“ٹھیک ہے کل رات میں تیار رہوں گی تم آجانا”
پریشے کے چہرے پر انتہا کا سکون تھا کہ جیسے وہ کچھ غلط کر ہی نہیں رہی
حمزہ سے گفتگو کرنے کہ بعد پریشے نے فون رکھا اپنے کمرے میں گئی ،ایک بڑا سا سوٹ کیس نکالا اور اس میں تمام ضروری اشیا رکھیں اور اس کو بیڈ کے نیچے چھپا دیا
رات کے تقریباً تین بج رہے تھے ،پیاس کی شدت کی وجہ سے پری کی آنکھ کھل گئی ،باورچی کھانے سے پانی پینے کے بعد جب وہ واپس مڑی تو دیکھا کے امی کے کمرے کی بتی جل رہی تھی ،پری نے جب کمرے کے اندر جھانک کر دیکھا ،امی جاۓ نماز پر بیٹھی اللّه میاں سے دعا کر رہی تھیں
“یا اللّه میری بچیوں کی حفاظت فرما ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھ ،یا اللّه میں علیزہ کی طرف سے مطمئن ہوں مگر پریشے جس راستے پر چل رہی ہے وہ صحیح نہیں ہے یا اللّه مجھے دکھ اس بات کا نہیں کے وہ میری نا فرمانی کرتی ہے اصل غم تو یہ ہے کہ وہ تیرے احکامات کی نا فرمانی کر رہی ہے ،تو نے ایک عورت کو نا محرم مرد سے پردہ کرنے کا حکم دیا مگر میری پری تیرے اس احکام کی خلاف ورزی کر رہی ہے ،میں اور پری تو نبی پاک صلی اللّه علیہ والہ وسلم کی امتی ہیں قیامت کے روز ہم ان کو کیا منہ دکھائیں گے ،پری سمجھتی ہے کے میں کچھ نہیں جانتی مگر میں اس کی ماں ہوں سب کچھ جانتی ہوں بس میری بچی کو ہدایت دے آمین”
ندامت اور شرمندگی کے آنسوؤں سے پری کی آنکھیں تر ہو گئی تھیں ،آخر کار اس کو اپنے گناہوں اور غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا،وہ اپنے کمرے کی جانب بھاگی ،نل کھولا اور وضو کرنے لگی مگر آنسو تھے کے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ،اس نے جاۓ نماز بچھایا اور اللّه سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی
صبح پری کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو جاۓ نماز پر پایا ،اس کے چہرے پر نور ہی نور تھا ،اس نے فون اٹھایا اور حمزہ کو کال لگائی
“ہیلو ،ہاں حمزہ میں تم سے شادی نہیں کر رہی میرے نزدیک اللّه کا حکم اور میری ماں کی خواہش سب سے زیادہ مقدم ہے “یہ کہتے ہی پری نے فون بند کردیا
حمزہ پری کی باتیں سن کر ہکا بكا رہ گیا
“السلام عليكم ،امی” پری نے ماں کو سلام کیا
“وعلیکم السلام ،میری بچی”
“امی میں افضل سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں ،مجھے کسی کام سے باہر جانا ہے کیا میں آپکا برقعہ لے سکتی ہوں” پری کا لہجہ نہایت مودبانہ تھا
“ہاں کیوں نہیں پہن لو پر بیٹا جلدی آجانا ” امی پری کا رویہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئیں پہلی مرتبہ ان کو پری ،پری لگی تھی
پری نے برقعہ زیب تن کیا اور بازار کی طرف چل دی
کامی سمیت وہ محلے کے کئی لڑکوں کے پاس گئی ان سب کے پاس جن کو اس نے اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا،وہ سب کو اپنی حقیقت بتاتی کوئی اس کو معاف کر دیتا کوئی حیران ہوتا تو کوئی کہتا کے وہ اس کو پورے محلے میں بدنام کر دیگا ،جس کے جواب میں پری کہتی ،”میں اسی قابل ہوں”
پھر پری افضل کئی دکان میں داخل ہوئی
“افضل میں نے تم سے شادی کے لئے ہاں کر دی ہے ،مگر تم شاید یہ نہیں جانتے کے میں ایک بد چلن لڑکی ہوں جس نے کئی لڑکوں کو الو بنا رکھا تھا ،یہ لو اپنا فون ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا “،پری کی آنکھیں نم تھی
“کوئی بات نہیں پری میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کے تم سدھر گئی مگر یہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے؟؟”افضل نے سوال کیا
“افضل بعض اوقات ایک لفظ ہی لفظ انسان کی زندگی بدل دیتا ہے اور بعض اوقات طویل ترین جملے بھی انسان کو سمجھا نہیں پاتے”
پری مسکرائی اور دکان سے نکل گئی ،افضل کے چہرہ پر بےحد سکون دکھائی دے رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں علیزہ کی رخصتی اور پری کئی شادی کئی تیاریاں شروع ہو گئی ،اماں اور علیزہ نئی پری سے بہت خوش تھیں
ایک روز پری کو عائشہ کا فون آیا
“ہیلو پری امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے میں پچھلی والی گلی کے کلینک میں ہوں تم آسکتی ہو ؟؟”عائشہ کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی
“ہاں عائشہ تم فکر مت کرو میں آرہی ہوں”پری نے جلدی جلدی میں چادر اوڑھی ،گھر پر کوئی بھی نہیں تھا،پری نے دروازے کو تالا لگایا اور پچھلی گلی کی طرف چل دی
ابھی پری دوسری گلی میں داخل ہوئی ہی تھی کے ایک گاڑی اس کے پاس آکر رکی حمزہ گاڑی سے اترا پری کو بیہوش کیا پری کو گاڑی کے اندر پھینکا اور جلدی جلدی وہاں سے نکل گیا ،گلی سنسان تھی جس وجہ سے کوئی یہ منظر نا دیکھ پایا
“بڑی آئ نیک بی بی دیکھ پری تیری وجہ سے مجھے 10 ہزار کا منافع ہوا ہے “عائشہ اپنے کمرے میں بیٹھی مسکرا رہی تھی اس نے ایک اونچی قہقہہ لگایا
پری کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک بند کمرے میں پایا ،پری نے کھڑے ہونے کئی کوشش کی مگر پیروں نے ساتھ نا دیا ہمت کر کے وہ لڑکھراتے ہوئے آئینے کے سامنے گئی ،اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر اس نے فورا نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ لئے
اس کے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے کپڑے ،بکھرے ہوئے بال زمین پر پڑی ہوئی اس کی چادر ،جسم پر جگہ جگہ خراشیں اس کے ساتھ ہوئے ظلم کی داستان بیان کر رہے تھے ،پری بے آبرو ہو چکی تھی
اتنی دیر میں حمزہ ایک لڑکی کے ساتھ کمرے میں آیا اس لڑکی نے پری کو کپڑے تبدیل کرواۓ ،پری کو توپتہ ہی نہیں تھا کے اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہ تو ایک بت کی مانند چپ کھڑی تھی اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے وہ تو اپنے دل میں اپنی عزت کے لٹ جانے کا ماتم کر رہی تھی حمزہ نے پری کو گاڑی میں بٹھایا اور ایک انجان جگہ گاڑی روکی
“یہ کون سی جگہ ہے؟”پری نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا
“یہ ،یہ بازار حسن ہے میں نے تمہیں بیچ دیا ہے اب تم طوائفوں کے کوٹھے پر ناچو گی “حمزہ مسکراتے ہوئے بولا
“نہیں نہیں مجھے گھر چھوڑ آؤ میں یہاں نہیں جاؤں گی تمہیں خدا کا واسطہ “پری نے حمزہ کےآگے ہاتھ جوڑ لئے
“گھر کو بھول جاؤ اب یہی تمہارا گھر ھے ”
“نہیں میں نہیں جاؤں گی”
حمزہ نے پڑی کے چہرے پر ایک تھپڑ رسید کیا ،پری نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر حمزہ نے اس کو نا چھوڑا وہ پری کو مارتے گھسیٹتے ہوئے لے جارہا تھا آنسوؤں سے پری کا معصوم چہرہ طر ہو چکا تھا اس بیچاری کی حالت قابل رحم تھی ،وہ حمزہ کے آگے ہاتھ جوڑتی اس کو واسطے دیتی مگر حمزہ کو اس پر ذرا ترس نا آیا،پری کا لباس مٹی سے بھر چکا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑا آگے ایک آدمی کھڑا تھا جو شاید حمزہ کا ہی انتظار کر رہا تھا،حمزہ نے اس کے ہاتھ میں پری کا ہاتھ دیا اور اس آدمی نے اپنی جیب سے نکال کر ایک پیکٹ حمزہ کے حوالے کیا جس میں شاید پیسے تھے حمزہ نے وہ پیکٹ اپنی جیب میں ڈالا اور ہنستا ہوا وہاں سے چلے گیا اور آدمی پری کو لے کر کوٹھے میں داخل ہوگیا ،کوٹھے کی اوپر والی منزل میں پری نے دیکھا کے ایک سیج پر ایک عورت براجمان ہے ،وہ آدمی پری کو چھوڑ کر نیچے چلے گیا
“ارے واہ تو تو بڑی مست لگ رہی ہے ،جانتی ہے ایک لاکھ کے عوض تجھے خریدا ہے ،ایک بات دھیان سے سن لے میں اس کوٹھے کی ملکہ ہوں یہاں سب میری بات مانتے ہیں آج سے تو بھی میری بات مانے گی ،میرا نام رنگیلی ہے “،رنگیلی بائی بڑے روعب سے بولی
“رنگیلی آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھے یہاں سے جانے دیں میرے گھر والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے “پری ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی
“کون سا گھر بی بی اب تو یہی تیرا گھر ہے اور یہیں سے تیری لاش نکلے گی ،اور تجھے قبول بھی کون کرے گا جو لڑکی ایک بھی دفعہ اس کوٹھے کا رخ کر لے اس کو معاشرہ کبھی قبول نہیں کرتا ”
“اے شمع بائی ادھر آ”رنگیلی چلائی
“جی حضور”
“اس کو لے جا نہا دھو کر تیار کر اس کو رات کو ایک دعوت کا اہتمام کیا ہے ،آج یہ ہی ناچے گی”رنگیلی پری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
“میں اپنی جان دے دوں گی پر ناچوں گی ہر گز نہیں “پری چلائی
“ارے کیسے نہیں ناچے گی اگر اپنے گھر والوں کا بھلا چاہتی ہے تو تجھے ناچنا ہی ہو گا”رنگیلی بائی نے پری کو دھمکی دی
“ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں ناچ لوں گی پر میرے گھر والوں کو کچھ نہیں ک “پری کا معصوم چہرہ آنسوؤں سے تر تھا،اس کے چہرے پر پریشانی کی دھول جم چکی تھی
“شاباش یہ ہوئی نا بات ،ارے میں تیرا نام پوچھنا تو بھول ہی گئی ،بتا تیرا نام کیا ہے ”
“جی میرا نام پریشے ہے “،پری نے جواب دیا
“ہمم پریشے نہیں پریشے اچھا نہیں آج سے تیرا نام ہے پارو ،پارو بائی “رنگیلی سوچتے ہوئے بولی
شمع بائی پری کو اٹھا کر اندر لے گئی ،اندر کمرے 6 سے 7 عورتیں پہلے سے ہی موجود تھی سب کی عمر 40 سے زیادہ تو لگ ہی رہی تھی اور شمع بائی تو 50 سے زیادہ کی لگ رہی تھی
“ارے واہ لگتا ہے ایک نئی طوائف آئ ہے ،میرا نام پنکی ہے پری رانی تیرا نام کیا ہے “ان میں سے ایک نے پری سے سوال کیا
“اس کا نام پارو بائی ہے ،آج رنگیلی نے خاص دعوت کا اہتمام کیا ہے اس کو تیار کرنا ہے “شمع نے جواب دیا
پری تو بس چپ کھڑی تھی اسکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اس پر تو ایک سکتے کا عالم طاری تھا
“کیا حال ہے میرے پیارے سے بچے کا؟؟” شائستہ بیگم نے سعد سے سوال کیا
“امی میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں”سعد سکندر نے جواب دیا
“بیٹے ان سب باتوں کو چھوڑو یہ بتاؤ کے شادی کب کرو گے میں نے آپ کے لئے کئی لڑکیاں دیکھ رکھی ہیں ”
“امی دراصل میں بھی آپ سے اسی بارے میں بات کرنی ہے ،مجھے ایک لڑکی بہت پسند ہے ،سچ پوچھیے تو پہلی نظر میں ہی مجھ کو اس سے محبت ہو گئی تھی ،میں نے اس کے بارے میں پتہ کروایا ہے ،اس کانام پریشے ہے غریب گھرانے سے اس کا تعلق ہے ،بس آپ کینیڈا سے جلد آجائیں اورمیرے لئے اس کا رشتہ لیں نے جائیں ”
“یہ تو بہت خوشی کی بات ہے بیٹے میں جلد آنے کی کوشش کروں گی چلو بیٹے خدا حافظ آپ کے بابا مجھے بلا رہے ہیں ”
“ٹھیک ہے ماں ،اللّه حافظ “سعد نے فون رکھ دیا
سعد ایک بار پھر پری کے حسین خیالوں میں کھو گیا ،سعد اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جس کا پاکستان میں ہی بزنس تھا جب کہ ماں باپ کا کینیڈا میں بزنس تھا ،سعد سکندر ایک بہت ہی نیک صفت لڑکا تھا پری سے پہلے نا تو کوئی لڑکی اس کی زندگی میں آئ اور شاید مستقبل میں کوئی آۓ گی بھی نہیں
شام کا وقت تھا رنگیلی محل(کوٹھا) مردوں سے چھکا چھک بھرنے لگا
“اللّه میاں تو کہتے ہیں کے میں سب ی توبہ قبول کرتا ہوں میں نے بھی تو سچے دل سے توبہ کی تھی پر اس نے شاید میری توبہ قبول ہی نہیں کی “،پری روتے ہوئے بولی
“نا میرا بیٹا رب سوہنا تو سب کی توبہ قبول کرتا ہے اس کی ذات تو بڑی عظیم ہے،وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں کو آزماتا ہے ،وہ انسان کے گناہوں کو تو معاف کرتا ہے پر اگر اس انسان نے اپنے مسلمان بھائی کا دل دکھایا ہو تو اللّه تب تک انسان کو معاف نہیں کرتا جب تک کہ اس کا مسلمان بھائی اس کو معاف نا کردے “شمع نے پری کو دلاسہ دیا وہ پری کی حالت بھانپ گئی تھی
“مجھے لگتا ہے مجھے حمیرہ کی بددعا لگ گئی ہے “پری خود بخود بول پڑی
“کون حمیرہ؟”شمع نے سوال کیا
“آپ اس بات کو چھوڑیں مجھے یہاں سے نکلنا ہے کیا آپ میری مدد کریں گی “پری نے شمع سے سوال کیا
ادھر عائشہ نے پورے محلے میں یہ بات پھیلا دی کے اس نے پری کو کسی کے ساتھ بھاگتے دیکھا ہے ،جس کے بعد علیزہ orاور اس کی ماں پر پورا محلہ تھو تھو کرنے لگا ،علیزہ کی رخصتی سے پہلے ہی اس کو طلاق ہو گئی اور وہ بے کس اور لاچار ماں بیٹیاں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نا رہیں