حکومت ہر اس شخص سے خوف زدہ ہے جو سچ کو سچ، ظلم کو ظلم، کرپٹ کو کرپٹ فراڈ کو فراڈ، تانا شاہ کو تانا شاہ، ڈکٹیٹر کو ڈکٹیٹر کہنے کی ہمّت و جرأت کرتا ہے۔ حکومت سے سوال کرتا ہے، غلط کارکردگیوں اور فیصلوں پر تنقید کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے [کہ] ملک کے بہت سارے سماجی کارکنان، انسانی حقوق کے علم بردار، دانشوران اور صحافی اس وقت ملک کی مختلف جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ایسے بے گناہ گاروں میں گرفتار کیے جانے کی تازہ مثال آلٹ نیوز کے فیکٹ چیکر محمد زبیر ہیں، جنھیں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ اس نے سچ کو سچ کہنے اور دکھانے کی ہمّت کی تھی۔ ایسے بے گناہ گاروں کی بلا وجہ طویل مدتی گرفتاری کے بعد ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بات پر حیرت ظاہر کی ہے کہ ایک فرضی اور گم نام ٹویٹ پر پولیس نے مذہبی جذبات کی دلاآزاری کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیا ہے، جس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ محمد زبیر کو بلا وجہ گرفتار کیے جانے پر بہت سارے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن تک نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ محمد زبیر کے سلسلے میں جرمنی کی وزارت خارجہ نے بھی طویل بیان جاری کرتے ہوئے زبیر کی گرفتاری کو اظہار آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو ایسے سچ بولنے، لکھنے اور دکھانے والوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس لیے محمد زبیر جیسی شخصیات کو ایک کیس میں کورٹ کے ذریعہ حکومت کو سخت سست کہے جانے کے بعد ضمانت دی جاتی ہے تو حکومت دوسرا اور تیسرا مقدمہ درج کرتے ہوئے ایسے لوگوں کوجیل کے اندر ہی رکھنا چاہتی ہے، تاکہ وہ آزاد ہو کر پھر سچ نہ بولنے لگیں، ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگوں کو جیلوں میں بھرنے سے ایسے سچ بولنے، لکھنے والوں اور حکومت سے سوال اور تنقید کرنے والوں کے حوصلے پست ہوں۔ یہ ہے حکومت کے اندرونی خوف کا عالم۔ ایسے بے گناہ قیدیوں کے سلسلے میں چند روز قبل ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے راجستھان میں منعقد آل انڈیا لیگل سروسز کی ایک کانفرنس میں بڑے کرب کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ملک میں تعزیری (فوج داری) انصاف کا نظام جس طور پر چلایا جا رہا ہے وہ بہ ذات خود ایک سزا بن گیا ہے۔ ملک کے مختلف جیلوں میں اس وقت چھے لاکھ دس ہزار قیدی ایسے ہیں جن میں 80 فی صدی کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور جنھیں ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ حالانکہ قانون کی نگاہ میں وہ بے گناہ ہیں۔ عدالتوں میں عام طور پر ضمانتیں نہیں دیے جانے کے ضمن میں سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس دیپک گپتا نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا تھا کہ ’حکومت نے خوف و دہشت کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ عدالتیں ملزمان کی ضمانت قبول کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں‘۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ حکومت کے اندر اس قدر ڈر سمایا ہوا ہے کہ وہ بیرون ممالک کی تنقید اور احتجاج کو بھی پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے ایسے ہر معاملے کو ملک کا اندرونی معاملہ کہہ کر پلّہ جھاڑ لیتی ہے۔
پارلیامنٹ کے مونسون سیشن شروع ہونے سے قبل پارلیامنٹ کے ذر یعہ جاری ہونے والی ایک متنازع ایڈوائزری ان دنوں موضوع بحث ہے کہ آیا عام بول چال کے الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کے پیچھے منشا کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پارلیامنٹ ایک ایسی اہم اور مقدس جگہ ہے جہاں عوام کے ذریعہ منتخب ممبران ہی عوام اور ملک کے دیگر مسائل پر بحث و مباحثہ اور رائے عام بننے کے بعد عوامی مفادات کے لیے لائحہ عمل تیارکرتے ہیں، قانون سازی ہوتی ہے قانون میں ترمیم کی جاتی ہے۔ گویا ملک اور ملک کے عوام کی بقا اور ترقی و خوش حالی کا انحصار اسی پارلیامنٹ پر ہے۔ ایسی روایت رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ ان دنوں پارلیامنٹ میں ایسی تمام مثبت روایتوں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ پارلیامنٹ میں حزب مخالف کے ممبران کو پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے بغیر بحث و مباحثہ کے اور رائے عامّہ قائم کیے ہوئے 9 منٹ میں 37 بل پاس کر لیے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس این وی رمنّا نے اس سلسلے میں بھی مذکورہ کانفرنس میں بتایا کہ ’پارلیامنٹ کے ذریعے کی جانے والی قانون سازی کا معیار کافی حد تک گر گیا ہے اور غور و خوض کیے بغیر الٹے سیدھے قوانین بنا کر نافذ کیے جا رہے ہیں۔‘
ایسے بننے والے قوانین، منفی رویے یا فیصلے پر، جو عوام کے مفادات میں نہ ہوں، حزب مخالف کے ممبران کے ذریعہ تبصرہ اور تنقیدکی جا سکتی ہے۔ حکومت اگر اپنے غلط فیصلے پر بہ ضد ہو تو حزب مخالف کے ممبران اعتراض اور احتجاج بھی کر سکتے ہیں اور کیا کرتے تھے۔ ایسی بھی روایت رہی ہے۔ لیکن میں بالکل مانتا ہوں کہ بحث و مباحثہ اور احتجاج میں زبان و بیان کی شائستگی ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ پارلیمان، جمہوریت کا مقدس ایوان ہے اور اس کے ممبران معزز، ماننیئ، اور محترم ہیں نہ کہ سڑک چھاپ ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس مقدس ایوان کے ممبران، ایوان کے اندر اور باہر ایسی ایسی گھٹیا، بے ہودہ، نامناسب اور قابل اعتراض زبان کا استعمال کرتے ہیں جن سے نہ صرف پارلیامنٹ کا وقار اور معیار مجروح ہوتا ہے بلکہ بیرون ممالک میں بھی مذاق اور شرم کا باعث ہوتا ہے۔ یاد کیجیے کہ گذشتہ پارلیامنٹ کے ایک سیشن میں بی جے پی کی ایک خاتون ممبر پارلیامنٹ نے اپنی ایک تقریر میں ایسی نازیبا اور عامیانہ بات کہہ دی تھی کہ پورا حزب مخالف برگشتہ ہو گیا تھا اور زبردست احتجاج کے دوران اس خاتون ممبر پارلیامنٹ سے معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کئی دنوں تک پارلیامنٹ کی کوئی کاروائی نہیں ہونے دی گئی تھی اور آخر کار خود وزیر اعظم نریندر مودی سامنے آئے تھے اور معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس خاتون ممبرکا ایسا سماجی پس منظر ہے، جس کی وجہ کر ایسے الفاظ کی ادائیگی ہوگئی ہے۔ اس معذرت کے بعد ہی ایوان کی کاروائی شروع ہوئی تھی۔ حال کے دنوں میں برسراقتدار حکومت کی پارٹی کے پارلیامانی ممبران بلکہ وزر تک نے سڑکوں پر اتر کر اقتدار کے نشے میں پولیس کی موجودگی میں اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے جو زبان استعمال کی تھی، وہ ہر لحاظ سے تہذیب و اقدارکے منافی تھا۔ ایسے حالات میں حکومت کسی کو یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ شائستہ زبان کا استعمال کرے۔ اس کے باوجود ان دنوں حکومت کو ایسے بہت سارے الفاظ سے خوف محسوس ہو رہا ہے جو عام طور پر کسی کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پارلیامنٹ سیکریٹریٹ نے جو ایڈوائزری جاری کی ہے اس میں تقریباََ پندرہ سو ایسے الفاظ ہیں، جنھیں غیر پارلیمانی قراردیے جانے کا فیصلہ مناسب ہو سکتا تھا۔ اگر یہ الفاظ دانستہ طور پر حزب مخالف کی زبان پر قفل ڈالنے والے نہ ہوتے۔ جن الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے ان میں ویسے ہی الفاظ زیادہ ہیں، جن سے حکومت خوف زدہ ہے۔ مثلاََ تاناشاہ، کرپٹ، ڈکٹیٹر، فراڈ، وناش پروش، ہٹلر، جے چند، جملہ جیوی، جھوٹ، نا اہل، بہری سرکار، کریمنل، دوہرہ چہرہ، چیٹیڈ، مافیا، ربش، غنڈے، نوٹنکی، دلال، چمچہ، دوہرا چرتر وغیرہ وغیرہ. ان الفاظ کے ساتھ عام طور پر استعمال ہونے والے کئی محاورے بھی اب غیر پارلیامانی قرار دیے گئے ہیں۔ غیر پارلیامانی قرار دیے جانے والے الفاظ میں بیش تر الفاظ وہی ہیں جو حال کے دنوں میں خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر کے دوران شکایتاََ دہرایا تھا کہ کانگریس مجھے ایسے ایسے نا مناسب اور بے ہودہ الفاظ سے نوازتی ہے۔ یہ تقریر دراصل ان الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کے لیے زمیں ہموار کرنے کی ایک کوشش تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے اندر ایسے حالات ہی کیوں پیدا کیے گئے کہ حکومت کو کرپٹ، چور، بے شرم، دلال، دوہرے چرتر، دوہرا چہرہ، جھوٹ، وناش پروش، نا اہل، بہری سرکار وغیرہ جیسے الفاظ سے ڈر محسوس ہونے لگا ہے۔ حالانکہ ایسے الفاظ کا استعمال خود بی جے پی کے لوگ اپنے مخالفین کے لیے عام طور پر کرتے رہتے ہیں۔ قرار دیے گئے غیر پارلیامانی الفاظ کی فہرست لمبی ہے۔ بہتر ہوتا اگر ان الفاظ کے متبادل بھی بتا دیے جاتے۔ بلکہ اچھا ہوتا کہ غیر پارلیامانی الفاظ پر پارلیامنٹ میں بحث ہوتی، جس سے یہ اندازہ ہوتا کہ ان الفاظ کو غیر پارلیامانی کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا مذکورہ الفاظ کو غیر پارلیامانی قرار دیے جانے کے بعد ان الفاظ کا استعمال پارلیامنٹ میں نہیں ہوگا؟ ٹی ایم سی کے ممبر پارلیامنٹ ڈیرک اوبرائن نے تو پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ میں ان (غیر پارلیامانی) الفاظ کا استعمال کروں گا، خواہ مجھے معطل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر زبان کے مسئلہ پر مکمل اتفاق رائے ہوتی، تو پھر اس قدر اعتراض اور مخالفت نہیں ہوتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ حکمراں اور حکمراں جماعت اپنی ہر بات کو منوانے کے لیے بہ ضد ہوتی ہے، خواہ پارلیامنٹ چلے یا نہ چلے۔ دراصل حکومت کے اندر اس قدر خوف سمایا ہوا ہے کہ وہ پارلیامنٹ کے اندر کیے جانے والے ہر طرح کے سوال اور تنقید سے گھبراتی ہے۔ اب دیکھیے کہ مہنگائی، ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ، بے روزگاری وغیرہ جیسے ملک کے بڑے اہم مسئلے پر حزب مخالف پارلیامنٹ میں بحث چاہتی ہے۔ لیکن حکومت کو یہ منظور نہیں، نتیجہ میں گزشتہ کئی دنوں سے پارلیامنٹ کی کاروائی رکی ہوئی ہے اور حزب مخالف مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے قریب احتجاج اور مظاہرے کر رہا ہے۔ اب کیا اس احتجاج اور مظاہرے کی پاداش میں نئے حکم نامے کے بہ موجب انھیں معطل کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اتنے اہم مسئلے پر پارلیامنٹ میں بحث و مباحثہ سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش ہی حکومت کی ناکامی اور خوف کی علامت ہے جو سچ کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے۔ راہل گاندھی کے بعد سونیا گاندھی کو ای ڈی دفتر میں بلا کر تفتیش پر جس طرح پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں، یہ سب دراصل عوام کا اصل مسئلہ سے ذہن کو بھٹکانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر حکومت کو آئینہ دکھانے والوں پر قد غن لگانے کی کوشش ہے۔
پارلیامنٹ کے اندر اہم عوامی مسئلے پر مباحثہ سے انکار اور متنازع ایڈوائزری کو حکومت کا خوف سمجھا جائے یا پھر زبان و بیان میں الجھا کر اپنے مخالفین کو خاموش رکھنے کی کوشش ہے۔ ایسے میں شیو سینا کی رہ نما پرینکا چترویدی کا سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا اب پارلیامنٹ میں سوال کیے جانے پر بھی پابندی لگائیں گے؟
٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...