ادب کی تفہیم کے ضمن میں ادبی تھیوری کا ذکر جس شد و مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے اُ سکی وجہ سے کچھ ایسے مغالطے بھی جنم لے رہے ہیں جن پر سوچنا ضروری ہے۔ادبی تھیوری کاباضابطہ آغاز ارسطو کی بوطیقا سے ہوتا ہے۔ارسطو اپنے عہد کے مروجہ سماجی اور سائنسی علوم و فنون کا منتہی تھا لیکن ادبی شعریات کی تھیوری مرتب کرتے وقت اُس نے صرف اعلا ادبی فن پاروں کی روشنی میں اپنے تنقیدی افکار و نظریات وضع کیے۔ بوطیقا ایک خالص ادبی دستاویز ہے جس میں ادب کے علاوہ کسی اور علم یا فن کا سہارا لینے کا رجحان نہیں ملتا بلکہ ادبی فن پاروں سے ایسے عمومی اُصولوں کا استخراج کیا گیا ہے جن کی مدد سے جہاں ایک طرف ادب فہمی کے نئے در وا ہوئے وہاں اِن اُصولوں کا اطلاق ادبی دنیا میں وسعت کا باعث بھی بنا ہے ۔ادبی تھیوری کی اسی روایت کو لانجائنس،فلپ سڈنی ، ڈرائیڈن ،شیلے،میتھیو آرنلڈ،ایلیٹ اور ہمارے ہاں الطاف حسین حالیؔ نے جاری رکھا۔ساٹھ کی دہائی میں اسی ادبی تھیوری کو فرانس، جرمنی،روس اور انگریزی ممالک کے چند جید حکما و فضلا نے لسانیات ،بشریات،عمرانیات ،مصوری اورکسی حد تک سائنسی علوم کے زیر ِسایہ پروان چڑھانے کا ڈول ڈالا۔اب ہوا یہ کہ مذکورہ علمی میدانوں میں جو نظریات مرتب شکل میں سامنے آ چکے تھے اُن سب کا اطلاق براہ ِ راست ادب پر بھی کر دیا گیا۔یہ بظاہر ایک بہت بڑا انقلاب نظر آتا ہے لیکن اس کے مضمرات پر ابھی تک ہماری ( زیادہ تر اُردو نقادوں کی)نظر نہیں پڑی۔
سماجی علوم( ادب کے علاوہ ) میں جو نظریات سامنے آئے اُس کی بدولت اِن علوم میں خاصی پیش رفت بھی ہوئی اور یہ بات نہیںبھولنی چاہیے کہ یہ تمام نظریات اپنے اپنے محدود ڈسپلن کے اندر رہ کر ہی کار آمد ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ یہ سب علمی کاوشیں اپنی مخصوص حدود ، نوعیت اور افادہ کی پیداوار ہیں۔ان نظریات سے حاصل شدہ علم خالص ادب کی سرحدوں سے ٹکراتا ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ادب کی تفہیم میں بھی ان کی اجارہ داری قبول کر لیں اور ان کے حدود نا آشنا اطلاقات اور مطالبات کو حتمی تسلیم کر لیں۔ادب کی راست تفہیم میں ان نظریات پر انحصار کرنا نہ صرف ادبی حدود سے تجاوز کرنا ہے بلکہ ادب فہمی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت اُردو ادب میں جدیدیت،مابعد جدیدیت،ساختیات، پس ساختیات، ردِ سا ختیات ، تانیثیت ، نوآبادیات ،مابعد نوآبادیات اور گئے تھیوری((gay theory کے گرما گرم موضوعات خا ص خاص تناظرات کے ساتھ چلتے چلے جا رہے ہیں۔اور تماشا یہ ہے کہ ادب کی ہر تخلیق کو اب انھی دستیاب اصطلا حات کے سانچوں میں فٹ کر کے تجزیہ و تحلیل کے مراحل طے کرائے جا رہے ہیں۔(ڈاکٹرعامر سہیل کے طویل مقالے کا ابتدائی حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...