کوک سٹوڈیو کے ایک سیزن میں عارف لوہار چمٹے کے ساتھ “جُگنی جی” گاتے ہیں اور سننے والوں کے دل قابو کر لیتے ہیں۔ اس گانے کو بارہ سال کے دوران یوٹیوب پر 82 ملین سے زائد بار سنا جا چکا ہے۔
گھروں میں چمٹے بیگمات روٹی پکانے کے علاوہ نافرمان شوہروں کو مارنے اور قابو کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ میڈیکل کی دنیا میں چمٹے کا بے حد استعمال ہے۔ اسے کسی رگ کو، کسی خون کی نالی کو دورانِ سرجری پکڑا یا کنٹرول کیا جاتا ہے۔ گویا چمٹا کسی شے کو پکڑنے یا قابو کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چمٹے مختلف سائز اور شکلوں کے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک خاص شکل اور چھوٹی سائز کے چمٹوں کو انگریزی میں Tweezers کہتے ہیں۔
ایسا ہی ایک چمٹا 1986 میں ایک امریکی سائنسدان آرتھر اشکن نے ایجاد کیے۔ مگر یہ کوئی عام چمٹا نہیں تھے جو لوہے سے بنا ہوں یا ہاتھ میں پکڑے جا سکے ۔یہ روشنی کا چمٹا تھے!!! مگر کیسے؟
اس سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ روشنی دراصل ہے کیا۔ روشنی کی فطرت دو طرح کی ہے۔ اسے ہم توانائی کی برقناطیسی شکل کی موج یا لہر بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اسے ہم توانائی کے پیکٹس بھی کہہ سکتے ہیں۔ (یہان یہ مت سمجھئے گا کہ یہ ویسے پیکٹ ہیں جن میں چپس یا بسکٹ آتے ہیں)۔ یوں سمجھیں کہ توانائی کی ایک خاص مقدار کسی ایک جگہ پر ہے اور مسلسل روشنی کی رفتار سے اپنی جگہ بدل رہی ہے۔۔
روشنی کے یہ چھوٹے چھوٹے پیکٹس دراصل فوٹان کہلاتے ہیں۔ جس طرح کرنٹ الیکڑرانز کا بہاؤ ہے ویسے ہی
کہہ لیجئے کہ روشنی فوٹانز کا بہاؤ ہے۔ اب چونکہ توانائی اور مادہ ایک ہی شے کے دو نام ہیں لہذا روشنی کے ان ذرات کا ماس تو نہیں ہو گا البتہ مومنٹم ضرور ہو گا۔
یہ فوٹان جب کسی مادے سے ٹکراتے ہیں تو اس سے مومنٹم کا تبادلہ کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے سرکاری دفتروں میں نظام کے خلاف اختیارات کی قوت استعمال کرنے سے تبادلے ہوتے ہیں۔ بالکل وہسے ہی جیسے سنوکر میں ایک گیند جب دوسری گیند سے ٹکراتی ہے تو کچھ توانائی دوسری گیند کو دیتی ہے اور وہ ٹکرانے والی گیند کے زاویے پر منحصر مختلف زاویوں کو جاتی ہے۔ گویا فوٹانز چیزوں کو ہلکا سا دھکا دیتے ہیں۔ مگر یہ قوت بے حد معمولی ہوتی ہے۔ یعنی کچھ نینو نیوٹن۔نیوٹن قوت کی بنیادی اکائی ہے۔ نینو نیوٹن معنی ایک نیوٹن کا ایک اربواں حصہ۔
اگر کچھ اس طرح سے ہم روشنی کو کسی عدسے سے گزاریں کہ عدسے سے گزرتے ہوئے انعطاف ہو اور روشنی عدسے سے دور ایک جگہ ایک نکتے پر جمع ہو جسے ہم فوکس کہتے ہیں۔ تو وہاں پر دونوں مخالف سمت سے آئی روشنی برابر ہو گی۔
یوں عین اس فوکس کے درمیان اگر کوئی ایٹم یا مالیکول یا ذرہ رکھ دیا جائے تو روشنی اسے ویسے ہی جکڑے گی جیسے ایک چمٹا کچھ جکڑتا ہے۔
یہ انتہائی دلچسپ ہے کہ ہم روشنی کی معمولی سے قوت کے اس طرح سے استعمال سے اسے کسی جگہ جمع کریں کہ اسکے بیچ میں رکھا کوئی ذرہ یا مالیکول مخالف سمت سے قوت کے توازن سے اس جگہ پر معلق ہو جائے۔
ہم اس طرح سے روشنی کے ذریعے ننھے سے ایٹموں یا مالیکولز کو کنٹرول کر کے انکا تفصیلی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اسکے لئے لیزر استعمال کی جاتی ہیں۔
اس طرح کے آلات جن سے ایٹموں یا مالیکول کو جکڑا یا کنٹرول کیا جائے انہیں Optical Tweezers کہتے ہیں۔ اور انکی ایجاد کا سہرا عارف لوہار کو نہیں امریکی سائنسدان آرتھر اشکن کو جاتا ہے جنہوں نے انہیں 1985 میں ایجاد کیا۔ اس ایجاد پر اُنہیں 2018 کا فزکس کا نوبل انعام ملا۔
آج optical tweezers ڈی این اے کے ننھے مالیکول کے تجزے سے لیکر کوانٹم فزکس میں کولڈ ایٹم کی ریسرچ میں استعمال ہوتے ہیں۔اور انکے ذریعے دنیائے سائنس میں نینو لیول پر انقلاب آ چکا ہے۔
ویسے عارف لوہار صاحب کے والد عالم لوہار صاحب بھی اتفاق سے سنگر تھے اور چمٹا بھی اچھا بجاتے تھے۔ آپ فی الحال اُنکا یہ مست گیت سنیں اور اُنکے Early warning system کو داد دیں کہ وہ ہمیں بہت پہلے ایک ناگہانی آفت سے خبردار کر گئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...