گلوبلائزیشن سے مراد عالمی تجارت اور مالیاتی بہاوٗ کو بھی لیا جاتا ہے اور اس کا سیاسی، کلچرل اور نظریاتی پہلو بھی ہے۔ اس کی ڈیفی نیشن کا انحصار اس ماہر پر ہے جو اس کی سٹڈی کر رہا ہے۔ ہم اس کو وسیع تناظر میں لیں گے جس میں اکنامک، سوشل اور ٹیکنالوجی کے پہلو آتے ہیں جو دنیا کو ایک دوسرے سے منسلک بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر منحصر بھی۔ اور یہ مستقبل پر اثرانداز ہونے والی ایک اور بہت اہم فورس ہے۔
تھامس فرائیڈمین اپنی کتاب “World is flat” میں چپٹا ہونے کو تجارت اور کامرس کے لئے دنیا کا ایک ہموار میدان بن جانے کے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جس میں زمین سے کسی کو بھی کہیں بھی سستی مزدوری اور سستے خام مال تک رسائی ہو جبکہ منافع اور ایفی شنسی کو زیادہ کیا جا سکے۔ اور ہم اپنی زندگی میں اس کا روز مشاہدہ کرتے ہیں۔
دبئی میں فرانس کے سٹور کارفور میں چین کی بنی ہوئی نظر کی عینک جو برطانوی برانڈ کی تھی خریدتے وقت جب بنگلہ دیشی کیشئیر کو کریڈٹ کارڈ دیا تو پاکستانی بینک کے جاری کردہ کارڈ کی پراسسنگ امریکہ کی کمپنی نے انڈیا میں کی۔ میری ایک ہزار روپے کی یہ خریداری اس ہموار میدان کے باعث ممکن ہوئی تھی۔
یا پھر آئیکیا کا سٹور جو 1958 میں سویڈن کے چھوٹے شہر آلمہلٹ میں قلم اور بیج کے پیکٹ بیچتا تھا۔ وہ اب 37 ممالک میں پھیلا ہوا بزنس ہے۔ اس کی سالانہ آمدن، چالیس ارب یورو، دنیا کے کئی ممالک کی آمدن سے زیادہ ہے۔ سیارے پر پھیلی ہوئی یہ اکنامک فورس سویڈش کلچر بھی نئے علاقوں میں لے کر جا رہی ہے جس میں سویڈش کوفتے اور سکنڈینیوین فرنیچر کا ڈیزائن سعودی عرب سے چین اور امریکہ تک پھیل رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلوبلائزیشن معیشتوں کو ختم بھی کرتی ہے۔ امریکہ میں گاڑیوں کی صنعت اور برطانیہ میں مینوفیکچرنگ کے بند ہو جانے والے یونٹ اس کی مثالیں ہیں۔ اور دنیا میں اس کا پھیلاوٗ یکساں نہیں۔ جہاں پر سنگاپور یا کینیڈا جیسے ممالک دنیا کے ساتھ تیزی سے منسلک ہو رہے ہیں، وہاں پر شمالی کوریا اور میانمار جیسے تنہا ملک اس کا حصہ نہیں۔
طویل مدت میں دیکھا جائے تو یہ لگتا ہے کہ دنیا اس نئے معاشی دور کے آغاز میں ہے۔ اور یہ زیادہ سے زیادہ مربوط ہوتا جائے گا۔ اور اس سے بننے والے انسانی اتحاد کے اہم مضمرات ہوں گے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ممکنہ حریف اور ممکنہ دوست اکٹھے ہی ہوں گے۔ نئی منڈیاں، نئی تجارت اور نئی رفاقتیں بنیں گے اور بہت کچھ ختم بھی ہو جائے گا۔
ایک گاڑی یا ایک فون بننے میں اب پچاس ممالک سے آنے والا خام مال، اجزا، اسمبلی اور مارکٹنگ مشینری کام کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا آغاز جولائی 1944 میں ماونٹ واشنگٹن ریزورٹ میں ہونے والی بڑی کانفرنس سے ہوا تھا، جس میں چوالیس ملکوں کے سات سو سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی تھی۔
دوسری جنگِ عظیم ختم ہو رہی تھی۔ دنیا کی حکومتوں کی توجہ اب معیشت کی بحالی اور تعمیرِ نو پر تھی۔ دنیا دو تباہ کن جنگوں اور عالمی ڈیپریشن سے گزری تھی۔ “خودکفالت” کی تباہ کن پالیسی نے عالمی معیشت کا گلا گھونٹ دیا تھا اور بہت سے لوگوں کو شدید غربت میں دھکیل دیا تھا۔ درآمدات پر بھاری ٹیکس لگانے کی دوڑ اور کرنسیوں کی زبردست ڈی ویلیویشن ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکاء کے سامنے جو مسئلہ تھا، وہ یہ کہ کرنسیوں کو استحکام دینے کا کیا طریقہ ہو، جنگ سے تباہ ہونے والے ممالک کو قرضے کیسے دئے جائیں اور عالمی تجارت کا پہیہ دوبارہ کیسے چلایا جائے۔
اس کانفرنس کا نتیجہ جس معاہدے کی شکل میں نکلا وہ بریٹن ووڈز ایگریمنٹ تھا۔ اس نے انٹرنیشنل کرنسیوں کو سونے کے ساتھ منسلک کر دیا (جو اگلی تین دہائیوں تک رہا) جبکہ تین عالمی ادارے وجود میں آئے۔ آئی ایم ایف جس کا کام مانیٹری سسٹم لانا تھا۔ عالمی بینک برائے تعمیرِ نو اور ڈویلپمنٹ (آج اسے ورلڈ بینک کہا جاتا ہے) جس کا کام قرضے دینا تھا اور تجارت اور ٹیرف کے لئے GATT جو آج ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ہے۔
ان تین اداروں نے جنگ کے بعد ہونے والی تعمیرِ نو میں اور پھر بعد میں ترقی پذیر ممالک میں صنعتکاری کے لئے سرمایہ دیا۔ آج یہ تینوں طاقتور ادارے عالمی معیشت کے قواعد طے کرتے ہیں۔
بریٹن ووڈز معاہدے ستر کی دہائی کے شروع میں ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ کنٹرولڈ کیپٹلزم کا دور بھی۔ اس کے بعد ڈی ریگولیشن اور ٹیرف کی تخفیف کا دور شروع ہوا۔ عالمی تجارت اور سرمایے کے بہاوٗ کے کنٹرول کم ہوئے۔ اس نئی تحریک کے چیمپئن رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر تھے۔
اور اس کو بڑے پیمانے پر ممالک میں اپنایا جانے لگا۔ عالمی مربوط معیشت کے اس میگاٹرینڈ کی جڑیں ساٹھ سال پہلے سے شروع ہوئیں اور اب یہ ایک گہری اور طاقتور عالمی طاقت ہے جو اکیسویں صدی کو شکل دے رہی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...