو کچھ نہیں ہے۔”
وفا باہر دیکھتے ہوئے کھوئے لہجے میں بولی۔
” میرےلیے خود سے نفرت ہی آسان ہے، کم ز کم کچھ نا پانے کا دکھ تو نہیں ستاتا ناں۔”
وفا بے حد سنجیدہ لگ رہی تھی، گویا ماضی کے جھروکوں سے باسی ہوا نے چھوا تھا۔
” زندگی سے محبت ہوگی، تب ہی خواہشوں کا مان رکھنے کی جستجو پیدا ہوگی۔”
ایان نے سگنل لائٹس کو دیکھا جو ہنوز سرخ تھی۔
” محبت نام ہی بربادی کا ہے، دکھ کا ،کرب کا ہے، چاہے جس رشتے سے بھی ہو۔”
وفا نے بات ہی ختم کر ڈالی، ایان نے سخت نظر اس پر ڈالی اور سٹئرنگ وہیل پر دباو بڑھاتے ہوئے بےچینی سے سگنل لائٹ کو دیکھا جونہی سبز ہوئی گاڑی فراٹے بھرتی آگے بڑھ گئی۔
وفا نے رخ موڑ کر ایان کو دیکھا جس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔
شام کے سائے اپنے پنکھ سمیٹ رہے تھے، کیونکہ رات نے اپنی سیاہی چھڑکنی تھی، وہی سیاہی جو کئی عیبوں کی پردہ پوشی کرتی ہے، کئی بے بسوں کا بھرم رکھ لیتی ہے۔
گاڑی جیمز کے آفس کے سامنے رکی تو وفا سرعت سے ایان کے ساتھ باہر نکلی، جو بے حد سنجیدگی سے چلتا جا رہا تھا۔
جیمز ہمیشہ کی طرح بے زار لگ رہا تھا، انکے اندر داخل ہوتے ہی اس کے بے زار چہرے کے تاثرات لمحوں میں بدل گئے۔
مسکراہٹ سپءد چہرے پر سجائے اس نے ٹیبل کے نیچے جھک کر فائل اٹھائی اور انکے سامنے رکھ دی۔
ایان نے سنجیدگی سے والٹ سے پیسے نکالے اور ٹیبل پر پھینکتےہوئے واپس ہولیا، وفا نے اسکی تقلید کی تھی۔
ایان گاڑی میں بیٹھ گیا تھا، وفا نے اپنی سیٹ سنبھالی تھی، اسکی حالت عجیب ہو رہی تھی، سامنے ڈیش بورڈ پر اسکی زندگی کے بیس سالوں کے انتظار کو نتیجہ تھا، اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
ایان نے گاڑی اسکے اپارٹمنٹ کے سامنے روکی اور فائل لیے گاڑی سے نکل آیا۔
وفا بوجھل قدموں سے نکلی تھی۔
” یہ تمہاری تلاش، تمہارا مقصد حیات ہے نا۔”
ایان نے بند فائل کے کوور کو دیکھ کر اسکی سمت دیکھا، رات ہلکی ہلکی سیاہی چھڑک چکی تھی۔
” میں نے کبھی کسی کے لیے اپنی انا داو پر نہیں لگائی، تمہارے لیے یہ بھی کیا، لیکن تم خود غرض نکلی ہو، اپنے بارے میں سوچ رہی ہو۔۔۔۔”
ایان کا لہجہ تاثرات سے عادی تھا۔
وہ اسکے ساتھ چلتا ہوا اپارٹمنٹ کے اندر آگیا، کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے گہری نظروں سے وفا کے سفید پڑتے گھبرائے ہوئے چہرے کو یکھا اور فائل کھول لی۔
فائل دیکھتے ہی وہ ششدر رہ گیا۔
اسنے ساکت و حیرانگی سے وفا کو دیکھا، اور فائل اسکی طرف بڑھا دی۔
وفا نے کپکپاتے ہاتھوں سے فائل تھامی اور ساکت ہی رہ گئی۔
یہ نتیجہ تو اسکے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا۔
” مسٹر ملک۔۔۔۔۔۔۔”
وفا بول نہیں پا رہی تھی۔
سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گئی۔
ایان چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا، وفا کی آنکھوں سے موتی پھسل گئے وہ ننگے پیر بھاگتی ہوئی اسکے ہیچھے آئی تھی، بھورے بال شانوں پر پھسل گئے تھے، سٹالر لڑھک گیا تھا۔
وہ آواز نہیں دے پائی، ایان ملک کی گاڑی زن سے فراٹے بھرتی نکل گئی۔
وفا افسردگی سے وہیں بیٹھ گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...