فہیم آفس میں دفتر میں کرسی پر فائلوں میں سر دیے بیٹھا تھا۔ کل اس نے اسلام آباد روانہ ہونا تھا۔ وہاں ہر دو اہم بزنس میٹنگز اٹینڈ کرنے کے د وہی سے دبئ جانا تھا جہاں ایک بڑی دیل اسکا انتظار کررہی تھی۔ اسی سلسلے میں فہیم پریزنٹیشن بنانے میں مصروف تھا جب اسکے موبائل کی گھنٹی بجی۔ وہاں سعد کا نمبر جگمگاتا دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئ۔ اس نے کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگا لیا۔
“اسلام علیکم! کیسے ہو فہیم؟ کیا کررہے ہو؟ دوسری طرف سے سعد کی چہکتی ہوئ آواز سنائ دی۔
“وعلیکم اسلام۔ تھیک تھاک تم سناؤ کیسے ہو؟”
” الحمداللہ۔ فٹ فاٹ۔ کہاں غائب ہو یار۔ کوئ اتہ پتہ ہی نہیں ہے؟؟”
دوسری طرف سے شکوہ کیا گیا۔
“میں نے کہاں غائب ہونا ہے یار۔ پتہ تو ہے تمہیں آفس کی مصروفیت۔ ابھی بھی پریزنٹیشن تیار کررہا ہوں۔ کل جا رہا ہوں میں اسلام آباد اور پھر اسکے بعد دبئ۔ میٹنگز ہیں بہت اہم۔ تقریبا دو ہفتے لگ جاۓ گے واپسی میں۔” فہیم نے اسے اپنے شیڈول سے آگاہ کیا۔
“کیییییییییاااااااااا۔۔۔۔ دو ہفتےےےےےے۔۔ کوئ نہیں تم اسی ہفتے واپس آؤ گے آئ سمجھ۔” سعد کا شاک آخری جملے پر حتمی انداز میں بدل گیا۔
” ہییییں۔۔ کیا مطلب۔ تم اتنا شاک کیوں ہو رہے ہو؟؟. میں پہلی دفعہ تو نہیں جا رہا۔” اس نے حیرت بھرے لہجے میں استفسار کیا۔
” فہیمممممممم۔۔۔۔۔”
دوسری طرف سے وہ ڈرامائی انداز میں چیخا تو فہیم نے فون کان سے ہٹا کر اسے گھورا۔۔
“آہستہ چیخ ۔۔ کا۔ کے پردے پھار دیے۔۔”
” اور تم جو میری منگنی میں نا آکر میرے دل کے پردے نہیں بلکہ دیواریں پھاڑ رہے ہو اسکا کیا؟؟” دوسرے طرف سے افسوس بھرے انداز میں پوچھا گیا۔
“کییییییییاااااااا۔۔۔۔ تیری منگنی۔۔۔۔ کب۔۔۔ کس سےے۔۔۔۔ کہاں۔۔۔ کیا مطلب تو ہوش میں تو ہے؟؟” جملے بے اختیار فہیم کے لبوں سے نکلے تو دوسری طرف سے سعد کا بھرپور قہقہہ سنائ دیا۔
” اوو بھائ۔۔ پورے ہوش میں ہوں میں۔ اور ظاہر ہے میں لڑکا ہوں تو میری منگنی کسی لڑکی سے ہی ہونی ہے۔ اب تمھارے ساتھ تو ہونے سے رہی” ہنستے ہوۓ اسے بتاتا آخری جملے میں شرارت سے بولا تو فہیم خوشگوار انداز میں ہنس دیا۔
” ہاہاہاہا۔۔۔۔ تو تو بڑا تیز نکلا ۔۔ ویسے بھابی تو یقینا آنٹی نے ہی ڈھونڈی ہوگی۔ ویسے آنٹی نے انہیں تم سے ملوادیا ہے نہ۔۔ یہ نہ ہو وہ منگنی والے دن تیری بھوتوں والی شکل دیکھ کر انکار کر کے بھاگ جاۓ” وہ شرارت سے بولتا چلا گیا جبکہ سعد ہنستا گیا۔
” ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ جی نہیں بیٹا۔ میری چوائس ہے وہ۔۔ جانتے ہے ایک دوسرے کو۔۔ پر یار کوشش تو کرو تم آنے کی۔ اس اتوار کو منگنی ہے۔۔” دوسری طرف سے ایک کوشش کی گئ۔
” ویری سوری یار۔میں خود یہ موقع چھوڑنا نہیں چاہتا مگر مجبوری ہے ےیارا۔۔ بیت بڑی دیل ہے۔۔ لیکن فکر نہ کر۔۔۔ آتے ہی میرے لیے ٹریٹ تیار رکھنا۔۔ اسکی کوئ معافی نہیں۔ ساتھ موئذ کو بھی بلا لے گے۔اوکے” فہیم نے معذرت کرنے کے ساتھ فورا سے حل پیش کیا۔
“ہاں یہ تھیک ہے۔ اس پر زیادہ مزا آۓ گا۔۔ اوکے دن!!” دوسری طرف سے سعد ایک دم جیسے بچوں کی طرح بہل گیا تھا ۔
” اوکے چل اب میں فون رکھ رہا ہوں۔ کام کرنا ہے کافی۔ اب مل کر ہی باتیں شاتیں کرے گے اوکے۔۔”
“اوکااا۔۔۔ انشاء اللہ ملتے ہے پھر جلد ہی۔ اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
فون بند کر کے میز پر رکھ کر وہ ایک بار پھر فائلوں میں گم ہو گیا۔”
سعد اور ندا کی فیملیز مل چکی تھی اور پھر ندا کے گھر والوں نے سعد کے متعلق چھان پٹھک کر کے(بے شک یہ ان کی بیٹی کی خواہش تھی مگر پھر بھی خود کو مطمئن کر نے کے لیے یہ کیا کہ آخر کو معاملہ ان کی اکلوتی اولاد کا تھا)وہ ہاں کر چکے تھے۔ اور پھر مشترکہ طور پر منگنی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاکہ دونوں کی پڑھائ بھی دسترب نہ ہو اور باقاعدہ رشتہ بھی سب کے سامنے آجائیں۔
البتہ شادی فلحال انکے پیپرز تک ملتوی کر دی گئ۔
اس وقت بھی سعد اور سعدیہ بیگم احسن ولا کی طرف جا رہے تھے تاکہ وہا سے سونیا بیگم اور ندا کو پک کر کیا جاۓ۔ سعدیہ بیگم کی خواہش تھی کہ ہر چیز دونوں کی پسند سے آۓ کہ استمعال تو انہوں نے کرنی ہے۔
منگنی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا اسی کیے سعد اور ندا دونوں یونی سے چھٹی پر تھے۔
وہ دونوں ہلکی پھلکی بات چیت کرتے رہے۔ گھر کے سامنے پہنچ کر سعد گاڑی روک کر اتر کر دوڑ بیل کی۔ دروازہ چوکیدار نے کھولا۔ سعد کو پہچان کر اسے اندر آنے کی دعوت دی مگر سعد نے مسکراتے ہوۓ انکار کیا اور اندر سے آنٹی اور ندا کو بلانے کا کہا۔تھوڑی دیر بعد گاڑی میں بیٹھے وہ سب شاپنگ مال کی طرف بڑھے ے جا رہے تھے۔
وہ لوگ انگوٹھی لینے کی نیت سے ایک شاپ میں چلے گۓ مگر یہاں تو کسی کو کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔ سعد پہلی دفعہ اپنی اماں کے ساتھ کسے خاص شاپنگ پر آیا تھا ورنہ ہمیشہ وہ وقار صاحب کے ساتھ ہی آتی تھی۔ آن تو وہ صیحح معنوں میں چکرا گیا تھا۔ ب بھی وہ پوری دکان کھنگال کر کے بنا کچھ لیے باہر نکلے تو ندا کے کانوں میں سعد کی بڑبڑاہٹ گونجی ” میری توبہ، منگنی کی شاپنگ اتنی کھٹن ہے تو شادی کی کتنی مشکل ہو گی۔۔” اس نے بے اختیار جھڑجھڑی سی لی۔ ندا اس کی بات پر مسکرا دی۔
سعد کو اسے مسکراتا دیکھ کر شرارت سوجھی۔ وہ ایک بار پھر پہلے کی نسبت تھوڑا اونچا بڑبرایا ” اگر مگرا بیٹا ہوا نہ تو اسے سادگی سے ایک ہی بار مسجد میں نکاح کر کے رخصتی کروانے کا مشورہ دوں گا” اسکی بات پر ندا سٹپٹا کر تیزی سے آگے جاتی دونوں بیگموں کے ساتھ چلنے لگی جس پر ہیچھے سے سعد کی شوخ سی ہنسی گونجی۔
وہ سب اب ایک اور دکان میں داخل ہو رہےتھے۔ وہ تینوں ہی ایک کے بعد ایک انگوٹی کا اس طرح جائزہ لے رہی تھی جیسی یہی لینی ہو لیکن آخر میں منہ بنا کر ریجیکٹ کر دیتی۔ سعد ایک طرف بیزار سا انہیں یہ سب کرتے دیکھ رہا تھا۔
سونیا بیگم ایک اور انگوٹی نکلوا کر اب اسکو سکین کررہی تھی۔ سعد تنگ آکر آگے بڑھا۔ خوبصورت کال رنگ کا قیمتی پتھر اسکے گرد لگی ننھے ننھے سفید ہیروں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔ اسے یہ کسی بھی طرف سے غیر مناسب نہ لگی۔
اس وقت انگوٹھی ندا کے ہاتھ میں تھی۔ سعد اس کے پاس کھڑا تھا۔ ندا نے چونک کر اسے دیکھا۔ سعد نے ہاتھ بڑھا کر انگوٹھی لی اور دکاندار کی طرف بڑھا کر اسے پیک کرنے کا کہہ کر اپنا رخ تینوں کی طرف جو اسے حیرت اور خفگی کے ملے جلے تاثرات لیے دیکھ رہی تھی۔ وہ مسکرایا۔” آپ سب نے ایک دفعہ بھی میری راۓ نہیں لی۔ حالانکہ دیکھنی تو میں نے ہی ہے۔ اس لیے خود ہی آگے آگیا” سعد نے مسکراتے ہوۓ وضاحت کرتے ندا کی ظرف دیکھا جو اسکی بات پر شرم سے سرخ ہوتا چہرہ جھکا گئ تھی۔ دونوں خواتین مسکرادی۔
” اب باقی چیزیں کل دیکھے گے ابھی تھک گۓ” انکی بات پر سعد نے بے چارگی سے سبکو دیکھا۔ صہ تینوں اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔
مایا یونی کی گراؤند میں بیٹھی اپنی سوچوں میں غرق تھی جب کسی نے پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ چونک کر اپنی دنیا سے باہر آئ۔ اور پھر ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر جیسے کچھ محسوس کرکے وہ مسکرائ۔
“عنایہ” وہ مسکرائی۔
“افففف… تم ہر بار کیسے پتہ لگا لیتی ہو” عنایہ مصنوعی ناراضی سے کہتی منہ پھیلاتی بیٹھ گئ۔
“وہ کیا ہے نہ۔۔۔ دل کو دک سے راہ ہوتی ہے۔۔ بس اسی لیے مجھے پتہ لگ جاتا ہے” مایا نے مزے سے کہا۔
” جی نہیں۔۔۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔۔۔ آئ بڑی۔۔ اصل میں تو تمھارے پاس جن ہے جن سے فورا تم پتہ لگوا لیتی ہو کہ پیچھے کون کھڑا ہے۔” عنایہ نے پہلے مایا کی نقل اتاری اور پھر ایسے بولی جیسے کوئ اہم بات بتا رہی ہو.
” جی نہیں۔۔ تمھاری طرح فارغ نہیں ہوں میں جو جنوں کو قابو کرتی پھروں. ذہین بہت ہے ماشاءاللہ۔ ہر کسی کی پہچان ہے” وہ فخریہ لہجے میں بولی۔
” او او۔۔۔ ذہین بہت ہے۔ ذہین ہوتا تو یہاں ہوتی کیا۔ بی اے کی جگہ اپنے اس کھڑوس بھائ کے ساتھ ایم اے نہ کررہی ہوتی۔ ” عنایہ اسے چڑانے لگی۔
” چڑیلللللللل۔۔۔۔ خبردار جو آئیندہ میرے اتنے اچھے بھائ کو کھڑوس کہا۔ اور اسکا کیا مطلب ہوا کہ میں ایم اے کیوں نہیں کررہی۔ میں کونسا کوئ تین چار بار فیل ہونے جے بعد بی اے میں بیٹھی ہوں۔ اپنی عمر کے حساب سے صیحح تو جا رہی ہوں” مایا غصے سے کہتی یک دم حیرانی سے بولی۔
اوں اوں۔۔ تم نے کہا۔۔ ذہین بہت ہے۔ ۔۔۔بہت یعنی extra… اور extra دماغ والے خود کو ایک ہاتھ آگے ہی رکھتے ہے۔ اس لیے تمہیں ایم اے میں ہونا چاہیے تھا۔ “وہ مزے لے کر وضاحت کرنے لگی تو مایا نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
” تم تم۔۔۔ پاگل ہو پوری۔ نکلو یہاں سے۔۔ جاؤ بھوک لگی ہے مجھے کچھ لا کر دوں۔ بھاگو۔” وہ غصے سے کہتی اسے حکم دینے لگی۔
” چل چل۔۔ میں کوئ نہیں جا رہی۔۔ پیٹو خان۔۔۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے ۔۔۔ موٹی۔۔۔” عنایہ نے فورا انکار کیا۔
” میں ہر وقت کھاتی ہوں۔۔ میں پیٹو خان۔۔۔ میں موٹی۔۔” وہ حیرت و صدمے کے ملے جلے تاثرات لیے بولی۔
” مجھے نہیں پتہ۔۔ تم خود جاؤ۔۔ اپنے لیے بھی کے لاؤ اور میرے لیے بھی جاؤ شاباش۔۔۔” وہ ریلیکس انداز میں بولی۔
جی نہیں میں نہیں جا رہی۔ میں تھک گئ ہوں بہت۔۔ پلیز نہ۔۔۔ جاؤ کچھ لے آؤ۔۔ بہن ہو نہ میری پیاری سی۔۔۔” وہ اسے مکھن لگاتے ہوۓ بولی تو عنایہ اسے گھورتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
” دیکھ لوں گی میں تمھیں۔” وہ یہ کہتی آگے بڑھ گئ جبکہ مایا مسکراتے ہوۓ اسے جاتے دیکھتی رہی۔ وہ نظروں سے اوجھل ہوئ توکسی کے قدم اس کے پاس آکر رک گۓ۔ وہ شخص اس کے سامنے آ بیٹھا۔ مایا نے چونک کر اسے دیکھا۔ اور پھر شعیب کو دیکھ کر خوف کی ایک لہر اپنے اندر دوڑتی ہوئ محسوس ہوئ۔
“مایا” ۔۔۔ مسکراتے ہوۓ شعیب نے اسے پکارا تو گویا اس میں بجلی سی بھر گئ ہو۔ اس نے پھرتی سے اپنا بیگ اٹھایا اور آگے بڑھنے ہی لگی تھی جب شعیب نے اس کی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکا دے کر اسے واپس اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ وہ اسکی حرکت پر ہکا بکا سی اسے دیکھے گئ۔
” تمھیں بھاگتا ہوا دیکھنے کے کیے نہیں آیا ہوں یہاں۔۔ بات کرنی ہے مجھے تم سے ” وہ اسے غور سے دیکھتے ہوۓ بولا۔
سرمئ سکارف کے حالے میں دمکتا چہرہ۔ کانچ سی آنکھوں ہر لمبی پلکوں کا سایہ۔۔ خوبصورت نازک ہونٹ۔۔۔
” بہت خوبصورت ہو تم۔۔ اتنی خوبصورت کہ ہر کوئ تمھاری خواہش کرے گا۔۔ لیکن میں تمھیں کسی اور کا نصیب نہیں بننے دوں گا۔۔ تم صرف میری ہو۔۔ صرف میری تقدیر ہو تم۔۔۔ ” شعیب گھمبیر لہجے میں کہتا اس کی طرف جھکا ہوا تھا۔۔
مایا خود پر ایک نامحرم کی نظریں اور لمس محسوس کر کے پہلے گھبرا گئ تھی مگر اس کی خود کے متعلق نا زیبا الفاظ نے جیسے اس کے اندر بجلی سی بھر دی تھی۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنی کلائی چھروائ تو شعیب قہقہہ مار کر ہنسا۔
” چھڑ والو جان من چھڑ والوں۔۔ مگر کب تک بھاگوں گی۔۔۔ آؤ گی تو تم میرے پاس ہی۔۔ !!” وہ یہ کہہ کر رکا نہیں آگے بڑھتا چکا گیا۔۔
مایا نے تنفر سے سر جھٹکا۔۔۔
” تم کیا جانو میرا نصیب میری تقدیر۔۔۔
پہلے یہ تو پتا چلا لو تمھاری تقدیر میں اگلا سانس لکھا بھی ہے کہ نہیں…
میرا محافظ اللہ تعالیٰ ہے۔۔ اور اس کے ہوتے ہوۓ تم جیسے مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔!!
مایا نفرت سے بڑبڑاتی عنایہ کا انتظار کر نے لگی جو نجانے کہا رہ گئ تھی۔۔۔!!
فہیم کا آج پانچواں دن تھا اسلام آباد میں۔ایک میٹینگ وہ اٹینڈ کر چکا تھا۔ دوسری میٹینگ کل تھی۔ اسی سلسلے میں وہ کام میں مصروف تھا۔ وہ ایک ہوٹل کے کمرے میں رہائش پزیر تھا۔
وہ مسلسل پریزینٹیشن تیار کرنے میں مصروف تھا۔ اب تھوڑا کام ہی رہ گیا تھا اسی لیے فہیم ذرا دیر سستانے کو رکا۔ نظر اٹھا کر گھڑی کی طرف دیکھا جو شام کے چھ بجا رہی تھی۔ اس نے پاس پڑا انٹرکام اٹھا کر کافی لانے کا حکم دے کر رسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
فہیم نے کرسی کی پشت پر اپنے بازؤں کا تکیہ بنا کر اس پر اپنا سر ٹکا کر آنکھیں موند لی۔
آنکھیں بند کرنے پر ایک چہرہ اس کے ذہین پر چھا گیا۔ اس چہرے کو سوچتے ہی اسکے لب آپ ہی مسکرا اٹھے۔ تکھن ایک دم جیسے اتر سی گئ۔
” بس اب یہ آخری کام ہے میرا۔۔ بس یہ ختم ہونے دو اس کے بعد سب سے پہلے تمھارے والدین سے اجازت لے کر تمھیں اپنے تقدیروں میں لکھواؤ گا۔ اور مجھے یقین ہے وہ اپنے بھتیجے کو کھلے دک سے اجازت دیں گے۔ بس اب تم میری ہو۔۔ جان فہیم۔!!” فہیم تصور میں ہی اس چہرے سے مخاطب ہوتا بڑبڑانے لگا۔
اس کی سوچوں کا تسلسل بیک وقت دروازے پر ہونے والی دستک اور فون پر آنے والی کال کی آواز نے توڑا۔
وہ گہری سانس لیتا کال پک کرتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
“اسلام و علیکم! اماں جان کیسی ہے آپ؟؟” فہیم نے پوچھا اور کافی کا کپ لیے صوفے پر بیٹھ گیا۔
“وعلیکم اسلام بیٹا! بلکل ٹھیک ۔۔ تم سناؤ بیٹا کب تک واپس آرہے ہو؟” دوسری پرف سے شگفتہ بیگم کی آواز سنائ دی۔
امی بتایا تو تھا آپ کو کہ دو ہفتے لگ جاۓ گے۔ ابھی تو ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا۔” اس نے کچھ حیرت سے بتایا۔
“آ۔۔ اں۔۔ او اس کا مطلب تم پرسوں منگنی پر نہیں آ سکوں گے” دوسری طرف سے استفسار کیا گیا۔
” کیا مطلب۔۔ کس کی منگنی۔۔ آپ سعد کی منگنی کی بات کررہی ہے۔۔ اس سے میری بات ہو چکی ہے۔۔ اس سے معذرت کر کی میں نے۔۔ کیا آپ کے پاس آیا تھا وہ؟؟” اس نے چونک کر پوچھا۔
” بھئ سعد کے ساتھ ندا کی منگنی ہو رہی ہہ نہ۔۔ سعد بھی آیا تھا۔۔ تمھیں نہیں پتہ کیا۔۔ دیکھو ذرا میں بھول ہی گئ۔۔”
دوسری طرف سے شگفتہ بیگم بوکے گئ مگر فہیم کا ذہین انکی پہلی بات پر ہی اٹک گیا تھا۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کے حواسوں پر بم گرا دیے ہوں۔۔
“آپ ندا کی بات کررہی ہے۔ تایا کی بیٹی ندا۔۔ کیا وہ خوش ہے اس رشتے سے؟؟” وہ کوئ موہوم سی امید لیے پوچھنے لگا.
” ہاں وہ ہی اور کون ندا ہے ہمارے خاندان میں۔۔ اور خوش کیوں نہیں ہو گی وہ۔۔ سونیا بھابی بتا رہی تھی کہ ندا کی ہی پسند ہے سعد۔۔۔” وہ تفصیل بتا رہی تھی لیکن فہیم کو اپنا دماغ سایئں سایئں کرتا محسوس ہوا۔۔ وہ بمشکل انہیں اللہ حافظ کہتا فون بند کرگیا۔
” نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔ ندا تو مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔ وہ سرد کو کیسے چاہ سکتی ہے۔۔ نہیں یہ یہ۔۔ سعد نے کچھ کیا یقینا۔۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ تم بس میری ہو۔۔۔ تم بس میری ہو۔۔۔ میری تقدیر میں ہو تم۔۔۔ کسی کا نہیں ہونے دوں گا میں تمھیں۔۔ تم نے کسی اور کو سوچا بھی کیسے۔۔۔ میرے جذبات کا مذاق اڑایا ہے تم نے۔۔۔ کھیل سمجھا ہے تم نے یہ سب۔۔ کرلو تم منگنی۔۔ شوق سے۔ دھوکا دیا ہے تم نے۔۔۔ یا تم میری بنو گی۔۔ نہیں تو کسی کا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔” وہ صدمے کی کیفیت سے نکلتا اشتعال مین آنے لگا۔۔ جو تصور کچھ دیر پہلے اس کو سکون بخش رہا تھا اب وہ ہی تصور اس کا سکون چھین رہا تھا۔۔
میز پر پڑا آدھا پیا کافی کا مگ لمحہ بہ لمحہ سرد ہونے لگا۔۔ بلکل اس چکر کاٹتے شخص کے جذبات جیسا سرد۔۔۔!!
حسین ولا کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔گھر کی سجاوٹ کے لیے سرخ و سفید رنگوں کا استعمال کیا گیا تھا۔پورا گھر مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ ایسے میں ندا اپنے کزنز اور سہیلیوں کے گھیرے میں بیٹھی تھی۔ وہ ابھی ابھی پارلر سے تیار ہو کر آئ تھی۔ ہلکے سرخ رنگ کی میکسی زیب تن کیے جس پر سفید موتیوں کا کام تھا۔ گردن، ہاتھوں اور کانوں میں ہم رنگ جیولری پہنے۔ سر پر سلیقے سے اوڑھایا گیا دوپٹہ جس میں سے بالوں کی چند لٹیں باہر نکل رہی تھی۔ ہلکا مہک اپ اس کے چہرے کو چار چاند لگا رہا تھا۔
آہاں۔۔۔ ندا آپی آپ تو بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔ اپنے ان کے سامنے مت آہیں گا یہ نہ ہو کہ منگنی کی بجاۓ نکاح کروا کر رخصتی کروا کر لے جاۓ” اس کی چاچو کی بیٹی عنایہ نے جملہ اچھالا تو ندا بے اختیار جھینپ گئ۔ اسی وقت اندر داخل ہوتی مہک نے اسکا جملہ سنا تو فورا بولی۔
” کون پیارا لگ رہا ہے ہمیں بھی تو بتاؤ؟؟”
مہک ندا کی بچپن کی سہیلی تھی۔
ندا آپی اور کون!!” عنایہ نے فورا جواب دیا۔
” ندا اور پیاری نہ بھئ مین نہیں مانتی۔ یہ تو چڑیل ہے ہماری۔۔۔ بھلا چڑیل بھی پیاری لگا کرتی ہے کیا۔ لیکن عنایہ تمھاری ایک بات تو تھیک ہے۔” وہ بولتے بولتے رکی۔ ندا نے اسے گھورا جبکہ عنایہ نے سوالیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ کسی کے بولنے سے پہلے وہ ایک بار پھر کہنے لگی۔
” بھئ یہ ہی کہ یہ سعد کے سامنے نہ آۓ۔ بات تو تھیک ہے مگر وجہ غلط ہے۔ اصل مین نہ تم سعد بھائ کے سامنے نہ آنا۔۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ تمھیں چڑیل بنا دیکھ کر وہ نکاح اور رخصتی تو دور کہی وہ منگنی سے ہی انکار نہ کر دیں” مہک نے کہا تو ندا نے دہل کر اسے دیکھا۔
” توبہ کر لڑکی۔ تمھارے منہ میں خاک۔ اللّٰہ نہ کرے۔ حد ہو گئ۔ ہمیشہ فضول بولتی رہتی ہو۔ تم سے بھلا کوئ کچھ پوچھ رہا ہے۔ بلا وجہ بولے جا رہی ہو۔ جس کے لیے تیار ہوئ ہوں نہ میں اسی سے پوچچچچھ۔۔۔۔!!” ندا روانی میں بے اختیار کہتی چلی گئ مگر احساس ہونے پر بریک لگانے کے کیے اس نے اپنی زبان دانتوں تلے دبا لی۔ چہرہ خفت سے سرخ پڑ گیا۔جبکہ اسکی بات اور چہرے کے تاثرات پر سب کا مشترکہ قہقہ گونج اٹھا۔ شرم سے اس کو اپنا چہرہ دہکتا ہوا محسوس ہوا۔
” اوۓ ہوۓ۔۔۔ لڑکی اب تم بچو۔ سب بتاؤ گی میں اب سعد بھائ کو کہ کس طرح میری ایک مزاق میں کہی گئ بات ہر ندا مرنے مارنے ہر اتر آئ اور اور۔۔۔۔یہ بھی بتاؤ گی کہ ندا کہہ رہی تھی کہ وہ اپنی جان سے پوچھے گی کہ وہ کیسی لگ رہی ہے۔” مہک کی شرارت بھری آواز پر جہاں سب ہنسے وہی ندا نے غصے سے اسے دیکھا۔
” مہک بد تمیز میں ںے ایسا کب کہا”… ندا اس وقت سب بھول بھال کر مہک سے لڑنے میں مصروف تھی۔۔ وہ یہ تک بھول گئ کہ وہ دلہن بنی بیٹھی ہے اور کبھ دیر بعد اسکی اپنی منگنی ہے۔
” ہاں تو انہیں کیا پتہ تم نے کیا کہا اور کیا نہیں۔۔۔انہیں تو کسی کو ستانے کے لیے بس ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ اور اس بار یہ چنگاری اپنے جیجو کو میں دوں گی۔۔۔” مہک مزے لے لے کر اسے تنگ کررہی تھی۔
” نہیں ماہی۔۔۔ تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گی۔۔ پلیز پلیز۔۔ میری جان ہو نہ تم۔۔۔ میری بہن پیاری سی۔۔۔” ندا نے میٹھے لہجے میں کہہ کر جیسے اسے بہلانہ چاہا۔۔ مگر دوسری طرف بھی مہک تھی۔
” نہ جی نہ۔۔۔ ابھی تو آپ نے مجھے جیم میں سے بال کی طرح نکالا تھا۔۔ بدلہ لینا تو بنتا ہے۔۔۔” مہک نے مہاورے کی ٹانگیں توڑی تو سب ہنس ہڑی۔ وہ ابھی اور بھی کچھ کہتی لیکن مگر دروازے سے اندر آتی فزا اس کے بولنے سے پہلے بول پڑی۔
” سعد بھائ کی فیملی آگئ ہے۔ ممانی آپ سب کو بلا رہی ہے۔ ”
فزا کہہ کر چلتی بنی۔
” اوکے سونی۔جسٹ ویٹ اینڈ سی” مہک شرارت سے اس کے گالوں کو چھوتی کہتی باقی سب کے پیچھے باہر نکل گئ۔۔
باہر سعد وقار کے والدین کے ساتھ چند رشتے دار تو موجود تھی مگر سعد وقار خود ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ سب ہی خوشی اور شدت سے اس کے منتظر تھے۔۔۔۔
سعد ڈریسنگ ٹیبل کے سمنے کھڑا خود پر باہر جانے سے پہلے ایک آخری نظر ڈال رہا تھا۔ سفید شلوار قمیض پر سرخ رنگ کی ویسکوٹ پہنے،، بالوں کو جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا۔ داڈھی کو خوبصورتی سے ترتیب دیے بائیں ہاتھ پر گھڑی پہنے وہ اپنی تمام تر وجاہت سمیٹے کھڑا تھا۔ خوشی سے چمکتا چہرہ اس کی وجاہت کو بڑھا رہا تھا۔ وہ آنے والے لمحوں کو سوچتا مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ لیکن وہاں اپنے دوستوں کے علاوہ کسی کو نہ پا کر وہ چونک گیا۔
” کہاں گۓ سارے؟؟” وہ پوچھتا ہوا آگے بڑھا۔
” جب تو دلہنوں کی طرح تیار ہونے میں گھنٹہ لگا رہا تھا تب کسی سے صبر نہ ہوا اور سب چلے گۓ” موئذ مزے لیتے ہوۓ ریلیکس انداز میں بولا۔ وہ اس وقت تیار ہوۓ صوفے پر دراز تھا۔
” کیا مطلب۔۔ چلے گۓ۔۔۔ اور یہ تو لیٹا ہوا کیوں ہے؟؟ کیا میرے بنا ہی منگنی کرنے کا۔ ارادہ ہے؟؟” وہ حیرت سے بولا۔
اس کی حیرت بجا تھی۔ کیونکہ اس کی معلومات کے مطابق سب نے ساتھ ہی نکلنا تھا بلکہ سعد نے اپنے والدین کے ساتھ ان کی گاڑی میں ہی جانا تھا۔۔۔ اور اب یہ سب۔ اس کو سمجھ نہ آیا۔
” ہااااں ں ں ں۔۔۔۔ کر بھی سکتے ہے۔ انگوٹھی ہی تو پہنانی ہے وہ آنٹی ہی پہنا دیں گی۔ اور آپکے ہاتھ ماشاءاللہ سلامت ہے۔ تو جب آنٹی واپس آۓ تو ان سے لے کر آپ پہن لینا۔ سمپل ۔۔۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ زمان نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
” جی نہیں۔ ہٹو آگے سے۔ پاگل ہو گۓ کیا تم سب۔۔ ایسے ریلیکس بیٹھے ہو جیسے میری نہیں کسی ایری غیرے کی منگنی ہو رہی ہے۔” سعد نے آگے بڑھتے ہوۓ غصے سے کہا تو سب اس کی جزباتیت پر ہنس پڑے جبکہ اس کے پاس کھڑے حازق نے سعد کا بازو پکڑ کر اسے باہر جانے سے روکا۔
” رک جا بھائی۔ اتنی جلدی کاہے کو ہے۔۔ تیرے بغیر میرا نہیں خیال کہ وہ منگنی کرے گے” موئذ نے جیسے اسے تسلی دی۔
” ہاں اوۓ۔۔۔ ویسے بھی تو خاص مہمان ہے اور خاص کوگ اگر وقت ہر پہنچ جاۓ تو ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق رہ جاۓ گا۔”
زمان نے اسے بہکایا۔ تو سعد نے اسے گھورا۔
” تم لوگ لگتا ہے۔ بلکہ نہیں اصل میں تم سب کو جیلسی ہو رہی ہے میرے سے۔ میری خوشی تم لوگوں سے ہضم نہیں ہورہی۔ چھوڑ مجھے میں جا رہا ہوں” سعد بچوں کی طرح غصہ کرتا بولتا گیا جبکہ باقی سب اس کی بات پر قہقہ مار کر ہنس پڑے۔
سعد ان کے ہنسنے پر مزید تلملایا۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا جب لاؤنچ کے دروازے سے شارق اور معصب اندر داخل ہوۓ۔
” یہ کہاں سے آرہے ہیں؟؟” سعد نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ اس کے خیال میں تھا کہ وہ دونوں ندا کے گھر جا چکے ہیں۔
” چل اب چلے۔ ایسا نہ ہو کہ واقعی وہ سب تیرے بغیر منگنی کی رسم کر آۓ” اب کی بار حازق نے سعد کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ نا سمجھی سے اس کے پیچھے ہو لیا۔ باقی سب بھی باہر کی طرف چل پڑے۔
وہ سب اسے لیے باہر آگۓ۔ مگر پورچ میں گاڑی کی بجاۓ نفاست سے سجے گھوڑے کو بندھا دیکھ کر سعد ایک دم رک گیا۔ وہ یاد کرنے لگا کہ وہ یہ گھوڑا کب لایا تھا۔۔
” یہ گھوڑا کون لایا۔۔ کس کا ہے یہ۔۔۔ یہاں کیا کررہا ہے۔۔ ہٹاؤ اسے یہاں سے گاڑی کہاں ہے؟؟”
سعد کو اب الجھن ہونے لگی تھی۔
” صبر رکھ بھائ۔ اتنا غصہ کیوں کررہا ہے تو۔ تیرے لیے لاۓ ہے یہ گھوڑا۔ اس ہر بیٹھ کر جاۓ گا تو۔ اب بتا جانا ہے کہ نہیں؟؟” موئذ نے اب کے سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجا کر شرارت سے سمجھایا تھا۔ سعد نے پورا منہ کھول کر سب کو دیکھا۔
” کک کیا مطلب۔ اس پر کیسے جاسکتا ہوں میں۔ تم تم لوگوں کو پتہ ہے نہ مجھے ڈر لگتا گھوڑوں سے۔۔۔” سعد اب کے منمنایا۔ سب کے چہروں پر شرارت بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔
” کوئ بات نہیں۔ ابھی نکالتے ہے تیرا ڈر ہم۔ تو فکر کیوں کرتا کے جگر۔ چل شاباش دیر ہورہی ہے۔ ” زمان نے اس کی پشت پر تھپکی دی۔
” تم لوگ پاگل ہو گۓ ہو۔۔ میں یہاں۔ سے ندا کے گھر تک اس گھوڑے پر کیسے جا سکتا ہوں۔ لوگ کیا سوچے گے۔ حد کرتے تم سب۔ یہ کوئ وقت ہے مزاق کرنے کا” وہ آرام سے شروع ہوکر آخر میں غصے سے بولا۔
” سعد۔ بچے گاڑی کی چابی تجھے ملنی نہیں۔ تو ہوگا یہ کہ ہم سب چلے جاۓ گے۔ تو بیٹھا رہی یہاں پھر۔ ” حازق نے اب کی بار دھمکی دی۔
” یار سعد تو کیوں مزا خراب کررہا ہے۔ زیادہ مت سوچ۔ مزا کر یار۔ غصہ کیوں کرتا ہے۔ enjoy کر۔ چل شاباش” معصب نے پہلی بار زبان پر موجود فقل ہٹاتے ہوۓ کہا تو سعد سب کو گھورتا گھوڑے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ جانتا تھا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
کچھ دیر بعد گھوڑا پانچوں گاڑیوں کے گھیرے میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
سعد کو کافی عجیب لگ رہا تھا مگر وہاں پروا کسے تھی..!!