پاکستان میں تقریباً 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی کو ترستی ہے۔ ایسے میں سادہ اور آسان طریقوں سے پانی کو پینے کے قابل بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ریت کے بنے فلٹر جن سے پانی کو صاف کیا جائے ایک سستا اور سادہ حل ہیں۔
ریت کے فلٹر کے دراصل چند بنیادی جُز ہوتے ہیں۔ اس فلٹر میں سب سے نیچے پتھر یا کنکریاں رکھی جاتی ہیں۔ جنکے اوپر بجری اور پھر سب سے اوپر ریت۔ اوپر سے جب پانی ریت پر ڈالا جاتا ہے تو پانی ریت میں سے چھن کر نیچے بجری تک جاتا ہے۔
کچھ عرصہ فلٹر کو استعمال کرنے سے اسکے اوپر ایک بائیو لئیر یا تہہ بن جاتی ہے جس میں مختلف قسم کے بیکٹیریا، فنگس اور الجی وغیرہ بن جاتے ہیں۔ گھبرائیے نہیں یہ دراصل اس فلٹر میں سب سے اہم ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ پانی میں موجود مُضر بیکٹریا اور جراثیموں کو ختم کر دیتے ہیں۔ پانی اس تہہ سے نکلنے کے بعد ریت سے گزرتا ہے جہاں پانی میں موجود چھوٹے چھوٹے ذرات چھن جاتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ پانی میں ہیوی ایلیمنٹس یا عناصر جیسے کہ آئرن وغیرہ بھی ریت میں رہ جاتے ہیں۔ بجری بڑے ذرات کو چھان لیتی ہے۔ یوں صاف پانی جو پینے کے قابل ہو بجری سے ہوتا پائپ میں جاتا ہے اور اسے پیا جا سکتا ہے۔
اس فلٹر سے لیبارٹری میں تقریباً 99 فیصد جراثیم اور بیکٹریا ختم ہوتے پائے گئے ہیں جبکہ فیلڈ میں اسکے نتائج 85 فیصد سے اوپر ہیں۔ مختلف ترقی پذیر ممالک میں ان فلٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لندن میں بھی پانی کی صفائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے فلٹر کا ڈیزاین 1980 میں کینیڈا کی کیلگری یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ مانز نے تجویز کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت 2 لاکھ سے زائد ایسے فلٹر استعمال میں ہیں۔ ان فلٹرز کے استعمال سے کئی بیماریاں جیسے کہ ہیضہ وغیرہ سے بچا جا سکتا ہے۔
ایک بات کا البتہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ فلٹر پر موجود بائیو لئیر کچھ عرصے بعد موٹی ہوتی جاتی ہے جسے صاف کرنا یا کم کرنا ضروری ہے۔۔ورنہ پانی کا بہاؤ کم سے کم ہوتا جائے گا اور فلٹریشن کا عمل سست۔ اس کے لئے کم سے کم ہر مہینے اسکے اوپر سے رہت کو کھرچ کر تھوڑی سی نئی ریت ڈالنا ضروری ہے۔
اس طرح کا فلٹر آپ اپنے گاؤں یا گھر میں بھی بنا سکتے ہیں۔فلٹر کی تصویر پوسٹ کے نیچے ہے۔
ایک زبان کے ادب کا دوسری زبان میں ترجمہ: مسائل اور چیلنجز
ادب کا ترجمہ ایک فن ہے جو محض الفاظ کا ترجمہ کرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ثقافت،...