میرے والد ماجد نواب محمد اکبر علی خاں صاحب بھی سخاوت کی صفت میں گویا اپنے زمانے کے حاتم ثانی تھے۔ ہر بہانے دیتے تھے اور اپنی بساط سے بڑھ کر دیتے تھے۔ جب دینے کو کچھ پاس نہ ہوتا تھا تو بڑے اداس ہوتے۔ ان کی اداسی ان کی تنگ دستی کا نشان تھی۔ ان کو صرع کا مرض تھا۔ کبھی ہفتہ اور کبھی ماہوار اس کا دورہ ہوتا تھا۔ گو وہ اپنے ارادوں، عادتوں، طریقوں میں بڑے مستقل مزاج تھے، لیکن پھر بھی اس مرض نے ان کے مزاج میں ایک عجیب رنگ پیدا کر دیا تھا۔ اور ایک نئی قسم کی خصلت پڑ گئی تھی۔ یعنی جب سب کچھ دے دلا کر ان کے پاس کچھ نہ رہتا تھا تو ان کی طبیعت میں اداسی پیدا ہو کر ایک جوش اٹھتا اور وہ غصہ بعض مصاحبین وغیرہ پر اترتا۔ ان پر ایسی خفگی ہوتی کہ ان کی برطرفی تک کی نوبت پہنچتی اور معزولی کے بعد حکم ہوتا کہ ابھی صدر ریاست سے خارج ہو جاویں اور بعد خارج کرنے کے اکثر ان کے مکانات کھدوا کر پھنکوا دیتے۔ مگر اپنی لازمی صفت سخاوت کے اس باب میں بھی رعایت ملحوظ رکھتے۔ یعنی ان کو علاوہ تنخواہ کے زاد راہ کے طور پر اگر ممکن ہوتا تھا تو کچھ مدد خرچ دیتے تھے۔ پھر جہاں وہ جوش اتر چکتا، فوراً اس نکالے ہوئے کی پھر بلانے کی امنگ جی میں اٹھتی۔ اسی وقت چپراسی بھیجا جاتا۔ اگر کوئی معزز آدمی ہے تو سوار چلا جاتا۔ اس سے بھی مقرب ہے تو اس کے لینے کو ایک دو مصاحب روانہ ہوتے۔ سانڈنی سوار دوڑتے۔ غرض جس طرح ہو سکتا تھا، بلاتے تھے اور پھر اس سے اپنا قصور معاف کراتے۔ اس کو زر نقد پوشاک انعام میں دیتے اور عمدہ کھانے اپنے خاص باورچی خانے سے بجھواتے تھے اور ہر طرح سے خوش کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ یہ آرزو کیا کرتے تھے کہ ہم جلدی جلدی معزول ہوا کریں تاکہ غیر معمولی مدارات کے ساتھ بلائے جائیں اور خلعت و انعام پاویں۔ اسی وجہ سے بعض لوگ ان کو مراق کا مرض بھی بتاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا کوئی مقرب ملازم ایسا نہ تھا جو دو چار مرتبہ نکالا نہ گیا ہو۔ سوائے حکیم فتح اللہ خاں صاحب مرحوم کے کہ ان کا وہ بڑا لحاظ اور توقیر کرتے تھے۔ چنانچہ سنا ہے کہ دادا فیض طلب خاں صاحب نے میرے ابا جان کو یہ وصیت کی تھی کہ حکیم فتح اللہ خاں کو تم میرے بعد میری جگہ سمجھنا اور ایسے رفیق کو ہرگز جدا نہ کرنا۔ سو حقیقت میں ان مرحوم نے ایسا ہی کیا۔ بلکہ انھوں نے حکیم صاحب مرحوم کے اکثر رشتے داروں اور عزیزوں کو رکھا اور ان کے بعد ان کے ایک نواسے کو ان کی جگہ طبابت کے عہدے پر مقرر کیا اور بڑی عزت کے ساتھ رکھا۔ مگر زمانے کا انقلاب ایسا ہوا کہ ریاست کے کاروبار میں اب وہ لوگ دخیل ہوئے جنھوں نے حکیم صاحب مرحوم کے خاندان میں سے ایک متنفس کو بھی کاروبار ریاست پر بحال نہ رکھا۔ یا بڑے بڑے کاموں پر وہ لوگ متعین تھے۔
میرے ابا جان رحم دل ایسے تھے کہ کسی کے دکھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جہاں تک ہو سکتا تھا، اس کی تکلیف دفع کرنے میں کوشش کرتے تھے۔ ان کی تمام رعایا اور ملازم اور اولاد تا دم زیست ان سے سب خوش رہے۔ پندرہ سولہ برس کی عمر میں مسند نشین ریاست ہوئے۔ یوں چونتیس پینتیس برس ریاست کی۔ پچاس برس کی عمر میں دنیا سے سدھارے۔ خدا رکھے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، سو آدمیوں کا کنبہ بھرا ہوا چھوڑا۔ ایسا خوش نصیب تو لاکھوں آدمیوں میں سے بھی شاید کوئی ہوگا۔
بیٹوں کا حال
میرے ابا جان کے پانچ بیٹے تھے۔ سب سے بڑے نواب محمد تقی علی خاں صاحب۔ یہ ابا جان کے انتقال کے بعد مسند نشین ریاست ہوئے تھے۔ ان کا تذکرہ آگے آوے گا۔ ان سے چھوٹے محمد اصغر علی خاں۔ ان سے چھوٹے محمد جعفر علی خاں۔ یہ تینوں ابا جان کی وفات کے بعد فوت ہو گئے۔ محمد صادق علی خاں اور محمد عنایت علی خان، یہ دونوں اللہ رکھے زندہ ہیں۔ خدا ان کو زندہ رکھے اور ان کی اولاد کے کھیڑے برسائے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے ماہوار ان کو وثیقے کے طور پر ریاست سے ملتا ہے۔
بیٹیوں کا حال
بارہ بیٹیاں صغری بیگم، کبریٰ بیگم، کلثوم بیگم، سکینہ بیگم، زہرا بیگم، یہ عاجزہ یعنی شہر بانو بیگم، سلطان زمانی بیگم، امامی بیگم، سکندر بیگم، ملکہ بیگم، انور بیگم، باقری بیگم۔ ان سب کا وثیقہ ریاست سے ساٹھ ساٹھ روپے ماہوار مقرر ہے۔ ان میں تین بیٹیاں یعنی کبریٰ بیگم، کلثوم بیگم اور ملکہ بیگم فوت ہو گئیں اور نو اس وقت زندہ موجود ہیں۔
بیویوں کا حال
اور بارہ بیویاں چھوڑی تھیں۔ پہلی شادی بیگم صاحبہ۔ یہ بیاہتا بیوی تھیں۔ ان کے بطن سے صرف ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی، وہ خورد سالی ہی میں فوت ہو گئی تھی۔ ان کو دو سو روپے ماہوار ریاست سے ملتا تھا۔ دوسری سرفراز محل۔ یہ بھی منکوحہ تھیں۔ میرے بڑے بھائی جان نواب محمد تقی علی خاں صاحب مرحوم جو ابا جان کی وفات کے بعد مسند نشین ریاست ہوئے تھے، اور ایک بیٹی صغری بیگم، یہ دونوں ان کے بطن سے تھے اور اس وجہ سے یہ رئیس کی ماں تھیں۔ سو روپے ماہوار ریاست سے ان کو وثیقہ ملتا تھا۔ تیسری والدہ محمد اصغر علی خاں۔ چوتھی والدہ جعفر علی خاں۔ پانچویں والده محمد صادق علی خاں۔ چھٹی والدہ کبریٰ بیگم۔ ساتویں والدہ کلثوم بیگم۔ آٹھویں والدہ سکینہ بیگم۔ نویں والده عاجزہ یعنی شہر بانو بیگم۔ یہ بھی منکوحہ ہیں اور نواب صاحب یعنی والد مرحوم کے حین حیات تک ان کو ایک سو ستر روپے ماہوار ملتا رہا، مگر ان کی ترش مزاجی نہایت درجے کی تھی اور نواب صاحب ان کی ترش مزاجی سے اکثر ناراض رہتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اپنے وصیت نامے میں ان کا وثیقہ اوروں کے برابر پچاس روپے ماہوار لکھ گئے۔ چنانچہ بعد وفات نواب صاحب منجملہ ایک سو ستر روپے کے، پچاس روپے ماہوار ان کو ملتا ہے۔ دسویں والده امامی بیگم، گیارھویں والده انور بیگم، بارھویں والده باقری بیگم۔ بعد انتقال نواب صاحب شادی بیگم صاحبہ اور والده محمد تقی علی خاں صاحب اور والده اصغر علی خاں اور والدہ کبریٰ بیگم، یہ چار فوت ہو گئیں اور آٹھ اس وقت تک زندہ موجود ہیں۔ پچاس پچاس روپے ماہوار ان کو وثیقہ ریاست سے ملتا ہے۔
بیٹوں کی اولاد کا حال
نواب محمد تقی علی خان صاحب کے ایک بیٹا نواب محمد مختار حسین خاں تھا، سو وہ اپنے باپ کی وفات کے بعد مسند نشین ریاست ہوا۔ اس کا تذکرہ آگے آوے گا۔
محمد اصغر علی خاں صاحب کے ایک دختر سعادت النساء تھی۔ پہلے باپ کا انتقال ہوا، ان کے بعد وہ بھی فوت ہو گئی۔ محمد جعفر علی خاں صاحب ١٨٧٩ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے دو فرزند ہیں۔ ایک کا نام مظفر علی خاں اور دوسرے کا نام وصیت علی خاں اور ایک دختر ہے۔ محمد صادق علی خاں صاحب کے ایک فرزند محمد حبیب الرحمان خاں اور ایک دختر ہے۔ محمد عنایت حسن خاں صاحب کے دو فرزند ہیں۔ ایک کا نام محمد حسن خاں اور دوسرے کا نام محمد حسین خاں اور ایک دختر ہے۔
بیٹیوں کی اولاد کا حال
صغریٰ بیگم کے ایک فرزند عبد الحمید خاں ہے۔ کبریٰ بیگم کے چار فرزند ممتازعلی خاں، مبارک علی خاں، حشمت علی خاں، ناصر علی خاں اور دو بیٹیاں ہیں۔ کلثوم بیگم کے ایک دختر حسن زمانی بیگم ہے۔ سکینہ بیگم کے ایک فرزند معین الدین خاں اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ زہرا بیگم کے ایک فرزند محمد اسحاق خاں ہے۔ امامی بیگم کے ایک فرزند عباس علی خاں اور چار بیٹیاں ہیں۔ سکندر بیگم کے ایک فرزند ارشاد علی خاں اور دو بیٹیاں ہیں۔ ملکہ بیگم کے ایک دختر افضل بیگم ہے۔ باقری بیگم کے چار بیٹیاں ہیں۔ میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب کی یہ اولاد ہے۔
نواب محمد تقی علی خاں کا مسند نشین ہونا اور ان کا فوت ہونا
پس جب والد کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ میرے بڑے بھائی جان نواب محمد تقی علی خاں صاحب مسند نشین ریاست ہوئے۔ مگر ان کی عمر نے زیادہ وفا نہ کی کہ مسند نشیں ہونے کے صرف تین مہینے وہ بھی چند در چند امراض کی حالت میں زندہ رہے۔ چھٹی تاریخ بقر عید کی تھی کہ وہ بھی دنیا سے رحلت کر گئے اور اپنے باپ ہی کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کا داغ بھی ہمارے کلیجوں پر نقش ہو گیا۔ اللہ تعالی ان کو جنت نصیب کرے۔ چوبیس برس کی عمر تھی۔ اچھی طرح جوانی کا سکھ بھی تو نہ دیکھا۔ اگرچہ میرے والد بزرگوار کے مرنے کا لوگوں کو بڑا غم ہوا تھا، کیونکہ سخاوت میں وہ اپنے زمانے کے حاتم تھے مگر اس مرنے والے نے بھی اپنی نوابی کے عہد میں ایک ایک کی ایسی دل جوئی اور شفقت عام کی تھی کہ والد مرحوم کا داغ لوگوں کے دلوں سے مٹا دیا تھا اور تین مہینے میں ریاست میں ایسی بہار آ گئی تھی کہ لوگ عش عش کرتے تھے۔ اور یہی مرزا ایوب بیگ، جو اب میرے ہاں مختار ہیں، میرے بھائی جان نواب محمد تقی علی خان صاحب مرحوم کے عہد میں ریاست کے مدار المہام تھے۔ ان کے حسن انتظام سے ریاست کے کل کارخانوں میں رونق تازہ آ گئی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ بہار زیادہ نہ رہی اور تھوڑی ہی مدت میں آخر ہو گئی۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا جو خواب و خیال ہو گیا۔ ہم اچھی طرح ابا جان کا غم نہ بھولتے تھے کہ بھائی جان کا صدمہ جانکاه اٹھانا پڑا۔ بیت:
بھرے تھے نہ پہلے ہی زخم جگر
دیا آسماں نے یہ داغ دگر
مختار حسین خاں کا مسند نشیں ہونا
بھائی کے انتقال کے بعد ان کا فرزند نواب محمد مختار حسین خاں، جس کی عمر آٹھ برس کی تھی مسند نشین ریاست ہوا اور میرے منجھلے بھائی محمد اصغر علی خاں صاحب مرحوم منتظم ریاست ہوئے۔ یہ کچھ خوش انتظام نہ تھے۔ ان کی غفلت سے ریاست کے کاروبار میں ابتری پڑی اور آپس میں نزاع پیدا ہوئے۔ تمام بیگمات ان سے آزردہ ہو کر دہلی چلی آئیں اور یہاں آ کر نالشی ہوئیں۔ غرض چار پانچ برس وہ ریاست کے منتظم رہے۔ بس یہی تکا فضیحتی ہوتی رہی۔ آخر یہ ہوا کہ ان کی بے پروائی اور بد نظمی سے فوج کی تنخواہ کئی مہینے کی چڑھ گئی اور تنگ ہو کر فوج کے ایک جتھے نے ان کے ایک کارندے کو ایک دن پکڑ لیا اور بے آبرو کیا۔
اصغرعلی خاں کا موقوف ہونا اور صفدر حسین خاں کا منتظم ہونا
آخر کار جناب مکنیل صاحب بہادر کمشنر دہلی نے ١٨٦٦ء میں اصغر علی خاں صاحب کو منتظمی سے موقوف کر کے ڈپٹی صفدر حسین خاں صاحب کو ان کی جگہ منتظم ریاست مقرر کر کے بھیج دیا۔ ڈپٹی صفدر حسین خاں صاحب نے ریاست کا انتظام نہایت عمدہ کیا۔ ریاست جو مقروض ہو گئی تھی، وہ قرضہ بھی سب ادا کر دیا بلکہ سوا لاکھ روپیہ بنک میں جمع کرا دیا۔ ڈپٹی صاحب پانچ سال منتظم ریاست رہے۔ آخر ١٨٧١ء میں ان کی تبدیلی ہو گئی۔