آج چاند گھر پہنچا تو اس کا دماغ الجھا ہوا تھا،وہ جاتے ہی اپنے کمرے میں بند ہو گیا،اسے سب کی سامنے اپنی سُبکی کا بھی غم تھا اور تھپڑ کا بھی،مگر شاید وہ اس تھپڑکو بھی بھلا دیتا ۔مگر جو الزام اس کی ماں پر دلاور نے لگائے تھے انہوں نے اسے ساری رات چین سے سونے نہیں دیا تھا،حاجی صاحب نے نورین کی پریشانی کا خیال کرتے ہوئے فیکٹری میں ہونے والے اس واقعے کا تذکرہ مناسب نہ سمجھا،چاند عجب کشمکش کا شکار تھا،کیا دلاور سچ بول رہا تھا،وہ گزرے ماہ وسال پر غور کرنے لگا۔ہر طرف حاجی صاحب کا ہی عکس تھا،وہی آتے تھے،سامان بھجواتے تھے،گھر کا خرچ اٹھاتے۔سکول کی فیسیں، اور جس گھر میں وہ لوگ رہ رہے تھے وہ بھی تو حاجی صاحب کا ہی دیا ہوا تھا،جو لباس اس نے پہنا ہوا تھا وہ بھی انہی کا دیا ہوا تھا،اور یہ بائیک بھی ،وہ سوچتا رہا اورالجھتا رہا،تو کیا اس کا مطلب ہے کہ میری ماں۔۔۔۔۔ وہ اس سے زیادہ کچھ نہ سوچ سکا،اگلی صبح وہ خاموشی سے ناشتہ کئے بنا فیکٹری چلا گیامگر گیٹ پر پہنچ کر وہ اندر جانے کی ہمت نہ کر پایا۔آج لوگ اس پر ہنسیں گے،سرگوشیاں کریں گے۔وہ کافی دیر تک کھڑا رہا اور پھر موٹر بائیک بھگاتا گھر کی طرف چل دیا،اسے دور سے ہی حاجی صاحب کی گاڑی اپنے گھر سے باہر کھڑی نظر آگئی تھی،حاجی صاحب نے خادم حسین کی جگہ ڈرائيور بدل لیا تھا،خادم حسین کو غم نوکری جانے کا نہیں اپنا اعتماد ضائع ہو جانے کا تھا،وہ چارپائی پر ڈھے گیا تھا،چاند اب زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتا،فیکٹری تو وہ دوبارہ گیا ہی نہیں تھا،خطرات محسوس کرتے ہوئے حاجی صاحب نے نورین کو کہا کہ وہ چاند کو سمجھائے،کہ آوارہ گردی کے بجائے کام پر آئے یا دوبارہ پڑھائی شروع کرے،نورین بھی چاند کے روئے سے پریشان تھی مگر اسے یہ خبر نہیں تھی کہ چاند کے اندر کونسا لاوہ ابل رہا ہے،وہ اس کے کمرے میں گئی وہ بیڈ پر پڑا چھت کو گھورے جا رہا تھانورین اس کے سرہانے بیٹھ گئی تو اس نے چونک کر ماں کو دیکھا،نورین اس سے کہنے لگی کہ وہ فیکٹری جایا کرئے اور کام میں دل لگائے،وہ ماں کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا پھر ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا اگر میں کام کرنے لگوں اور کما کر پیسے گھر لے آوں گھر کا سب خرچ اٹھاوں تو کیا آپ حاجی صاحب کو گھر آنے سے منع کر سکتی ہیں۔کیا پھر آپ ان سے کوئی چیزنہیں لیں گی،وہ ماں کے ہاتھ تھام کر لجاجت سے کہہ رہا تھا،نورین کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑگئیں تھیں،یہ آج چاند کیا کہہ رہا تھا،کیا اس کابیٹا اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھنے لگا ہے ۔نورین سے وہاں رکنا مشکل ہو گیا تھا،وہ اٹھ کر تیزی سے باہر آگئی تھی،اس کی سانس تیز تیز چلنے لگی تھی۔
چاند نے کسی یوٹیلٹی سٹور پر نوکری کر لی تھی،جس دن اسے پہلی تنخواہ ملی اس نے وہ نو ہزار ماں کے ہاتھ پر لا رکھے اور کہنے لگا کہ میں اوور ٹائم بھی لگایا کروں گا،گھر کا تمام خرچے کا بوجھ اٹھاوں گا اب آپ حاجی صاحب سے کچھ نہ لینا،نورین ان پیسوں کو ہاتھ میں پکڑے سکتے کی حالت میں بیٹھی رہ گئی تھی۔ چاند حاجی صاحب ہمارے محسن ہیں ان کے ہم پر بے پناہ احسانات ہیں،جب تمھارے ابو کا انتقال ہوا تم جانتے یو صرف یہی ایک شخص ہمارے ساتھ کھڑا تھا،نورین دلائل سے بیٹے کو سمجھا رہی تھی۔مگر جہاں بات محبت اور غیرت کی ہو وہاں سب دلائل ہار جاتے ہیں،نورین حاجی صاحب کو چاہ کر بھی اب اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتی تھی،اور چاند یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں تھا،اب نورین حاجی صاحب کو صرف اسی وقت بلاتی جب چاند ڈیوٹی پر ہوتا پھر بھی گھر آکر چاند اس کھوج میں لگا رہتا کہ کہیں اس کی غیر موجودگی میں حاجی صاحب تو نہیں آئے تھے۔اسے اب اپنی دونوں بہنوں کی فکر رہنے لگی تھی،اگر وہ بھی ماں کے نقشِ قدم پر چلنے لگیں تو کیا ہوگا،وہ گھبرا اٹھتا،اب وہ چھپ کر سیگریٹ بھی پینے لگا تھا۔اندر کا ابال وہ دھوئیں میں نکالنا چاہتا۔حاجی صاحب بھی دن بدن بدلتی صورتحال سے دلگرفتہ تھے۔چاند ان سے متنفر ہو چکا تھا،ایک دو بار سامنا ہونے پر وہ ان کے پاس سے سینہ اکڑا کر اجنبیوں کی طرح گزر گیا تھا۔لیکن اس مسلئے کا کوئی حل نہیں تھا،گھر میں پھیلا تناو بڑھتا جا رہا تھا،چاند روز گھر میں آکر شور مچانے لگا تھا،کبھی ماں کو کہتا کہ یہ شہر چھوڑ چلتے ہیں کبھی کہتا میں خودکشی کر لوں گا،نورین بہت روتی اور سوچتی کہ اس نے کوئی گناہ تو نہیں کیا۔وہ حاجی صاحب کی منکوحہ ہے،ویسے بھی اگر ماں بُری بھی ہو لیکن اولاد اسے برا کہے یا برا سمجھے اس کا سینہ پھٹ جاتا ہے،حاجی صاحب نے چاند کا دبئی کا ویزہ لگوا دیا تھا،نورین کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ اس ماحول سے نکل جائے گا تو سُدھر جائے گا،مگر تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا۔جب ویزے کے بارے میں نورین نے چاند کو بتایا وہ بپھر کر آگ بگولا ہو گیا۔اور گالی گلوچ پر اتر آیا کہ آپ مجھے دور دیس بھجوا کر گلچھڑے اُڑانا چاہتی ہیں اس بڈھے کے ساتھ،نورین کے بھی صبر کی انتہا ہو چکی تھی،وہ بھی جوابا چیخنے لگی تھی،گند تمھارے ذہن میں بھرا ہوا،اور یہ جن لوگوں نے بھرا ہے میں خوب جانتی ہوں،کوئی داشتہ نہیں ہوں میں حاجی صاحب کی،بیوی ہوں،نکاح کیا ہے،نورین چلا رہی تھی اور چاند کا خون کھولنے لگا تھا،۔میرے باپ کی جگہ حاجی صاحب کو دے دی چاند اٹھا اور باورچی خانے سے چھری اٹھا کر نورین کی طرف بڑھا اور اس کے کئی وار نورین کے پیٹ میں اتار دیئے۔بچیاں سکول تھیں،شور کی آواز سن کر محلے والے آئے تو چاند چھری پکڑے کھڑاتھا،اور نورین خون میں لت بت پڑی تھی۔چاند گرفتار ہو چکا تھا۔ساری کہانی میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکی تھی،لیکن حاجی صاحب کو اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ان کی زندگی کا سب سے بڑانقصان نورین کی جدائی کی صورت ہو چکا تھا،محبت کے خسارے سے بڑا خسارہ کیاہو سکتا ہے،لوگ عزت نیلام کر کے محبت خرید لیتے ہیں،حاجی صاحب نے قبر پر کتبے میں اپنا نام نورین کے ساتھ لکھوایا اور زوجہ بھی حاجی افضل ہی لکھا تھا،نورین کی دونوں بیٹیاں اب حاجی صاحب کے پاس تھیں،جیتے جی تو وہ نورین کو اس کا اصل مقام نہ دے سکے مگر مرنے کے بعد اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے بچیوں کو گھر لے گئے اورزیب النسا کو بتایا کہ یہ ان کی ہی بچیاں ہیں،انہیں دل سے قبول کرو اور ان کی اپنے بچوں جیسی تربیت کرو،حاجی صاحب اب بھی صبح سویرے پھولوں کے ساتھ نورین کی قبر پر جاتے ہیں اس سے ڈھیروں باتیں کرتے ہیں،پھولوں کے تحفے مرقد پر سجاتے ہیں،اور تھکے قدموں سے لوٹ آتے ہیں،
اے فنا شکر ہے آج بعد فنااس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے میری قبر پہ چادرِ گل چڑھائی مزا آگیا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...