گرو رجنیش (اوشو) بیسویں صدی کے ایک ممتاز فلسفی اور متنازع شخصیت تھے، جہاں آپ کے نظریات اور خیالات نے بہت مقبولیت حاصل کی ان کے پیروکار پیدا ہوئے وہیں ان کی بہت مخالفت بھی کی گئی انہیں معاشرتی اقدار اور انسانی تہذیب کا دشمن قرار دیا گیا اور ان کی تعلیمات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا، آپ چونکہ فلسفے کے ایک پروفیسر تھے اور ہر پہلو کائنات پر آپ کی گہری نظر تھی س لیے آپ نے زندگی کے مختلف موضوعات عورت، جنس، کائنات، محبت، روح، تعلیم، موت، ابدی دنیا اور عقل و ذھن پر اپنے نظریات پیش کیے،
ان سب موضوعات کے متعلق آپ کے پیش کردہ نظریات سے اختلاف و ان کی مخالفت ممکن ہے اور وہ خود بھی کہتے ہیں
“کہ میرے بتائے ہوئے ہر چیز کو صحیح و درست ماننے کے بجائے ان کے متعلق سوچ و بچار کرکے عقل و دماغ کا استعمال کریں ہو سکتا ہے میں غلط ثابت ہوں،”
تعلیم کے حوالے سے آپ کی کتاب “تعلیمی انقلاب” (Revolution in Education) میں آپ نے تعلیم سے متعلق اپنے نظریات پیش کیے اس میں انہوں نے تعلیم، موجودہ نظام تعلیم اور اس میں موجود کمی اور خامیوں پر سیر حاصل بحث کی ہے،
سب سے پہلے آپ موجودہ نظام تعلیم کو رد کرتے ہوئے اس کو قدامت پسند قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک
“ہمارا پورا نظام تعلیم ماضی پر محیط ہے”
یعنی تعلیم مستقبل کی تیاری کا نام ہے یہ افراد کو علم و شعور اور عقل و استطاعت عطا کرکے مستقبل کیلئےتیار کرتی ہے عمل تعلیم سے ہی مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر دوسری طرف نظام تعلیم ماضی پر محیط ہے یعنی یہ مستقبل کی نئی تحقیق و تبدیلیوں سے مبرا پرانی روایات، پرانے نظریات اور پرانے طور طریقوں پر مبنی ہے، اس سے گزر کر یقیناً ہم زمانے سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے قدامت پسند و انتہا پسند بنتے جا رہے ہیں،
وہ مزید کہتے ہیں کہ
“تعلیم میں مستقبل کی نشاندہی ہونی چاہئے ماضی کی نہیں”
ان کے نزدیک ہم تعلیم کے ذریعے اپنے فرسودہ رویات، پرانے نظریات، اندھی تقلید اور اندھے عقائد و اقدار کو تہذیب کے نام پے طلبا پر ٹھونس رہے ہیں
“ایک چھوٹے معصوم بچے کے سر پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب و ثقافت کا بار ہوتا ہے”
یعنی ہم اپنے روایات، ثقافت، طرز زندگی اور قدر و اقدار کو مدنظر رکھ کر ہی نظام تعلیم مرتب کرتے ہیں اس طرح ہمارے ماضی کے یہ ورثے ناصرف طلبا پر بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ معاشرے کی ترقی اور بہتری کی راہ میں رکاوٹ بھی بن جاتے ہیں اور تمام عمر ہمارے زندگیوں میں تبدیلی کے آثار رونما نہیں ہوتے بلکہ ہمارا طرز زندگی اس اصول کے مطابق جمود کا شکار رہتا ہے،
ترقی یافتہ معاشروں کی ترقی کا اہم عنصر یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی تبدیلی کیلئے نا صرف تیار ہوتے ہیں بلکہ اسے قبول بھی کرتے ہیں وہ اپنے ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنے روایات اور طرز زندگی (Life style) کو بدلتے رہتے ہیں اس کے برعکس پسماندہ معاشرے اپنے آپ میں کسی بھی تبدیلی کو نا صرف مسترد کرتے بلکہ اسے اپنے روایات، اقدار اور معاشرتی اصولوں کے برخلاف سمجھتے ہیں، اور یہ تسلسل ہمارے نظام تعلیم کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتا آ رہا ہے جس کی وجہ سے ہم ترقی کی بھاگ دوڑ میں دنیا سے صدیوں پیچھے ہیں،
اس ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ
“پرانی نسل کے لوگ اپنے اندھے یقین کو نئی نسل کے ذھنوں میں ٹھونس دینا چاہتے ہیں”
آگے جاکر وہ کہتےہیں کہ
“وہ امراض جن میں پرانی نسلیں مبتلا رہی ہیں انہیں استادوں کے ذریعے نئی نسلوں تک منتقل کیا جاتا ہے،”
ان کے نزدیک ہمارے نظام تعلیم میں ہمیں سوچنے اور عقل و شعور استعمال کرنے کے بجائے فرمانبرداری اور تابعداری سکھائی جاتی ہے جس سے ہم تقلیدوں کے غلام بنے رہتے ہیں اور اعتقادات کے سائے میں ہی عمر گزار دیتے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ
“انہیں (طلبا) کو خیالات نا دیں بلکہ سوچنے کی طاقت فراہم کریں،”
مزید کہتے ہیں
“سوچ اور فکر کی تعلیم دی جانی چاہئے اعتقاد کی نہیں،”
سچ وہ نہیں جو ہم مانتے اور سنتے آرہے ہیں بلکہ سچ تو وہ ہے جو دلیل و استدلال سے ثابت شدہ ہو اس لیے وہ موجودہ طرز کی نفی کرتے ہوئے گویا ہوتےہیں کہ
“دلیل و استدلال کی تعلیم دینی چاہئے بھروسے اور اعتماد کی نہیں،”
دنیا میں آج تک جتنی بھی دریافتیں ہوئی، جتنے ایجادات ہوئے، جتنے بھی نظام و نظریے آئے اور جتنی بھی ترقی ہوئی یہ سب صرف اور صرف ایک ہی چیز یعنی انسانی ذھن کی بدولت ہوئیں، انسانی ذھن نے کائنات نقشہ بدل کر اسے اپنے تقاضوں کے سانچے میں ڈھال دیا ذھن کو استعمال کرکے ہی دنیا میں ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اس لیے اوشو نظام تعلیم میں ذھنی جمود کی مخالفت اور ذھن کو متحرک و بیدار کرنے کا درس دیتے ہیں
ان کے مطابق
“موجودہ تعلیم ذھن کو بیدار کرنے کے بجائے اسے بھر دیتی ہے،”
وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں،
“آپ کو عقل منتقل نہیں کی جا سکتی ہاں اسے بیدار کیا جا سکتا ہے،”
آگے جاکر اضافہ کرتے ہیں کہ
“تعلیم کیلئے ایسا شعور فراہم کیا جانا چاہئے کہ ذھن غلام نہ بنے اور اپنی ذاتی سوچ کی صلاحیت پیدا ہوسکے،”
وہ موجودہ نظام تعلیم کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں روایات اور ثقافت کے نام پے فکر و خیال پے قدغن لگائی جاتی ہے، افراد کو سوچنےکے بجائے قبولیت سکھائی جاتی ہے، امن و محبت کے بجائے مقابلہ و تکرار سکھائی جاتی ہے، انہیں آزاد خیالی کی جگہ نظریاتی مقید بنایا جاتا ہے، کامیابی کیلئے شخصی آزادی کے بجائے اجتماعی دوڑ و مقابلے کی تلقین کی جاتی ہے، جدیدیت کے بجائے قدامت پسندی کو فوقیت دی جاتی ہے اور انہیں درس و تدریس کے بجائے حکم و آرڈر سے پڑھایا جاتا ہے اس لیے وہ اس نظام تعلیم کو جاہلانا فعل قرار دیتے ہوئے اسے یکسر تبدیل کرنے کے خواہاں ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ
“میں یہ نہیں کہتا کہ تعلیم کو سرے سے ختم کیا جائے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تعلیم کی بنیاد کو تبدیل کیا جائے، اس کی بنیاد محبت ہونی چاہئے،”
اوشو انسانی معاشرے کیلئے تعلیم کو اہم و لازمی قرار دیتے ہیں مگر وہ موجودہ نظام تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ نظام چونکہ ماضی پر محیت ہے اس لیے اس نے ہمیں ماضی ہی تک محدود کرکے ماضی پرست و بنیاد پرست بنا دیا ہے ابھی تک ہمیں روایات کا غلام بنائے رکھا ہے اور عقل و ذھن کو استعمال کرنے کے بجائے بھر دیتا ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ
“ہم باہر سے نئے ہیں مگر ہمارا ذھن بہت پرانا ہے،”
ان کے نزدیک تعلیم تو وہ ہے جو سوچنے کی تلقین کرے سوچ کو فروغ دے اور سوچ ہی کی پیروی کرے
“وہ آدمی جو نہیں سوچتے ویسے ہوتے ہیں جیسے بھیڑ، وہ آدمی نہیں ہوتے کیونکہ وہ بھیڑیں ہی ہیں جو ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں۔”