اگلے شام کو زوہیب نے پھر اسے کال ملائی آج اس کی آواز زوہیب کو پہلے سے بہتر لگی تھی۔
کیرل ڈیوڈ اور جنیفر کے ساتھ کچھ فاصلہ پر کھڑی زوہیب کے عمل کو مشابہ کر رہی تھی۔ زوہیب بات کر کے موبائل جیب میں ڈالتا ان کے پاس آیا۔
کیرل:” کیا ہوا زوہیب۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے میں دیکھ رہی ہوں کچھ دنوں سے تم روز پاکستان کال کر رہے ہو اور فکرمند ہوتے ہو۔۔۔۔ تمہاری فیملی میں سب ٹھیک تو ہے۔” اس نے ہمدردی سے زوہیب کا بازو تھام کر کہا۔
باقیوں کے بشمول زوہیب پہلے سے ہی کیرل کے جذبات سے واقف تھا اور وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح وہ بنا اسے زیادہ تکلیف پہنچائے اس کی بڑھتی دلچسپی کو ختم کر سکے۔ آج وہ موقع اسے مل گیا تھا۔
زوہیب:” ہاں فیملی میں تو سب ٹھیک ہے۔۔۔۔” اس نے غور سے کیرل کو دیکھا وہ اسی کی طرف متوجہ تھی۔
“بس میری گرل فرینڈ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی کچھ دنوں سے۔۔۔۔ اسی کے لیے پریشان تھا۔” اس نے سب کو باری باری دیکھا وہ ایک دم چپ سے ہوگئے۔ کیرل نے اس کا بازو چھوڑ دیا اور ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
ڈیوڈ:” اوہ تو تمہاری گرل فرینڈ بھی ہے تم نے پہلے کبھی بتایا نہیں” اس نے صورتحال تبدیل کرنے کے لیے مزاحیہ انداز میں کہا۔
زوہیب:” ہاں ہم لوگ اپنی ذاتی زندگی کو اس طرح پبلک میں شائع نہیں کرتے” زوہیب نے سرسری سی لاپروائی میں کہا۔
کیرل کا چہرہ پھیکا پڑھ گیا تھا۔ وہ ان سے کوئی کام یاد آنے کے بہانے پر معذرت کرتی وہاں سے روانہ ہوگئی۔ زوہیب کو اس کے وہاں سے ایسے چلے جانے پر دکھ ہوا لیکن اس کا ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔
کیرل کے چلے جانے سے جنیفر بھی اس کو سنبھالنے اس کے پیچھے چلی گئی۔ اس وقت وہ اور ڈیوڈ اکیلے پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔
ڈیوڈ:” تمہیں ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا جانتے تو ہو وہ تمہارے لئے کیا محسوس کرتی ہے۔” اسے کیرل پر افسوس ہوا۔
زوہیب:” تو اور کیسے کہتا۔۔۔ دکھ مجھے بھی ہوا لیکن یہ کرنا ضروری بھی تھا۔۔۔۔ ڈیوڈ میں اپنی گرل فرینڈ سے وعدہ کر کے آیا ہوں کہ واپس جا کر اسی سے شادی بھی کروں گا۔۔۔ کیرل بہت اچھی لڑکی ہے مجھے دوست کے لحاظ سے پسند بھی ہے لیکن میں اسے جھوٹی آس میں نہیں رکھ سکتا اور نہ اپنی گرل فرینڈ پر cheat (دھوکہ دینا) کر سکتا ہوں۔۔۔۔ میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں” اس نے ہاتھ پیچھے باندھے سر اوپر کئے نیلے چمکتے آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ڈیوڈ نے اس کی بات کو سمجھ لینے والے انداز میں سر اثابت میں ہلایا اور اس کے کندھے کو تھپکتے ہوئے چلا گیا۔
زوہیب فلحال اکیلا رہنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنے ارد گرد درختوں کے نظارے کرتا آگے بڑھ گیا۔
*****************
ڈیوڈ اور جنیفر سے اس کا ملنا معمول کا چلتا رہا لیکن اس دن کے بعد سے کیرل زوہیب کے ساتھ نظر نہیں آئی تھی۔
ایک دن کلاس ختم ہونے کے بعد وہ خود ہی کیرل کے ڈپارٹمنٹ چلا گیا تھا۔ کیرل ایک بینج پر بیٹھی کتاب پڑھتی نظر آئی۔ وہ کوٹ کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کے پاس آیا اور بینج پر بیٹھ گیا۔ کیرل نے رخ موڑ کر دیکھا وہ sunglasses لگائے سامنے دیکھ رہا تھا۔ کیرل نے بنا کسی رد عمل کے پھر سے کتاب اٹھا لی۔
زوہیب:” کیا ناراض ہو مجھ سے” اس نے اسی انداز میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کیرل:” نہیں تو۔۔۔” وہ بھی اب کتاب بند کر کے سامنے ٹہلتے ہوئے سٹوڈنٹس کو دیکھ رہی تھی۔
زوہیب:” دیکھو کیرل i am sorry میں تمہیں اداس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں تمہارے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے تم سے معذرت چاہتا ہوں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں تمہیں مستقبل کے تکلیف سے بچانا چاہتا تھا اس لئے ایسا کرنا پڑا۔ میرے لیے ضروری تھا کہ تم یہ بات جان لو کہ میری منزل کوئی اور ہے۔ تم میری بہت اچھی دوست ہو میں تمہاری بہت عزت کرتا ہوں لیکن پیار اور رشتہ۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ وہ نہیں کر سکتا ۔” اس نے رخ کیرل کی طرف کر کے پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
کیرل:” کوئی بات نہیں زوہیب میں تمہارے احساسات کی قدر کرتی ہوں۔۔۔۔۔ میں تم سے ناراض نہیں ہوں تم تو اپنی جگہ بلکل درست ہو۔۔۔۔ بس اپنے آپ کو نارمل کرنے کے لیے مجھے کچھ وقت درکار تھا۔۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ تم اب بھی مجھ سے دوستی برقرار رکھنا چاہتے ہو یہ میرے لیے قابل احترام مقام ہے۔۔۔۔ ایک دوست کے ناطے میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گی۔” وہ سانس لینے رکی۔ زوہیب اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔
“لیکن میں یہ ضرور کہوں گی تمہاری گرل فرینڈ بہت خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس تم جیسا ایماندار چاہنے والا ہے۔ ” اس نے مسکرا کر کہا۔
زوہیب:” اور تمہارا ہمسفر بھی بہت خوش نصیب ہوگا جیسے تم ملو گی۔” اس نے سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا۔
کیرل:” یہ تو وقت ہی بتائے گا” وہ بھی اس کے ساتھ اٹھ گئی۔
زوہیب:” چلو کچھ کھاتے ہیں بھوک لگ رہی ہے یار فاروق بھائی کے گھر تو بچوں کی وجہ سے سکون سے ناشتہ کرنے کو بھی نہیں ملتا۔” اس نے کیرل کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ چلنے کو کہا اور وہ بھی ہنستی ہوئی ساتھ چلنے لگی۔ کینٹین میں کھاتے ہوئے دونوں فاروق کے بچوں پر تبصرہ کرتے ہوئے خوب ہنسے تھے۔
*************
دن اور رات اپنے مقررہ رفتار سے بڑھتے اور گھٹتے رہے موسم سرما اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور موسم بہار کی آمد آمد تھی۔ ان دنوں مسکان اپنے بورڈ کے امتحانات میں مشغول تھی اور زوہیب اپنے پہلے سمسٹر کے۔ ان مصروفیات کے چلتے ان دونوں میں صرف سنڈے کو کال کر کے بات کرنا اور باقی دن پڑھائی کرنا طے پایا تھا۔ اور یہی معمول ان کے امتحانات ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رہا۔
امتحان ختم ہونے کے اور لمبی چھٹیوں کے خوشی میں اس دن وہ چہکتے پوری گھر میں ہلا گلا کرتی پھیر رہی تھی۔ اس کا یہ جشن زیادہ دیر ٹک نہیں پایا کہ امی نے اسے ڈانٹ لگا دی۔
امی:” شرم کر لے کچھ بچی نہیں ہو اب۔۔۔۔ مجھ سے لمبا قد نکل آیا ہے۔۔۔۔ پورا گھر سر پہ اٹھایا ہے۔۔۔۔ کم کر ٹی وی کی آواز۔” انہوں نے کپڑے استری کرتے آواز لگائی لیکن اس پر اب بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ بھابھی کچن میں بس سر ہلاتے رہ گئی۔
مسکان:” امی آپ جتنا بھی کہہ لو آج میں برا نہیں مناوں گی۔” اس نے صوفے پر لیٹتے ہوئے کہا۔
امی:” بس اب تیرا کالج ختم ہوگیا نہ کل سے تمہیں کچن کے کاموں پر لگا دوں گی میں۔۔۔” وہ اٹھتے ہوئے اسے تردید کر رہی تھی کہ حارث صاحب کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھا۔
مسکان ٹی وی بند کرتی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
امی:”آپ آج جلدی آگئے۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے” انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔
حارث صاحب:” ہاں شکیل ایک کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہے اور کچھ مہمان ستارہ کو دیکھنے آنے والے ہے تو اس نے کہا میں ان سے ملوں” انہوں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ مسکان تب تک ان کے لیے پانی لے آئی ستارہ کے رشتے کی بات سن کر وہ اندر ہی اندر خوشی سے چہک گئی تھی۔
بابا کو پانی دے کر وہ بھاگتے ہوئے اوپر آئی اور ستارہ کے کمرے میں گھس گئی۔
وہ اس طرح اچانک کے مہمانوں کا سن کر اضطراب میں آگئی تھی اور اس وقت کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی۔
مسکان:” کیا ہوا اتنی ٹینشن میں کیوں ہو۔” اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
ستارہ:” یار مجھے نہیں آتا رشتے والوں کے آگے جانا معصوم بننے کی اداکاری کرنا” وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
مسکان:” کوئی بات نہیں تھوڑی دیر کی بات ہے۔ صرف 5 منٹ بیٹھ کر آجانا۔” اس نے دوستانہ تجویز دی۔
شام کے چائے پر ان لوگوں کی آمد متوقع تھی۔ اس نے ستارہ کے ساتھ لوازمات تیار کرنے میں ہاتھ بٹایا اور پھر ستارہ کو تیار ہونے میں مدد کی۔
حسب توقع وہ 5 بجے تک پہنچ گئے تھے۔ حارث صاحب ان کے ساتھ اوپر لاؤنج میں داخل ہوئے۔ نائلہ بیگم اور ثمرین آنٹی نے ان کا استقبال کیا اور سب لاؤنج میں بیٹھ گئے۔
وہ ستارہ کے ساتھ کچن میں کھڑی مہمانوں کو دیکھ رہی تھی۔ ثمرین آنٹی ان سے حال احوال کرنے کے بعد کچن میں آئی اور ٹرے لے جاتے ہوئے ستارہ کو موودب انداز میں چائے لانے کی ہدایت دے کر باہر نکل گئی۔
مسکان:” جاو نا” اس نے ستارہ کو جھنجوڑ کر متوجہ کیا۔
ستارہ:” ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ پیٹ میں عجیب لگ رہا ہے” اس نے چائے کی ٹرے پکڑے نروس ہو کر کہا۔
مسکان:” ارےے کچھ نہیں ہوتا 2 منٹ کی بیچینی ہے ٹھیک ہو جائے گی تم جاو تو” اس نے ستارہ کو دھکہ دیتے ہوئے کہا۔
ستارہ:” ہاں جب تیرا ٹائم آئے گا تب پوچھوں گی” اس نے ہلکے آواز میں جھڑکتے ہوئے کہا اور باہر نکل گئی۔
مسکان نے مسکراتے ہوئے اسے انگوٹھا دکھا کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔
******************
اسے جم جاتے تین مہینے ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی وہ جم میں ورزش کر رہا تھا جب اس نے اپنے سامنے ایک انگریز جوڑے کو ایک ساتھ ورزش کرتے، ہکلی نوک جوک اور رومانس کرتے دیکھا۔ اسے اچانک سے مسکان کی بہت یاد آنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں مسکان کے ساتھ ہوئے پہلے ڈیٹ کے لمحات لہرائے۔ وہ ورزش کرتے کرتے رک گیا اور مسکان کو کال ملائی۔
مسکان:” ہائے۔۔” اس نے کال اٹھا کر منہ کے آگے ہاتھ کا پیالہ بنائے ہوئے دھیمے آواز میں کہا۔
زوہیب:” ہا۔۔۔۔ کیا کوئی ہے تمہارے پاس” اس نے تجسس سے پوچھا۔
مسکان:” نہیں میں چاچی کے کچن میں کھڑی ہوں” اس کی نظریں مسلسل ستارہ پر ٹکی ہوئی تھی جو متذبذب سی مہمانوں کے پاس بیٹھی تھی۔
زوہیب:” کیا۔۔ کچن میں۔۔۔ یہ شوق کب سے پیدا ہوگیا” اس نے ہنستے ہوئے حیرانگی سے پوچھا۔
مسکان:” یہاں سے لاؤنج میں دیکھ رہی ہوں۔۔۔ ستارہ کو رشتے والے دیکھنے آئے ہیں۔” وہ اب کھڑکی سے ہٹ کر نارمل لہجے میں بول رہی تھی۔
زوہیب:” اتنی جلدی رشتہ۔۔ ابھی کالج ختم ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔” اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے حیرت سے کہا۔
مسکان:” ہاں تو لڑکیوں کے رشتے جلدی ہوتے ہیں۔ اور ابھی صرف بات چل رہی ہے شادی کب کرنی ہے وہ تو بعد میں طے ہوگا۔” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” وہ تو ٹھیک ہے پر۔۔۔۔۔ تم جلدی مت کرنا اپنا وعدہ یاد ہے نا۔” زوہیب نے اضطرابی کیفیت میں اسے وعدہ یاد کروایا۔
مسکان:” ہاں مجھے تو یاد ہے پر بابا کو تھوڑی معلوم ہے اگر انہوں نے رشتہ کروا دیا تو” اس نے شرارتی انداز میں آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا۔
زوہیب کے چہرے پر فکرمندی در آئی۔
زوہیب:” مسکان یار ڈراو تو مت” اس نے ہیبت کے عالم میں التجا کی۔
اس کی بات پر مسکان منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنے کی کوشش کرنے لگی۔
” اچھا سوری مذاق کر رہی تھی آپ پریشان نہ ہو فلحال تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔ ویسے آپ نے آج کیسے فون کیا آج تو سنڈے بھی نہیں ہے” اس نے دن سوچتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:” بس ایسے ہی تمہاری یاد آرہی تھی اس لئے” اس نے دور سے پھر اس جوڑے پر نظر ڈالی۔
مسکان:” یاد تو مجھے بھی آپ کی بہت آتی ہے پر اور کیا کر سکتے ہیں۔” اس نے زخمی مسکراہٹ میں کہا۔
اس نے لاؤنج سے مہمانوں کو الوداع کرتے سنا۔ ستارہ بھی تیزی سے کچن میں آگئی۔
“زوہیب میں آپ سے پھر بات کرتی ہوں ابھی وہ لوگ جا رہے ہیں۔” زوہیب نے بائے کہتے کال کاٹا اور کچھ سوچتے ہوئے واپس ورزش کرنے لگ گیا اور مسکان ستارہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔
*******************
مسکان:” کیسا رہا پہلا تجربہ” اس نے تجسس سے پوچھا۔
ستارہ:” جان اٹک گئی تھی۔۔۔ انتے سوال پوچھ رہی تھی۔۔۔ گھر کے کام آتے ہے۔ کھانا بنا لیتی ہو۔ بچوں کو پڑھا لیتی ہو۔۔۔۔۔” وہ اب اداکاری کر کے ان خاتون کی نقل اتار رہی تھی اور مسکان پیٹ پکڑے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی تھی۔
ان لوگوں کو ستارہ پسند آگئی تھی۔ شکیل صاحب نے بھی واپسی گھر آکر ستارہ کی رضامندی سے ان کو ہاں کر دی تھی۔ ایک مرتبہ پھر خوشیاں ان کے گھر دستک دے رہی تھی۔ سب کے باہمی تعاون سے اگلے مہینے منگنی کرنا طے پایا۔ وہی دوسرے جانب دونوں گھروں میں ایک ننھے فرد کے استقبال کی خوشیاں بھی عروج پر تھی۔ ثمرین آنٹی اور زہرا آنٹی نے مل کر اپنے دل کے سارے ارمان کومل بچے کی شاپنگ پر نکال دیے تھے۔
********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...