طبعِ یاراں شروع سے ہی کچھ ایسی رہی کہ کوئی کتاب ہو، خوشبو ہو، پینٹنگ ہو دوست ہو یا فلم۔۔جو ایک بار طبیعت کو بھا گئی تو جی پھر کبھی اس سے بھرا نہیں۔ بار بار پڑھنے، ملنے یا دیکھنے پر ذہن کو کچھ نہ کچھ نیا زاویہ سوچنے کو مل جاتا ہے اور یوں۔
لطف ہمیشہ قائم رہتا ہے، یہی وجہ رہی کہ کتابوں کی بک شیلف، مویویز کا دراز اور پرانے دوستوں کی محفل ہمیشہ قلب و ذہن میں تازہ رہتی ہے۔
بس اسی لئیے بلال لاشاری کی فلم ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ ایک بار دیکھ کر جی بھرا نہیں سو تین بار چالیس فٹی سکرین پر جا کر دیکھ ڈالی اور پھر ایک بار سن 1979 کی ہدایتکار یونس ملک کی اوریجنل مولا جٹ بھی دیکھ ڈالی، یوں نہیں ہے کہ ہم گنڈاسہ فلموں کے عاشق ہیں یا کوئی اور ایسی بات، بلکہ حق تو یہ ہے کہ نئی مولا جٹ تین بار دیکھ کر طبیعت کو محسوس ہوا کہ تجزئیے سے قبل اوریجنل شاہکار کا بھی حق بںتا ہے کہ اسے بھی ہدیہ تبرک ہیش کیا جائے۔ یہ تھریڈ شاید کچھ طویل ہو جائے لہٰذا اگر طبعِ نازک ساتھ نہیں دے رہی تو تھریڈ ھٰذا یہیں چھوڑ کر کوئی دوسرا بیکار کام کر لیجئیے۔
اس تجزئیے کو دو حصوں میں تحریر کرنےکا قصد ہے۔ پہلا حصہ مثبت پہلو اور دوسرا حصہ مووی کے نقائص و تنقید پر مشتمل ہو گا۔ اس سے پہلے کہ فلم کی طرف جائیں ان خواتین و حضرات کیلئیے عرض کرنا مفید رہےگا جنہیں ابھی تک یہ فلم دیکھنے کا موقع نہیں ملا کہ یہ ایک فکشن فیچر فلم ہے۔ فکشن کیلیئے حقیقی دنیا سے مماثلت ہونا لازم نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ انسان کی ذہن کی اپنے ارد گرد کے ماحول سے باہر نکل کر سوچنے اور سوچ کے دھارے کو وقت اور ماحول کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا تخلیق کرنے کا نام ہے۔ لہٰذا ایک فکشن فلم میں اپنے ارد گرد کا ماحول تلاش کرنے کی بیوقوفی کی بجائے آپ تخلیق کار کے ذہن کے دھارے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو تخلیق آپ کو لطف دے جائے گی۔ اگر فکشن سے طبیعت لگاؤ نہیں کھاتی تو ہالی ووڈ کی فلمیں جیسے سٹار وارز سیریز, ایواٹار، ٹرمینیٹر سیریز، مشن امپاسیبل سیریز، جان وِک سیریز، سپرمین سیریز، سپائیڈرمین و بے شمار بلکہ سینکڑوں دیگر فلم فرنچائیزز آپ کیلئیے بیکار ہیں اور آپ کو چاہئیے کہ خود کو ہم ٹی وی کے ڈراموں، عمیرہ احمد کے ناولز اور یسرٰی رضوی کی شاعری تک محدود رکھیں۔
فکشن کو سمجھنے میں ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر اویس سلیم صاحب
@awaissaleem77
کے نوعمر صاحبزادے نے انجانے میں کافی مدد کردی، ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے اسے پوچھا کہ ‘تم یہ ڈاکٹر ہوُ، سپائیڈرمین وغیرہ قسم کی فلموں میں کیا دلچسپی رکھتے ہو جنکا حقیقیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں؟’ تو نوعمر صاحبزادے نے جواب دیا کہ “میں ان فلموں میں وہ کچھ دیکھ سکتا ہوں جو میں اپنے ارد گرد حقیقی دنیا میں نہیں دیکھ سکتا”.
دی لیجنڈ آف مولا جٹ ایک ناظر کے ذہن کو پہلے فریم سے ہی جکڑ لینےکی صلاحیت رکھتی ہے، فلم کی شروعات کامران لاشاری صاحب کی بھاری لو پِچ اور بیس وائس سے شروع ہوتی ہے، اسکے بعد مٹھن کوٹ محل کا ایریل شاٹ جو کہ اندھیرے میں فلمایا گیا ہے لیکن اس حد تک روشن ہے کہ فلم بین سمجھ سکے۔ یہاں پر جدید لائیٹنگ ٹیکنیکس کا استعمال نظر آتا ہے۔ یہی لائیٹنگ ٹیکنکس آپکو بعد ازاں مولا جٹ کے ڈھابے سے نکل کر کنویں کی منڈیر پر بیٹھنے، اور آخری سین میں جہاں مکھو کو پول سے باندھا گیا ہے اور نوری نت کے ساتھ آخری لڑائی سے پہلے مولے اور مکھو کے عہد و پیما میں بھی نظر آتا ہے۔ فلم کی لائیٹنگ ٹیکنیکس نے کسی جگہ پر بھی مایوس نہیں کیا، بالخصوص نوری نت کے قلعے میں پہلی میٹنگ کے سین جہاں سارنگ کی گردن اتاری گئی اور محل میں رجو کے رقص کےمناظر میں لائیٹنگ عالمی معیار کی نظر آتی ہے، ایسے ہی کسی جگہ پر بھی ساؤنڈ ایڈیٹنگ کا مسئلہ بھی نہیں ملا۔ تمام صوتی اثرات درست ٹائمنگ اور صحیح اثرات کے ساتھ ریکارڈ کئیے گئے۔ بلال لاشاری نے جا بجا ایسے کیمرہ شاٹس ریکارڈ کئیے جو بار بار ایک فلم بین کے ذہن کو ہالی ووڈ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایریل شاٹس فصلوں کے اوپر سے لئیے گئے ہوں یا گاؤں کے بایر سے گاؤں کے طرف آنے کے ہوں یا مٹھن کوٹ محل کے، ایریل شاٹس بہت مہارت سے اور بخوبی عکس بند کئیے گئے ہیں۔ ذرا غور کریں تو فلم کے دو مناظر ایسے ہیں جو بے اختیار واہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان میں پہلا منظر مولا جٹ کے گلی میں شراب پی کر بے ہوش ہونے کا منظر ہے جو بلال لاشاری نے مولے کے پاس کے چوبی دروازے کے ڈیزائن پر زوم ان کرتے ہوئے گاؤں کے ایریل شاٹ پر زوم آؤٹ کرتے ہوئے گاؤں کی گلیوں کے منظر میں Merge کر دیا۔ اس ٹیکنیک کا Frame Mergeکہتے ہیں، یہی فریم مرج ٹیکنیک دوسری دفعہ نوری نت کے جیل میں جیلر کو اپنی بہن کے زندہ دفن ہونے کی کہانی سنانے کے دوران نظر آتی ہے جہاں نوری دیوار ہر ایک روزن کو دیکھتا ہو جو دیکھتے دیکھتے ایک کھلی قبر میں فریم مرج ہو جاتی جہاں بچی کو زندہ دفنایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس موقعے پر ایریل شاٹ میں سپیڈ زوم آؤٹ کی ٹیکنیک استعمال بھی کی گئی ہے۔ جو اس یاد داشتی منظر کو ختم کرنے کیلئے استعمال کی گئی۔ یہ مناظر ںہت مہارت اور پلاننگ سے عکس بند کییے گئے ہیں جو اس سے پہلے کسی پاکستانی فلم یا ڈرامے میں نہیں استعمال ہوئے۔ فلم کے سیٹ اور پروپس پر بہت محنت کی گئی ہے اور زیادہ تر حقیقت سے قریب دیکھائی دیتے ہیں۔
ملبوسات اور برتنوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ وہ پرانے نظر آئیں، پوری فلم میں آپکو کسی جگہ بجلی کا کھمبا یا تار نظر نہیں آتے۔ اگر اداکاری کے معیار کو پرکھا جائے اور مجھے حمزہ علی عباسی (نوری نت)اور حمائمہ ملک (دارو) کی اداکاری نے متاثر کیا، فواد خان نے بھی اپنے کردار سے خوب انصاف کیا، انکے علاوہ راحیلہ قاضی، بابر علی، ریشم، راشد محمود، علی عظمت، فارس شفیع، نئیر اعجاز اور شفقت چیمہ اپنے کرداروں میں نگینے کی طرح فٹ نظر آئے۔ گوہر رشید (ماکھا) کچھ اوور ایکٹنگ اور ماہرہ خان (مکھو) انڈر ایکٹنگ کا شکار نظر آئے۔
فلم کی سب سے اہم بات سٹنٹس اور فائٹ سیکوئینسز ہیں جو اس سے پہلے یوں کبھی پاکستانی سینما کی سو سالہ تاریخ میں کبھی نہیں فلمائے گئے۔ بلال لاشاری نے سٹک فائیٹ، ایکس فائٹ اور بعد ازاں گنڈاسہ فائٹ کیلئیے معروف برطانوی سٹنٹ کوآرڈینیٹر ٹائیگر رَج (Tiger Rudge)کا انتخاب کیا جو اس سے پہلےStar Wars اور Mowgliجیسی فلموں کیلئیے سٹنٹس ترتیب دے چکی ہیں،
ٹائیگر کے ساتھ دوسرے معروف سٹنٹ کوآرڈینیٹر ائین وان ٹیمپرلے ہیں جو اس سے پہلے جیک رائن اور اے مونسٹرز کال جیسی فلموں کی سٹنٹ ترتیب دے چکے ہیں۔ ٹائیگر اور ائین کے فائیٹ سیکوئنسز فلم کے دوران ناظر کو مبہوت کئیے رکھتے ہیں
مولا جٹ کے ڈبل کے طور پر سپین کے معروف سٹنٹ مین ڈیسیو کیبیلیرو (تصویر میں)کی خدمات حاصل کی گئیں جو کہ گیم آف تھرونز میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے۔ نوری نت کے ڈبل کے طور پر ایلکس سائی نے خدمات انجام دیں۔فلم کے ویژوئل ایفیکٹس کیلئیے یوکے کی دو فرمز لیوسڈ سٹوڈیوز اور بلَیم پکچرز کی خدمات حاصل کی گئیں،
لیوسڈ سٹوڈیوز کے برائن ایڈلر( تصویر میں) ویژوئل ایفیکٹس سپروائیزر ہیں جو کہ اس سے پہلے ایوینجرز اور ایواٹار جیسی شہرہ آفاق فلموں میں ویژوئل ایفیکٹس ترتیب دے چکے ہیں، برائن کے ساتھ لیوسڈ سٹوڈیوز کے ہی دوسرے ویژوئل ایفیکٹس سپروائیزر پاکستانی نژاد برطانوی جنید سید (تصویر میں) ہیں
جو کہ کرسٹوفر نولان کی انٹرسٹیلر اور ایلن ٹیلر کی تھور جیسی شہرہ آفاق فلموں کے مشکل ایفیکٹس اپنی نگرانی میں ترتیب دلوا چکے ہیں
فلم میں چند کوتاہیاں یا کمیاں بھی نظر آئیں جو کہ میری نظر میں بہتر ہو سکتی تھیں:
ایک سین میں مولا جٹ مٹھن کوٹ محل میں والد کا گنڈاسہ حاصل کر کے اپنی ڈانگ پر چڑھا کر کسنا شروع کرتا ہے۔ گنڈاسے کے چوڑی والے حصے پر واضح کریک نظر آتے ہیں۔
ایک اور سین میں مولا جٹ گنڈاسہ ہاتھ سے ہاتھ سے گراتاہے، تو گنڈاسے کو کسنے والا رسہ ڈھیلا نظر آتا ہے۔
تمام فلم میں گاؤں کے باسیوں نے پرانے کھدر یا کاٹن کے کرتے پہنے ہوئے ہیں لیکن مولاجٹ نے جدید مشینوں پر بنا دھُسہ یا لوئی اوڑھ رکھی ہے۔
ایک سین میں قلعہ نما جیل کے اوپر مرغیوں کے ڈربے جیسی لکڑی کا جنگلہ لگا ہواہے فلم آپکا ذہن بار بار تین فلموں کی طرف لے جاتی ہے۔
1-Monty Python’s Life of Brian(1979)
2-Troy (2004)
3- Gladiator (2000)
بے شمار سین ایسےہیں جو کہ ان فلموں سے متاثر ہو کر فلمائے لگتے ہیں۔
پوری فلم میں گوہر رشید کی آواز کا اتار چڑھاؤ غیرقدرتی، استہزائیہ اور کردار سے کمتر لگتا ہے۔
~پسِ تحریر~
مجموعی طور پر ایکشن اور فکشن پسند کرنے والوں کیلئیے ایک عمدہ تفیرح ہے۔ فلم میں استمعال کردہ ٹیکنالوجیز کا پاکسنانی سینما میں آ جانا اصل اچیومنٹ ہے جسکے ہدایتکار بلال لاشاری اور فلم کے پروڈیوسرز نمایاں طور پر کریڈٹ کے حقدار ہیں۔
پوری فلم کے دوران ناظر حیرت اور فخر کے ملے جلے تاثرات کا شکار رہتا ہے۔ فلم کے بارے غیر پاکستانیوں سے بھی تعریفی الفاظ سننے کو ملے۔ اس فلم کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ عمدہ کہانی، بہتر ہدایتکاری کے بعد نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد پاکستانی سینما بہت جلد عالمی منظر نامے پر فلموں کے ہم پلہ آ کھڑا ہوگا اور شائقین کو عمدہ فلمیں دیکھنے کو ملیں گی۔
The End
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...