زینیہ نے اس حادثے کا ذکر ۔۔۔ خلیل کے سامنے نہیں کیا تھا ۔۔۔ کہ اسے ڈر تھا کہ شاید خلیل اس کے ساتھ بےحد برا سلوک کریں ۔۔۔
عائش کو خبر تھی اور اس نے سب وقت پہ سنبھال بھی لیا تھا ۔۔ لیکن اس کا غصہ اپنی ماں پہ کم نہیں ہوا تھا ۔۔۔
” مما ۔۔۔ مجھے آپ سے اس حرکت کی بلکل توقع نہیں تھی ۔۔ ایک غیر مرد کو آپ اپنی ہی بیٹی کے روم میں لے گئی ۔۔ کیسی ماں ہے آپ ؟؟”
عائش چلایا تھا جبکہ زینیہ شرمندگی سے رونے لگ گئی ۔۔
” ایم سوری بیٹا ۔۔ اپنی مما کو معاف کردو پلیز ۔۔ ”
” اگر ایلا کو کچھ ہو جاتا تب آپ کے اس سوری سے کیا ہو جانا تھا ۔۔۔ آپ کا کب سے واسطہ پڑا ہوا ہے ایسے لوگوں سے ؟؟؟ افففف ”
عائش تو غصے سے پاگل ہو رہا تھا ۔۔
” عائش پلیز بیٹا ۔۔ تمہارے پاپا کو اس بات کی خبر نہ ہو ۔۔ ورنہ وہ بہت غصہ ہو جائیں گے ۔۔پلیز میرا بیٹا ۔۔ ”
وہ منت کر رہی تھی اپنے بیٹے کی ۔۔ کہ اپنی بےوقوفی میں کیا غلطی کر بیٹھی تھی ۔۔
عائش جھٹکے سے اپنی ماں سے دور ہوا تھا ۔۔ اور وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔ جبکہ زینیہ وہیں روتے ہوئے بیٹھ گئی ۔۔
” میں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوں ۔۔ میں ماں ہوں ۔۔ کیسے اپنی بیٹی کی دشمن ہو سکتی ہوں ۔۔ لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔ جو کچھ کل اس روم میں ہوا ہے ۔۔ اسے ۔۔۔ اس سے مجھے خوف آ رہا ہے ۔۔۔ اگر وہ ۔۔۔ وہ پھر سے آ گیا ہو ۔۔ پھر سے ایلا کو لے جائے تو؟؟”
وہ روتے ہوئے وہیں بیٹھی تھی کہ اب پل پل یہ خطرہ اس کے اندر بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔ کچھ تو غلط ہونے والا ہے ۔۔۔
آج وہ کافی دنوں بعد یونیورسٹی آئی تھی ۔۔۔ یونیورسٹی گیٹ سے ۔۔ اندر داخل ہوتی ۔۔ وہ اپنے موبائل میں کچھ سرچ کرنے لگی ۔۔۔
اور وہیں گاڑی میں بیٹھا ۔۔ وہ شیطان صفت انسان ۔۔ اپنی سرخ ہوتی مکروہ آنکھوں سے ۔۔ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
‘ وہ رہا تمہارا شکار ۔۔۔ وہی لڑکی ہے ۔۔۔ جس نے تمہارے لیے انکار کیا تھا ۔۔ اور اب تمہاری باری ہے کہ اس سے بدلہ لے سکو ۔۔ ‘
ژاویلا کی شیطانی آواز ۔۔ اس کے دماغ میں گونج رہی تھی ۔۔
اور اس کے چہرے پہ ۔۔۔ نفرت کی تحریر ابھری تھی ۔۔۔
” تمہارا بلڈ پینے میں مجھے بہت مزہ آئے گا ایلا ۔۔ اور تمہارے اس کندن جیسے جسم کا گوشت کاٹ کاٹ کے کھانے میں اپنا ہی مزہ ہے ۔۔ ”
اس نے دانت پیسے تھے ۔۔ اور ساتھ ہی گاڑی کو پوری شدت سے ایلا کی طرف بڑھایا تھا ۔۔۔
اس کا دماغ مکمل ژاویلا کی دسترس میں تھا ۔۔۔ وہ اپنے شکار کے بےحد قریب تھا ۔۔۔ بس دو انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا ۔۔۔۔ جب اچانک گاڑی جھٹکے سے روک دی گئی تھی ۔۔۔
ایلا بہنام کی بانہوں میں تھی ۔۔ اور وہ پریشان نظروں سے ۔۔۔ اس کی سرخ اور سبز امتزاج کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
وہی خوشبو اسے اپنے ارد گرد محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔
جبکہ وہ لب بھینچے ۔۔۔ سامنے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ کہ یہ سب بلکل اچانک ہوا تھا ۔۔وہ ایلا پہ ابھی خود کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔
ایلا کی نظر گاڑی پہ گئی تھی ۔۔ جس کے سامنے والے حصہ مکمل خراب ہو چکا تھا ۔۔۔
” یہ تم ۔۔۔ تم ۔۔۔ ”
جبکہ بہنام اسے تیزی سے سائیڈ پہ کرتا ۔۔۔ خود گاڑی پہ چڑھ گیا تھا ۔۔
وہاں موجود لڑکے لڑکیاں ۔۔ حیرت سے اس خوبرو شخص کو دیکھ رہے تھے ۔۔ جو ان کے لئے کسی سوپر مین سے کم نہیں تھا ۔۔۔
بہنام نے گاڑی چیک کی تھی ۔۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔
” ڈیم اٹ ۔۔ ”
وہ ایلا کے قریب آیا تھا ۔۔۔
” You should take care of yourself… Miss Ella ”
ہمیشہ کی طرح وہی لہجہ ۔۔۔ جو اسے چونکا دیتا ۔۔
وہ گھور کے بہنام کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جبکہ وہ سر جھٹک کے وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔ ایلا بھی اس کے پیچھے ہی چلی آئی تھی ۔۔
” بہنام ۔۔ ایکسکیوز می ۔۔ لسن ۔۔ رکو ۔۔۔ رکو ”
اس نے بہنام کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا ۔۔ اور ویسے ہی تیزی سے ۔۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تھا ۔۔
” آؤچ ۔۔۔”
بہنام نے مڑ کے اس کا ہاتھ دیکھا تھا ۔۔ جس میں جلن ہو رہی تھی اور وہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔
بہنام نے بےبسی سے ۔۔ اس کے آنکھوں کی نمی کو دیکھا تھا ۔۔
” میرے پیچھے کیوں آ رہی ہو ؟؟”
اس کا لہجہ سخت تھا ۔۔
” تم کوئی اوون ہو کیا ؟؟”
ایلا غصے سے ۔۔ اسے دیکھتی تیز لہجے میں بولی تھی ۔۔
” میں آگ ہوں ۔۔ دور رہو مجھ سے ۔۔ ”
وہ سرد لہجے میں کہتا ۔۔۔ ایک گہری نظر اس کے ہاتھ پہ ڈالتا ۔۔ واپس مڑ کے چلا گیا تھا ۔۔ جبکہ ایلا نہایت غصے سے اس کی پشت کو گھور رہی تھی ۔۔
” ہے کون یہ ؟؟ ایسا کیوں لگ رہا مجھے کہ جیسے یہ ۔۔۔ ؟؟”
وہ یونہی سوچوں میں غلطاں ۔۔ لیب کی طرف گئی تھی ۔۔ جہاں سارے اسٹوڈنٹس موجود تھے ۔۔۔
بہنام پہ نظر پڑتے ہی ۔۔ ایلا اسی طرف آئی تھی ۔۔ اور اس کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھی تھی ۔۔۔
لیکن اسی تیزی سے بہنام وہاں سے اٹھ کے ۔۔۔ دوسری جگہ قدرے دور ہو کے بیٹھ گیا تھا ۔۔
ایلا نے گھور کے ۔۔ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھا تھا ۔۔
” سب اسٹوڈنٹس گروپ کی صورت میں اپنا پروجیکٹ انجام دے گیں ۔۔ اب کون کون سے اسٹوڈنٹس ساتھ گروپ بنانا چاہتے ہیں ۔۔ وہ اپنا گروپ بنا کے مجھے انفارم کردیں ۔۔ ”
پروفیسر کی آواز پہ ۔۔ سب اسٹوڈنٹس ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔
ایلا پھر سے مڑ کے ۔۔ بہنام کو دیکھنے لگی ۔۔ اور پھر کچھ سوچتی اس کی سیٹ کے قریب آئی تھی
” بہنام ۔۔۔ ”
وہ جو اپنے اسائنمنٹ پہ جھکا ہوا تھا ۔۔ اب سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” میں اور تم گروپ بنا سکتے ہیں ؟؟”
ایلا مسکرانے کی کوشش کرتی ۔۔ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
” نو ۔۔ ”
اس نے دو ٹوک انداز میں کہہ کے رخ پھیر لیا تھا ۔۔ جب اس کی کلاس فیلو ۔۔ آریا وہاں آئی تھی ۔۔
” Can we be group mates Behnaam ??”
بہنام اسے نظر انداز کرتا آریا کو دیکھنے لگا ۔۔
” یس ۔۔ ”
اور وہاں سے اٹھ کے ۔۔ آریا کے ساتھ آگے بڑھ گیا ۔۔ جبکہ ایلا غصے سے ۔۔ اسے گھور رہی تھی ۔۔۔ کہ جس طرح سے ۔۔ وہ برا رویہ رکھے ہوئے تھا ایلا سے ۔۔ اور پھر آریا کے ساتھ اس کا اٹھ کے جانا ۔۔ ایلا کو غصہ دلا گیا تھا ۔۔
” ایلا ۔۔ ”
وہ نم آنکھوں سے ۔۔ یشعر کو دیکھنے لگی ۔۔
” گروپ میٹ بنو گی میری ؟؟”
وہ پوچھ رہا تھا اور ایلا سر اثبات میں ہلا گئی تھی ۔۔
” بچ گئی ایلا ۔۔۔ آہ اسے مر جانا چاہیے تھا ۔۔۔”
ژاویلا ادھر ادھر ٹہلتی ۔۔۔ غصے میں کہہ رہی تھی ۔۔ جبکہ کاوش لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” سب سے پہلے تمہیں اس بہنام کو ختم کرنا ہوگا ۔۔ ”
” نہیں ۔۔ ”
ژاویلا نے رک کے اسے دیکھا تھا ۔۔
” ایسا ناممکن ہے ۔۔ میں بہنام سے محبت کرتی ہوں ۔۔ میں اسے حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔۔ یہ ناممکنات میں سے ہیں ۔۔ سوچنا بھی مت ایسا کھبی ۔۔۔ ”
کاوش اب کے خاموش ہی رہا تھا ۔۔
” ایلا میری دشمن ہے ۔۔ میری سب سے بڑی دشمن ۔۔۔ اس کی وجہ سے میرا بھائی مر گیا ۔۔۔ آگ میں جل کے راکھ ہوگیا میرا بھائی۔ ۔۔ اور اب میری باری ہے انتقام کی ”
ژاویلا نے دانت پیسے تھے ۔۔۔
” تمہارا بھائی ؟؟ تمہارے بھائی کا کیا کام اس سے ؟؟”
کاوش حیرت سے پوچھنے لگا ۔۔
” میرے بھائی کو اس سے محبت ہو گئی تھی ۔۔ جادوگر تھا میرا بھائی ۔۔۔ ڈاریون جادوگر ۔۔۔ وہ ایلا کو پانا چاہتا تھا ۔۔ وہ ایلا پہ دسترس پا بھی چکا تھا ۔۔۔ لیکن اسے جلا دیا گیا ۔۔ ”
ژاویلا کی آواز میں درد و کرب تھا اپنے بھائی کے ذکر پہ ۔۔
” کس نے جلایا اسے ؟؟ ایلا نے ؟؟”
کاوش کے سوال پہ ۔۔ اس نے سر نفی میں ہلایا تھا ۔۔۔
” نہیں ۔۔۔ ساحر نے ۔۔۔ ساحر یاوش ۔۔۔ ”
وہ غرائی تھی ۔۔
” جنات اور جادو گروں کو قابو کرنے کی اہلیت رکھتا ہے وہ ۔۔۔ ”
” اب کہاں ہے وہ ؟؟ ساحر یاوش ؟”
کاوش اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پوچھنے لگا ۔۔ جب ژاویلا نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
” تم کیوں اتنا پوچھ رہے ہو اس کے بارے میں ؟؟ ارادے کیا ہیں تمہارے ؟؟”
جبکہ وہ کندھے اچکا کے سر نفی میں ہلانے لگا ۔۔
” میرا کوئی ارادہ نہیں ہیں ۔۔۔ میں تو بس پوچھ رہا تھا ۔۔ نہ بتانا چاہو تو اٹس اوکے ۔۔ ”
” ہمممم ”
ژاویلا نے ہنکارا بھرا تھا ۔۔۔ اور پھر اس کے قریب آئی تھی ۔۔۔
” تم شیطان ہو اب ۔۔۔ شیطان ۔۔۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہیں نہیں توڑ سکتی ۔۔ تم میں بہت سی ایسی طاقتیں ہیں ۔۔ جو تمہیں سب سے منفرد بناتی ہے ۔۔ ”
ژاویلا نے اس کی گردن میں ۔۔ اہنے دونوں بازو حائل کیے تھے ۔۔ اور وہ مسکرا دیا تھا ۔۔۔۔
اس کی کمر پہ اپنے دونوں بازو حائل کر کے ۔۔۔ اسے اپنے قریب کیا تھا ۔۔۔
” تم میری طاقت ہو ژاویلا ۔۔ تمہارے ساتھ ۔۔۔ تمہارے قریب رہ کے ۔۔۔ میں خود کو مکمل محسوس کرتا ہوں ۔۔۔ ”
ژاویلا ہنس پڑی تھی ۔۔
” محبت کے چکر میں تو نہیں پڑ گئے تم ؟؟؟ ”
کاوش اسے گہری نظروں سے دیکھتا ۔۔ مزید اس کے قریب ہوا تھا ۔۔
” محبت سے بھی بڑھ کے ہیں ۔۔ ”
اور پھر اس کے چہرے پہ اپنی سانسیں چھوڑی تھی ۔۔۔
” میرے بےحد قریب آؤ گیں ۔۔ تو برباد ہو جاؤ گیں ۔۔ ”
ژاویلا اس کی تڑپ بڑھاتے کہنے لگی ۔۔
” میں برباد ہونا ہی تو چاہتا ہوں ۔۔ ”
کاوش بےباکی سے کہتا ۔۔۔ اسے دیوار سے پن کر چکا تھا ۔۔۔ جبکہ ژاویلا اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی ۔۔۔
” تمہاری بےباکیاں میرا سکون ہیں کاوش ۔۔ ”
وہ سرگوشی میں بولی تھی ۔۔ جبکہ کاوش اس کی شرٹ کندھوں سے نیچے کر چکا تھا ۔۔۔
” اور بوند بوند تمہاری رگوں میں اتر جانا ۔۔۔ میری چاہ ہیں ژاویلا ۔۔۔ ”
شیطانوں کی بستی کے دو شیطان ۔۔۔ اپنے ہوس بھرے شیطانی لمحات ایکدوسرے کے وجود میں بسر کر رہے تھے ۔۔
ایلا اس کی ٹیبل پہ آ کے بیٹھی تھی ۔۔ جبکہ بہنام نے چونک کے اسے دیکھا تھا ۔۔
اور پھر نظریں پھیر کے ۔۔ وہ دوسری سیٹ پہ جانے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔
جب ایلا اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
” کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ؟؟”
ایلا کے سوال پہ ۔۔ وہ خاموش ہی رہا ۔۔
” جانتی ہوں تم وہی ہو جو میرے بیڈ روم میں آئے تھے ۔۔ وہی بھوت ۔۔ رائٹ ؟”
بہنام نے سپاٹ نظروں سے ۔۔ اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔
” میں وہ نہیں ہوں ”
” تمہیں کیسے پتہ ۔۔ میں کس کا کہہ رہی ہوں ۔۔ ”
ایلا مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ جبکہ وہ جزبز ہوا تھا ۔۔
” مجھ سے فری ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہے ۔۔ جاؤ یہاں سے ۔۔ ”
” میں تو ہونگی ۔۔ میرا ہاتھ بھی جلا چکے ہو ۔۔ ”
ایلا بھی ضدی تھی ۔۔ جبکہ آریا بھسم ہوتی نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” تو دور رہو ۔۔۔ میرے سامنے مت آؤ ۔۔۔ ورنہ خود بھی جل جاؤ گی ۔۔ ”
ایلا کے چہرے پہ تمسخرانہ مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ اور قدم بڑھا کے ۔۔۔ وہ مزید بہنام کی قریب ہوئی تھی ۔۔
” جلا کے دکھاؤ ۔۔ ”
بہنام لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” میں جلنا چاہتی ہوں ۔۔”
وہ دوبارہ سے بولی تھی ۔۔ بہنام اس کے آگے بےبس نہیں ہونا چاہتا تھا ۔۔ اسے کسی بھی طرح کر کے ۔۔ آریا کی سچائی معلوم کرنی تھی ۔۔ تبھی وہ ایلا کو نظرانداز کر کے ۔۔ آریا کے قریب ہو رہا تھا ۔۔
ورنہ کوئی اس کے دل سے پوچھتا تو بتاتا کہ ایلا کی نزدیکی ۔۔ اسے کیسے پگھلا دیتی ہے ۔۔۔
” ایلا پیچھے ہٹو ۔۔۔ ہمیں کام کرنا ہیں ۔۔ ”
آرہا برے تیور لیے قریب آئی تھی ۔۔جب ایلا نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا تھا ۔۔ جو اس نے بہنام کی کلائی پہ رکھا تھا ۔۔۔
جھٹکے سے غراتی ۔۔ اس کا ہاتھ وہ پیچھے کر چکی تھی ۔۔۔
” تم ادھر جا کے بیٹھو ۔۔ بیچ میں مت آؤ”
ایلا کی بات پہ ۔۔ بہنام کے لب مسکرائے تھے ۔۔ لیکن وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتا آریا کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔
” آڑ یو اوکے آریا ۔۔ ”
آریا اپنی نفرت بھری نظریں ۔۔۔ ایلا سے ہٹا کے ۔۔ بہنام کو دیکھنے لگی ۔۔ اس کے چہرے پہ اب مسکراہٹ تھی ۔۔
” یس ایم فائن ۔۔۔ مجھے جانا ہیں یہاں سے ۔۔ پلیز مجھے لے چلو ۔۔ ”
اور بہنام ایلا کو نظرانداز کرتا ۔۔ آریا کو سہارا دیتا وہاں سے لے جانے لگا ۔۔۔
ایلا جو غصے سے آریا کو دیکھ رہی تھی ۔۔ وہاں موجود پانی کا جگ اٹھا کے ۔۔۔ آریا پہ پھینکا تھا ۔۔
وہ چیختی ہوئی پیچھے مڑی تھی ۔۔۔ دانت پیستی وہ ایلا کو دیکھ رہی تھی ۔۔ اس کی آنکھوں کا رنگ بھی متغیر ہوا تھا ۔۔۔
ایلا بےحد حیرت سے ۔۔ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جب اسنے پاس پڑی کوئی ایسڈ کی بوتل اٹھائی تھی ایلا پہ پھینکنے کے لئے ۔۔۔
لیکن بہنام تیزی سے ۔۔۔۔ ایلا کے سامنے آیا تھا ۔۔ ایسڈ اس کی پشت پہ گری تھی ۔۔ لب بھنچے وہ ایلا کی حفاظت کرتا وہاں کھڑا تھا ۔۔۔
” بہنام ۔۔۔۔ ”
ایلا کی سہمی آواز ابھری تھی ۔۔
” جاؤ یہاں سے ۔۔ ”
وہ سپاٹ لہجے میں کہنے لگا ۔۔
” بہنام ۔۔۔۔ ”
ایلا پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
” جاؤ ۔۔ اور پیچھے مڑ کے مت دیکھنا ۔۔ جاؤ ۔۔ ”
بہنام نے جھٹکے سے ۔۔ اسے پیچھے دھکیلا تھا ۔۔ اس کی نظر بہنام کے پیچھے کھڑی آریا پہ پڑی تھی ۔۔ جس کا چہرہ غصے کی حالت میں متغیر ہو رہا تھا ۔۔
” و۔۔۔ وہ ت ۔۔۔ تمہیں ۔”
ایلا اس کے پاس ہی رکی ہوئی تھی
” جاؤ ۔۔۔”
بہنام اب کے دھاڑا تھا ۔۔ اور ایلا بھاگتی ہوئی وہاں سے گئی تھی ۔۔۔بہنام مڑ کے ۔۔ اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے آریا کو گھورنے لگا ۔۔ اور پھر تیزی سے ۔۔ اس کی گردن دبوچے ۔۔ وہ آریا کو دیوار سے پن کر کے ۔۔۔ اس کے نزدیک غرایا تھا۔۔۔
جبکہ آریا گہرے سانس لیتی ۔۔ خودکو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔
” چھوڑو مجھے بہنام ۔۔ پاگل ہو گئے ہو ۔۔ ” ۔
وہ جھنجھلاتی خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
” کیا غلطی کرنے والی تھی تم ایلا کے ساتھ ؟؟”
اس کی آنکھیں سے برسا رہی تھی ۔۔ جبکہ آریا خود کو بچانے کے لیے دائیں بائیں سر ہلا رہی تھی ۔۔
” وہی جو مجھے اس کے ساتھ کرنی چاہئیے ۔۔ وہ تمہیں مجھ سے چھیننا چاہتی ہے ۔۔ ”
آریا جب خود کو بچانے کی کوشش میں ہمت ہارنے لگی تو بےبسی سے بولی تھی ۔۔
” میں تمہارا تھا ہی کب ۔۔ جو کوئی مجھے تم سے چھینے گا ؟؟ انٹاسیا بہتر یہی ہے کہ جیسے تم آئی ہو ۔۔ ویسی ہی واپس چلی جاؤ ۔۔ ”
بہنام کا لہجہ بےحد سرد تھا ۔۔۔
” تمہیں کیسے پتہ میں انٹاسیا ہوں ؟”
آریا کو حیرت ہوئی تھی ۔۔
” جتنی طاقت کا میں مالک ہوں تم ابھی اس کے انچ تک نہیں پہنچی ۔۔۔ میرے مقابلے میں آؤ گی تو مار دی جاؤ گی ۔۔ جاؤ ”
وہ دھاڑتا ۔۔ اسے جھٹکے سے چھوڑتا دور ہوا تھا ۔۔ جبکہ آریا کا بےہوش وجود نیچے گرا تھا اور انٹاسیا اب اس کے سامنے تھی ۔۔ اپنی اصلی روپ میں ۔۔۔
” بہنام میں تمہارے مقابلے میں نہیں آ رہی ۔۔ تم سے بےحد محبت کرتی ہوں ۔۔ تمہارے دل کی ملکہ بننا چاہتی ہوں ۔۔ تبھی ہر راستے میں ۔۔۔ تم سے ٹکراتی ہوں ۔۔ مجھ سے شادی کر لو ۔۔ میں تم جیسی ہی ہوں ۔۔ ایلا تم ۔۔۔ ”
وہ کہہ رہی تھی جب بہنام نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
“ایلا سے دور رہو ۔۔ جاؤ یہاں سے اب ۔۔ ”
وہ چلایا تھا ۔۔۔ اور رخ موڑ کے ۔۔ وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔ کہ انٹاسیا کو اپنے سامنے دیکھ کے ۔۔ اس کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچ رہا تھا ۔۔۔ انٹاسیا لب بھینچے اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔ اور پھر غائب ہوئی تھی ۔۔ آنسو کا قطرہ ۔۔ اس کی پلکوں سے ٹوٹ کے گرا تھا ۔۔
رات کے بارہ ہو رہے تھے ۔۔ ایلا بمشکل اپنا اسائمنٹ مکمل کر پائی تھی ۔۔
کہ اس کے ہاتھ میں بےحد جلن محسوس ہو رہی تھی ۔۔ اس کی ہتھیلی سرخ ہو چکی تھی ۔۔۔
وہ بار بار پھونکیں مار کے ۔۔ اس کی جلن کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ لیکن شدت بڑھتی جا رہی تھی ۔۔
” کیا مصیبت ہے ۔۔ مجھے ضرورت ہی کیا تھی اس کے پیچھے جانے کی ۔۔ ”
اس نے پھلائے منہ کے ساتھ خود کو کوسا تھا ۔۔۔
” افففف اس کی آئیز کلر ۔۔ کتنا اسٹرینج ہیں ۔۔ اور ایسے لگ رہا تھا جیسے ۔۔۔۔۔ جل رہی ہے ۔۔ ”
خود کے ساتھ بڑبڑاتی ۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
” کیا سچ میں وہ شخص یہی ہے جو میرے روم میں آتا اکثر ۔۔۔ ؟؟”
وہ پھر سے زیر لب بڑبڑائی تھی ۔۔
” مجھے اس احساس سے ڈر کیوں نہیں لگ رہا ؟؟ سکون سا کیوں ملتا ہے ؟؟ اس احساس کے ساتھ ۔۔ میں اتنی پرسکون ہوتی ہوں ۔۔۔ ڈیزنی لینڈ کی پرنسز سی لگتی ہوں میں ۔۔۔ ایسا کیوں ؟؟”
دل نے بےاختیار بیٹ مس کی تھی ۔۔
وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی ۔۔
” بہنام ۔۔۔ ”
بےخیالی میں اس کے لبوں سے وہ لفظ ادا ہوا تھا ۔۔۔ وہی مخصوص خوشبو اسے اپنے قریب محسوس ہوئی تھا ۔۔۔
جیسے سانسوں کا شور ہو اس کی پشت پہ ۔۔۔ وہ سانس ہی روک گئی تھی ۔۔۔
” بہنام ۔۔۔ ”
اسے اپنے بالوں میں کسی کا لمس محسوس ہوا تھا ۔۔
” مجھے تمہاری یہ زلفیں پاگل بنانے کے لئے کافی ہیں ۔۔ ایلا ”
مدھم بوجھل سرگوشی ہوئی تھی ۔۔ اور وہ مڑنے لگی تھی ۔۔ لیکن حصار تنگ ہوا تھا اس کے گرد ۔۔ اور وہ ہل بھی نہ سکی ۔۔
” اپنے ان خوبصورت لبوں سے ۔۔ جب میرا نام ادا کرتی ہو ایلا ۔۔۔ تو میں پاگل سا ہو جاتا ہوں ۔۔۔”
وہ پھر سے کہہ رہا تھا ۔۔ اور پہلی بار ایلا کو اپنی دھڑکنیں منتشر ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔ یہ الفاظ ۔۔ یہ لب و لہجہ ۔۔ یہ محبت ۔۔ یہ سرشاری ۔۔ یہ قربتیں ۔۔ اسے بھی اپنے حصار میں لیتی مدہوش کر رہی تھی ۔۔۔
” تمہاری خوشبو سے ۔۔ اپنی سانسوں کو مہکا کے ۔۔ میں دیوانہ سا بن جاتا ہوں ایلا ۔۔ ”
اپنے کان کی لو پہ ۔۔ وہ اس پرحدت لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ اور پھر اس کا رخ اپنی طرف موڑا تھا ۔۔۔
ایلا کی نظریں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ آج احساسات ہی بلکل مختلف تھے ۔۔ آج وہ خود اس احساس کو خود میں جذب کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔
بہنام محبت بھری نظروں سے ۔۔۔ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا تھا ۔۔ جس کی نازک سی جلد سرخ ہو رہی تھی ۔۔
اور اپنے لب رکھے تھے ان پہ ۔۔۔ اس لمس سے ایلا کا دل زور سے دھڑکا تھا ۔۔۔
” تم ڈیزنی لینڈ کی پرنسز نہیں ۔۔ بلکہ بہنام کے پورے سلطنت کی ملکہ ہو ۔۔۔ ایلا ”
اس سرگوشی پہ ۔۔ اس کا دل جیسے کانوں میں دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔ ہاتھ کی ہتھیلی پہ ٹھنڈک کا احساس بڑھ گیا تھا ۔۔۔
اس کے ہاتھ کی جلن کم ہوئی تھی ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں خوشگوار حیرت تھی ۔۔۔
” تم بہنام کی آتی جاتی سانسوں کی مہک ہو ۔۔۔
میری ملکہ ۔۔ میرے دل کی ملکہ ۔۔۔ میرے سلطنت کی ملکہ ۔۔ میرے محل کی ملکہ ہو تم ایلا ۔۔۔ ”
اور بےاختیار ایلا کا دل اسے دیکھنے کو چاہنے لگا ۔۔۔ بہنام بےحد محبت سے ۔۔ اس کی آنکھوں میں چمکتی نمی کو دیکھ رہا تھا ۔۔
” کون ہو تم ؟؟ اتنی محبت کیسے کر سکتے ہو مجھ سے ؟؟”
وہ کھوئی کھوئی سی پوچھ رہی تھی ۔۔ بہنام کو اپنی آنکھوں میں جلن کا احساس ہوا تھا ۔۔
اس نے اپنے لب ایلا کی پیشانی پہ رکھے تھے ۔۔ اس کے کندھے پہ پڑے ۔۔ اس کے براؤن سلکی بال سنوارے تھے ۔۔
” اپنی ایلا کا بہنام ۔۔۔ ”
اس کی بوجھل سرگوشی پہ ۔۔ ایلا کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگی تھی ۔۔ وہ جیسے پگھل رہی تھی ان الفاظ کی خوبصورتی سے ۔۔
” بہنام ۔۔۔ ”
اور اچانک اسے اپنے لبوں پہ ۔۔ لبوں کا پرحدت لمس محسوس ہوا تھا ۔۔
” جان بہنام ۔۔۔”
ایلا کے گال تک دہک اٹھے تھے اس لمس پہ ۔۔
” میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں بہنام ۔۔ ”
بہنام کے لبوں پہ ہلکی مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
” مجھے دیکھ کے ۔۔ اگر تم مجھ سے دور ہو گئی تو ؟؟”
اس کے کان کی لو پہ ۔۔ اپنے انگلی کی پور پھیر رہا تھا وہ ۔۔
” ن ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ مجھے تمہیں دیکھنا ہے ۔۔ ابھی ”
ایلا بضد تھی ۔۔ اس کے انگلی کی پور کا لمس ۔۔۔ اسے پگھلا رہا تھا ۔۔ یہ کیسا سحر تھا ۔۔ یہ کیسا ساحر تھا ۔۔ جو اسے مکمل اپنا اسیر کر رہا تھا ۔۔۔
جو اس کی سانسیں بوجھل کر رہا تھا ۔۔۔
” بہنام ۔۔۔۔ ”
یہ نام لیتے ہی ۔۔ اسے اپنے لب پہ انگوٹھے کے چھونے کا لمس محسوس ہوا تھا ۔۔
” جان بہنام ۔۔ ”
اور وہی بوجھل سرشار کردینے والی سرگوشی ۔۔
” مجھے تمہیں دیکھنا ہے ۔۔”
بوجھل سانسوں کے بیچ اس نے بمشکل کہا تھا ۔۔ کہ بہنام کی یہ قربت آج اسے بھی بےخود کر رہی تھی ۔۔ آج وہ بھی پاگل ہو رہی تھی ۔۔
” کیوں ؟؟”
مدھم سرگوشی اور ایلا کی بیتاب سانسیں ۔۔۔
” تم بےحد خوبصورت احساس ہو ۔۔ انوکھا احساس ۔۔ تمہارا احساس مجھے اسیر کر رہا ہے ۔۔ میں اسیر ہو رہی ہوں تمہاری بہنام ۔۔۔ مجھے احساس کو اب اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے ۔۔۔ ”
اس کے الفاظ بہنام کو سرشار کر رہے تھے ۔۔۔ تبھی وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔ اور پھر وہ ظاہر ہوا تھا ۔۔۔
وہ ایلا کے سامنے تھا ۔۔۔ جبکہ ایلا حیرت سے اسے اپنے مقابل دیکھ رہی تھی ۔۔۔
وہی آنکھیں ۔۔۔ وہی چہرہ ۔۔ وہی خوبصورت چہرے پہ ہلکی بیرڈ ۔۔۔ وہی بہنام ۔۔۔
” ت۔۔۔ تم تو ۔۔ ”
اور بہنام اس کی طرف جھکا تھا ۔۔
” تمہارا بہنام ۔۔۔ ”
ایلا پیچھے ہونا چاہ رہی تھی ۔۔ لیکن بہنام نے اسے روک لیا تھا ۔۔ اس کی کمر پہ ۔۔ اپنے بازو حائل کر کے ۔۔۔۔
تمہارا حسن قیامت سا ہے ۔۔
ہمارا عشق روز محشر سا ہے ۔۔
یہ خوشبوؤں میں مہکا تمہارا وجود ۔۔
یہ مستیوں میں بہکا ہمارا عشق ۔۔۔
اس کی گھمبیر آواز ایلا کو مدہوش کر رہی تھی ۔۔۔
وہ جو خود کو سمجھتے ہیں
کسی ڈیزنی لینڈ کی پرنسز ۔۔
وہ ہم سے پوچھے ۔۔
ہم اسے اپنے دل کی ملکہ بنا چکے ہیں ۔۔
وہ ہمارے سلطنت کی ملکہ ہے ۔۔۔
ایلا کو اپنے گال دہکتے محسوس ہوئے تھے ۔۔ اس کی قربت میں ۔۔ اور اس کی گھمبیر آواز میں ادا ہوئے ان الفاظ پہ ۔۔
بہنام نے اس کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیرا تھا ۔۔
اور پھولوں سے سجا خوبصورت تاج اس کے سر پہ آن ٹھہرا تھا ۔۔۔
وہ خوشگوار حیرت سے ۔۔۔ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
دھیرے سے ۔۔ اپنے ہاتھ کی پشت ۔۔ اس کے گردن پہ پھیری تھی ۔۔۔
جہاں ستارے سے جگمگانے لگے تھے ۔۔۔
” یہ ۔۔۔ ؟؟”
وہ حیران حیران سی خود کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” تمہارے قدموں میں ستارے بچھا دوں ۔۔۔ ملکہ ایلا ۔۔ ”
اور اس کے قدموں میں ستارے بچھا گئے تھے ۔۔
اس کی پشت بہنام کے سینے سے لگی تھی ۔۔اور وہ اس کے بازو کے گھیرے میں کھڑی ۔۔۔ ان ستاروں کو دیکھ رہی تھی ۔۔
اور بلکل اچانک ان ستاروں پہ ۔۔۔ وہ اڑتی بالکونی کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔
اس نے بےاختیار بہنام کے بازوؤں پہ اپنے دونوں بازو رکھے تھے ۔۔
” میں گر جاؤں گی ۔۔ ”
اس کی آواز کانپ رہی تھی ۔۔
” میں کھبی گرنے نہیں دوں گا ۔۔۔ ”
اس کے کندھے پہ ۔۔ اپنی ٹھوڑی ٹکا کے اس نے کہا تھا ۔۔
آسمانوں کی سیر کرتی ۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔
” تمہیں یونیورسٹی میں دیکھ کے ۔۔ مجھے یہی لگا تھا کہ یہ تم ہی ہونگیں ۔۔ ”
بہنام مسکرا دیا تھا ۔۔۔
” وہ دیکھو ۔۔۔ ”
اور اس کے اشارے پہ ۔۔ ایکس ستاروں کے جہان کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” یہ سب بےحد خوبصورت ہیں ۔۔ ”
وہ بےاختیار کہنے لگی ۔۔ آنکھیں جیسے ان روشنیوں سے چمکنے لگی تھی۔ ۔۔
” تم سے کم ۔۔ تم سب سے خوبصورت ہو ایلا ۔۔ بےحد خوبصورت ۔۔ بےشمار خوبصورت ۔۔ ”
بہنام اس پہ جیسے مر مٹ رہا تھا ۔۔ اور ایلا سرشار سی اس کے الفاظ میں گم تھی ۔۔
” اتنی محبت کیوں مجھ سے ۔۔ ؟؟”
ایلا نے اپنے ذہن میں آیا سوال پوچھ ہی لیا تھا ۔۔
جب بہنام نے اس کے کندھے پہ اپنے لب رکھے تھے ۔۔
” تم سے عشق کر بیٹھا ہوں ایلا ۔۔ کب ۔۔۔؟؟ کہاں ؟؟ کیوں ؟؟ کیسے ؟؟ ان سوالوں سے میں انجان ہی ہوں ۔۔ بس یہی حقیقت ہے کہ بہنام ایلا کے عشق میں جل رہا ہے ۔۔۔ ”
ایلا نے دھڑکتے دل کے ساتھ ۔۔ گردن موڑ کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔ کون ہے یہ شخص ؟؟ کیا ہے یہ شخص ؟؟ ایسا عشق ؟؟ ایسی محبت ؟؟
” کیا ہو تم بہنام ؟؟ کون سی دنیا سے ہو ؟؟”
وہ پھر سوال کر رہی تھی ۔۔
” میں آگ ہوں ۔۔ اور اپنی سلطنت کا بادشاہ ہوں ۔۔ تمہاری دنیا سے میری دنیا الگ ہے ۔۔ لیکن میری سلطنت کی ملکہ تم ہو ایلا ۔۔۔ کیا تم میری دنیا میں جانا چاہو گی ؟؟؟”
اس کی سوالیہ نظریں ایلا پہ تھی اور ایلا نے بےاختیار سر سے سر میں ہلایا تھا ۔۔۔
” ہمارا نکاح کب ہوا ؟؟ مجھے کیوں یاد نہیں ۔۔ ؟؟ ”
اس کے سوال پہ ۔۔ وہ دھیرے سے مسکرا دیا تھا ۔۔
” بہت سال پہلے ۔۔ تمہیں نہیں یاد ؟؟”
” نہیں ۔۔ ”
ایلا نے معصومیت سے ۔۔ اپنا سر نفی میں ہلایا تھا ۔۔ بہنام نے بےساختہ اس کے لبوں پہ کونے پہ ۔۔ اپنے لب رکھے تھے ۔۔
” پھر سے کر لیتے ہیں نکاح ۔۔۔ کیا تم کرو گی مجھ سے شادی ؟؟”
ایلا اس کے ہر انداز محبت پہ ۔۔ مہک سی رہی تھی ۔۔ دل کی دھڑکنیں بھی منتشر ہو رہی تھی ۔۔
تبھی مسکرا کے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔۔ اور اس کے سینے سے لگی ۔۔ وہ ستاروں کے جہان کو دیکھنے لگی ۔۔۔ جبکہ بہنام اس کی ہر ادا پہ ۔۔ مر رہا تھا جیسے ۔۔۔ !!!