ہاسپٹل کے کاریڈور میں بھاری بوٹوں کی چاپ سناٸی دی۔ وہاں موجود سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ سب کی نظریں بیک وقت آنے والے پے اٹھیں۔
چہرے پے انتہا کا غصہ ، آنکھوں میں دنیا جہاں کی وحشت لیے ، ماتھے پے بے شمار بل اور گہری سبز رنگ آنکھیں۔ جن میں اس وقت کوٸی دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔
دلاور شاہ بمشکل اپنی جگہ سے اٹھے۔ اور۔۔ لڑکھڑاٸے۔
لیکن آنے والے نے فوراً آگے بڑھ کر باپ کو تھام لیا۔
دلاور شاہ اپنے بڑے بیٹے کے سینے سے لگے بہت ضبط کے باوجود بھی رو دیۓ۔
لیکن اس سبز آنکھوں والے شخص کی آنکھیں نم نہ ہوٸیں۔
وہ۔۔۔وہ۔۔وہاں۔۔۔۔
بمشکل ۔۔۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر آٸی ۔سی۔ یو کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
اس نے دلاور شاہ کو واپس بٹھایا۔ اور خود آٸی۔ سی یو کے باہر جا کے کھڑا ہو گیا۔
اس کا اپنا عکس اسکا بھاٸی ۔۔۔۔ اس وقت آٸی سی یو میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔
مشینوں میں جکڑا وہ اسکا جڑواں بھاٸی تھا۔
جس کی شادی اٹینڈ کرنے وہ لندن سے پاکستان آیا تھا۔
لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔ جہاں وہ سب کو سرپراٸز دینے کے چکر میں تھا۔ خود بھاٸی کو I.C.U میں دیکھ کے سرپراٸز ہو جا ۓگا۔
وہ جوان جہان اسکا دل کا آٸینہ دار اس وقت آنکھیں موندے ہوٸے تھا۔ عجیب سی بے کلی چھاٸی ہوٸی تھی۔
تبھی ڈاکٹر روحان I.C.U سے باہر آٸے۔
فارس شاہ کی سوالیہ نظریں اٹھیں۔
ڈاکٹر روحان دلاور شاہ کے قریبی دوست تھے۔
ہم نے۔۔۔ گولی نکال دی ہے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ گولی کا زہر پورے دل میں پھیل گیا ہے۔۔ بہت کوشش کر رہے ہیں۔ ہارٹ پمپ نہیں کر رہا۔ یہاں لانے میں بہت دیر کر دی ہے۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔۔ خدا سے دعا کرو ۔۔۔ کوٸی معجزہ ہو جاۓ۔ اور۔۔۔۔ وہ ۔۔بچ جاۓ۔
ڈاکٹر روحان نے فارس کوتسلی بھر ی تھپکی دی لیکن حقیقت سے روشناس کرانا نہ بھولے۔
فارس شاہ کی خاموشی وہا ں موجود دلاور شاہ اور ان کے چھوٹے بھاٸی فراز شاہ محسوس کر چکے تھے۔ فراز شاہ بمشکل بھاٸی کو سنبھالے ہوٸے تھے۔
کوٸی یقنین نہیں کر رہا تھا کہ شادی والے گھر کویوں نظر لگ جاٸے گی۔
بھاٸی۔۔۔۔۔۔
زیان شاہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولتے فارس شاہ کے سامنے آیا۔
اور فارس شاہ کے گلے لگ گیا۔
وہفارس اور عفان سے دو سال۔چھوٹا تھا۔اور اپنے دونں بھاٸیوں کی آنکھ کا تارا تھا۔
اس وقت اسکی آنکھ کے آنسو بھی فارس کی چپ کونہ توڑ پاٸے۔
فارس شاہ کی ہمت نہ ہوٸی۔آٸی سی یو میں اپنے بھاٸی کو نظر بھر کے دیکھنے کی۔
سختی سے لب بھینچے ایک جھٹکے سے مڑا وہ ہاسپٹل سے باہر نکتا چلا گیا۔
سبھی اشکبار تھے۔
ڈاکٹرز نے کوٸی خاص امی نہیں دلاٸی تھی۔
گولی لمیں لگی تھی۔ اور اس وقت عفان مشینوں میں جکڑامصنوعی دھڑکنوں پے زندہ تھا۔
فلاور شاہ کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
ببس آنسو تھے۔۔ اور دعا۔۔۔ کہ کوٸی معجزہ ہوجاۓ۔
کار ڈراٸیو کرت وہ نجانے کہاں سے کہاں بھٹک رہا تھا۔۔۔؟؟وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
عفانکا ہنستا مسکراتا چہرہ بار بار آنکھوں مں گھوم رہا تھا۔
وہ اس شادی سے بہت خوش تھا۔ پھر کیسے۔۔۔۔؟؟ خوشیاں غم میں بدل گٸیں۔۔۔۔؟؟
بہت ہی تیز گاڑی چلاتے وہ دو دفعہ ایکسیڈینٹ سے بچا۔
اور جھٹکے سے روڈ کے ایک طرف گاڑی روکی۔
گاڑی مں گھٹن کا احساس ہونے لگا۔تو گاڑی سے
باہر نکل آیا۔
گاڑی کے بونٹ پے ایک ہاتھ رکھے دوسرے ہاتھ سے ٹاٸی کی ناٹ ڈھیلی کی۔ لیکن پھر بھی سانس لینا دشوارہو رہا تھا۔
گاڑی کے بونٹ پے مکے برسا رہا تھا۔لیکن درد تھا کہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔
وہ کیسے جا سکتا ہے۔۔۔؟؟
بھاٸی ہے وہ میرا۔۔۔
ہم اس دنیا میں اکٹھے آٸے۔
مجھے۔۔ اکیلاکیسے چھوڑ کےجا سکتا ہے وہ؟
اندر کی گھٹن تڑپ بن کے باہر نکلنا چاہ رہی تھی۔
آسمان کیطرف منہ کرتے وہ بہت زور سے چینخا تھا۔
جو اپنوں کے سامنے نہ ٹوٹا۔ وہ اکیلے میں اللہ کے سامنے بکھر گیا۔
گھٹنوں کے بل زمین پے بیٹھتا چلا گیا۔اسکی آنکھیں جھلملا گٸیں۔
اسے محسوس ہو رہا تھا ۔ کہ اسکا عکس اسے چھوڑ کے جا رہا ہے۔
وہ دیوانوں کی طرح روٸے جا رہا تھا۔
کہ نظر سامنے مسجد پے جا ٹھہری۔
میرا اللہ۔۔۔۔!! وہ سنے گامیری!!
فوراً سے بیشتر اٹھا۔
ایک لمحے کی دیری کیے بنا وہ فوراً مسجد کی جانب مکانیکی سی کیفیت سے بڑھا۔
وضو کیا۔ظہر کی نماز ادا کی۔
اور رب کے حضور بھاٸی کی سلامتی کے لیے دعا اٹھاٸے تو آنسو ہتھیلیوں پے گرنے لگے۔
لب ایک دسرے میں پیوست ہو گۓ۔
رو رو کے گڑاگڑا کےدعا مانگی۔
چہرہ آنسوٶں سے تر تھا۔
وقت تھا کہ نکلا جارہا تھا۔
دل تھا کہ دھڑکا جا رہا تھا۔
دیوانہ وار روتا وہ سجدے میں گر گیا۔
بہت تڑپ تھی دعا میں۔۔۔
لیکن جو دعاٸیں قبول نہیں ہوتیں۔ وہ بھی تو اللہ کسی خاص وقت کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔موت کا وقت مقرر ہو چکا تھا۔جس پے اللہ کے فیصلے کی مہر لگ چکی تھی۔
وہ کوٸی بھی بری خبر سننے کو تیار نہ کر پا رہا تھا خود کو۔
کہ۔۔ اس کی جیب میں موباٸیل نے واٸبریٹ کیا۔
اور وہیں اسکی سانسیں بھی رکیں۔اور
ہاتھ لرزے۔۔۔
فارس نے کانپتے ہاتھوں سے کال رسیو کی۔
دوسری طرف زیان شاہ تھا۔
اس نے جو خبر دی وہ پہاڑ بن کے ٹوٹی۔
موباٸیل ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
ایک ہی باز گشت ہونے لگی۔
بھاٸی۔۔۔۔ واپس آجاٸیں۔ !! عفان۔۔۔ بھاٸی ۔۔ ہمیں چھوڑ کے چلے گٸے۔
وہ ہنستا مسکراتا زیان شاہ اپنے بھاٸی کی اچانک موت سے ٹوٹ گیا تھا۔
ہاسپٹل میں ایک کہرام مچ گیا تھا۔
مرد حضرات ہاسپٹل میں موجود تھے۔
کوٸی بھی اس اچانک موت پے یقین ہی نہ کر پا رہا تھا۔
لیکن حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔
سبھی کیآنکھیں اشک بار تھیں۔
ڈیڈ باڈی ک گھر نہیں لے جانے دیا جا رہا تھا۔
ڈاکٹر روحان فارس کا انتظار کررہے تھے۔
کیونکہ یہ پولیس کیس تھا۔
اور لاش کا پوسٹ مارٹم کروانا تھا۔
اگر عفان بچ جاتا تو تب اور صورت حال تھی۔
لیکن اب وہ پولیس کو انولو کرنا چاہتے تھے۔
لیکن فارس کے بنا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
کچھ ہی دیر میں فارس ہاسپٹل پہنچ گیا۔
اب اسکا رخ ICU کی جانب تھا۔
آنکھوں کے لال ڈورے اسکے رونےکی چغلی کھا رہے تھے۔
فی الحال کسی کو بھی ICU میں جانے کی اجازت نہیں دی گٸ تھی۔
فارس میکانیکی انداز میں ICU میں داخل ہوا۔
قدموں میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔
سامنے عفان کا چہرہ سفید چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔
اب وہ مشیونں سے آزاد تھا۔
قریب ہی رکھی کرسی پے وہ ڈھے گیا۔
ایک ٹک وہ بھاٸی کو دکھے جا رہا تھا۔
کہ نظر اچانک اسکے ہاتھ کی بند مٹھی پے جا ٹھہری۔
اس مٹھی میں کچھ تھا۔
فارس نے مٹھی کھولی۔
اس میں ایک صفحہ تھا۔ فارس نے اس صفحے کو دھڑکتے دل سے ہاتھ میں تھاما۔
ابھی وہ کھولنے کی ہمت نہیں جٹا پایا تھا۔ کہ دروازہ کھلا۔
اور ڈاکٹر روحان اندر داخل ہوٸے۔
فارس بیٹا اچھا ہوا ۔۔ آپ آگٸے۔میرا خیال ہے۔ پولیس کوانفارم کر دینا چاہیے۔ اور لاش کا پوسٹ مارٹم۔۔۔؟
نہیں انکل۔۔۔!! کوٸی پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا۔۔!!
فارس کا ٹھنڈا اور بھاری لہجہ ڈاکٹر روحان کو چانکا گیا۔
لیکن۔۔۔ بیٹا یہ سو ساٸیڈ کیس ہے۔۔۔
سب یہی کہہ رہے ہیں کہ۔۔ عفان نے خو کو گولیماری جبکہ۔۔ پوسٹ مارٹم کروا۔۔۔۔۔۔!!
انکل۔۔۔!! پلیز۔۔۔۔میں فیالحال کوٸی بات نہیں کرنا چاہتا۔ اور پولیس کو انوالو تو بالکل نہیں کرنا۔
فارس شاہ ابھی اتنا بے بس نہیں ہوا۔ کہ کسی کا سہارا لے۔ آپ اس بات کو یہیں ختم کر دیں۔
سرد لہجے میں کہتا فارس ڈاکٹر روحان کی جانب مڑا۔
وہ رو نہیں رہا تھا۔
چینخ چلانہیں رہا تھا۔
لیکن ایک خاموش آنسو ضبط کے باوجود گال پے آن گرا تھا۔
گہری سبز آنکھیں اس وقت لال انگارہ ہو رہی تھیں۔
ڈاکٹر روحان خاموش سے ہوگۓ۔ اور فار کو تسلی بھری تھپکی دیتے باہر نکل گٸے۔
عفان نے خود پے گولی چلاٸی۔
خود کو ختم کر ڈالا۔
کوٸی نہیں جانتا تھا۔ کہ عفان نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔
اس خود کشی کے پیچھے کیا وجہ ہوگی۔
بہت سے سوال تھے جن کے جواب فارس نے تلاش کرنے تھے۔اور
وہ صفحہ جو عفان کی مٹھی سے ملا۔۔ فارس کو وجہ تک پہنچنے میں مدد کرنے والا تھا۔ یا مزید بھٹکانے والا تھا۔ یہ تو وقت نے ہی طے کرنا تھا۔
****************