پرانے زمانے میں سائنسی آلات نہیں ہوا کرتے تھے تو لوگ کسی چیز کو محض دیکھ کر، سُن کر، سونگھ کر، یا محسوس کر کے اُسکے ہونے کا ثبوت سمجھتے تھے۔ یا پھر کسی دوسرے شخص کا انہی حواسِ خمسہ کی گواہی پر اکتفا کر کے۔ مگر آج ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ان حواس کی ایک حد ہے اور اگر ہمیں ماضی، حال یا مستقبل کے بارے میں جاننا ہے تو ہمیں عقل کے استعمال سے بنائے گئے سائنسی آلات اور سائنسی طریقوں کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ کوئی صاحب اگر یہ کہیں کہ ہمارے اردگرد موجود ریڈیو یا برقناطیسی لہریں سرے سے ہیں ہی نہیں جن سے ہمارا انٹرنیٹ یا کمیونکیشن ممکن ہے، کیونکہ اسکو تو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور وہ اسے تب ہی مانے گا جب وہ اپنی آنکھوں سے ریڈیو کی لہروں کو دیکھے گا تو اس پر کیا منطقی جواب دیا جائے؟ یہی کہ بھائی انکو استعمال کر رہے ہو۔ ایک سائنسی رسیور سے انہیں ڈیٹکٹ بھی کر سکتے ہو تو اور کیا ثبوت چاہئے۔ کیا یہ لہریں خود انسان بن کر آپ سے سلام دعا کریں تو تب ہی مانو گے؟
بالکل ایسے ہی ہم ماضی کے بارے میں سائنسی طریقوں سے شواہد اکٹھے کرتے ہیں۔ ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک کرائم سین کی طرح چیزوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملاتے ہیں اور ایک مکمل حقیقت تک پہنچتے ہیں۔
خلا میں بھی ہم نئی دنیاؤں کو سائنسی آلات سے ڈھونڈتے ہیں۔ کیا جیمز ویب میں کوئی انسانی آنکھ فٹ ہے یا آپریٹر بندہ بیٹھا ہے جو خلا میں یہ سب دیکھ رہا ہے؟ نہیں بلکہ وہاں انسانوں کی عقل سے بنائے گئے حساس آلات ہیں جو کائنات کے راز ہم پر کھول رہے ہیں۔
لہذا وہ حضرات یا منچلے جنہیں سائنسی طریقوں سے حاصل کردہ ثبوتوں پر شک ہیں وہ خود جا کر خلاؤں میں یا ماضی میں دیدے پھاڑ کر سب دیکھ لیں۔ ہو سکتا ہے اس طرح اُنکی تسلی ہو۔ کیونکہ ویسے تو یہ سمجھنے والے نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...