مس ثناء کا پیریڈ لاسٹ ہوتا تھا اس لئے سمیرا کے واپس آنے سے پہلے چھٹی ہو گئی اور سب کو مجبورًا گھر جانا پڑا۔
اگلے دن موٹی سمیرا کلاس میں واپس آئی تو سب نے بے چین ہو کہ پوچھا بولو کیا ہوا کچھ بھی نہیں ڈاکٹر آیا چیک کیا اور مجھے آرام کرنے کا کہہ کر چلتا بنا بسسس موٹی سمیرا نے خوشی سے کہا۔
اچھا مطلب مس ثناء کو تم پر شک نہیں ہوا؟؟؟ معاویہ صباء اور عمارہ نے حیرانی سے پوچھا ۔
بلکل بھی نہیں سمیرا نے دانت دکھا کر کہا۔
پر مجھے تو دال میں کچھ بلیک بلیک لگ رہا ہے صباء نے سمجھداری دکھائی ۔
نہیں تو موٹی نے خوشی سے کہا ۔یار قسم سے مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔
کچھ بلیک کیوں ساری دال ہی بلیک ہے نہ اور اب تم سب منہ میں کرنے والی ہوں ریڈ ریڈ
شرارتی ٹولے کے پیچھے کھڑی مس ثناء کی آواز نے ان سب کی ایسی جان نکالی کہ بس سب وہیں دم سادھے بیٹھ گئیں ۔
ہاں تو یہ سارا ڈرامہ تم سب نے ٹیسٹ سے بچنے کے لئے کیا تھا نہ تم لوگوں کو کیا لگا کہ میں کبھی ٹیسٹ لینا بھول سکتی ہوں کبھی بھی نہیں اُلّو کی نانیو
مجھے شک تو تب ہی ہوگیا تھا جب سمیرا صاحبہ پکڑ کر پیٹ بیٹھیں تھیں اور بول ہائی بلڈ پریشر کا رہیں تھیں۔
بیٹا جی اک عمر گزاری ہے تجربہ بھی کسی چیز کا نام ہے ۔ تم جیسی چیونٹیوں کی باتوں میں آنے لگی تو کرلی ہم نے استادی۔
کل جب اس نے ہائی بلڈ پریشر کا شور مچایا تو میں سٹاف روم میں جا کر اپنے فیملی ڈاکٹر کو بلایا جو کہ اتفاقاً سمیرا کا بھی فیملی ڈاکٹر ہے انہوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ سمیرا کی امّی بچپن سے اس کو ان کے کلینک ہی لے کر جاتی ہیں اور اسے کبھی ہائی بی پی کا مسئلہ نہیں ہوا اور اب بھی بلکل نارمل ہے۔
کیونکہ سمیرا جی واپس گھر جا چکی تھیں اس لئے میں آج تک آپ سب کا بے صبری سے انتظار کیا اب شرافت سے سب اٹھو اور کلاس کے باہر نکلو اور کان پکڑ کہ پورے گراؤنڈ کا چکر لگاؤ شاباش اٹھو اٹھو مس ثناء نے شدید غصے میں کہا
ساتھ ہی وہ چاروں ڈر کے باہر کو بھاگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدثر نے کال کر کے عبید کو کوئی اہم بات بتائی تھی کیس کے حوالے سے اور جلد از جلد میر شاہ ویز سے مل کر اسے بتانے کا بولا تھا کیونکہ اس سے فون پر رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا ۔ عبید پہلے اس فلیٹ پر پہنچاجس پر وقتی طور پر شاہ ویز نے رہائش کی تھی
جب وہاں تالا لگا ملا تو سیدھا گرلز کالج پہنچ گیا جہاں شاہ ویز کی ڈیوٹی تھی ۔
وہاں پہنچ کر وہ اِدھر اُدھر مِیر شاہ ویز خان کو ڈھونڈنے لگا یوں ہی گردن گھماتے گھماتے اس کی نظر سامنے کان پکڑ کے گراؤنڈ کا چکر لگاتی لڑکیوں پر پڑی تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا قہقہہ بلند ہوا۔ جس پر سب سے پہلے معاویہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو کسی کو اپنی طرف دیکھ کر ہنستا ہوا پا کے اس کا ڈوب مرنے کو دل کیا کہاں کلاس میں وہ پھنے خان بنی گھومتی تھی اور کہاں پورے کالج کے سامنے کان پکڑے کھڑی تھی خاص طور پر اک لڑکے کے سامنے۔
باقیوں کو تو شاید بےعزتی محسوس ہی نہیں ہوئی پر معاویہ کا مارے شرم کے برا حال تھا اوپر سے آتی جاتی لڑکیاں بھی ہنس رہی تھیں ان پر ۔
معاویہ سے برداشت نہیں ہوا اور اس کی آنکھ میں کب آنسو آکر اس کی گال بھگو گیا اسے بھی پتہ نہیں چلا اور سامنے کھڑے عبید کو وہ آنسو دِکھ گیا اور کچھ شرمندہ ہوتا وہاں سے آگے کی جانب بڑھ گیا۔
اور مس ثناء کا پیریڈ ختم ہونے کے بعد پہلی بار معاویہ روتی ہوئی گھر گئی جسے پودوں کے پیچھے کھڑے عبید نے بڑے غور سے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درختوں کی اوٹ میں کرسی پر بیٹھا مِیر شاہ ویز خان لیپ ٹاپ پر بیٹھا اپنا ضروری کام کر رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے اسے بھاؤ کیا تو وہ مڑ کر ہنسنے لگا او بھائی کب سدھرے گا تیری حرکتیں بچوں جیسی ہی رہیں گی کیا ہمیشہ؟؟؟ شاہ ویز نے مسکرا کر کہا
ہاں جی بلکل عبید نے بھی جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی ۔
او ہیرو سَنگائی تاَسو(کیسے ہو آپ) عبید نے پوچھا۔
زو خیامہ(میں ٹھیک ہوں) تم سناؤ لالہ کیسے ہو اور خیر سے آنا ہوا مِیر شاہ ویز خان نے پیاری سی مسکان کے ساتھ کہا۔
میں بھی فٹ فاٹ اور ہاں ان لوگوں کے بارے میں کچھ معلومات ملیں ہیں جو کالج کی لڑکیوں کو غلط راستوں پر لگاتے ہیں یہ لوگ مختلف طریقوں سے ہماری قوم کی بیٹیوں کو خراب کر کے ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
جیسے کسی کو نشے کا عادی بنا کہ کسی کو پیار محبت کے چکر میں پھنسا کہ اور کسی غریب لڑکی کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کہ نوکری کا جھانسہ دے کر گرلز کالج جتنے بھی ہیں شہر میں ان سب میں آہستہ یہ لوگ اپنی جرائم پیشہ لڑکیوں کو پھیلا رہے سٹوڈنٹ کے طور پر خاص طور پر ان تین کا لجز میں جن میں سر نے ہماری ڈیوٹی لگائی ہے عبید کے بتانے پر مِیر شاہ ویز کی غصے سے مٹھیاں بِینچ گئیں
ان درندوں کی اتنی ہمت کے میرے ملک کی بچیوں کا روشن مستقبل تاریک کریں ان کو تو ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ یاد کریں گے مِیر شاہ ویز نے شدید غصے میں کہا کیوں کہ اسے اپنے وطن سے بہت محبت تھی اور اس کا دل کرتا تھا تھا کہ اپنے وطن سے ساری گندگی جرائم سب ختم کر کے اسے ایسے لوگوں سے پاک کردے جو اس کے ملک کی خوبصورتی اور عظمت کو نقصان پہنچانے کی ہمت بھی کرتے ہیں ۔
فکر نہ کر لالہ اب ہم آ گئے ہیں نہ اک بھی لڑکی کو نقصان نہیں پہنچا پائیں گے یہ لوگ انشا اللّہ عبید نے مسکرا کر کہا اور آگے کا لائحہ عمل طے کرکے لوٹ گیا ۔
واپس جاتے ہوئے گیٹ میں اک بار پھر اسے وہ روتی ہوئی لڑکی دِکھی تو وہ اس کے دل کو جانے کیوں کچھ ہوا تھا اور اپنے یوں ہنسنے پر اسے دکھ سا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حد ہو گئی کوئی کالج کے سٹوڈنٹس کو بھی کان پکڑاتا ہے بھلا
مس ثناء ہٹلر کی امّاں لگتی ہیں مجھے کتنی بے عزتی ہوئی اور معاویہ تو رو ہی پڑی تھی ہاں معاویہ سے یاد آیا آج معاویہ نہیں آئی لگتا کل والی بات دل پے لے لی اس نے خیر کوئی بات نہیں ہماری شہزادی جلد ہی نارمل ہو جائے گی عمارہ نے کہا۔
باتوں باتوں میں دور سے آتی ان کو مہر ماہ دکھی جس کا انہوں نے ریکارڈ لگانا شروع کر دیا ۔
اوووووو بیٹری کدھر چلی تو کدھر چلی جانے کہاں تو کدھر چلی ارےےے پھسل گئی ی ی ی سمیرا موٹی نے اتنا کہا ساتھ ہی سچ میں مہر ماہ پھسل گئی اور ارد گرد دیکھنے والی سب لڑکیاں اس پر ہنسنے لگیں تو معصوم سی مہر ماہ آنسو پیتی کپڑے جھاڑ کر کلاس روم میں چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص صاحب اور حرا بیٹی کی آمد پر بہت خوش تھے اور اللّہ نے ان کو بیٹی بھی ایسی دی تھی جیسے موم کی گڑیا ہو اک اک نقش گڑھا ہوا تھا وہ تو جیسے بنی بنائی باربی تھی۔
اور دوسری طرف مونا اور وقار کی کی بیٹی عمارہ جسے وقار صاحب عمو کہتے تھے پیار سے بچی ہونے کی وجہ سے کیوٹ لگتی تھی پر شکل و صورت درمیانی سی تھی گندمی رنگت چھوٹی چھوٹی آنکھیں جو کی مونا پر ہی گئیں تھیں ۔
مونا کو ہر وقت یہ بات بھی جلاتی تھی کہ جیٹھانی کی بیٹی زیادہ پیاری کیوں ہے عجیب جل ککڑی سی عورت تھیں مونا ۔۔
دونوں بچیاں جب 8 ماہ کی ہوئیں اور بیٹھنے لگیں تو وقاص صاحب نے نوٹ کیا ان کی لاڈلی مہر ماہ جس کا نام انہوں پیار سے دلبر رکھا تھا زمین پر چلتی چیونٹی کو بھی بہت نیچے ہو کے غور سے دیکھ رہی ہے انہیں پہلے اپنا وہم لگا پھر جیسے جیسے وقت گزرنے لگا اور مہر ماہ بڑی ہونے لگی تب اس کے ماں باپ کو پتہ چلا کہ اس کی بینائی نہ ہونے کے برابر ہے تب انہوں نے پہلی بار ڈاکٹر مِیر چنگیز خان کو چیک کروایا تو انہوں نے بتایا کہ حمل کے دوران ان کی بیگم اچھی خوراک نہیں لے پائیں اس لئے ان کی بچی میں یہ کمی ہے چشمے کے ساتھ گزارا ہوتا رہے گا اور بڑے ہونے کے بعد کافی مہنگا آپریشن ہی اس کی بینائی بہتر کر سکتا ہے پھر بھی میں %100 نہیں کہتا میں کہ وہ مکمل ٹھیک ہو جائے گی پر میں کچھ ڈراپس دیتا رہوں گا اور لگاتار چشمے کے استعمال سے وہ نارمل لائف گزار سکتی ہے پر چشمے کے بنا اسے ایسے دکھے گا جیسے ہر چیز دھندلی ہو کچھ ٹھیک سے دیکھنا اس کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔
غریب وقاص صاحب اور کر بھی کیا سکتے تھے ٹوٹے دل کے ساتھ بیٹی کو چشمہ لگوا کے اور چند ڈزاپس لے کے گھر آگئے کیوں کہ مہنگے علاج کے ان کے پاس پیسے ہی کہاں تھے
مہر ماہ کا بچپن سے لیکر جوان ہونے تک ڈاکٹر میر چنگیز خان سے تھوڑا بہت علاج چلتا رہا جس کی مدد سے نہ صرف وہ اپنی پڑھائی پوری کر رہی تھی بلکہ ہمیشہ اوّل رہ کر ماں باپ کا سر فخر سے بلند بھی کرتی تھی ۔
اور یہی بات مونا کو اتنا جلاتی تھی کہ وہ ہمیشہ بہانے بہانے سے مہر ماہ کو اس کی کمی کا احساس دلا کر احساسِ کمتری کا شکار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں تھیں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...