امریکا کا شہر تھا کوئی
شریمد بھگوت گیتا پڑھتے
لفظوں پر میں ٹھہر گیا تھا
یا، لفظوں نے روک لیا تھا
نظروں کو
آگے پڑھنے سے—!
اندر سے کوئی کہتا تھا
دھیان کرو!
’’دھیان اگر کرنا ہے اس کا
پیروں سے آغاز کرو
دھیان کرو!‘‘
دھیان تو کرتا لیکن
دھیان کی خاطر
پیر کہاں سے لاتا—!
پیر کہاں تھے—؟
میرے اندر، میرے باہر
پیر کہاں تھے—؟
میرے چاروں اور بہت کچھ تھا
یا، سب کچھ
کاٹھ کباڑ سا پھیلا تھا—!
دھرتی اور آکاش تھے
دنیا ہی میں دنیائیں تھیں
دھواں، دھواں تھا
اور دھویں میں
مادّے کے ذرّات کا پھٹنا
ٹوٹنا، بٹنا اور سمٹنا
جاری تھا—
پیر کہاں تھے—؟
جانے کون سا شہر تھا— جو تھا
شہروں کے بھی نام کئی تھے
گیا، بہار، موہن جو داڑو
ٹیکسلا، کاشی، مکہ، روم
شکاگو، مونٹریال، منی ٹوبا
ٹورانٹو—!
لوگ تھے
چاروں اور تھے
(ملکوں شہروں ہوتے ہی ہیں)
دھیان کا موقع تھا
نہ سمے تھا
پھر بھی آنکھیں پیروں پر تھیں
اور میں اس کے
دھیان میں گم تھا—!!