ہے ارتفاق یا اقران یا اخوان الزماں
کہ جس میں حاضر و موجود بھی ہیں زنگ آلود
رواں دواں کو بھی دیکھیں تو ایسے لگتا ہے
کہ منقضی ہے، فراموش کردہ، ما معنیٰ
اگر یہی ہے ، “رواں”، “حالیہ” اے ہمعصرو
جو پرسوں نرسوں بھی تھا، کل بھی تھا اور آج بھی ہے
تو بطن ِ فردا بھی لا ولد ہی رہے گا یہاں
نہ کوئی عاقبت، عقبےٰ، نہ آخرت ہو گی
نہ ہم کریں گے کبھی آنے والے کل کی بات
یہ “آج” ، گذرے ہو ئے”کل” کا نیم جاں خاکہ
یونہی چلے گا تزلزل میں ڈگمگاتا ہوا
یقیں تو تھا کہ نئی روح پھونکنے کے لیے
تمہارے جیسا کوئی آئے گا یہاں ، آنند
مگر قلم کے مسافر، نڈھال ،ضیق النفس
تھکن سے چور، کسل، ماندہ ، پاؤں ٹوٹے ہوئے
چلیں گے کیسے کسی تابناک فردا تک؟
کہیں بھی رستے میں تھک ٹوٹ کر ، لجیلے سے
کسی شجر کی گھنی چھاؤں میں پڑے ہوں گے
میں جانتا ہوں کہ ہے کشمکش جگر کاوی
ہمارے پاس تو اب اٹھنے کی طاقت بھی نہیں
یہ” آج” گذر ے ہوئے کل کا ہے اگر خاکہ
تو کل” جو اگلا ہے،فی الحال ہو گا “آج” کا روپ!