عورت کے ناقص العقل و ناقص الدین ہونے کا موضوع حساس تو ہے مگر اسے غیرضروری طور پر متنازعہ بھی باور کیا/کرایا جاتا ہے۔
حالانکہ دین بہت آسان ہے اور جو اسے سچے دل سے سمجھنا چاہے اس کے لیے تو آسان تر ہے۔
یہ پوسٹ صرف سنجیدہ قارئین کے لیے ہے، غیرضروری مکالمہ یا مباحثہ کھڑا کرنے والوں سے بصد احترام معذرت! آج صبح ہی ایک جگہ کسی سے مکالمہ ہوا تو وہی متن یہاں پیش ہے، حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ اس موضوع پر کوئی 12، 13 سال قبل کئی چھوٹے بڑے مضامین راقم تحریر کر چکا ہے۔
***
عورت کے ناقص عقل و دین ہونے کا ٹھوس حوالہ مستند احادیث میں درج ہے۔ متذکرہ حدیث صحیح بخاری میں 5 مقامات پر بیان ہوئی ہے ، اور صحیح مسلم میں تین مختلف اسناد سے بیان ہوئی ہے۔ صحيح بخاري ، كتاب الحیض ، باب : ترك الحائض الصوم ، حدیث : 305 اور صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب بيان نقصان الايمان بنقص الطاعات۔ دیگر دس کتب حدیث کے حوالوں میں ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، سنن دارمی، سنن بیھقی کبری، ابن حبان، مستدرک الحاکم، مجمع الزوائد شامل ہیں۔
متذکرہ حدیث کا ایک مستند اردو ترجمہ حضرت داؤد راز علیہ الرحمۃ کا یہ رہا ہے۔۔۔
_____
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا :
اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔
عورتوں نے عرض کیا : ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ ؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟
انہوں نے کہا : جی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا :
کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟
عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
_____
مشہور ویب سائٹ الاسلام سوال و جواب پر ایک شکایت کچھ یوں کی گئی تھی:
“”بعض لوگ كہتے ہيں كہ عورتيں ناقص العقل اور ناقص دين ہيں، اور وراثت و گواہى ميں بھى نقص ہے، اور بعض كا كہنا ہے: اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے درميان اجروثواب ميں برابرى كى ہے، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے، آيا عورتيں شريعت اسلام كى رو سے ناقص ہيں يا نہيں ؟””
اس سوال کے جواب کا لنک پہلے کمنٹ میں ہے۔
دوسری شکایت کچھ یوں کی جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد اماں عائشہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیتی تھیں۔۔۔ تو پھر عقل اور دین میں عورت کمزور یا ناقص کیسے ہو سکتی ہے؟
بھئی ان حقائق کو ماننے میں بھلا کسے تامل ہو سکتا ہے؟ ہم تو اپنے عقیدہ کے ناتے اتنا تک کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جتنا خواتین کا ادب و احترام کیا ہے اتنا آج تک دنیا کے کسی مرد نے نہیں کیا، صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم!
یہ روایت تو سبھی جانتے ہیں کہ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنی دخترِ عزیز بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھتے تو ان کا استقبال کرتے اور کھڑے ہو کر ان کو بوسہ دیتے پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
اور پیارے نبی نے جہاد پر جانے والے ایک صحابی سے یہ تک کہا تھا کہ: اپنی ماں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ (سنن نسائی اور ابن ماجہ کی اس روایت کو محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔)
ان سب کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو عقل اور دین میں ناقص قرار دیا ہے تو یہ بات بھی ٹھنڈے دل سے قبول کرنی چاہیے۔ خواہ مخواہ اس کی بےجا و بےتکی تاویلات کرکے انکارِ حدیث یا استخفافِ حدیث کی راہیں ہموار نہیں کرنا چاہیے۔
دراصل اس حدیث میں عورت کی توہین/تذلیل یا کمتری/خاکساری کا اظہار نہیں ہے بلکہ عورت کی ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ۔۔۔
حافظ صلاح الدین یوسف ، اپنی تفسیر “احسن البیان” میں، مرد و عورت کی گواہی والی آیت یعنی سورہ بقرہ کی آیت:282 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
“یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت ، عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے)۔
اس میں عورت کے استخفاف اور فروتنی کا اظہار نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔ اب اگر کوئی اپنی ہی ضد میں اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔”
اور اسی حقیقت کو امہات التفاسیر میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، یعنی: تفسیر ابن کثیر، تفسیر جلالین، تفسیر فتح القدیر، تفسیر بیضاوی اور تفسیر درمنثور۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...