“آہ !! بیچاری کو بھری جوانی میں بیوگی کا بھوگ کاٹنا پڑے گا” جمال کی سماعتوں نے ان الفاظ کی جلن کو آگ بن کے اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس کیا۔۔۔
اس انجان شخص کے الفاظ اور میت سے کپڑا ہٹنے پہ جمال کے اوپر حقیقتاً قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔۔
جمال آنکھیں پھاڑے اس چہرے کو دیکھ رہا تھا اور ذہن کے منظر نامے میں چار دن پرانا منظر تازہ ہونے لگا ۔۔۔
چار دن پہلے کا منظر:
جمال اور اس کے دوست ساحل سمندر سے متصل پٹی پہ اپنی ہیوی بائکس لیے ایک غیر قانونی ریس میں حصہ لینے کے لیے تیار تھے ۔۔
فضا میں ایکسیلیٹر کی بھاری گھن گرج گونج رہی تھی ہر طرف ایک شور سا بپا تھا اور پھر دھول اور مٹی کا ایک طوفان اٹھا اور ریس شروع ہوگئی ۔۔۔
ہر کوئی جیتنے کا خواہاں تھا ایک ایسا مقابلہ جس کے کوئی بھی قوانین نہیں تھے ۔۔
جمال بھی اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھا اور زور و شور سے مقابلہ جیتنے کے لیے اپنی بائیک بھگا رہا تھا ۔۔۔
یک دم مٹی کی چادر سی ان کے سامنے تن گئی جیسے ساحلی ریت ان کی بائکس کی موجودگی پہ اپنا احتجاج بلند کر رہی ہوں اور اس ہی دھند میں جمال نے ایک جسم کو اپنی بائیک سے لگ کر ہوا میں اچھلتے دیکھا۔۔۔
جمال نے فوری اتر کر اس زخمی شخص کو دیکھا اس کے ماتھے سے خون نکل کر اس کا چہرہ بھگو رہا تھا ۔۔
” کیا کر رہا ہے ریس نہیں جیتنی ؟؟ حسیب عرف بنٹی نے اسے آواز دی
“بنٹی یہ.. میری… بائیک کے… سامنے آگیا ” وہ لڑکھڑائے یوئے لہجے میں بولا
“ابے چھوڑ اسے کوئی نا کوئی اسے اسپتال لے ہی جائے گا” وہ اسے دلاسا دیتا ہوا تیزی سے بائیک بھگا لے گیا۔۔
جمال بھی اٹھا اور سر جھٹک کے دوبارہ سے مقابلے کا حصہ بن گیا۔۔
زہنی ابتری کے باعث وہ ریس تو نہیں جیت سکا لیکن دوستوں کے ساتھ ہلے گلے میں وہ شخص اس کے ذہن سے اتر گیا۔۔
رات گئے سارے ہنگامے تھمے تو سب نے اپنے گھروں کی راہ لی ۔۔
جمال گھر پہنچا تو حسب معمول نوکروں نے ہی اس کا استقبال کیا والدین کے بارے میں استفسار کرنے کا کوئی فائدہ نا تھا کیونکہ وہ اپنی روٹین کے مطابق کسی نا کسی کاروباری عشائیے کا حصہ بنے ہوئے ہوں گے۔۔
وہ ایک عرصے سے اکیلے ہی رات کا کھانا کھاتا رہا تھا اس لیے زیادہ تر وہ دوستوں کے ساتھ ہی کھانا کھا لیا کرتا۔۔
کھانا دیکھ کے بھی اس کی بھوک نہیں جاگی کچھ بھی وہاں ایسا نہیں تھا جسے اسے کھانے کی خواہش ہوتی ۔۔۔
“ظہیر !!” اس نے اپنے پرانے نوکر کو آواز دی ۔۔
“جی جمی بابا!! ظہیر نے حاظر ہوکے جواب دیا۔۔
“ظہیر !!میرے لیے کوئی جوس لے آؤ” اس نے کفران نعمت کرتے ہوئے اسے حکم صادر کیا
“جی ابھی لایا” وہ حکم کی تعمیل میں جت گیا ۔۔۔
وہ تھوڑی دیر میں ہاتھ میں گاجر کا تازہ جوس کا گلاس لیے کمرے میں داخل ہوا۔۔
ظہیر کے ہاتھ میں موجود سرخ رنگ کاجوس دیکھ کے اس کے دماغ میں جھماکہ سا ہوا اور وہ بائیک کی چابی اٹھانے لگا پھر کچھ سوچ کے گاڑی کی چابی لیے تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔
“بڑے لوگوں کی بڑی باتیں” ظہیر کمرے سے بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔
جمال گاڑی کو خطرناک حد تک تیز چلاتے ہوئے اس ہی جگہ پہنچ چکا تھا لیکن وہاں کوئی بھی نا تھا ۔۔۔
“یعنی کہ اسے بروقت مدد مل گئی چلو اچھا ہوا” وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے وہاں سے اٹھ کے گاڑی کی طرف چل دیا اور گھر پہنچ کے سو گیا۔۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پہ پاپا نے اس کی آمد پہ ناگواری سے گھڑی پہ نظر ڈالی ۔۔
” ابھی بھی تم آفس کے لیے تیار ہوکے نہیں آئے” وہ ناراضگی سے بولے
“آپ چلیں میں تھوڑی دیر میں پہنچ جاؤں گا” وہ بےزاری سے بولا۔۔
“تم کو یقینی طور پہ یاد نہیں ہوگا کہ آج تم کو سالانہ بزنس میٹنگ کے لیے دبئی کے آفس میں ہونا تھا ” ان کے لہجے میں واضح برہمی تھی
“اوہ !! میں واقعی بھول گیا” وہ ماتھے کو چھوتے ہوئے بولا۔۔
“جلد از جلد نکل جاؤ ایک گھنٹے میں تمھاری فلائیٹ ہے امید ہے کہ میٹنگ میں تم وقت پہ موجود ہو گے ” وہ اسے تنبیہ کرتے ہوئے کھانے کی میز سے اٹھ گئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تین دن بعد دبئی سے واپسی پہ وہی زخمی چہرہ میت کی صورت اس کے اوسان خطا کررہا تھا ۔۔
سارا منظر اسے گھومتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔سب کچھ گڈ مڈ ہورہا تھا وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکلا اور کھلی سانس میں آکر گہرے گہرے سانس لینے لگا ۔۔
وہ ہر طرح کی برائی میں ملوث تھا۔ نشہء ، جوا اور لڑکیاں یہ اس کے معمولات کا حصہ تھے لیکن کسی کی جان لینا کسی کے خون سے ہاتھ رنگ لینا یہ سب اس کے لیے نہایت اذیت ناک تھا۔۔۔
وہ یہاں ٹہرنا چاہتا تھا اس اداس آنکھوں والی کے حالات سے واقفیت چاہتا تھا لیکن اس کی بگڑتی طبیعت اسے اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسینہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی ۔پانچ سال پہلے اس کی شادی سہیل سےہوئی تھی جو ایک نجی ادارے میں نوکری تھا۔۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کے لیے وقت مشکل ہوتا جارہا تھا مہنگائی اور خاندان میں سہیل کے والدین تو تھے ہی ساتھ دو بچوں کی آمد نے بڑھتے ہوئے خرچوں نے ان کے اوسان خطا کردئیے تھے ۔۔۔
خود حسینہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔ تعلیم بھی واجبی سی ہی حاصل کر پائی لیکن حسن کی دولت میں وہ مالا مال تھی اس لیے جلد ہی سہیل کا معقول رشتہ آنے پہ سادگی سے اس بیاہ دیا گیا۔۔
چار سال تو حالات کی کھینچا تانی میں گزر گئے لیکن اصل مصیبت توتب آئی جب سہیل کی کمپنی نے اچانک اپنے پرانے ملازمین کو نوکری سے برخاست کردیا ۔۔
آسمان سر پہ گر جانا کیا ہوتا ہے اس بات کا اندازہ ان کو اب ہوا ۔ نوکری کی تلاش میں سہیل صبح سے شام تک مارا مارا پھرتا لیکن کہیں کوئی بات نہیں بنتی۔۔۔
حالات کے پیش نظر حسینہ نے نوکری کرنا چاہی لیکن اس کی کم تعلیم اس کی راہ میں رکاوٹ تھی۔
بظاہر وہ جس رکھ رکھاؤ سے رہتی تھی کوئی اسے دیکھ کے کم تعلیم یافتہ نہیں کہہ سکتا تھا لیکن اچھی نوکری کے حصول میں یہ چیز بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہورہی تھی۔۔
گھر میں نوبت فاقوں تک جا پہنچی تھی تب اسے ایک جاننے والی نے دبئی میں بچے کی آیا کی نوکری کی بابت بتایا، پرکشش تنخواہ کا سن کر اسے اپنے سارے مسائل حل ہوتے ہوئے دکھنے لگے۔۔
سہیل بھی حالات کی گردش میں تھا اسے اجازت دینی ہی پڑی اور وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو ساس اور شوہر کے حوالے کر کے اپنی نوکری پہ چلی آئی۔۔
اچھی تنخواہ نے ان کے حالات سدھار دیے لیکن سہیل ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والا نہیں تھا کسی جاننے والے کی وساطت سے ساحلی علاقے میں واقع فیکٹری میں نوکری کے بارے میں جان کے وہاں انٹرویو کے لیے گیا تھا اور قسمت سے اسے وہاں نوکری مل بھی گئی تھی ۔۔
چھ ماہ کی بے روزگاری کا عرصہ گزارنے کے بعد وہ نوکری حاصل کرنے کی خوشی اسے الگ ہی سرور دے رہی تھی
” بس اب حسینہ جو واپس بلوا لوں گا ۔ہم پھر سے نئی زندگی شروع کریں گے ” وہ خواب بن ہی رہا تھا کہ بے خیالی میں ان ہیوی بائیکس کے طوفان کی نظر ہوگیا۔۔۔
جمال کے بائیک سے اترنے پہ اس نے بڑی امید سے اس کی طرف دیکھا تھا کہ وہ اسے اسپتال لے جائے گا لیکن اس کے جانے کے بعد کئی گھنٹے وہ وہیں پڑا رہا اور خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے نقاہت سے کب وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا اسے علم بھی نا ہوا۔۔۔
سارے کاغذات وہ نوکری کے لیے دے آیا تھا اس کی شناخت کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نا تھا ۔۔
موبائل تک وہ گھر کے راشن کے لیے بیچ چکا تھا۔ کئی گھنٹے وہاں پڑے رہنے پہ اس کے ٹھنڈے اور بے حس و حرکت جسم کو سرد خانےکے لاوارث لاشوں والے حصے میں رکھ دیا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گہری ہونے پہ سہیل کے والدین اور بچے اس کے اب تک گھر نا پہچنے پہ بے حد پریشان تھے۔۔۔
“بیٹی سہیل اب تک گھر نہیں پہنچا” حسینہ کے سسر نے رات کے گیارہ بجے اسے کال کی
” ابا کچھ کریں محلے سے کسی کی مدد لے لیں ” اس نے ان کو راہ دکھائی
دو دن کی تلاش و بسیار کے بعد سہیل ملا لیکن لاش کی صورت ۔
حسینہ بھی خبر ملنے پہ واپس آگئی ۔۔۔۔
زندگی اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ اس کے سامنے تھی چوبیس سال کی عمر میں بیوگی کو نبھانا اس کے کاندھے ابھی سے آنے والے وقت کے بوجھ سے جھکنے لگے تھے، آ نے والا وقت اسے کیا کیا رنگ دکھانے والا تھا ابھی وہ اس بات سے بےخبر تھی۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...