(17اکتوبر:غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ اگر غربت مجھے انسان کی شکل میں نظر آئے تو میں اسے قتل کردوں۔”غربت“انسانی معاشرے کے آغاز سے ہی ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت میں سامنے آئی ہے اوراس تقاضے(چیلنج) سے نپٹے کے لیے عقل و،شعور،خرد،تجربہ،تاریخ،دانش،مشورہ اوروحی سب نے کوشش کی ہے،کون کس حد تک کامیاب رہاہے یہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔ایک زمانے تک غربت اور غلامی لازم و ملزوم تھے اور حق آزادی کے سلب ہوتے ہی مال و دولت اور وراثت و ثروت کے حقوق سے بھی انسانوں کو محروم کردیاجاتاتھا۔نسلوں تک صبح سے شام تک جانوروں کی طرح کام میں جتے رہنے والے نان شبینہ کے لیے بھی اپنے آقاکے سامنے دست سوال دراز کرتے تھے اوراگر مالک چاہتاتو کچھ نوالہ انکے منہ میں ڈال دیاجاتابصورت دیگر بھوکے پیٹوں رات کاٹنا اس پورے خاندان کا مقدر ہوتا۔دنیابھرکاکوئی قانون ان غلاموں کو بنیادی انسانی حقوق دینے تک کو تیار نہ تھاگویا دوسرے الفاظ میں انہیں انسان ہی تصور نہیں کیاجاتاتھا۔یہ ”انسان“ اپنی محنت کے معاوضے اور اپنے وارثوں کے ترکے تک سے محروم تھے اوریہ ایک تاریخی اور تلخ حقیقت ہے کہ جانوروں سے بھی بدتر حالت میں یہ انسان اس دنیامیں اپنا عرصہ حیات مکمل کرتے تھے۔
غربت کی ایک اور بڑی وجہ معاشی ناہمواریاں ہیں اور چونکہ دراصل غربت ایک معاشی المیہ ہے اس لیے معاشی عدم اصلاحات ہی اسکی سب سے بڑی وجہ ہے۔معاشرے میں ایک طرف بہت زیادہ پیسہ ہو،خوب مزے ہوں اور بے پناہ عیاشیاں ہوں جبکہ دوسری طرف انسانوں کی زندگی گندگی کے کیڑوں سے بھی بدترہو چکی ہو اور وسائل حیات سے محرومی انکا مقدر بنتی چلی جارہی ہو تو ایسی صورت میں غربت اپنی تمام قباحتوں کے ساتھ اس معاشرے کی گردن پرمسلط ہو جاتی ہے۔غربت کی ایک اوراہم وجہ معاشی نظام کے اندر سود کا درآنا تھا۔اس آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا کہ چاندی کے پایؤں والی سونے کی اینٹوں پر دھری چارپائی پر بیٹھے مہاجن کو ہاری کسان رو رو کر کہ رہاتھاکہ سود کے عوض میری اس بیٹی کو رکھ لو جب کہ اصل زر میں اگلی فصل پر لوٹا دوں گااورپھر تاریخ نے دیکھا کہ کئی اگلی نسلیں تو گزر گئیں لیکن وہ اگلی فصل کبھی نہ آئی جس پر اصل زر کی واپسی ہونا تھی اور غریب نسل درنسل اس سوددرسودکے بوجھ تلے دبتاچلاگیااور غربت اس دنیامیں خوب پھلتی پھولتی رہی۔سود سے دولت کا بہاؤ دولت مندوں کی طرف تیزی سے ہونے لگتا ہے اور غریب کی جمع پونجی بھی قرض کے معاوضے کے طور پر سود میں اٹھ جاتی ہے اور حالات یہاں تک آن پہنچتے ہیں کہ غریب کے ہاں نان جویں کے لیے بھی رقم میسر نہیں ہوتی اس طرح ایک نسل تو جیسے کیسے جل بھن کر اور غربت و غریب الدیاری میں گزارہ کر لیتی ہے لیکن اگلی نسل میں نظام کے خلاف نفرت ابھرنے لگتی ہے اورنوجوان ایک ہی معاشرے میں اتنا بڑا تفاوت دیکھ کر نفسیاتی پریشانی کا شکار رہنے لگتاہے کہ ایک طرف تو بنیادی ضروریات و طبی و طبعی حاجات کے لیے بھی وسائل عنقا ہوں تو دوسری طرف اللوں تللوں پر بے پناہ اڑائے جارہے ہوں اور امیر کے گھوڑوں اور کتو ں کو بھی وہ کچھ مل رہاہوں جس کے بارے میں غریب کے ہاں سوچابھی نہ جاسکتاہوتو پھر نفرت کے جذبات جرائم کو اپنے دل میں گھر کر لیتے ہیں اورجب جائز،حلال اور درست راستے بند ہو جائیں تو حصول دولت کے دوسرے دروازے یہ نسل اپنے لیے کھول لیتی ہے۔
غربت کی اگلی وجہ ہوس زرہے۔دن دگنی اور رات چگنی حصول دولت کی ہوس نے اور راتوں رات امیربننے کے چکر نے انسانوں کو انسانیت کے بنیادی معیار ات سے بھی ناآشنا کر دیا۔دولت، پیسہ،زروجواہر،جائداداور نقدمیں اضافے کی خواہش کبھی نہ ختم ہونے والی امنگ ہے۔انسان کے پاس سونے کی ایک وادی آ جائے تو وہ خواہش کرے کہ ایک اور آجائے اور ایک اور وادی بھی آجائے تو خواہش کرنے لگے کی ایک اور بھی آجائے،یہ حرس انسان کو قبر تک لے جاتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے فرمایاکہ ”مال کی کثرت نے انسان کوہلاک کرڈالایہاں تک کہ اس نے قبر دیکھ لی“(سورۃ تکاثر)۔یہ ہوس دولت جب بڑھنے لگتی ہے تو وہ تمام حدیں توڑ دیتی ہے جو مذہب،معاشرت اور انسانی اقدار نے قائم کی ہیں۔رام رام جپناپرایامال اپنا کے مصداق انسان کی نظر دوسرے کے مال پر اٹھنے لگتی ہیں وہ ہر قیمت پر دنیابھر کی دولت سمیٹنے اور نناوے سو کے چکر میں پڑ کر اپنی تجوری کا پیٹ بھرنے کے درپے ہو جاتا ہے،اس مقصد کے لیے اسے اپناایمان،دین،ملک،ملت،اقداراوراپنی روایات تک کے سودے کرنے پڑیں تو اس پر بھی تیار ہوتاہے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ معاشرے میں ایک دوڑ لگ جاتی ہے اور غریب کی مزدوری ادانہیں کی جاتی،حق دار کواسکے حق سے محروم کردیاجاتاہے،یتیم،مسکین،مسافر،مریض،بیوہ اورقیدیوں سمیت مفلوک الحال طبقے جو ہر معاشرے کا لازمی جزو ہوتے ہیں وہ اہل ثروت کی توجہ سے محروم ہو کر غربت کی دلدل میں مزید نیچے تک دھنستے چلے جاتے ہیں اور معاشرے کی خوشحالی کاخواب ان دولت وزر کے ہوس زدہ لوگوں کی بھینٹ چڑھ جاتاہے اورغربت،جہالت،فقراورغریب الدیاری کی جڑیں گہری سے مزیدگہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔
غربت جیسے جیسے پھیلتی چلی جاتی ہے مایوسیاں اور ذہنی دباؤ انسانوں کے ذہنوں میں گھرکرتے چلے جاتے ہیں۔تاریک مستقبل کااندھوناک غار ان غربت کے مارے انسانوں کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کر دیتاہے۔تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایک غریب آدمی یہ سوچنے پر مجبورہو جاتا ہے کہ کل کی بجائے آج ہی مرجائے لیکن اپنی آنے والی نسل کے لیے اچھے دن چھوڑ کر جائے،یہ فکر اسے غلط ہاتھوں کے حوالے کر دیتی ہے اور پھر یہ غلط ہاتھ اس سے کس کس طرح کے کام لیتے ہیں؟؟اس سوال کے جواب سے آج کل کے اخبارات کی شہ سرخیاں اور سمعی و بصری ابلاغ عامہ کی چینختی پکارتی آوازیں اور تصویریں بھری پڑی ہیں۔غریب آدمی اور اسکے بچے جب خود تو ایک ایک لقمہ روٹی کو ترسیں گے تو اس طرف کیوں نہیں دیکھیں گے جہاں اسی دنیامیں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی ہوں گی؟؟کیاان کے ذہن میں سوال پیدانہیں ہوگا کہ محنت ہم کرتے ہیں اور منافع سرمایادار لے جاتاہے؟؟کیاوہ یہ سوچنے پر مجبورنہیں ہوں گے کہ کھیت میں ہل ہم چلاتے ہیں اور فصل کی ساری کمائی جاگیردارلے جاتاہے؟؟اور ان کی فکر میں کیا یہ بات نہیں آتی ہوگی کہ صبح سے شام تک خون پسینہ ہم ایک کرتے ہیں اور مالی مفاد کی تمام اکائیاں آجر کے لیے ہی مخصوص ہیں؟؟ان سوالات کے جواب پھر استحصالی طبقے کو اس وقت ملتے ہیں جب سرراہ انہیں لوٹ لیاجاتاہے،ان کے گھروں میں داخل ہوکر ان کی خواتین سے زیور اتروالیے جاتے ہیں اور انکے بچے اغواکرکے توان سے بھاری تاوان وصول کیے جاتے ہیں۔غربت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان جرائم میں اس قدر اضافہ ہوتاچلاجاتاہے کہ پھر ریاست کی قوت بھی ماندپڑنے لگتی ہے اور حقیقت تو یہ ہے ریاست کا عملہ بھی جب اس استحصالی طبقے کے ہاتھوں مارکھاکھاکر تھک جاتاہے تو پھر ایساخلاپیداہوتاہے کہ انقلابات ہی اسکو پر کرسکتے ہیں۔
غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اسباب کا قلع قمع کیاجائے۔انفرادی غلامی کے خاتمے کا مژدہ اگرچہ ببانگ دہل سنادیاگیالیکن اسکی بہت بڑی قیمت اس سسکتی انسانیت سے وصول کی گئی اور اجتماعی غلامی کوغربت کی بنیادبنا کر اس دنیاپر مسلط کردیاگیا،فرد کی گردن سے طوق غلامی اتارکر قوموں کی گردنوں میں ڈال دیاگیااور فرد کی غربت اور بے بسی کوقوموں میں منتقل کردیاگیا۔پہلے غربت کے مارے غلاموں کی منڈی لگاکرتی تھی اورزیادہ قیمت لگانے والے کو غلام فروخت کیے جاتے تھے اب قوموں کی فروخت کے لیے بولی لگتی ہے اور سب سے کم بولی لگانے والے غداران ملت کو قوموں کی باگ دوڑ سونپ دی جاتی ہے اورگزشتہ صدی کا نصف آخر گواہ ہے کہ اس مصنوعی قیادت نے عالمی مالیاتی ساہوکاروں کے مقاصد پورے کرتے ہوئے پوری دنیاپر غربت،جہالت اورننگ و عارسے بھری ہوئی مایوسیوں کومسلط کیاہے۔سود اور کسادبازری سے آلودہ معاشی نظام کو پوری دنیاکا مقدر بنادیاگیاہے،مغربی طرزجمہوریت اور آلودگی،چائلڈلیبر،حقوق نسواں،خاندانی منصوبہ بندی،امن عالم،مذہبی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کے مقدس و محترم نعروں کے پیچھے چھپے ہوئے مکروہ،بدبودار،غلیظ اورننگ انسانیت ارادوں نے کل انسانیت کومعاشی اوراخلاقی غربت کے گھمبیربادلوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں دھکیل رکھاہے۔
اس دنیامیں اور کل انسانیت کو غربت سے نکالنے کاایک ہی راستہ ہے کہ عدل کی بنیادپر دولت کی تقسیم کی جائے،صدقات کا بہت بڑانظام دیانتداری کی بنیادوں پر قائم کیاجائے،سودکوجڑ سے اکھیڑ پھینکاجائے اور سود کی بنیادپر قائم ہونے والی معیشیت کے لیے اس دنیامیں کوئی جگہ باقی نہ رہے،سود خور کو اجتماعی نفرتوں کا نشانہ بنایاجائے اورہر وہ فرد جس کے پاس ضرورت سے زائد مال ہو ایک نظام کے تحت اس سے ایک خاص حصہ ایک مخصوص مدت کے بعد وصول کرلیاجائے۔یہ سب کچھ ممکن ہے لیکن ایک ہی صورت میں کہ جب محسن انسانیت ﷺکا آخری خطبہ اس انسانیت کامنشورقرارپائے اور قرآن عظیم کالایاہوانظام معیشیت اس دنیامیں جاری و ساری ہو جائے اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دنیاکے ایوان ہائے اقتدارپر صالح،دینداراور انسان دوست لوگ قابض ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...