(Last Updated On: )
بارے اتنی بات کہنے سے قاضی کا غصہ دھیما ہوا، نائی کو چھوڑ دیا اور ناین کو جھڑک دیا اور ان سے کہا: حضرت اب آپ نے جو جو دیکھا سنا ہو، فرمائیے۔ گروجی نے کہا: شعر ؎
چُکے انصاف حسن و عشق کا تب جس گھڑی پیارے
اکیلے بیٹھ کے ہم تم کریں گفتار آپس میں
لیکن بات اتنی ہے، نہ میرے گھر آپ سے چور آیا، نہ جانوروں نے لومڑی کو بیر سے مارا، کیا بسنی خونی تھا کہ نائکہ کو بِس (زہر) دیا یا نائی کا سر پھرا تھا کہ جورو کی ناک کاٹے۔ یہ اپنا کیا آپ بھگتتی ہیں اور ناحق اوروں کو لیے مرتی ہیں۔ اپنا عیب سب جانتی ہیں پر اپنے ساتھ دوسرے کو بھی سانتی ہیں۔ قاضی نے کہا، میں توبھٹکا ہی تھا پر اس وقت تم خضر ملے اور تم ہی نے نائی کی ناک رکھ لی، پر اب بتاؤ تو سہی اس بگاڑ کا سِرا کیا ہے؟ نائکہ کیسے مری اور ناین کی ناک کیوں کر کٹی؟ گرو نے جو جو ہوا تھا اور اپنی آنکھوں دیکھا تھا، نئے سر سے ایک ایک بات دوہرائی اور کہا کہ نہ مجھے حیلہ کرنے کی سادھ (مزہ) ہوتی، نہ میں چور کا چھل (فریب) کھاتا کہ اس نے بالکا بن کر گھر کا بھید لیا اور پھر بُتّا بتا کر ساری عمر کی کمائی لے کر چلتا رہا۔ شعر ؎
خراب مجھ کو کیا دل کی حرص نے ورنہ
فقیر تکیہ سے کا ہے کو یوں اٹھا کرتا
اور لومڑی نے ذرا سی جیب (زبان) کے مزے کے لیے اپنی جان کا لالچ نہ کیا، دیودنت لوہو لہان وہ لڑتے جانوروں کا لوہو ٹپکا دیکھ کر چمچیچر ہو گئی، جان رہے کہ جائے، آخر کو ایک ہی دھکے میں اس کی ہڈی پسلی چُرمُر ہو گئی۔ اس کا حال دیکھ کر کچھ کچھ چیت (ہوش) ہوا کہ لالچ بری بلا ہے۔ شعر ؎
تو رشتۂ عمر اپنی سے، مانے جو میری بات
مت حرص ہوا باندھ کہ بودا ہے یہ تاگا
اور نائکہ نے تو اپنے بھلے کو بسنی کا برا چاہا تھا، پر خدا کا تو اور چاہا تھا۔ ایک تو سوتا مُوا برابر، دوسرے متوالا اور ٹھیکا ٹھیک آدھی رات تھی کہ وہ کٹنی زہر ہلاہل ایک چھوچھی (نلی) میں بھر کر جَم کی طرح اس کی چھاتی پر آن بیٹھی اورایک سِرا چھوچھی کا اپنے منہ میں پکڑا اور دوسرا سِرا اس کے نتھنے سے جوڑ کر، چاہتی تھی کہ ایک ہی پھونک میں بچارے کو سوتے کا سوتا ہی رکھے، پر مارنے والے سے جِلانے والا بڑا ہے۔ اس کے دماغ میں دھانس جاتے ہی اس زور سے ایک چھینک آئی کہ سارا اس چھوچھی کا زہر الٹا اس ہی کے حلق سے اتر گیا، آپ ہی آپ اس جگہ مر کر رہ گئی اور گھر کا گھر پڑا سوتا رہا۔ کوئی پانی چُوانے کو بھی نہ پہنچا۔ وہ اپنے نصیبوں سے بچ رہا، نہیں نائکہ مار ہی چکی تھی۔ شعر ؎
تھی کوتہی اجل کی طرف سے ہی، ورنہ وہ
اک عمر سے اسیر تھا زلف دراز کا
اور ناین کی تو ناک ہی پر خیر گذری، نہیں جیسے موچی اپنی جورو کو مار دھاڑ، کھنب سے باندھ آپ سورہا تھا اور ناین یار کا سندیسا (پیام) اس کی جورو کے پاس لائی تھی اور اس کو یار پاس بھیج کرآپ کھنب سے بندھ رہی تھی اور وہ جا کر وہیں بِرَم رہی اور یہاں موچی جاگا اور اس نے جورو کو پکارا اور یہ نہ بولی۔ ایک چپ رہنے پر تو اگلے نے ناک پر رانپی پھیری تھی، کہیں اس وقت ناین کو پہچانتا توکیسے رخنے ڈھیلے کرتا، تسمے کھینچ ڈالتا اور اندر ہی اندر قالبوت ٹھونک دیتا اور بہت خراب کرتا۔ بگاڑ تو سب اپنا ہے، چور کو دوس(الزام )دیجیے کہ ناحق جانوروں کا سراپ (بددعا) لیجیے نہ بسنی گنہگار ہے، نہ نائی تقصیر وار۔ مصر؏:
برائی کر کے کسی نے بھلائی پائی ہے
جو جو بوؤ گے سو سو اپجے گا۔ مصر؏
پائے امرت پھل کہاں سے جو کوئی بووے ارنڈ
یہ قصہ سن کر قاضی نے دانتوں انگلی کاٹی اور سننے والوں کو عبرت ہوئی۔ اس وقت گرو کا وہاں آنا کیمیا ہوا۔ یہ مثل اس واسطے کہی کہ ہر بات میں تامّل کرنا ضرور ہے۔
الحمد للہ کہ یہ قصّہ مطبوعہ گرو اور چیلے کا مستنبط کتاب فوائد انتساب کلیلہ و دمنہ سے، بیچ تاریخ بارھویں، شہر ربیع الآخر ۱۲۶۱ ہجری کی حسن سعی کارپردازانِ مطبع مصطفائی، محمد مصطفی خان ولد حاجی محمد روشن خان مرحوم سے محلہ محمودنگر واقع زیر اکبری دروازہ، من محلات بیت السلطنت لکھنؤ میں محلی بحلیہ طبع ہوا۔
قطعۂ تاریخ ریختۂ قلم، جادو رقم سید ناصر علی نصیر ؎
ہو گیا مطبوع اردو میں یہ قصہ لاجواب
کیا نصیر اس کے خیالِ سال کا لکھوں بیاں
ایک کے لب کو نہ دیکھا چپ، یہ بولے مجھ سے سب
لکھ گرو چیلے کا قصہ راحت افزائے جہاں
۱۲۶۱ھ