آدمی کی طرح شاعری کے بھی کئی چہرے ہوتے ہیں۔ ہر چہرے پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ کچھ ہی چہرے ایسے ہوتے ہیں جس کے تیکھے نین نقش اور دل آویز خطوط پر آنکھ ٹھہر سی جاتی ہے اور ذہن میں بہت سے زاویے بنتے جاتے ہیں۔ ایسے چہرے ہمیشہ کے لیے ذہنوں میں نقش ہو جاتے ہیں۔ یہ مادی اور روحانی دونوں طرح کے چہرے ہو سکتے ہیں۔ روحانی چہرے کی شناخت زیادہ مشکل ہوتی ہے کہ دراصل روحانیت کا تعلق باطن سے ہوتا ہے۔ تخلیق بھی بنیادی طور پر ایک روحانی اور مابعدالطبیعاتی عمل ہے۔ اس لیے تخلیقی نگارخانہ میں جو چہرے ہوتے ہیں ان میں ہر چہرہ نہ آنکھوں کو بھاتا ہے اور نہ ہی ذہن و دل کو سرور بخشتا ہے۔ وہ چہرے تو قدرت نے الگ سے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جو پہلی نظر میں ہی اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ ایسے کچھ جاذبِ نظر چہرے شعر و ادب میں بھی ملتے ہیں۔ ان چہروں پر چاہے کتنی خزائیں اُتر چکی ہوں مگر ہر عہد میں ایسے چہروں پر بہار رہتی ہے۔ ماضی میں بہت سے پُر بہار شعری چہرے رہے ہیں اور موجودہ شعری منظرنامے میں بھی کچھ ایسے چہرے نگاہ میں آجاتے ہیں۔ انہی میں ایک تازہ چہرہ راکیش دلبر کا بھی ہے۔ شاعری کا یہ وہ چہرہ ہے جس نے پہلی نگاہ ہی میں دل کو موہ لیا اور جب اس چہرے کے تخلیقی، فکری زاویے نگاہ میں روشن ہوئے تو حیرتوں کے در وا ہوتے گئے۔
پہلی نظر میں یہ سیاہ رات میں مہتاب ڈھونڈھنے والا، روشنی کے شجر اُگانے والا اور محبت کے استعاروں والا شاعر نظر آیا۔ اُن کے لفظ دیکھے بھالے سنے سنائے لگے۔ مگر اظہار کی جدت اور احساس کی ندرت الگ ہونے کا احساس بھی دلاتی رہی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا ہو۔ کوئی نئی نئی سی رہ گزر ہو۔شاعری میں احساس و اظہار کی عمومیت سے گریز آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے بڑی ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ بڑے بڑے شعرا کے یہاں عمومیت، تکرار اور اعادہ کی کیفیت ملتی ہے. ایسا لگتا ہے جیسے ان خیالات، تصورات سے انسانی ذہن کا پرانا رشتہ رہا ہو۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عمومیت میں بھی انفرادیت کی راہ نکال لیتے ہیں اور اس راستے سے بچ نکلتے ہیں جو عام ہو جائے۔ راکیش کے یہاں بھی بہت سی جگہوں پر عمومیت سے انحراف اور گریز نظر آتا ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری انبوہ میں بھی ایک الگ سرشاری اور سکر کا احساس دلاتی ہے۔ اپنے شعری متون میں یہ ایک ایسے شاعر کے طور پر ابھرتے ہیں جن کی تشنگی سے دریا اور خاموشی سے شور ہار جاتا ہے۔
لبوں پہ تھی کوئی وحشت کہ پیاس تھی، کیا تھا
ہر ایک دریا مری تشنگی سے ہارگیا
ہر اِک صدا پہ اثر کرگیا طلسم سکوت
ہر ایک شور مری خامشی سے ہارگیا
دریا اور شور کی یہ شکست بہت معنی خیز ہے اور یہ جذبات اور کیفیات کے بہت سے دروازے کھولتی ہے۔ تشنگی اور خاموشی کے نئے مفاہیم سامنے آتے ہیں۔ دراصل شاعری اسی تشنگی اور خاموشی کا نام ہے۔ کیوں کہ خموشی ایک قوت ہے۔ اسی سے کائنات کی تخلیق و تشکیل عمل میں آئی ہے اور اسی خموشی سے الفاظ و افکار نمو پذیر ہوئے ہیں۔ اظہار، انکشاف اور انفجار کی ساری قوت خموشی ہی میں پوشیدہ ہے۔ راکیش دلبر کے احساس اور الفاظ کا خموشی سے گہرا رشتہ ہے کہ اسی خموشی سے ان کے صوت و صدا کے سارے سلسلے جڑے ہوئے ہیں۔ اور تشنگی اس اضطراب کا اظہار ہے جو انسانی وجود میں تحرک کی کیفیت پیدا کرتا رہتا ہے۔ تشنگی ختم ہو جائے تو انسان جمود و اضمحلال کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ یہی تشنگی اسے نئی نئی منزلیں تلاش کرنے کے لیے مہمیز کرتی ہے۔ اگر یہ تشنگی اور خاموشی ختم ہو جائے تو شاعری بے کیف ہو جاتی ہے۔
راکیش دلبر کی شاعری میں الگ الگ زمانوں کی صبحیں، شامیں اور عصری تجربات و مشاہدات کے روزنامچے ہیں۔ اس شاعری کی صبح میں ایک سرمئی شام ہے اور شام کے شفق میں صبح کی تازگی بھی۔ ان کی صبح شام کی داستان لکھتی ہے اور شاعری کی شام صبح کی حکایت تحریر کرتی ہے۔ صبح و شام کا یہ ہجر و وصال ایک نیا خیال لوحِ شاعری پر نقش کرتا ہے۔ راکیش کے یہاں ہجر و وصال ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اسی طرح تاریکی اور روشنی کا بھی ایک گہرا رشتہ ہے۔ اُن کے شہرِ تمنا کا دشتِ جنوں سے بھی تعلق ہے۔ دشت و شہر کا یہ وصال اُن کی طلسمی خیال کا ایک جمال ہے:
نواحِ شہرِ تمنا میں اب اندھیرا ہے
کوئی چراغ درِ اشتیاق میں رکھ دے
نواحِ دشتِ جنوں میں اُداس سارے لگے
درخت جتنے ملے سب خزاں کے مارے لگے
اُن کی شاعری میں شام و سحر کی ساری کیفیتیں ہیں۔ اس شاعری کی قرأت کسی بھی پہر میں کی جائے ایک نئی تازگی کا احساس دلاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پوری شاعری پدمنی پہر میں لکھی گئی ہو اور اس میں رات کی آخری ساعتوں کی سرگوشیاں بھی شامل ہوں اور وہ تنہائیاں بھی جن سے خیال کی انجمن آباد رہتی ہے۔
راکیش کا لہجہ بالکل نیا نیا سا لگتا ہے۔ اس میں کہیں غربت، غرابت نظر نہیں آتی۔ ان کی شاعری سے گزریے تو تجربات اور مشاہدات کی ایک وسیع ترین دنیا روبرو ہوتی ہے۔ شعر کی تہوں میں اُترنے سے احساسات کے کئی جہاں روشن ہوتے ہیں اور ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ قاری اُس میں کھو سا جاتا ہے اور قاری ان شعروں کی گہرائیوں میں اتر کر افکار و تصورات کے نئے جزیرے تلاش کر سکتا ہے اور خیالات کی ایک نئی دنیا ذہن میں بسا سکتا ہے۔ اُن کے یہاں ادراکِ حقیقت کو اظہار کی ندرت ایک نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔ اُن کی شاعری میں خیالوں کا ایک نیا شہر آباد ہوتا نظر آتا ہے۔ راکیش دلبر کے ان چند اشعار میں کیسی کیسی کیفیتیں خلق کی گئی ہیں ملاحظہ کیجیے:
اُگیں گے دیکھنا اِک روز روشنی کے شجر
یہاں زمین میں ہم نے دیے لگائے ہیں
ہمارے تکیے پہ کل نیند سر پٹکتی رہی
ہماری آنکھ تھی اک ایسا خواب پہنے ہوئے
یہ کیا ہوا کہ اُگ آئے عذاب کھیتوں میں
یہاں کسان نے بوئے تھے خواب کھیتوں میں
اِک شعر رات ذہن کے کاغذ پہ نیند میں
ہونے سے رہ گیا تھا مگر بعد میں ہوا
جگنو، چراغ چاند نہ تارا کوئی یہاں
دیوار شب سیاہ میں در کون دے گیا
سورج کو احساس دلایا جا سکتا ہے
جگنو سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے
اس طرح کے مصرعے گہری مراقباتی کیفیت میں ہی وجود میں آسکتے ہیں اور یہی مصرعے کسی بھی شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ وامق جونپوری نے بہت اچھا شعر کہا ہے:
کیا ضروری ہے کہ دیوان پر دیوان لکھوں
ایک شعر ایسا کہو زندۂ جاوید رہو
شاعری جس طرح کی ریاضت مانگتی ہے راکیش کے یہاں ریاضت کی وہ ساری راہیں اور منزلیں روشن ہیں۔ اُن کا تخلیقی سفر تابناک ہے۔ کہیں بھی فکری اور اظہاری سطح پر تھکن کا احساس نہیں ملتا۔ وہ تازہ دم ہیں اور شاعری کی نئی نئی راہوں کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی جستجو کا یہ سفر نہ جانے اُنھیں خیالوں کے کن سمندروں، پہاڑوں، آبشاروں، صحراؤں تک لے جائے گا۔ انھوں نے خیالوں کی ایک الگ دنیا بسائی ہوئی ہے جس میں اُن کی خلوتیں بھی ہیں، جلوتیں بھی۔ مگر اُن کے خیال کے خلوت کدے میں کوئی اور شامل نہیں ہے۔ اُنھوں نے خود کو بازگشت بننے سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر کہیں کہیں قدیم رنگ و آہنگ کا انش بھی شامل ہے کہ یہ اُس سے مفر نہیں۔ کائنات میں کوئی بھی خیال نیا نہیں ہوتا۔ ہر خیال کا رشتہ ازل سے ہے۔ لوحِ ازل پر سارے مضامین پہلے سے مرقوم ہیں۔ سارا مسئلہ خیالات کی باز تعمیر کا ہے اور اُسلوب بیاں کا ہے۔ راکیش دلبر کا جن تصورات اور لفظیات سے رشتہ ہے وہ حیات و کائنات کی بہت سی حقیقتوں کا ادراک کراتے ہیں۔ اُن کے یہاں خواب، چراغ، عشق، شجر، پھول، مٹی، سورج، جگنو جیسے الفاظ ہیں جن میں رموز و علائم کی ایک دنیا آباد ہے۔ یہ وہ کثیر الابعاد الفاظ ہیں جن کے مفاہیم عصری سیاق و سباق کی تبدیلی سے بدلتے رہتے ہیں۔ ہر عہد میں جن کے نئے معنی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ راکیش دلبر اپنی شاعری میں مانوس، نامانوس اور اجنبی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں کیفیت ہے اور اس کیفیت ہی کی اہمیت ہے جس نے میر کے شعروں کو معراج عطا کیا۔ جو تجربات اور ادراکات اُن کے احساسات کا حصہ بنے ہیں اُنہی کو انھوں نے شعری کولاژ اور اسمبلاژ کی صورت میں پیش کیا ہے۔
میں جس کے واسطے کبھی تریاق تھا یہاں
اس شخص نے ہی زہر کا پیالہ دیا مجھے
جن کے پرکھوں کی کٹی عمر سیاہ کاری میں
اب وہی لوگ مرا نام و نسب دیکھتے ہیں
شجر لگائے تھے جن راستوں میں ہم نے کبھی
مسافرت میں وہی راستے محال ہوئے
یہ مشاہدے اور تجربے کا ایک رنگ ہے جس میں قدروں کے زوال کا نوحہ ہے اور معاشرتی بے چہرگی کا منظرنامہ بھی۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے تجربات و حوادث ہیں جنھیں انہوں نے شعری صورت عطا کی ہے۔ حیات و کائنات کی حقیقتوں سے اُن کی آنکھوں کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے بھی آگہی ہے۔ زندگی کے ہر رنگ کو اُنھوں نے دیکھا ہے مگر تخلیقی سطح پر اُن کے لیے بڑی مشکل یوں آن پڑی ہے جس کا اظہار یوں کیا گیا ہے:
زندگی تجھ کو میں اشعار میں ڈھالوں کیسے
قافیہ تونے بہت تنگ بنا رکھا ہے
راکیش دلبر نے اپنی شاعری میں دلبری کے انداز بھی دکھائے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس طرح کے شعر وجود میں آئے ہیں:
ہمیں تو عشق کے آداب مت سکھا دلبر
اسی خرابے میں اپنے سفید بال ہوئے
میں شاعری فقط عشق لکھتا تھا دلبر
مری غزل میں محبت کے استعارے لگے
کوزہ گر کون سی مٹی سے بنایا مجھ کو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آیا مجھ کو
دلبر نے باربار اجاڑا ہے لوٹ کر
آباد اپنے دل کا نگر بعد میں ہوا
بچھڑ گیا اسی سلابِ عشق میں دلبر
اب اس کی موج تہہ آب ڈھونڈھتے رہنا
پرچمِ عشق تو لہرا گیا ایسے دلبر
اب کسی کو بھی نہ فرہاد کہے گی دنیا
اُس کا بدن خوشبو کا تھا نام پہ اس کے
صندل کا اِک پیڑ لگایا جا سکتا ہے
ہماری آنکھ سے اب حسنِ ظن نکل گیا ہے
حصارِ خواب سے وہ گُل بدن نکل گیا ہے
ہم خانقاہِ عشق کے پہلے مرید ہیں
مجنوں کا تو اِدھر سے گزر بعد میں ہوا
رقص میں ہے جو محبت مری شریانوں میں
یہ اجل سے ہی مری ذات میں لائی گئی ہے
عشق کی کیفیات اور تلازمات کا نہایت ہی خوب صورت بیانیہ ہے۔ راکیش نے زندگی سے جڑے ہوئے اور بھی موضوعات پر اچھے شعر کہے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس اپنے تجربات اور مشاہدات کے اظہار و ابلاغ کا خوب صورت سلیقہ ہے۔ اُنھوں نے بہت قرینے سے اپنی شاعری کی زمین میں ایسے تخلیقی دیے لگائے ہیں جو صدیوں جلتے رہیں گے۔ راکیش دلبر نے اپنی شاعری کے ذریعے احساس کی ایک نئی دنیا تعمیر کی ہے۔ اس میں ہر ایک اینٹ ان کے نام کی ہے۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...