سقراط ایتھنز کے ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا۔ وہ خود بھی ایک پیشہ ور سنگ تراش کے طور پر عملی زندگی میں آیا۔ مگر سنگ تراش خاندان کا یہ چشم و چراغ یونان کا ایک عظیم فلاسفر اور مفکر کہلایا۔ وہ پانچویں صدی قبلِ مسیح میں ایتھنز میں پیدا ہوا۔ وہ شکل و شباہت کے لحاظ سے بدصورت تھا مگر عقل و دانش اور فہم و فراست میں عدیم النظیر تھا۔
سقراط کا ایک اپنا مکتبہ فکر (School of thought) تھا جس کا وہ خود قائد اور بانی تھا۔ اس کے بے شمار شاگرد تھے، جن میں امیرو غریب سبھی شامل تھے۔ سیاسی افکار اور فلسفہ پر بحث و مباحثہ اس مکتبہ فکر کا معمول تھا۔ سقراط ایک بہترین مقرر اور خطیب تھا۔ وہ ایتھنز کے نوجوان طبقے کا محبوب ترین استاد اور رہبر تھا۔ وہ اپنی زندگی کے ماضی، حال اور مستقبل سے قطعی بے اعتناء تھا اور صرف اپنے فرض میں منہمک اخلاقیات، سیاسیات اور نیکی و سچائی پر مبنی خطبات دیتا تھا۔ اس کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دعوتوں میں سیر ہوکر کھانا کھاتا تھا اور کئی دن بھوکا رہ کر گزارہ کرلیتا تھا مگر اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتا تھا۔ وہ اعتدال میں رہ کر شراب نوشی بھی کرلیتا تھا۔ اس کے شاگرد اس پر جان چھڑکتے تھے۔ وہ ایک بہت بڑا عالم، مفکر، دانشور اور فلسفی تھا مگر اسے اپنی فراست اور علمیت پر گھمنڈ نہیں تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ؛
“وہ تو ایک بات جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔”
سقراط نظریاتی لحاظ سے روایات (Traditions) کا دلدادہ تھا مگر اس معاملے میں غیر لچکدار (rigid) نہیں تھا اور ترقی پسندی سے اس کو قطعی چڑ نہیں تھی۔ وہ مذہب کو صرف اس صورت میں قبول کرنے پر آمادہ تھا جب عقلِ سلیم اس کو قبول کرے۔ وہ عقلیت (rationality) کا قائل تھا۔ وہ اگرچہ سو فسطائیوں کا پیروکار مانا جاتا ہے مگر سو فسطائیوں کی تخریبی سرگرمیوں کے مقابلے میں اس نے تعمیری و مثبت سوچ، اخلاق اور سیاست کے چراغ روشن کیے۔ سقراط سوفسطائیوں سے جدا نظریات کا حامل تھا۔ مثال کے طور پر سوفسطائیوں کا قول تھا کہ؛
“فرد حقیقت اور سچائی کی کسوٹی ہے۔”
لیکن اس کے برعکس سقراط کہتا ہے کہ؛
“حقیقت کو صرف وہی لوگ پہچان سکتے ہیں جو عالم فاضل ہوں کیونکہ حقیقت کو صرف علم کے ذریعے سے پہچانا جا سکتا ہے۔”
سقراط کے نظریات یونان کے جاگیردار حکمرانوں کے لیے ناپسندیدہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سقراطی افکار نوجوانوں کے کردار اور اخلاق کو تباہ کررہے ہیں اور ان کے اقتدار کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یونان میں سیاست کے حوالے سے سو فسطائیوں کے دور سے تحریروں اور تقریروں کا آغاز ہوچکا تھا اور ایتھنز سوفسطائی خیالات کا زور تھا۔ سقراط کا جرم یہ تھاکہ اس نے اس تحریک میں نئی روح پھونک دی اور اس نے عام لوگوں کو یہ صلاحیت دی کہ وہ حق و صداقت کے متلاشی بن سکیں۔ یونانی طویل عرصہ سے جاگیرداروں کے بنائے ہوئے اصولوں کے پابند تھے مگر سقراط کی راہ الگ تھی۔ اس نے عوام میں فکری انقلاب برپا کرڈالا تھا۔ اور اب عوام جبرو استبداد کے خلاف اٹھنے اور حق و صداقت کو ڈھونڈنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ چنانچہ حکمرانوں نے اس الزام میں سقراط کو حراست میں لے لیا اور عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا۔ سقراط نے عدالت میں اپنی صفائی میں کچھ باتیں کہیں مگر حکمران اس کو معافی دینے کے لیے قطعاً تیار نہ تھے۔ چنانچہ سقراط کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے شاگردوں نے اسے جیل سے فرار کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا مگر سقراط نے بھاگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ:
“اگرچہ میں سچا ہوں لیکن میں اپنی مملکت کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔”
سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا مگر حق و صداقت کی خاطر جان قربان کرنے کی ایک لازوال مثال قائم کرگیا۔ اس کی موت کے متعلق افلاطون نے کہا تھاکہ:
“سچ ہے کہ یونان کی سرزمین سقراط جیسا مفکر آج تک پیدا نہیں کرسکی اور یہ بھی سچ ہے کہ آج یونان سب سے زیادہ دانشور اور زیرک انسان سے محروم ہوگیا۔”
سقراط کے نزدیک وہ سچا تھا اور اس پر من گھڑت الزامات عاید کیے گئے تھے۔ اور بلاشبہ وہ آزادی فکر کا پہلا شہید تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...