ارسا کی نظر سفید ٹائلز پر گرتے ہوئے خون پر پڑی جو کہ ہادی کی ٹانگ سے نکل رہا تھا ۔ یقینا وہ پہلے سے ہی زخمی تھا ۔ ارسا نے مسکراتے ہوئے پسٹل پر اپنی پکڑ مضبوط کی ۔ ہادی نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ ارسا کی انگلی میں حرکت ہوئی ٹریگر پر زور دیا گیا اور ٹریگر دب گیا ۔ آفس میں خاموشی چھائی رہی ۔ کوئی آواز نہیں آئی ہادی نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔ ارسا نے اپنی پسٹل ٹیبل پر پھینکی ۔
اگر اپنی زندگی میں ارسا ہاشم کوئی قتل کرے گی تو وہ تمہارا نہیں ہوگا مسٹر ۔وہ ناانصافی کا ہوگا ۔ اس نے اپنے ہاتھ لانگ کوٹ کی پاکٹ میں ڈالے اور مسکراتی ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھادیئے ۔ آنکھیں ابھی بھی چمک رہی تھیں ۔ اس کے جانے کے بعد ہادی اٹھا اور ٹیبل پر پڑی کالے رنگ کی پسٹل اٹھائی اسے کھولا تو وہ خالی تھی اندر کوئی گولی نہیں تھی ۔ اس نے پاس پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے سر ہاتھوں میں گرا دیا ۔ پسٹل خالی تھی یا اس نے خود کی تھی ۔ وہ اسے مارنا چاہتی تھی یا دھمکانا۔ وہ پریشان تھا ۔ بچپن سے جس لڑکی کو جاسوس بننے کا شوق تھا آج اس نے انٹیلیجنس کے ذہین کارکن کو پریشان کردیا تھا ۔ اس کی ٹانگ سے ابھی تک خون نکل رہا تھا ۔جو کہ سفید ٹائلز کو سرخ رنگ میں بدل رہا تھا ۔
———— ————
یور آنر میں نے مقتول کے بارے میں جانچ کی ۔ تو مجھے پتا چلا کہ مقتول کو قتل کرنے سے دو دن پہلے ہی مقتول اور ملزم زالان حیدر کا لاہور کی سڑک #ہال پر جھگڑا ہوا جس کے باقاعدہ گواہ موجود ہیں ۔ اس جھگڑے کے کے دو دن بعد ہی مقتول کا قتل ہوا ۔ یورآنر گواہان کی گواہی کے بعد یقینا آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ جھگڑے کی نوعیت بہت زیادہ تھی ۔ جھگڑے کے بعد مقتول کے قتل سے یہ بات واضع ہوتی ہے ۔ قاتل ملزم زالان حیدر ہی ہے ۔مجھے صرف یہی کہنا تھا تھینک یہ یورآنر ۔ پراسیکیوٹر اپنی بات کہ کر خاموش ہوا تو ارسا نے زالان کے وکیل کی طرف دیکھا ۔ جو اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر کٹہرے کے پاس آرہا تھا ۔
یورآنر پراسیکیوٹر نے اپنی گذشتہ باتوں میں میرے موکل پر کچھ الزامات لگائے ۔ یورآنر انہوں نے میرے موکل کو قاتل ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔ وکیل کی اس بات پر زالان اور ارسا دونوں مسکرائے کیونکہ پراسیکیوٹر کی باتوں سے واضع تھا کہ وہ اس کیس کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے ۔
یورآنر میرا موکل جائے قتل پر موجود تھا لیکن گولی انہوں نے نہیں چلائی ۔پولیس کے بیانات سے یہ واضع ہوتا ہے کہ جب جائے قتل پر پولیس پہنچی تو میرا موکل مقتول کے پاس کھڑا تھا ۔ اور اسی وقت مقتول کو گولی لگی ۔ مقتول کی پوسٹمارٹم رپورٹ میں یہ لکھا ہے مقتول کو گولی قریب سے لگی ہے ۔ لیکن یورآنر میں نے بذات خود جب لاش کا پوسٹمارٹم کروایا تو یہ بات سامنے آئی کہ مقتول کو گولی دور سے لگی ہے ۔ یہ رہیں دونوں رپورٹس ۔ارسا نے رپورٹس لے کر ان پر ایک نظر ڈالی ۔
یورآنر میری عدالت سے گذارش ہے کہ عدالت بذات خود لاش کا پوسٹ مارٹم کروائے تاکہ معاملات واضع ہوسکیں ۔ اور مجھے پراسیکیوٹر کے الزامات کی نفی کے لیئے تھوڑا وقت مل سکے ۔ تھینک یو یورآنر ۔ وکیل واپس اپنی جگہ پر آگیا ۔ ارسا نے زالان کو دیکھا جو اسی کی طرف متوجہ تھا ۔
یہ عدالت مقتول کے دوبارہ پوسٹمارٹم کا حکم دیتی ہے ۔ اور ساتھ ہی ملزم کے وکیل کو کچھ وقت دیا جاتا ہے کہ وہ پراسیکیوٹر کی باتوں پر غور کر سکیں ۔ ارسا نے بلند آواز میں کہا ۔ دروازے کے پاس ہاتھ باندھ کر کھڑا حدید مسکرایا (اور ظالم ملکہ کہتی ہے کہ کورٹ میں چیخنا نہیں پڑتا )۔۔اس نے سوچا اور مسکراتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گیا ۔
آپ کو اگلے ہفتے کی پچیس تاریخ دی جاتی ہے ۔ ریڈر نے کچھ قانونی کاروائیوں کے بعد کہا ۔
عدالت برخاست ہوتی ہے ۔ ارسا نے کہا اور چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی باہر کی طرف بڑھ گئی ۔ زالان نے ایک گہری سانس لی وہ ہادی کے لیئے پریشان تھا نا وہ اس سے جیل میں ملنے آیا تھا نا ہی وہ اسے کورٹ میں نظر آیا تھا۔ یقینا کوئی گڑبڑ تھی ۔ وہ سوچوں میں گم باہر نکل گیا ۔ کمرہ عدالت آہستہ آہستہ خالی ہورہا تھا ۔۔
———– ———-
ابو ایک بات پوچھوں ؟ رات کو ارسا نے کھانا کھاتے ہوئے کہا ۔
بولو بیٹا ۔ہاشم نے جوابا کہا
قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :
” اور جن لوگوں نے کفر کیا برابر ہے کہ تم انہیں ڈراو یا نا ڈراو یہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ کیونکہ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ اور ان کے لیئے بہت بڑا عذاب ہے ۔” (البقرہ آیات : 6،7)
اس آیت میں دلوں پر مہر لگانے سے کیا مراد ہے ؟ ارسا نے ہاشم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ سفید شرٹ کے اوپر بلیک اپر پہنے سفید ٹراوزر اور سفید ہی دوپٹہ گلے میں ڈالے بالوں کا ڈھیلا جوڑا بنائے وہ مغرور لڑکی پوری توجہ سے ہاشم کو دیکھ رہی تھی ۔
دیکھو بیٹا ۔ ہم سب انسان ہیں ہم سے بہت سی غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سے گناہ بھی ہوتے ہیں ۔ ان آیات میں ایمان نا لانے والے یا مسلسل گناہ کرنے والے لوگ مراد ہیں ۔ جب ایک انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک کالا نکتہ لگ جاتا ہے ۔ اور پھر جب وہ بنا رکے یا بنا توبہ کیئے گناہ کرتا جاتا ہے اس کے دل پر لگنے والے سیاہ نقطوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ۔ اور ایک وقت آتا ہے جب اس کا دل پورا کالا ہوجاتا ہے ۔ تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگادیتے ہیں ۔ مہر لگنے کہ بعد اس انسان کو نا سچائی نظر آئے گی نا وہ سچائی کو جان سکے گا نا ہی اس کا دل سچائی کو قبول کرے گا ۔ ہاشم نے ٹھنڈی سانس لی ۔
تو پھر اپنے دل سے اس مہر کو ہٹانے کا کیا طریقہ ہے ؟ عبداللہ نے ہاشم کی بات سن کر کہا ۔ زینب اور عائشہ بھی ان کی طرف متوجہ ہوچکے تھے ۔
تلاوت قرآن اور کثرت سے استغفار ۔ کیونکہ مہر صرف غیرمسلمانوں کے نہیں مسلمانوں کے دلوں پر بھی لگتی ہے ۔ سیاہ دل والا انسان جب پہلی بار قرآن پڑھے گا یا استغفار کرے گا تو اس کا دل کرے گا کہ ابھی یہ سب چھوڑ دے شیطان اسے بہکائے گا ۔ یہ ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے اس شخص کے لیئے ۔ لیکن اگر وہ قرآن پڑھتا رہے گا اور اللہ سے توبہ بھی کرے گا تو اس کے دل سے سیاہی ہٹتی جائے گی ۔ سمجھ آیا ؟ ہاشم نے پوچھا ۔
ارسا نے جوابا اثبات میں سر ہلایا ۔ اس کا ذہن اپنے کمرے میں لگے اس کالے دل والے شوپیس پر گیا تھا ۔ وہ اسے بہت اچھا لگتا تھا اور کیوں لگتا تھا وہ خود نہیں جانتی تھی ۔ بعض دفعہ ہمیں کوئی چیز بلاوجہ ہی بہت اچھی لگتی ہے لیکن قسمت جانتی تھی کہ اس ظالم ملکہ کو وہ شوپیس بلاوجہ پسند نہیں تھا اس کے پیچھے ایک وجہ تھی جسے بتانے کے لیئے تقدیر کسی کو بیجھنے والی تھی جو کہ یقینا ارسا کے لیئے اجنبی نہیں تھا ۔
———— ———
ارسا آپی ایک گڈ نیوز ہے ۔ وہ نماز پڑھ کر جائی نماز طے کر رہے تھی جب عبداللہ اس کے پاس آیا ۔
ہاں سن رہی ہوں ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا وہ جانتی تھی کہ وہ کیا گڈ نیوز لایا ہوگا ۔
زینب کی فرینڈز نے اسے دوبارہ چاکلیٹس دیئے ہیں ۔ عبداللہ نے رازداری سے اس کے کان کے قریب آکر کہا ۔
تو ہمیشہ کی طرح تمہاری نیت ان پر خراب ہورہی ہے ۔اس کی بات پر عبداللہ نے دانتوں کی نمائش کی ۔
لیکن چوری کرنا تو بری بات ہے نا ۔ اس نے بچوں کی طرح کہا ۔ عبداللہ نے اثبات میں سر ہلایا
چوری کرنے والا کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ناا ۔ اس نے پھر اثبات میں سر ہلایا ۔
تو ایسا کیا کرنا ہے کہ زینب خود تمہیں چاکلیٹس دے دے ۔ ارسا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
اوکے میں سمجھ گیا ۔ عبداللہ نے اپنی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
زبردست مائی کرائم پارٹنر ۔ تمہارے پاس کل کا دن ہے کل رات کو پھر چل کریں گے ٹھیک ہے ۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا
۔Siparişiniz gibi efendim
(جیسے آپ کا حکم جناب) ۔ عبداللہ نے کھڑے ہوکر اسے سیلیوٹ کرتے ہوئے کہا ۔ اور کمرے سے باہر چلا گیا ۔ وہ کھل کر مسکرائی تھی ۔
اس کی نظر سامنے پڑے موبائل پر پڑی ۔ جس کی اسکرین پر حدید کا میسج جگمگا رہا تھا ۔
اس نے موبائل ہاتھ میں اٹھایا ۔
کل صبح 12 بجے تک کورٹ سے فارغ ہوجانا ظالم ملکہ ۔ فیملی کورٹ کے دورے پر جانا ہے ۔ اس نے میسج پڑھا
۔Siparişiniz gibi efendim ۔ عبداللہ کے ترکش میں کہے گئے الفاظ جواب میں حدید کو بھیجے ۔ اور سونے کے لیٹ گئی ۔ کھڑکی سے جھانکتا چاند مایوس ہوا تھا ۔ وہ آج بھی کچھ نہیں لکھنے والی تھی ۔ کیونکہ اس کے دماغ میں کوئی موضوع نہیں تھا ۔ اور جب آئے گا وہ ضرور لکھے گی ۔ چاند کو امید تھی ۔ اور امید پر تو دنیا بھی قائم ہے اگر وہ صحیح انسان سے صحیح وقت اور صحیح چیز کی لگائی جائے ۔۔
————- ——–
سورج نکل چکا تھا ۔ سورج کی روشنی روشندان سے آکر سیدھا اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔ لیکن وہ بے خبر سو رہا تھا ۔
اٹھو ۔ ہیلو اٹھو ۔ اوئے تم سے کوئی ملنے آیا ہے ۔ ایک کانسٹیبل نے اندر آکر اسے جھنجوڑا ۔ وہ گڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ اس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں ۔ ماتھے پر بکھرے بالوں کو سائڈ پر کر کے اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔اور کانسٹیبل کے ساتھ باہر چلا گیا ۔ ملاقات والے روم میں داخل ہوتے ہی اسے حیرت کا جھٹکا لگا ۔ وہ ہادی کی توقع کر رہا تھا ۔ لیکن وہ کوئی لڑکی تھی ۔ جو اس کی طرف پیٹھ کیئے کھڑی تھی ۔ زالان آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھ گیا ۔ سامنے ٹیبل پر اس لڑکی کا سیاہ رنگ کا ہینڈ بیگ پڑا تھا ۔ کچھ دیر خاموشی رہی ۔ آخر تنگ آکر زالان نے کچھ بولنے کے لیئے لب کھولے تو وہ لڑکی مڑی ۔سیاہ عبایا پہنے، اسکارف سے نقاب کیئے ، لانگ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ لڑکی ارسا ہاشم تھی ۔ سیاہ نقاب سے جھانکتی بڑی بڑی چمکتی آنکھیں زالان کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں وہ اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات دیکھنا چاہتی تھی لیکن اسے مایوسی ہوئی ۔
تاثرات چھپانے میں ماہر ہو ۔ اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
کیا آپ اپنے کیس کے ہر ملازم سے جیل میں ملنے آتی ہیں ؟۔ زالان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
بات گھمانے میں بھی ماہر ہو ۔ خیر تمہارے سوال کا جواب دیتی چلوں کہ میں ہر ملزم سے ملنے نہیں آتی ۔ یہ پہلی دفعہ ہے کیونکہ ایسا کیس بھی پہلی دفعہ آیا ہے ۔ کہ ملزم پورے نو دن پولیس کا ظالمانہ تشدد سہنے کے بعد بھی اعتراف جرم نہیں کر رہا ہے ۔ ارسا نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئےکہا۔
آپ یہاں میرے بارے میں جاننے کے لیئے آئی ہیں ۔ اسی لیئے آپ نے میرے رہن سہن ،میرے رویہ کے بارے میں سب کچھ جیلر سے پوچھ لیا ہے ۔ ہے نا ۔ زالان نے سنجیدگی سے کہا
میرے سامنے ایسی باتیں نہ کرو مسٹر ۔ کیونکہ میں جس مقصد کے لیئے آئی ہوں اس کا تم نے فورا اندازہ لگالیا یہ تمہارے پیشہ ورانہ مجرم ہونے کی نشانی ہے ۔ نقاب سے جھانکتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ مسکرا رہی ہے ۔ زالان نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا ۔
شکریہ ۔ زالان کے کہنے پر ارسا نے ایک آئبرو اٹھائی
آپ کے کہنے پر اب وہ مجھے نہیں مارتے ۔زالان نے آہستہ سے کہا
ویل۔۔۔۔ارسا کچھ کہنے لگی لیکن پھر چپ ہوگئی ۔
خیر کام کی بات کرتی ہیں ۔ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو مسٹر زالان ۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ ایکدم غائب ہوئی تھی ۔ سنجیدہ چہرے کے ساتھ وہ کمرہ عدالت والی ارسا لگ رہی تھی ۔
کیا مطلب ؟ زالان نے کندھے اچکائے ۔
مطلب تمہیں نہیں پتا ۔ تمہارا ایک آدمی یا دوست روز میری فیس بک آئی ڈیز چیک کرتا ہے ۔ میری ڈیلی روٹین دیکھنے کے لیئے کبھی وہ مجھ سے پہلے اس جگہ پہنچ چکا ہوتا ہے تو کبھی میری گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی دوڑارہا ہوتا ہے ۔ کورٹ کے ججس ۔ وکلاء یا ملازمین سے میری تعریفیں کر کے ان سے میرے بارے میں پوچھ رہا ہوتا ہے کبھی ملازم بن کر نمک والی چائے بنا کر لا رہا ہوتا ہے حالانکہ میں کافی پیتی ہوں بنا چینی کے ۔ مطلب حد ہوگئی ۔ کیوں کر رہے ہو یہ سب ہاں ۔ اس نے جلدی جلدی کہا
( اور حدید نے ٹھیک کہا تھا کہ تاریخ میں سنہرے الفاظوں میں لکھا جائے گا کہ ارسا ہاشم نامی ظالم ملکہ ایک جاسوس کا دماغ رکھتی ہے اور اس کا معصوم دوست حدید ایک ہیکر ہے )
آپ کو کیسے پتا ہے کہ وہ میرا آدمی ہے ؟ زالان نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے ۔
میں تمہیں وارن کر رہی ہوں آئندہ اگر وہ آدمی میرے آس پاس دکھا تو میں اپنے طریقے سے پیش آؤں گی ۔ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
اور آپ کا طریقہ کیا ہے ؟ زالان مسکرایا ۔
ارسا نے مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے ۔
شہ مات زالان حیدر شہ مات۔ زالان کی مسکراہٹ غائب ہوئی ۔ اس نے ٹیبل پر پڑا ہینڈ بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف بڑھ گئی ۔ جبکہ پیچھے زالان ساکت تھا بالکل ساکت۔۔
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے،
منزل کے لیئے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے۔
اے دل کی خلش چل یونہی سہی چلتا تو ہوں انکی محفل میں،
اس وقت مجھے چونکا دینا جب سامنے منزل آجائے ۔
اے رہبر کامل چلنے کو تیار ہوں پر یاد رہے ،
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے۔
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے دینا ،
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آجائے ۔
اب کیوں ڈھونڈونگا چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم ،
میں چاہوں اے جذبہ غم کہ مشکل پس مشکل آجائے ۔
————– ——-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...