وہ خوش مزاجی سے گنگناتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔
مما اور کومل بھابھی صوفے پر بیٹھی ہنس رہی تھیں۔ ڈیڈ اور عثمان بھائی نے کچن کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا تھا۔
وہ حیرت سے ساری کاروائی دیکھتا آگے آیا۔ اسے آتے دیکھ کر کومل اپنی جگہ سے اٹھی اور زوہیب کو کچن لے جانے لگی۔
کومل:” آئیں جناب آپ کی کمی تھی.” وہ زوہیب کو کچن میں اس کے مقام پر کھڑے کر کے پیچھے ہوئی۔
زوہیب:” یہاں ہو کیا رہا ہے۔ ” وہ تعجب سے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھ کر بولا۔
عثمان:” آج عورتیں آرام فرما رہی ہیں تو رات کا کھانا ہم مرد حضرات بنائیں گے۔” اس نے ایپرن گلے میں پہنے معزز شیف کی طرح کہا۔
زوہیب:”ھاھاھا that’s good ویسے بنا کیا رہیں ہیں۔”
ڈیڈ:” میں تو کڑاہی بنا رہا ہوں ۔” انہوں نے دیگچی میں چمچا ہلاتے ہوئے کہا۔
عثمان:” اور میں چاول۔۔۔۔ تم میٹھا بنا لو۔۔” وہ جو ابھی بھی چاول ڈھونڈ رہے تھے زوہیب کو مشورہ دے کر ہسنے لگے۔
زوہیب:” میٹھا۔۔۔ پر مجھے تو انڈا ابالنا بھی نہیں آتا۔” وہ ابھی بھی کنفیوزڈ کھڑا تھا۔
عثمان:” تو سیکھ لو لندن میں کام آئے گا۔ ” وہ اب پانی کی نلکی کھولے چاول کو بگھو رہے تھے۔
ڈیڈ:” یا پھر تم چاہتے ہو جانے سے پہلے تمہاری بھی شادی کرا دیں۔” انہوں نے دیگ دم پر رکھتے ہوئے زوہیب کی طرف رخ کر کے کہا۔
زوہیب:”(شادی کر بھی لوں تو اسے کونسا کوکنگ کرنی آتی ہے) اس نے دل میں مسکان کے بارے میں سوچا۔۔
” نہیں شادی ماسٹرز کرنے کے بعد ہی کروں گا۔۔۔ تو کیا بنانا ہے مجھے۔” اس نے آستین موڑتے ہوئے کہا۔
کومل جو اتنی دیر سے مما کے ساتھ بیٹھی باپ بیٹوں کے ہنسی مذاق سے محظوظ ہورہی تھی کچن میں آئی۔
کومل:” چلیں۔۔۔۔ زوہیب پہلی مرتبہ کچن میں آیا ہے تو اسے تھوڑی رعایت دیتے ہیں۔ میں مدد کر دیتی ہوں ساتھ۔” وہ الماری سے برتن نکالنے لگی۔
زوہیب:” how sweet of you bhabi اللہ ایسی بھابھی سب کو دے۔” اس نے خوشی سے کومل سے برتن پکڑتے ہوئے کہا۔
عثمان:” آمین۔۔۔۔۔ مجھے بھی”
سب نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔
******************
حارث صاحب:” تمہارا سر درد کیسا ہے اب۔” ڈائننگ ٹیبل پر انہوں نے پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے پوچھا۔
مسکان:” سر درد۔۔۔”اس نے امی کو دیکھا انہوں نے آنکھیں بڑی کر کے اسے گھورا۔
” سر درد اب ٹھیک ہے۔” اس نے امی کے اشارے پر بوکھلاہٹ میں کہا۔
بابا:” ھممم اگر طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تو عرفان ڈاکٹر کو دکھا لائے گا۔” انہوں نے سلاد کھاتے ہوئے فکرمندی سے تجویز دی۔ عرفان جو خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا مسکان کی طرف متوجہ ہوا۔۔
مسکان:” نہیں بابا دوائی کھا لی تھی اب ٹھیک ہوں” اپنی اضطرابی کیفیت چھپانے کے لیے وہ پلیٹ میں چمچ چلانے لگی۔ وہ کسی بھی طرح موضوع گفتگو سے بچنا چاہتی تھی۔ کھانا کھا کر سب اپنے کام میں مشغول ہوگئے اور وہ اپنے بیڈروم میں آگئی۔
*************
کومل:”واو ڈیڈ آپ کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے بہت اچھی بنی ہے کڑاہی۔” کومل نے چکھتے ہی تعریفیں شروع کر دی۔
سہیل احمد:” ہاں بھئی تجربہ کار آدمی ہوں پھر بزنس مین ہوں کئی دفعہ اکیلے سفر کرنا پڑا ہے تو اتنا کچھ تو سیکھ جاتا ہے بندہ۔” انہوں نے بھی اپنی تعریف میں وضاحت دی۔
اب باری عثمان کے چاولوں کی تھی پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی دونوں ساس بہو ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔
عثمان:” ایسے منہ کیوں بنا رہی ہیں آپ دونوں” وہ واقعی کسی پروفیشنل شیف کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا ان کا ردعمل دیکھ رہا تھا۔
مما:” یہ چاول ہے یا کھچڑی وہ بھی بغیر نمک کے” مما نے سنا دی اور کومل عثمان کا منہ بنتے دیکھ کر ہنسنے لگی۔ عثمان نے غصے سے گھور کے کومل کو دیکھا تو اس نے کان پکڑ اشارے میں عثمان کو سوری کیا۔ سب نے صرف ڈیڈ کی بنائی کڑاہی پر ہی ازالہ کیا۔ آخر میں میٹھے کی نوبت آئی جو سب نے بڑے شوق سے چٹ کر دی تھی۔
زوہیب:” دیکھا۔۔۔ فرسٹ ٹائم بنا کے بھی اتنا مزیدار تھا۔” اس نے جتاتے ہوئے خود کو داد دی۔
عثمان:” ساری محنت تو میری بیوی نے کی تم تو صرف چمچا ہلا رہے تھے۔”
زوہیب:” ہاں تو اچھے سے چمچا ہلانا بھی قابلیت ہے۔”
سب پھر ایک ساتھ ہنسے۔ رات تک ان کے گھر ایسے ہی نوک جوک چلتی رہی۔۔
***************
اس دن صبح سویرے سے ہی گھر میں ہلچل مچ گئی تھی۔ سب کو الگ الگ کام سونپ دیئے گئے تھے۔ عثمان کے ملک سے باہر جانے کے سلسلے میں ان کے لئے رات کے کھانے پر دعوت رکھی گئی تھی۔
اس وقت سب خواتین اوپری منزل کے لاؤنج میں بیٹھی ڈشز طے کر رہی تھی۔
مسکان:” کون کون مدعوں ہے چاچی” اس نے قلم کاغذ پکڑے سوال کیا۔
ثمرین آنٹی:” سب مدعوں ہے کومل اس کے شوہر اور ساس سسر” انہوں نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
ستارہ:” اور آپی کے دیور بھی” وہ مسکان کے سوال کا اشارہ سمجھ گئی تھی تو اپنی امی کے جواب میں اضافہ کیا اور مسکان کو دیکھ کر پوری بتی سی دکھا کے مسکرائی۔ مسکان اس کے ایسے تبصرے سے متذبذب ہوئی اور اپنا رخ موڑ لیا۔
ثمرین آنٹی:” ہاں وہ بھی تو ملک سے باہر پڑھنے جارہا ہے چلو پھر تو اسی میں اس کی بھی دعوت ہوگئی۔” وہ اب نائلہ بیگم اور سائرہ سے کسی ڈش کی ترقیب پر مباحثہ کرنے میں لگ گئی۔
ستارہ:” اوووو۔۔۔۔۔ تو وہ بھی جا رہا ہے۔۔۔۔ مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔” اس نے مسکان کو دیکھتے ہوئے جتایا اور مسکان نے صرف گھور کر اسے چپ کروایا۔
تینوں خواتین تیاری شروع کرنے کچن کے سمت بڑھ گئی۔ ستارہ شرارتی انداز میں مسکان کے ساتھ آکے بیٹھی اور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
ستارہ:” awww کوئی بات نہیں روتے نہیں بوائے فرینڈ جا رہا ہے تو کیا یہ بیسٹ فرینڈ تو تمہارے پاس ہے میں آ کے پوچھ لیا کروں گی۔۔۔ میرے بےبی نے تھانا تھایا کہ نہیں( میرے بےبی نے کھانا کھایا کہ نہیں)۔ مسکان نے بوکھلا کے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
مسکان:” شٹ اپ کیا بولے جا رہی ہو کوئی سن لے گا۔” وہ ملاتشی نظروں سے آس پاس دیکھتی ستارہ پر غصہ کرتی سیٹ سے اٹھی اور ستارہ ہنستی رہ گئی۔
**************
زوہیب، جینز کے ساتھ ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہنے بالوں کو برش کر رہا تھا۔ شرٹ کے آستین فولڈ کر کے موبائل اور والٹ اٹھاتا کمرے سے باہر آیا۔
عثمان اپنے کار میں کومل کے ہمراہ روانہ ہوا اور زوہیب اپنے والدین کے ساتھ.
مسکان ڈائننگ ٹیبل پر برتن لگا رہی تھی جب اس نے زوہیب کے کار کا ہارن سنا۔ اس کے دل میں ہلچل مچ گئی اظہار محبت والے دن کے بعد وہ آج مل رہے تھے۔ اتفاق سے مسکان نے بھی دعوت کے لیے نیلے رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔
مین گیٹ پر حارث صاحب اور عرفان نے ان کا استقبال کیا۔
سب سے ملنے کے بعد وہ دونوں بھی مہمانوں کے ہمراہ بالائی منزل پر آئیے۔
شادی کے بعد کومل پہلی مرتبہ میکے آئی تھی سب سے الگ الگ گلے ملی اور حال احوال پوچھا۔
سلام دعا کے بعد سب مرد حضرات اور خواتین کھانا لگنے تک لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں لگ گئے اور لڑکیاں کچن میں آگئی۔ کومل بھی ان کے ساتھ ہاتھ بٹانے کچن میں چلی گئی۔ زوہیب بڑوں کے بیچ سنجیدگی سے بیٹھا ہوا تھا ایک آدھ دفعہ نگاہیں اٹھا کر کچن کے کھڑکی کو دیکھا جہاں مسکان ہنستی ہوئی کومل سے باتیں کرتی نظر آرہی تھی۔
***************
کھانے کے اختتام پر سب واپس لاؤنج میں آگئے اور سویٹ ڈش کھاتے ہوئے کومل اور عثمان کی شادی کی فلم دیکھنے لگے۔ زوہیب نے سویٹ ڈش ختم کی اور ہاتھ دھونے کا کہہ کر وہاں سے اٹھ گیا۔ مسکان لاونج کے کونے میں کھڑی اس کے حرکات دیکھ رہی تھی۔ اس نے کچن سے نکلتے ہوئے مسکان کو آبرو کے اشارے سے باہر آنے کو کہا۔ مسکان نے شاکڈ کھڑی کناکھیوں سے اسے سیڑھیاں اتر کر نیچے جاتے دیکھا۔
اس کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ وہ کنفیوز تھی کہ سب کے سامنے سے نکل کر نیچے کیسے جائے۔ کچھ لمحے اسی طرح گزرنے کے بعد بھی جب زوہیب واپس نہیں آیا تو وہ متفکر ہوئی۔ اس نے اردگرد کا جائزہ لیا سب مووی دیکھتے خوش
گپیوں میں مصروف تھے کسی کا اس کی طرف دھیان نہیں تھا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں بلی کی چال چلتی نیچے منزل پر آئی۔ گھر کی لائٹیں آف تھی لاؤنج تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ چاروں طرف دیکھتی زوہیب کو ڈھونڈنے لگی۔
مسکان:”زوہیب۔۔۔ “اس نے دبی سی آواز میں اسے پکارہ۔
وہ اس کے آوٹ سے نکل کر آیا اور اس کا ہاتھ پکڑتا اس کے ہی کمرے میں لے گیا۔ دوازہ بند کر کے لائٹ آن کی۔
مسکان:”اب یہ کیا حرکت ہے زوہیب اس طرح ملنے کا کیا جواز بنتا ہے” وہ اس پر خفا ہوئی۔
زوہیب:” مجھے تم سے باتیں کرنی تھی۔”اس نے ہلکی آواز میں کہا اور مسکان کے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔
مسکان:” باتیں تو ہم فون پر اتنی کرتے ہیں تو پھر۔۔۔۔۔۔
زوہیب:”میں پرسوں جا رہا ہوں مسکان” اس نے مسکان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب کر کے کہا اور مسکان کے الفاظ حلق میں ہی دم توڑ گئے اس کے آگے مسکان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ اسے خاموش دیکھ کر وہ پھر سے بولنا شروع ہوا۔
زوہیب:”تمہیں پتا ہے مسکان۔۔۔ تم سے ملنے سے پہلے میری لائف کا ایک ہی مقصد تھا۔۔۔ لندن میں کیریئر بنانا۔۔۔” وہ اب مسکان کی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
“لیکن اب جب سے تم سے پیار ہوا ہے میں دوہری کیفیت کا شکار ہوں۔ ایک طرف میرا کیرئر ہے اور ایک طرف میری محبت۔۔۔۔ جانا چاہتا بھی ہوں پر تم سے الگ بھی نہیں ہوسکتا ۔” اس نے افزودگی سے آہ بھری۔
مسکان نے اپنی دلی اضطراب پر قابو رکھنا چاہا۔
مسکان:” الگ کون ہو رہا ہے ہم تو بس کچھ عرصے کے لیے دور ہورے ہیں۔ اور پھر آج کل تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ہر وقت رابطے میں تو رہے گے۔۔۔۔ “اس نے مسکرا کر کہا
” آپ بے فکر ہو کر جاو دل لگا کے پڑھو اور ٹاپ کر کے آو۔۔۔”اس نے زوہیب کے ہاتھوں کو جنبش دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔
زوہیب:” اور تب تک میرا انتظار کرو گی؟” اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے اپنے تشویش کا اظہار کیا۔
مسکان:” آپ کو اپنے زندگی کا ساتھی چن لیا ہے تو انتظار کیوں نہیں کروں گی۔۔۔ ضرور کروں گی۔” اس نے زوہیب کو اطمینان دیتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” وعدہ؟
مسکان:” پکا وعدہ۔۔” زوہیب اس کی بات پر سکون سے مسکرایا۔
زوہیب:”thank you اب تسلی ہوئی۔۔۔۔۔۔ اب تو کہہ دو” اس نے التجا کی۔
مسکان:” کیا۔” اس نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:” وہی جو میں سننا چاہتا ہوں”
مسکان سمجھ گئی وہ کیا سننا چاہتا ہے۔ اس نے رک رک کر بولنا شروع کیا۔
مسکان:”i……love…….you too” اس نے شرما کر نظر جھکا دی۔
زوہیب:” thanks again” اس نے سکون سے آہ بھرتے کہا۔
مسکان:”اب چلیں۔۔۔ کسی نے دیکھ لیا دونوں غائب ہے تو برا لگے گا۔” اس نے التجائی کہا۔
اس نے سر کو اثابت میں جنبش دیا دروازے سے باہر تحفظی انداز میں دیکھا اور مسکان کو تھوڑی دیر بعد آنے کا کہہ کر خود پہلے نکل گیا تا کہ کسی کو ان کے ساتھ ہونے پر شک نا ہو۔
مسکان کو زوہیب کے اس تحفظی انداز پر پھر ناز ہوا اور مسکراتے ہوئے کمرے میں ٹہلنے لگی۔
وہ واپس اوپر آئی تو سب اسی طرح باتوں میں مشغول نظر آئے سوائے ستارہ کے جو اس کو دیکھ رہی تھی۔
ستاره:” تم غائب کہاں ہوگئی تھی” اس نے سرگوشی کی۔
مسکان:”تم نے کباب بہت مصالحے دار بنائے تھے۔۔۔۔۔۔ واشروم میں گئی تھی اور کہاں” اس نے ستارہ کو چھٹکی کاٹتے ہوئے جھڑکا۔ اور ستارہ ناک بھسورتے اس سے دور ہوگئی۔
مسکان”( یا اللہ کیا کیا کرنا پڑتا ہے پیار میں) وہ منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی۔
مووی ختم ہوئی تو سہیل صاحب کھڑے ہوگئے اور جانے کی اجازت مانگی۔ سب ان کو رخصت کرنے گیٹ تک گئے اور الوداع لیتے عثمان اور زوہیب نے کار چلا دی۔
********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...