اگوکی کی کہانی ۔ 9
ظفروال سے شکر گڑھ کی شست باندھیں تو سڑک کے شمال کی ذیلی زمینوں میں جہاں بسنتر نالہ ایک گھمن گھیری لیتا اپنا پتن کچھ کچھ چوڑا کرتا ہے، جتنا کہ ایک نالے کی پتن چوڑا کرنے کی استعداد ہے، وہیں رُکھوں کا ایک جھنڈ چوکس کھڑا ہے۔ یہ جھنڈ دسمبر 1971 کی اُس کور چشم ٹھنڈی سویر بھی اِدھرہی تھا اور اس کی اوپری حد کی طرف درختوں کی قطار کے شانہ بشانہ 35 فرنٹیئر فورس (The Charging Bulls) کے جوان چوڑی چھاتی کیے حملہ کرنے کو پر تولتے تھے۔
دن کی روشنی چارسو پھیل چکی تھی اور توپخانے کی فائری سپورٹ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ مگر ہمارے سپاہی اب پلٹنے والے نہ تھے کہ انہیں حملہ کرنے کا حکم تھا۔ محاذوں پر حملہ کرنے والوں کو حکم بجا لانا ہوتا ہے۔ وہ جان دیتے وقت ضروری اور غیر ضروری کسی طرح کےسوال وجواب کےخوگر نہیں ہوتے۔
Theirs not to make reply,
Theirs not to reason why,
Theirs but to do and die …
آج بھی جب ظفروال اور اس کے نواح میں دن ڈھلتا ہے تو رُکھوں کے اس جھنڈ کے لمبے ہوتے سائے سیدھا سامنے کے گاؤں جرپال کی ایک سُرخ رو یادگار پر پڑتے ہیں۔
اگر آپ آج کی تاریخ میں جرپال کےمسافرہیں توگاؤں کی سرحدپر ایک چاردیواری میں ایک یادگار کھڑی ہے۔ سُرخی مائل پتھرسےبنی ایک دیوار ہےجوسوراخوں سےچھلنی ہےجیسے اس نےگولیوں کی باڑھ اپنےاوپر سہی ہو۔ 17 دسمبر 1971 کی اس سویر ہمارے شیر دل جوانوں کی چھاتیاں بھی اس یادگار کی طرح چھلنی تھیں۔
یادگار کے ماتھے کا جھومر ایک قرآنی آیت ہے جو اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کی ابدی زندگی کی بشارت دیتی ہے۔ نیچے ایک عبارت ہمیں بتاتی ہے ’35 فرنٹیئر فورس کے ان 60 سپوتوں کی یاد میں جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ مادرِ وطن کی حفاظت عزت و بقا کے لیے اس مقام پر پیش کیا‘۔
ہندوستانی 3 گرینیڈیئرز کےہتھیاروں اور پُوناہارس کےٹینکوں کے گولوں اورگولیوں کی باڑھ اپنےاوپرسہتے ان سینہ فگاروں کےہراول دستےمیں سب سےآگےیونٹ کےکمانڈنگ آفیسرلیفٹیننٹ کرنل اکرم راجہ شہیدتھے۔
ہندوستانی سپاہ نےجب اپنےخون میں نہایا 35 ایف ایف کےکرنل راجہ کا جسدِ خاکی ہمارے حوالے کیا
تو اس شان سے کہ کرنل کے بازو اسٹین گن اٹھائے اسی پوز میں اکڑ گئے تھے۔ ہمارے دلیر دشمن نے یہ کہہ کر کرنل اکرم راجہ کی بہادری کا اعتراف کیا کہ ’یہ بہادر کرنل موت کو سامنے دیکھ کر بھی نہیں پلٹا‘۔ حکومت پاکستان نے کرنل اکرام راجہ کو بہادری کا دوسرا بڑا اعزاز ہلالِ جرات عطا کیا۔
17 دسمبر کی اس صبح جبکہ سیزفائرکچھ گھنٹوں کےفاصلےپرتھا، دن کی روشنی میں توپخانےکی فائری مدد کے بغیر یہ حملہ ایک طرح سےخودکشی تھی۔ کسی واضح دفاعی مقصد کےحصول کےبغیر اپنی سپاہ کو یوں جنگ کی بھٹی میں جھونک دیناسراسر فارمیشن کمانڈروں کی حماقت تھی، جسکی جواب طلبی کی جانی چاہیے تھی۔
مگر اور بہت سے جواب طلب معموں کی طرح یہ سوال بھی جرپال کی خون پلائی زمین پر اپنے قاتلوں کا سُراغ تلاش کررہا ہے۔
ہمارے دوست ہیں محمد حسن معراج۔ پی اے ایف کالج سرگودھا میں لخت لخت اپنی یادوں کو یکجا کرتے ہیں تو اسی مضمون میں اپنے شہید دوست معظم علی خاور کو بھی یاد کرتے ہیں۔
’2012 میں معظم علی خاور کا جہاز زمین پہ گرا، گڑھا، مگر ہمارے دلوں میں پڑ گیا اور ایسا گہرا کہ ہزار خوشیوں سے بھی نہیں بھرتا‘۔
صاحبو جہاز گرنے پر مادرِ وطن کی کوکھ میں پڑنے والے گڑھے ہوں یا پھر دشمن کی گولیوں سے چھاتی میں ہونے والے سوراخ جیسا کہ جرپال کی اس چھلنی یادگار پر نظر آتے ہیں، اس پاک سرزمین کی قوم، ملک اور سلطنت کے دل میں ایک خلا چھوڑ جاتے ہیں جو ہزار خوشیوں سے بھی نہیں بھرتا۔
ـــ
جرپال کی ہماری یادگار کے ساتھ ہی جنوب میں لوہٹیاں گاؤں ہے جسے اب لوگ بڑا پنڈ کے نام سے جانتے ہیں۔
اس بڑاپنڈلوہٹیاں سےہمارےپنجابی زبان کےجواں مرگ ’جان کیٹس‘ سےجڑی کچھ یادیں ہیں، مگر یہ ذکرہم کسی اورقسط پراُٹھا رکھتے ہیں۔
1971 کی اس سردسویر سےہم 1999 کی گرمیوں میں آتےہیں جب شکرگڑھ بلج میں اسی جرپال۔بڑا پنڈ کی زمینوں کو توپخانے کی ایک بیٹری پلٹتی تھی کہ محاذگرم ہوا چاہتا تھا۔
جیٹھ ہاڑ کی وہ رات بہت لمبی ہونے والی تھی، جب سورج غروب ہونے کے بعد ہم اپنی بیٹری کی توپیں لے کر محاذ کے مسافر ہوئے۔ گرداس مان نےایک گانے میں جہاں ایک موڑ پر آکر بھول جانے اور اپنے متر کو ’لمّی سیٹی‘ مارنے کی درخواست کا ذکر ہے اپنی دبدھا کچھ یوں بیان کی ہے
پہلے موڑ تے ٹھاکر دوارہ، دوجے موڑ تے گردوارہ
تیجے موڑ تے مسجد مندر، جاواں کس دے اندر
ہمارے لیے اس رات راستے کی بجھارتیں بہت زیادہ مشکل نہیں تھیں، سو درمان منڈی کے سٹاپ سے آگے پہلے ہی موڑ پر ٹھاکر دوارہ میں ٹھہر گئے۔
یہیں ہم نےرات کی رات میں مورچےکھودکردن کی روشنی سےپہلے خودکوان میں گم کرلیناتھا۔ ایڈوانس پارٹی میں پہنچےصوبیدار صاحب نےلوکل معاونت سےکچھ ٹریکٹروں کی مدد سےمورچوں کی کچھ نشاندہی کردی تھی اورتھوڑی بہت شکل نکال دی تھی۔ اب گینتی بیلچہ تھا، کُک ہاؤس کےٹینٹ میں پکتالپٹیں مارتاحلوہ تھا اور ہماری بیٹری کے جوان تھے۔ حلوے کی موٹیویشن سے پرے ایک چیز اور تھی اور وہ تھا جی پی او (گن پوزیشن آفیسر) کا یعنی ہمارا ٹیپ ریکارڈر
اگوکی کے بی او کیوز کی ایک شام گیمز سے واپسی پر یونٹ ایجوٹنٹ نے، جن کے ہم روم میٹ تھے ایک بے تابی کے عالم میں اعلان کیا تھا۔
یار مانی آج ایک خاصے کی چیز ہاتھ لگی ہے۔ منصور ملنگی کا اک پھُل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے۔ کیسٹ کی سائیڈ اے پوری کی پوری، مکمل گیت۔ اگوکی کی ایک گُل ہوتی شام اور چشمۂ مہتاب سے دُھل کے نکلتی رات ہمیں منصور ملنگی کے سُروں کے صدقے یاد ہے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہم ملنگی کے اس لازوال ماہیے (صاحبو آپ اسے گیت کہہ لیجیے مگر رہے گا تو یہ ایک بے مثال ماہیوں کا تسلسل ہی) کی زنجیر سے بندھ گئے۔ ہمارے کان اس میٹھی دُھن اور اس سے بھی میٹھی بولی سے ان گنت بار آسودہ ہوئے اور اللہ زندگی رکھے آنے والی شاموں میں، جتنی کہ عمر کے پیمانے میں رہ گئی ہیں حظ اٹھائیں گے۔ محاذ پر روانگی کی اس رات آپریشنل انسٹرکشنز کے ساتھ ایز انیکسچر اے (annexure A) ایڈجوٹنٹ نے وہ آڈیو کیسٹ بھی ہمیں تھما دی تھی۔
ٹھاکردوارےکی فرہادی زمینوں میں پھاوڑے اور بیلچے کی مشقِ سخن جاری تھی، اپنےہی خمار میں بھیگتی رات کو سرحد پارسے آئے بادلوں کی سنگت میسر آگئی تھی اور کچھ کچھ ’نکی نکی کنڑی دا مینہہ ورسیندا بُھور جیہی ہے پیندی‘ والا ماحول تھا۔ اس مورچے سے اس مورچے تک کا سفر کرتے، گینتی پکڑ انگلی کٹا شہیدوں میں نام لکھواتے گن پوزیشن آفیسر کے کندھوں پر جھولتا ٹیپ ریکارڈر تھا، جس میں سائیڈ اے والی ایجوٹنٹ کی بخشی آڈیو کیسٹ تھی، جس کے سپیکر جب بجتے تھے تو ان میں ملنگی کی ہوُک تھی جو کانوں میں رس گھولتی تھی
کوئی موڑ طلب کولوں
ڈسنڑ دے قابل نئیں
جیویں پِنیا اے رب کولوں
جاواں صدقے گلے دی ہسیے
جھُگّی پا رل اکٹھیاں وسیے
اک پُھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے
جہلم سے باہر نکلیں جبکہ آپکا رُخ دینہ کی طرف ہو تو ایک سڑک سینٹرل آرڈیننس ڈپو (س او ڈی) کالا کو نکلتی ہے۔ ایک نسبتاً گرم سویر جب سورج ابھی نکلا ہی تھا میں عباسیہ کے ڈھائی ٹن ٹرکوں کا ایک قافلہ کی سربراہی میں کالا ڈپو کا مسافر تھا کہ جرپال ۔ بڑاپنڈ کی زمینوں میں جنگ کو جاتی میری بیٹری کو فرسٹ لائن ایمونیشن درکار تھا۔ جی ٹی روڈ سے اتر کر یہ قافلہ کچھ دیر کو ٹھہرا تو جیسا کہ فوجی کانوائے کی ڈرل ہے ہم نے ایک حوالدار اور تین سپاہیوں پر مشتمل ایک حفاظتی ٹولے کو پوزیشن لینے کا حکم دیا۔ سامنے کے رُخ پر لیٹے ایک چابکدستی کے عالم میں رائفل کاندھے پر تانے اپنے سپاہی سے ہم نے حال احوال کیا تو عقدہ کھلا کہ رائفل میں گولیاں تو ہیں ہی نہیں۔ اور یہی عالم بقیہ دو سنتریوں کا تھا۔ تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ گولیاں تو ساری کی ساری سربمہر ڈبوں میں بند گارڈ کمانڈر حوالدارکے پاؤچ میں ہیں!
سیاچن کے محاذ سے نیچے اترتے ہی پلٹن نے زمانۂ امن کی کسلمندی کو اپنانے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ صاحبو! وہ بھی کیا بھلے دن تھے۔ رائفل رینج پر فائر کی گئی گولیوں سے زیادہ کھوکھے قیمتی ہوتے تھے کہ پریکٹس کے بعد انہی کو جمع کرواکر ہر چلائی گئی گولی کا محکمے کو حساب دینا ہوتا تھا۔
چھاؤنیوں میں یونٹوں کی نائٹ گارڈ کے سنتریوں کے پاس پانچ ۔ چھ فٹ کی لاٹھی نما سٹک ہوتی تھی جسے وقت پڑنے پر ایک چابکدستی میں جھلا سامنے تان ایک دھاڑ نما آواز میں رات کی گارڈ چیک کرنے آئے ڈیوٹی افسر کو للکار کر روکا جاتا
رُک !!! ہاتھ اوپر!
پہچان کے لیے دو قدم آگے چل!
رک!
(ہلکی آواز میں) آپ کون ہیں؟
جس پرڈیوٹی افسرجواب دیتا ’دوست‘
گزرجاؤدوست
مبادا ہمارےپڑھنےوالےسمجھیں کہ ہم مذاق کررہےہیں، اس ایک مکالمےمیں زمانۂ امن میں دوست دشمن کی تمیزکےکوڈورڈ کا سموچالیجرپرویاہواتھا۔ فوج سےکسی کوخطرہ نہیں تھااورفوج کو پاک سرزمین کی حدودمیں کسی سےخطرہ نہیں تھا۔
دہشت گردی کا عفریت ابھی ہم سے چند سالوں کی دوری پر تھا۔ اس ملک کے نمک کھلائے سوویت یونین کی جنگ لڑتے مجاہدوں کو اپنے آقاؤں کی طرف پلٹنے اور انہی پر وار کرنے میں ابھی دیر تھی۔ ڈرون حملے اور اے پی ایس کے شہید بچے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔
زندگی کے ہاتھ میں گزرا وقت ایک ایسا مرہم ہے جو بہت سے دُکھوں کا علاج کرتا بہت سے زخم بھر دیتا ہے۔ مگر صاحبو، کچھ غم آفاقی ہوتے ہیں، وہ بھولنے کے لیے نہیں ہوتے، وہ ہمارے دلوں کے ساتھ ہماری قبروں میں جاتے ہیں۔
یا غم نہ دیا ہوتا، یا دل نہ دیا ہوتا
بات کسی اور طرف نکلی جاتی ہے۔ تو ہم کہہ رہے تھے کہ سرحدوں کے اندر ابھی دوست دشمن کی تمیز ختم نہیں ہوئی تھی اور فوج ابھی مسلسل حالتِ جنگ میں نہیں آئی تھی۔ گولیاں ہماری رائفل کے چیمبر میں نہیں بلکہ گارڈ کمانڈروں کے پاؤچ میں ہوا کرتی تھیں۔
آنے والے برسوں میں فوج نے ایک بدلتے ہوئے نصاب کو اپنا خون پلا کر یاد کرنا تھا اور بہت اچھے سے یاد کرنا تھا۔ مگر اس میں ابھی دیر تھی۔
جہلم سے آگے کالا کی اس گرم صبح اپنی بیٹری کے جوانوں کو یہ سکھلانے میں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور اپنی پہلی دفاعی لائن کا گولہ بارود لینے آئے ہیں، ہمیں کچھ وقت لگا۔ مگر ٹھاکر دوارے کی مورچہ بند سپاہ جب اپنے اپنے گولے بارود کو سینے سے سینچ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تو انہیں یہ سبق سیکھنےمیں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ سیاچن کے محاذ کی روٹین بیٹری کو یاد تھی اور ہم آرٹلری کے گولے توپوں کے دہانوں کےلیے تیار کرکے اپنے انفرادی پستول اور رائفلوں کی لوڈڈ میگزین میں گولیاں پرو کسی بھی ناگہانی سے نمٹنے کے لیے ہرگھڑی تیار کامران تھے۔
ہم سے کچھ آگے سرحد پر ریڈ الرٹ کا عالم تھا۔ بھارتی سینا کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ افواہوں کا بازار بھی گرم تھا۔
ہمارے بیٹری کمانڈر میجر نقوی نے ہمیں خاص طور پر خبردار کیا تھا کہ انڈین کمانڈوزسرحد پار گوریلا طرز کی کارروائیاں بھی کریں گے۔ ہم رات کو کمانڈ پوسٹ کے کیمپ کاٹ پر سونے لیٹتے تو احتیاطاً بھرا ہوا ریوالور سرہانے کے نیچے رکھ لیتے۔
ایک صبح ہمارا ایم ٹی(مکینیکل ٹرانسپورٹ)حوالدار ویگن لائن سےآل اوکے دینے ہمیں آیا تو ہم ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ شاید وہ کوئی ہیجان انگیز خواب تھا جہاں بلیک کیٹس کے پرے کے پرے چاقو لہراتے ہماری پوزیشن پر حملہ آور تھے اور ہم اپنے جانثار سپاہیوں کے ساتھ ایک کمال مشاقی اور مہارت سے سنگینیں چلا انہیں دھڑادھڑ تہہِ تیغ کررہے تھے۔ جب دو تین آوازوں پر ہم اُٹھ کے نہ دیےتو ایم ٹی حوالدار نے ہمیں جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی۔ اک سُرعت کے عالم میں تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال ہم نےاسےجالیا۔ ہاتھ اوپر! کون ہو تم!
جب آنکھیں اوردماغ ایک رومیں دیکھنےاورسمجھنےکےقابل ہوئے توسامنے کھڑے ایم ٹی حوالدار نے ہاتھ اُٹھائے ہوئے تھے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوچلی تھیں اور وہ ایک بےیقینی کے عالم میں ہمیں دیکھ رہا تھا۔
اس دن کے بعد سے ہم ریوالور سے عین نال کے سامنے والی پہلی گولی نکال کر سونے لگے۔
ہمارا بڑا دل تھا کہ اس کہانی کو جنگ اور اس سے متعلقہ مہم جوئی سے آراستہ کرتے، ٹھاکردوارہ کے شب وروز میں سرحد پار سے چاند ماری کی گوٹا کناری لگاتے اور برسبیلِ تذکرہ دو ایک گھاتوں یا پھر اسی قدر ہلّوں سے مرصع کرتے اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں ایک بارہ مصالحے کی چاٹ پیش کرتے مگر صاحبو جنگ کو نہ ہونا تھا نہ ہوئی۔ اور تو اور وہ بلیک کیٹس بھی نہ آئے جنکے متوقع استقبال کے لیے ہماری گولیاں میگزین کی لڑی میں پروئی ہوئی تھیں اور ‘گولی چیمبر میں تھی’
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
ایک دفعہ محاذ آرائی کے بعد اگر جنگ نہ ہو تو اس شبِ انتظار کی سحر (محاذ پر مورچہ بند سپاہ) کے لیے بہت خوش آئند نہیں ہوتی۔ زمانۂ امن سے جنگی حالت اختیار کرنے میں ٹیکس پیئر کے پیسوں کا تخمینہ نکال فوج وہ پیسے سود سمیت پورے کرواتی ہے۔
مورچوں سے نکل کر سپاہی کینوس کی دنیا میں آجاتے ہیں اور اگلے چھ ماہ ایک سال کے لیے ایک تمبو قناتی رہائش میں بیٹل ڈرلز اور ٹریننگ فوجیوں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
اس دفعہ تو جنگ کے بادل جلدی چھٹ گئے تھے کہ ابھی تک صرف ہماری پاپا بیٹری ہی جنگی حالت میں محاذ پر نافذ ہوئی تھی۔
باقی کی پلٹن ابھی تک اگوکی میں تھی۔ سو پسِ جنگ آبادکاری کے براہِ راست متاثرین میں گن پوزیشن آفیسر یعنی ہم اور ہمارے جوان تھے۔
آنے والے دنوں میں بیٹری نے مورچوں کو خیرباد کہہ کر کچھ گورنمنٹ سکولوں کے احاطے میں ڈیرے ڈالنے تھے اور بیٹری کمانڈ کرنے کو وقتاً فوقتاً عباسیہ کے میجر حضرات نے ٹریننگ ایریا میں رونق افروز ہونا تھا۔ وہ اس لیے کہ اس ایکسٹنڈڈ ٹریننگ روٹین میں ریلیف شادی شدہ حضرات کو ہی ملنی تھا۔
ہم جیسے چھڑے چھانٹوں کے نصیب میں ظفروال اور لہڑی بند اور لنگر کی دال ہی تھی۔
درمان میں میجر اظہر آئے تو ان کے دن کا آغاز نہار منہ سامنے کے نلکے سے بالٹی بھر کر اپنے اوپر انڈیلنے سے ہوتا تھا۔ میجر صاحب اسے اشنان کرنا کہتے تھے۔ ان کا زندگی کرنے کا قرینہ سادہ تھا۔ پہلے اشنان پھر پاکستان۔ ابھی تک ایک ملٹری ڈکٹیٹر نے ملک کی باگ دوڑ نہیں سنبھالی تھی اور پاکستان کے متعلق میجر اظہر کے نصب العین سے متصادم ایک نیا نعرہ ابھی ہمیں ملنا تھا۔ کیا اس نعرے کے بعد میجر اظہر نے بھی اپنے نظام الاوقات پر نظرثانی کی؟ یہ تو اللہ تعالیٰ یا پھر میجر اظہر جانتے ہیں۔
بڑی منہاساں میں جبکہ ابھی توپیں مورچوں میں اور جوان ان کی ہمراہی میں تھے ہم نے مقامی سکول کے ایک کمرے میں انفورمیشن روم کا حیلہ کرلیا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں میجر نقوی نے جوانوں کی تفریحِ طبع کے لیے ایک فلم دکھانے کا انتظام کیاتھا۔
میجر صاحب کی نگہِ انتخاب جس ویڈیو کیسٹ پر ٹھہری اسے دیکھ کر ہم کچھ ٹھٹھک سے گئے۔ باہو فلمز کارپوریشن کی پیشکش مولا جٹ!
ــــــ
(جاری ہے)