تعبیر سے محروم میرے خواب بہت تھے
سادہ سی کتاب تھی مگر باب بہت تھے
ابو ایک جوک سناؤں؟ رات کا کھانا کھاتے ہوئے ارسا نے ہاشم سے کہا
ہاشم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
دو پاگل سڑک پر بیٹھے ہوتے ہیں اچانک بارش ہوجاتی ہے ۔ ایک پاگل دوسرے پاگل سے کہتا ہے کہ آسمان لیک ہوگیا ہے اتنے میں بجلی کڑکتی ہے تو دوسرا پاگل کہتا ہے کہ دیکھو ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں ۔ لطیفہ سنا کر اس نے قہقہ لگایا ۔ اس کی ہنسی کو ایکدم بریک لگے ۔ اس نے چہرہ موڑ کر ہاشم کو دیکھا جو دوبارہ کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے تھے ۔ اس کی نظر عبداللہ اور زینب پر پڑی۔ جو سنجیدگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
کیا ہوا اچھا نہیں تھا کیا؟ ان دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔
فٹے منہ۔ اس نے ہلکی آواز میں کہا کہ ہاشم تک آواز نہ پہنچے ورنہ اس کی کلاس پکی تھی۔
ابو آپ کھانا کھا رہے ہیں یہاں میرا معصوم دل ٹوٹ کر چکنا چور ہوچکا ہے۔ اس نے رونی صورت بنا کر ہاشم کو دیکھا۔
کیوں کیا ہوا؟ سنجیدگی سے سوال آیا
بس یہ کہ کر نا آپ نے میرے دل کے ٹکڑے کچرے دان میں سمیٹ کر ڈسٹبن میں ڈال دیئے ہیں۔ عبداللہ اور زینب نے اپنی ہنسی ضبط کرنے کے لیئے اپنے چہرے جھکائے۔
جارہی ہوں میں ۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
کھانا تو کھالو۔
فکر نہ کریں آپ لے کر جارہی ہوں ۔ اور تممم ۔ اس نے عبداللہ کو گھورا ۔ اس نے جواباً کندھے اچکائے۔اسے گھورتی ہوئی ارسا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ عبداللہ کے موبائل پر میسج آیا۔ اس نے نظر اٹھا کر زینب کو دیکھا جو مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ وہ مسکرایا اور کرسی سے اٹھ کر کچن کی طرف گیا۔ کچھ دیر بعد اس کی واپسی ہوئی ۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کر کے وہ ارسا کے کمرے میں چلا گیا۔
تمہیں کیا ہو ہے ۔ زینب کی رونی صورت دیکھ کر عائشہ نے پوچھا۔
میری چاکلیٹس لے گئے دونوں۔ کھڑکی سے جھانکتا چاند مسکرایا تھا۔
———— ———
ذرا سا ہٹ کر چلتی ہوں زمانے کی روایت سے،
کے جن پر بوجھ میں ڈالوں وہ کندھے یاد رکھتی ہوں
رات کا ایک بج رہا تھا ۔ چودھویں کا چاند اپنی روشنی سے اندھیرا کم کر رہا تھا ۔ سڑکوں پر لگی بتیاں جگمگا رہی تھیں ۔ ہوا میں حسب معمول جوش تھا ۔ تیز ہوا کا ایک جھونکا اس کی بالکنی سے گزرا تھا ۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ٹانگیں لمبی کیئے وہ بیڈ پر بیٹھی تھی ۔ ہلکے سبز رنگ کی شرٹ پر سیاہ ٹراؤزر وائٹ کلر کا اپر پہنے بالوں کی ڈھیلی پونی بنائے وہ مبہوت سی لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی ۔ ہاتھ میں چاکلیٹ پکڑی تھی ۔ اس کے برابر میں عبداللہ بیٹھا تھا ۔ وقفے وقفے سے کولڈرنک پیتے وہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ تھا۔ بیڈ پر ریپر پھینکے ہوئے تھے ۔ کشن آدھے دونوں کی گودوں میں اور آدھے نیچے تھے ۔ پورا کمرا بکھرا ہوا تھا ۔ جیسے کچھ دیر پہلے یہاں ایک بڑی جنگ ہوئی ہو ۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھی اور جھک کر لیپ ٹاپ بند کیا۔ لیپ ٹاپ کو ہاتھ میں اٹھا کر وہ بیڈ سے اتری ۔ صوفے کے قریب آکر اس نے جھک کر کشن اٹھائے انہیں صوفے پر رکھا اور خود بھی صوفے پر لیٹ گئی ۔ جبکہ عبداللہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر موبائل میں مصروف ہوگیا۔ اس نے لیپ ٹاپ آن کیا اور اسٹیٹس چیک کرنے لگی ۔ اس کی نظریں ہادیہ کے اسٹیٹس پر ٹہری تھیں ۔
“خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ یہ ٹوٹ جاتے ہے ۔ تکلیف کے مارے آنکھیں رو پڑتی ہیں۔ ”
اس کی آنکھوں میں عجیب چمک نمودار ہوئی ۔ چہرہ جگمگایا تھا۔ اس نے لمبی سانس لی ۔ اور اس کی انگلیاں لیپ ٹاپ کے کیبورڈ پر چلنے لگیں ۔
عبداللہ سائیڈ ٹیبل پر میرا موبائل پڑا ہے ۔ دینا مجھے ۔ اس نے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے کہا۔
کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب ۔ خواب کیا ہوتے ہیں ؟ایک سوچ جو دماغ میں آئے ۔ ایک خواہش جو بیدار ہو کہ کاش ایسا ہو جائے اور ایک جذبہ جو دل میں ابھرے۔انہیں کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب کہا جاتا ہے ۔ لفظ خواب یہ صرف ایک سوچ اور خواہش کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اسے کچھ بنانا پڑتا ہے اگر آپ اپنے خوابوں کو حقیقت بنانا چاہیں تو۔ بعض دفعہ خواب ضد بن جاتے ہیں اور بعض دفعہ جنون ۔ اگر خواب ضد بن جائیں تو آپ کے راستے اور آپ کی منزل دونوں گمنام ہو جاتی ہیں ۔ آپ جو چاہیں گے وہ آپ کو کبھی نہیں ملے گا ۔ کیونکہ ضد میں انا ہوتی ہے ۔ آپ اپنے خوابوں کو اپنی انا کی تسکین کے لیئے پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے خواب کبھی حقیقت نہیں ہوں گے ۔اور اگر آپ کے خواب جنون بن جائیں تو منزل آپ کی ہے ۔کچھ مشکلات اور کچھ آزمائشوں کے بعد آپ اپنی منزل پا سکتے ہیں ۔ کیونکہ جنون آپ کے خوابوں کو آپ کا مقصد بنا دیتا ہے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں ۔ اپنے خوابوں کو اپنا جنون اپنا مقصد بنائیں لیکن اپنے دماغ کو ہمیشہ استعمال میں لائیں ۔ اپنے ضمیر کی سنیں یہ آپ کو برے کاموں سے بچائے گا ۔
اور رہی بات خوابوں کے ٹوٹنے کی تو ہاں خواب ٹوٹتے ہیں ۔ اگر انہیں اپنی ضد بنایا جائے یا انہیں نظر انداز کیا جائے ۔ خوابوں کے ٹوٹنے سے تکلیف بھی ہوتی ہے آنکھیں بھی رو پڑتی ہیں ۔ لیکن خوابوں کے ٹوٹنے کی ڈر سے ہم خواب دیکھنا چھوڑ نہیں سکتے ۔ بعض دفعہ ہم اپنے خوابوں کے آسرے زندہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیئے ارسا ہاشم کی ڈکشنری میں خوابوں کا دوسرا نام تسلی ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے ۔ اگر اپنے خوابوں کو ٹوٹنے سے بچانا ہے تو ان کو اپنا مقصد اپنا جنون بنادو ۔ یہی حرف آخر ہے ۔ ایک وقت ہماری زندگی میں ایسا بھی آتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے خوابوں کے بغیر مرجائیں گی ( کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا گڑیا ۔ اس کی کانوں میں آواز گونجی گلے میں گلٹی ابھری تھی) لیکن کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا چاہے وہ خواب ہی کیوں نہ ہوں ۔
کسی احساس کے تحت اس کی انگلیاں رکی تھیں ۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ اس کے سر پر عبداللہ کھڑا تھا ۔ نظریں لیپ ٹاپ پر مرکوز تھیں ۔ ارسا کے دیکھنے پر اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کروائی اور اس کا فون اس کی طرف بڑھایا ۔ ارسا نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا ۔ اور موبائل جھپٹا۔
شیطان کے چاچے ہو تم ۔ وہ چلائی تھی ۔
میں شیطان کا چاچا ہوں میں مانتا ہوں
لیکن میں اپنے بچوں کی پھپھو کو بھی جانتا ہوں ۔ بتیسی کی نمائش کروائی گئی ۔ ارسا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔ پھر بات سمجھ آنے پر پاس پڑا کشن اس کے کندھے پر دے مارا ۔
بھاڑ میں جاؤ تم ۔ جو حرکتیں ہیں نا تمہاری سنگل ہی مرو گے ۔
کیوں اتنے معصوم سے بچے کو اتنی بری بری دعائیں دے رہی ہیں ۔ اس نے سہم کر کہا
دفعان ہو جاؤ یہاں سے ۔ پتا نہیں کیوں تم لڑکوں کو اپنے معصوم ہونے کی خوش فہمی ہوتی ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہو۔ عبداللہ ہنسا تھا۔
ویسے اچھا لکھ لیتی ہیں آپ آپی۔ وہ کمرے سے باہر بھاگا تھا۔ ارسا مسکرائی
( دوست اچھی ہے تمہاری خیال رکھنا کہیں یہ فرینڈ شپ ٹوٹ نہ جائے) وہ صوفے سے اٹھ کر بیڈ کے پاس آئی اور سونے کے لیئے لیٹ گئی ۔ سوچوں میں گھری وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی ۔ کھڑکی سے جھانکتے چاند نے گہری سانس لی ۔ ہوا نے قسمت سے کچھ پوچھنا چاہا ۔ لیکن اسے خاموش کرا دیا گیا ۔ زندگی اور موت پر مبنی یہ کھیل دیکھنے کے لیئے قسمت بھی پر جوش تھی ۔ مختلف چالیں ،مختلف اختتام۔۔۔۔
———– ————-
جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا
وفا کی آرزو کرنا
سفر کی جستجو کرنا۔۔۔۔۔۔۔
یہ اکثر ہو بھی جاتا ہے
کہ کوئی کھو بھی جاتا ہے
مقدر کو برا جانو گے
تو یہ سو بھی جاتا ہے۔۔۔۔
اگر تم حوصلہ رکھو
وفا کا سلسلہ رکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسے تم خالق کہتے ہو
تو اس سے رابطہ رکھو
میں یہ دعوے سے کہتا ہوں
کبھی ناکام نہ ہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج ابھی نکلنے کی تیاریاں کر رہا تھا ۔ آج صبح ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی ۔ جو درختوں کے پتوں کو گیلا کر رہی تھی ۔ واکنگ ٹریک میں واک کرتے ہوئے حدید نے مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھا ۔ پانی کی ایک بوند اس کی آنکھ پر گر کر گال پر پھسلی تھی ۔ اس نے سر جھکا کر پانی صاف کیا اور دوبارہ واک کرنے لگا۔ سرمئی ٹراوزر سیاہ شرٹ پہنے واک کرتے حدید کی نظر سامنے اٹھی ۔ بھورے بال ماتھے پر بکھرے تھے ۔ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی گڈلکنگ لگ رہا تھا۔ پودوں اور درختوں کے پیچھے سے ارسا نمودار ہوئی تھی ۔ سیاہ عبایا پہنے خاکی رنگ کے لانگ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ اس کی طرف آرہی تھی ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...