کالج میں پیپرز شروع ہو رہے تھے۔ کالج کی انتظامیہ نے سٹوڈنٹس کے لئے ایک اکیڈمی بنائی تھی جہاں کالج کے ٹیچرز ہی بچوں کو ان مضامین کی تیاری کرواتے جن میں وہ کمزور تھے۔ اکیڈمی کالج سے تھوڑے فاصلے پہ ہی واقع تھی۔ فاتح نے اسے کہا تھا کہ وہ کالج کے بعد 3 بجے اکیڈمی آ جایا کرے ۔ اس طرح اگر اسے کسی اور مضمون میں مسئلہ ہوگا تو باقی ٹیچرز سے وہ بھی ڈسکس ہو جاۓ گا۔
وہ آج آتے ہوئے کافی کنفیوز تھی اس لئے سارا بیگم خود اسے چھوڑنے آئ تھیں۔
وہ ابھی آٹو سے نکلے ہی تھے جب فاتح کی گاڑی اکیڈمی کے باہر آ رکی۔
وہ خلاف معمول ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔
اسکی نظر دعا پر پڑی تو اسکے چہرے پر پهيلی پریشانی کو دیکھ کر وہ دعا کی طرف بڑھا۔
“اسلام علیکم! کیا ہوا کوئی پروبلم ہے کیا؟”
وہ دعا کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔ اسکی نظر ابھی تک سارا بیگم پر نہیں پڑی تھی جو کہ آٹو کا رینٹ دے رہی تھیں۔
“وو۔۔وعلیکم اسلام سر!” وہ فاتح کو ایک دم اپنے قریب دیکھ کر بوکھلا گئی۔
وہ اسکی سلام کا جواب دے رہی تھی جب سارا بیگم ان کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں اور دعا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔
“ماما یہ فاتح سر ہیں۔ میرے فزکس کے ٹیچر!”
وہ انھیں بتا کر سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔
“اسلام علیکم انٹی ! کیسی ہیں آپ؟”
وہ ان کے سامنے سر جھکاتا ہوا بولا تو وہ اسکے برتاؤ سے متاثر ہوتی بے اختیار اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ گئیں۔
“وعلیکم اسلام بیٹا جیتے رہو! در اصل آپکو پتا ہی ہے دعا کے بابا کی کچھ وقت پہلے ہی ڈیتھ ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے کافی سٹریس میں رہی ہے اور پڑھائی پر بلکل توجہ نہیں دے سکی پر میری بیٹی بہت عقلمند ہے اگر سہی گائیڈ ملے گی تو بہت جلد کور کر لے گی اور پلیز اگر اکیڈمی سٹوڈنٹس کے لئے ٹرانسپورٹ کا بھی ارینج کر دیتی تو بہت اچھا ہو جاتا آپکو تو پتا ہے ہے آج کل کے حالات کیسے ہیں اور دعا کو ویسے بھی اکیلے سفر کرنے کی عادت نہیں۔ آج تو پہلا دن تھا میں چھوڑنے آ گئی پر روز روز تو نہیں آ سکوں گی میں۔”
وہ ایک ہی سانس میں سارا مسئلہ بیان کر گئیں۔
“”جی انشاءاللّه یہ بہت جلد کوور کر لیں گی اور ٹرانسپورٹ تو مشکل ہی ہے پر اگر اپ مناسب سمجھیں تو میں خود ارینج کر دو ان کے لئے کنوینس؟”
وہ اپنا نقطہ نظر انکے سامنے رکھ کر انکی رائے لینے لگا۔
” اگر ایسا کر دیں اپ تو اپکا بہت احسان ہوگا بیٹا!”
وہ فاتح کی بات سن کر پرسکون ہو گئی تھیں اور اسکی مشکور بھی۔
اسکے بعد سارا بیگم دعا کو تسلی دے کر روانہ ہو گئیں تو فاتح نے دعا کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اکیڈمی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ چلتا چلتا ایک دم رکا تو وہ جو نظریں جھکائے اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اس کے رکنے پر اسکی پشت سے ٹکرا گئی۔
“آہ” اسکے منہ سے کراہ نکل گئی۔
“رول نمبر ٹین آپ ٹھیک ہیں؟ دکھایں زیادہ تو نہیں لگی۔”
وہ اسکی طرف پلٹ کر فکرمندی سے بولا۔
“نن ۔۔۔نو سر آئ ۔۔آئ ایم فائن۔”
وہ اسے شرمندگی سے جواب دیتی تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گئی تو وہ بھی نہ میں سر ہلاتا اندر کی طرف قدم بڑھا گیا۔
°°°°°°°
وہ اسے لے کر اپنے اپارٹمنٹ آیا تھا۔ وہ سارا راستہ آنسو بہاتی ہوئی آئ تھی۔ مستقیم نے بھی اسے آنسو بہانے دیے تا کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔
وہ اسے ساتھ لئے ایک کمرے میں آ گیا اور اسکا سامان بھی وہاں رکھ دیا۔وہ کمرے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔
کالا لباس پہنے سرخ ناک سوجھی ہوئی آنکھیں اور زرد رنگت لئے وہ مستقیم کو دکھی کر گئی۔
اس نے پہلے کہاں دیکھا تھا بھلا اسے ایسی لٹی پٹی حالت میں۔
“مس حریم” مستقیم نے اسے پکارا پر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔
“مس حریم ؟؟” اس نے پھر سے پکارا پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
“مس حریم!”
اب کے اس نے بازو سی پکڑ کر اسے ہلایا تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی۔
“مس حریم آر یو اوکے ؟” وہ اسکی حالات دیکھ کر پریشانی سے اس سے پوچھنے لگا ۔
“ی۔۔یس آئ ایم فائن۔”
وہ ہاتھ کی پشت سے اپنے گال پے بہنے والا آنسو پونچھ کر بولی۔
مستقیم نے اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ کے کنارے بٹھایا اور پاس پڑی کرسی کھینچ کر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
حریم نے کوئی رد عمل نہیں دکھایا اور نظریں جھکا کر اپنے ہاتھ کی لکیروں کو گھورنے لگی۔
اسکی زندگی کیا ہو گئی تھی۔ ظالم وقت نے کیسا پلٹا کھایا تھا کہ اس سے اس کا سب کچھ ہی چھین کر اسے حالات کے منجھدار میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔
اس نے کب سوچا تھا کے زندگی اتنی مشکل ہو جاۓ گی کہ اسے ایک اجنبی درندے سے اپنی عزت بچانے کی خاطر ایک اجنبی کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔شناسا اجنبی!
“مس حریم کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟”
مستقیم کے سوال پر اسنے اپنا سر جھٹکے سے اٹھایا اور آنکھوں میں حیرت کا سمندر لئے اسکی جانب دیکھا۔
“پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے”
وہ اب تک بے یقین تھی۔
“کیوں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟” وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگا۔
“دیکھیں مس حریم آج جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کے اکیلی عورت کا یہاں جینا محال ہے۔ میں آپ کو وہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا کسی صورت بھی نہیں! پر میں آپ کو بغیر کسی رشتے کے اپنے ساتھ بھی نہیں رکھ سکتا۔ میں نہیں چاہتا کے کوئی اپ پریا اپکے کردار پر انگلی اٹھاۓ۔میں ایک مرد ہوں مجھ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا پر اپکا جینا مشکل کر دیا جاۓ گا کیوں کہ ہمارے معاشرے کا یہی المیہ ہے۔اور ویسے بھی دو نامحرموں کا ایک ہی گھر میں رہنا غلط ہے۔”
وہ اسے بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا۔ اسکی باتیں سن کر حریم کا دل دھڑک اٹھا۔ اس کا دل اس لمحے خوش فہم ہو اٹھا تھا پر یہ خوش فہمی مستقیم کی اگلی بات نے چٹکییوں میں ختم کر دی تھی۔
“آپکو اس وقت سہارے کی ضرورت ہے اور مجھے بھی ! میری گرینڈ ماں میری شادی کروانا چاہتی ہیں ہر حال میں۔ ہم لوگ شادی کر لیں گے تو میرا مسئلہ بھی حل ہو جاۓ گا اور آپکا بھی۔ پھر جب آپ اسٹینڈ ہو جائیں گی اور میری گرینڈ ماں بھی مطمئن ہو جائیں گی تو ہم اپنے راستے جدا کر لیں گے ۔ یہ صرف ایک پیپر میرج ہوگی۔ آپ چاہیں تو میں کل ہی پیپر تیار کروا لیتا ہوں اپکی تسلی کے لئے اور پھر ہم کل ہی نکاح کر لیں گے۔”
وہ اپنی بات کہہ کر چپ ہو گیا اور اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی بات سن کر حریم کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔
اسنے اپنے آنسو ضبط کیے اور بہت حوصلہ کر کے بولی۔
“ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ میں اپکا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔ آپ جائیں اب پلیز مجھے سونا ہے۔”
وہ جانتی تھی کہ زیادہ دیر ضبط نہیں کر پاے گی اس لئے اسے وہاں سے بھیجنا چاہا۔
وہ سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گیا۔ جانتا تھا اس نے کچھ نہیں کھایا ہوگا۔
مستقیم کے جانے کی بعد وہ تکیے میں منہ چھپا کر رو دی۔ نہ جانے زندگی اب کونسا پلٹا کھانے والی تھی!
°°°°°°
وہ حسب معمول آج کالج کے بعد اکیڈمی آئ ہوئی تھی۔ فاتح کا ڈرائیور ہی اسے پک اینڈ ڈراپ دے رہا تھا۔ اس نے اعتراض کیا تھا اس بات پر لیکن سارا بیگم نے اسے چپ کروا دیا تھا۔
آج سے ٹھیک دو ہفتے کے بعد ایگزامز شروع ہو رہے تھے۔ آج کل وہ زیادہ وقت پڑھائی کو ہی دے رہی تھی۔
ابھی بھی پوری اکیڈمی تقریباً خالی ہو چکی تھی۔ وہ کیمسٹری اور بائیو کا سمجھ چکی تھی اب فزکس کی بک کھول کر بیٹھی تھی۔
آج فاتح کو دیر ہو گئی تھی آنے میں۔ وہ کسی ضروری کام سے گیا ہوا تھا۔ورنہ اس وقت تک دعا گھر پہنچ جاتی تھی۔
وہ سارا بیگم کو کال کر کے بتا چکی تھی اپنے دیر سے آنے کا۔
ابھی وہ ایک سوال حل کر رہی تھی جب فاتح نے اسے مخاطب کیا۔
“کتنا رہ گیا آپکا اب تو شام بھی ہو چکی ہے آپ ایسا کریں یہ سب جلدی سے وائنڈ اپ کریں باقی ہم کل کریں گے۔”
وہ اسے کہہ کر اپنے موبائل میں ای میل چیک کرنے لگا۔
“سر آپ بس مجھے یہ والا سوال سمجھا دیں مجھے گھر جا “کر اسکی پریکٹس کرنی ہے باقی پھر کل کر لوں گی۔”
وہ گال کو چھوتی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی جھکی نظروں اور مدھم لہجے میں بولی تو وہ اسکے پاس آ کر اسے سوال سمجھانے لگا۔
دعا کرسی پر بیٹھی تھی ۔ آگے میز پڑا تھا جس پہ دعا کی کتاب کھلی پڑی تھی۔ دعا کتاب پر جھکی ہوئی تھی اور فاتح اسکی کرسی کے بلکل پاس کھڑا نظریں کتاب کی بجاے دعا کے چہرے پر جما کر اسے سوال سمجھا رہا تھا۔
دعا کے بالوں سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو اسے مدہوش کر رہی تھی ۔ وہ بے اختیاری میں اپنا دایاں ہاتھ دعا کے پیچھے کرسی کی پشت پر ٹکا گیا۔وہ دونوں اس بات کو بلکل فراموش کر چکے تھے کہ ساری اکیڈمی خالی ہو چکی ہے ۔
وہ دعا کی نشاندہی پر ایک پوانٹ کلیر کرنے کے لئے تھوڑا سا جھکا اسی وقت کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھلا تھا۔
دعا ایک دم ڈر کے مارے اپنی جگہ سے اچھلی تو اس کا سر فاتح کے سینے سے ٹکرایا۔
اندر آنے والے کریم عباس تھے اور ان کے پیچھے کھڑی ان کی لاڈلی سونیا!
کریم عباس دہشت ناک تیور لئے آگے بڑھے۔
“اوہ تو یہاں یہ پڑھائیاں ہوتی ہیں بند کمرے میں۔بغیرت لڑکی شکل سے کسی معصوم اور پارسا نظر آتی ہے پر باپ کے آنکھیں موندتے ہی اپنی گھٹیا حرکتیں شروع کر دیں اور استاد کے ساتھ ہی منہ کالا کرنا شروع کر دیا۔ خدا جانے بند کمرے میں کون سے گلچھڑے اڑاے جاتے ہوں گے۔”
وہ آنکھوں میں آنسو لئے بے یقین سی کھڑی تھی۔ اسکے نام کے اپنے اس پر کتنی بڑی توہمت لگا رہے تھے۔جس انسان کے نام کو اس کے نام کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا وہ اس انسان کے لئے کتنا مقدس جذبہ رکھتی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے حق میں کچھ بولتی کریم عباس کے بھاری ہاتھ کا تھپڑ اس کے گال پر لگا تو اسکا گال سنا اٹھا۔تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ وہ دھان پان سی نازک لڑکی اوندهے منہ زمین پر جا گری۔اس کا ہونٹ پھٹ گیا۔اس کے گرنے پر وہ تڑپ کر آگے بڑھا۔
“دعا اٹھیں پلیز!”
فاتح نے آگے بڑھتے ہوئے اسے سہارا دینا چاہا۔
کریم عباس فاتح پر جهپٹے اور اس پر تھپڑوں اور مکوں کی برسات کرتے ہوئے گالیاں بکنے لگے۔ وہ مذاحمت کیے بغیر ان کی مار اور لان تن برداشت کرتا رہا۔
“تایا ابا پلیز آپ ان کے ساتھ ایسا نہ کریں انکا کوئی قصور نہیں۔”
وہ بمشکل ہمت کرتی اٹھی اور کریم عباس کی منت کرنے لگی۔
وہ غصے میں اسکی طرف بڑھے تو وہ ان کی ٹھوکروں کی زد میں آ گئی۔
اسکی سر کرسی کے کونے سے تكرايا تو وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی چلی گئی۔
“عشق و معشوقی کا بہت شوق تھا نا تمھیں اب رہنا ہمیشہ اپنی محبوبہ کے ساتھ۔آج سے یہ ہمارے لئے مر چکی ہے اب ہماری زندگی میں اسکی کوئی جگہ نہیں۔
وہ گسے میں فاتح سے بول کر وہاں سے نکل گئے۔
فاتح شرمندگی اور ذلت کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب گیا۔
اپنی اسی حالت میں گم بغیر اس معصوم وجود پر ایک نگاہ بھی ڈالے وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
°°°°°°°
“وہ وہاں ہوگی یا نہیں؟” یہ سوال بار بار اس کے دماغ میں آرہا تھا۔ ٹھٹھرا دینے والی سردی میں وہ صرف ایک ٹراؤزر اور ہالف بازو والی سفید ٹی شرٹ میں ساکت و جامد بیٹھا تھا۔چہرے پر نیل واضح تھے۔ہوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے چہرے پر تشدد کیا ہو۔وہ بھول جانا چاہتا تھا جو کچھ بھی کچھ دیر پہلے ہوا پر پتا نہیں ایسی کیا بات تھی کہ اسے اپنے دل میں ٹیسییں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ پھر یکایک اسکے جامد وجود میں حرکت پیدا ہوئی۔وہ تیزی سے اٹھا،بیڈ کے پاس پڑے اپنے موزے اور جوگرز اٹھا کر پہنے اور دروازے کی طرف لپکا۔اسے دس منٹ لگے تھے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے لیے۔اس نے بیس منٹ کا سفر پیدل دس منٹ میں طے کیا۔دروازہ ویسے ہی کھلا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اندر کی طرف لپکا۔وہ وہیں تھی جہاں وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ کر گیا تھا۔وہ کرسی کے پاس اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی۔وہ اسکے پاس گیا اور اسکا رخ پلٹا۔خون کی ایک لکیر اس کے ماتھے سے ہوتے ہوئے گردن تک آئی ہوئی تھی جو کہ سوکھ چکی تھی۔اس نے پاس پڑی اس کی چادر اٹھائی اور اسے اوڑھا دی۔وہ گھر سے لے کر یہاں آنے تک یہ سوچتا آیا تھا کہ وہ وہاں ہوگی یا نہیں پر یہ خیال اسے ایک دفعہ نہیں آیا تھا کہ اگر وہ وہاں ہوئی تو وہ کیا کرے گا۔اس نے آہستگی سے اسے باہوں میں بھرا اور وہاں سے نکل آیا۔گھر پہنچ کر اسے نرمی سے بستر پر لٹایا اور پھر موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔
°°°°°°°°°°
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...