“اے ابنِ آدم”
ایک میری چاہت ہے ،ایک تیری چاہت ہے ،
تو ہوگا وہی جو میری چاہت ہے،
پس اگر تو نے سپرد کردیا اپنے آپ کو اسکے جو میری چاہت ہے ،
تو میں وہ بھی تمہیں دونگا جو تیری چاہت ہے ،
اگر تو نے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے ،
تو میں تمہیں تھکا دونگا اس میں جو تیری چاہت ہے ،
پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔۔۔
ایک فقیر سڑک کے کنارے بیٹھا یہ صدا لگا رہا تھا جب اس کی گاڑی یونیورسٹی جانے کے راستے میں خراب ہو گئی تھی۔۔ “اُف یہ گرمی، میری سکن خراب ہو جائے گی، ڈرائیور پلیز جلدی سے چھتری لاؤ۔۔” وہ سکن کُرتے اور جینز میں غصے سے لال ہو رہی تھی۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں آج اسکی MBA کی پہلی کلاس تھی۔ وہ لاہور کے ایک مشہور بزنس مین کی بیٹی تھی۔
*****************
“گڈ مارننگ کلاس!” سر عظیم کلاس میں اینٹر ہوتے ہیں۔
“مے آئی کم اِن سر؟”
روحان اور جدوہ دونوں کلاس میں آتے ہیں جب سر عظیم انٹروڈکشن لے رہے ہوتے ہیں۔
“یس پلیز کم اِن!”
وہ دونوں ایک دوسرے کے کزن ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے نکاح میں بھی تھے۔
جدوہ بہت ہی سادہ سی لڑکی تھی۔ سانولی رنگت لیکن دیکھنے والوں کو بہت اچھی لگتی تھی۔ لائٹ پنک کلر کی شلوار قمیض میں اور بڑے مہذب انداز میں سر پر دوپٹہ جمائے بہت ڈیسنٹ لگ رہی تھی۔
روحان بہت ہی خوبصورت تھا۔ لمبا قد، چوڑا سینہ، گوری رنگت۔۔ کالج کے ٹائم سے ہر لڑکی اس پر مرتی تھی۔
“یار یہ لڑکا کتنا پیارا ہے، یہ کالی لڑکی اس کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟ اس کے ساتھ تو میرے جیسی لڑکی کو ہونا چاہیے۔” علیشا ادینہ سے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے منہ بگاڑ کر کہتی ہے۔ “یار علیشا پلیز!! ایک تو پہلے ہی گاڑی راستے میں خراب ہونے کی وجہ سے میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور اب تم!!! ”
“او کے سٹوڈنٹس، اب آپ یونیورسٹی کا اوور ویو لے سکتے ہیں۔ وی وِل میٹ اِن نیکسٹ کلاس۔” سر عظیم انٹروڈکٹری کلاس لے کر باہر چلے جاتے ہیں۔
“یار پلیز تنگ نہ کرو اب!” جدوہ چِڑ کر روحان کو منع کر رہی ہوتی ہے جو اسے کسی بات کی وجہ سے بار بار چھیڑ کر ہنس رہا ہوتا ہے۔ اس وقت وہ دونوں کینٹین میں بیٹھ کر سینڈوچ کھا رہے ہوتے ہیں۔
“ویسے یہ بہن جی اس کی کیا لگتی ہوگی۔” علیشا اور ادینہ سامنے والی ٹیبل پر بیٹھ کے انہی کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
*******************
“جدوہ بیٹا کہاں ہو؟” وہ اپنے روم میں بیٹھی اپنا کوئی ٹیسٹ یاد کر رہی ہوتی ہے جب اسکی امی اسے ڈھونڈتے ہوئے اسکے روم اتی ہیں
“جی امی!”
“بیٹا یہ ڈبہ کل روحان کے لیے لے جانا، اس نے مجھسے بریانی کی فرمائش کی تھی۔”
“امی آپ بھی نا! میری کوئی بھی فرمائش آپ ایسے پوری نہیں کرتیں۔ اس ڈائناسور پر آپکو بہت پیار آتا ہے۔” وہ مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے۔ “جی جی آپکی تو کوئی فرمائش میں پوری نہیں کرتی نا۔ اور اسے اس طرح مت کہا کرو، اب وہ تمہارا شوہر ہے۔” وہ اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے مسکرا کر کہتی ہیں۔
“تو کیا ہوا امی؟ اگر ڈائناسور شوہر بن جائے تو کیا وہ بدل جائے گا، وہ تو ڈائناسور ہی رہے گا نا” وہ امی سے ڈبہ لیتے ہوئے کہتی ہے۔
“چلو اب اس ڈائناسور کو یہ بریانی دے دینا۔” وہ کمرے سے باہر جاتے ہوئے اسے تاکید کرتی ہیں۔
******************
“یہ لو جناب! آپکی ساس صاحبہ نے آپکی فرمائش بھیجی ہے۔” روحان لائبریری میں بیٹھا کچھ بُکس پڑھ رہا ہوتا ہے جب وہ اس ڈھونڈتے ہوئے وہاں آتی ہے۔ ان کے مِڈ ٹرم سٹارٹ ہونے والے ہوتے ہیں۔
“ارے واہ! یار میری خالہ گریٹ ہیں۔ ان کے ہاتھ چومنے کا دل کرتا ہے۔” وہ بریانی کھاتے ہوئے اپنی خالی کی تعریف کرتا ہے۔ اسے انکے ہاتھوں کی بنی ہوئی بریانی بچپن سے بہت پسند تھی۔ اس لیے انہوں نے اسکے لیے خصوصاً بریانی بھیجی تھی۔
“روحان صاحب! آپکو سر عظیم اپنے آفس میں بلا رہے ہیں۔ ” پیئن آکر اسے اطلاع دیتا ہے۔
“اچھا میں آتا ہوں۔ بل بتوری میری بریانی نہ کھا جانا۔” وہ جاتے ہوئے اسے چھیڑتا ہے۔ جدوہ کھا جانے والی نظروں سے اسکی طرف دیکھتی ہے۔
“اچھا امی میں اسے ساتھ لے آؤں گا۔” وہ امی سے ہدایات وصول کرتے ہوئے فون بند کرتا ہے۔
“اوہ سوری!” وہ فون بند کرتے ہوئے مُڑتا ہے جب ادینہ اس سے ٹکرا جاتی ہے۔
“تھینکس!” وہ گِر ہی جاتی اگر وہ اسے پکڑ نہ لیتا۔
“ایکسکیوز می! مجھے سر عظیم کے آفس جانا ہے۔” وہ اس سے راستہ مانگتے ہوئے کہتا ہے۔
“جی سر!”
“آؤ روحان! وہ میں نے تم سے کہنا تھا کہ ادینہ کو تو تم جانتے ہی ہوگے۔”
“جی سر! میری ہی کلاس کی سٹوڈنٹ ہے۔”
“اس کے فادر کی کال آئی تھی، وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔”
“مجھ سے؟؟؟ لیکن کیوں سر ؟” وہ حیرت سے ان کی جانب دیکھتا ہے۔
“یہ مجھے نہیں پتہ لیکن انہوں نے کل تمہیں اپنے گھر بُلایا ہے۔”
**************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...