شاید میرا نام آپ صاحبان کو کچھ عجیب سا محسوس ہو ۔ آپ نے بھوت بنگلہ ، خوفناک عمارت ، خونی محل جیسے نام اکثر سنے ہوں گے اور ان کے تعلق سے بہت سارے ہیبت ناک اور ڈراونے قصے بھی سن رکھے ہوں گے یا پڑھے ہوں گے ۔ میرا خیال ہے میرے نام سے بہت کم لوگ ہی واقف ہوں گے ۔ آج میں آپ کو اپنی آپ بیتی بشمول جگ بیتی سنانا چاہتی ہوں کہ آپ بیتی بھی تو اسی جگ کے کسی یُگ کا ایک حصہ ہی ہوا کرتی ہے ۔
کہانیاں سننا سنانا تو انسانی سرشت میں شامل ہے ۔ دنیا میں سینکڑوں ہزاروں نئ نئ کہانیاں روز لکھی اور پڑھی جاتی ہیں ۔ مگر سب سے بڑا کہانی کار تو وہ ہے جو اوپر بیٹھا ہر سمئے نت نئی کہانیاں لکھتا رہتا ہے ، نئے نئے کردار گڑھتا رہتا ہے ۔ نئے نئے اتفاقات و حادثات ، نئے پلاٹ ، نئے نئے ڈائلاگ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سب کی بدولت ہمیشہ ایک نئی تاریخ ۔
آج میں انہیں کہانیوں میں سے ایک کہانی سنانے جا رہی ہوں ۔ یہ کہانی ہے نفرت کی ، انتقام کی ، حسد ، بغض و کینہ کی ، لالچ اور ہوس کی ، انسانی رشتوں کی پائمالی ، مکر ، فریب اور دھوکہ بازی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انجام کار قتل و خون ، بربادی اور غلامی کی ۔ وہ ایک یُگ تھا ۔ یُگ سماپت ہوا ۔ سارے کردار اپنا پارٹ بحسن و خوبی ادا کر جا چکے ۔ کس کو کیا حاصل ہوا ، خدا بہتر جانے ۔ اب فقط میں بچی ہوں ۔۔۔۔۔ اِس ذلت آمیز نام کے ساتھ ۔ ہاں ! میں ہی ہوں ‘ نمک حرام ڈیوڑھی ‘ ۔
آج میری عمر ہے تقریباً تین سو سال ۔ مگر یہ بات ان دنوں کی ہے جب صوبہء بنگال کے نواب شجاع الملک ، ہاشم الدولہ ، مہابت جنگ مرزا محمد علی عرف علی وردی خان ہوا کرتے تھے ۔ ۱۷۴۰ء میں انہیں بنگال کی گدی نواب سرفراز خان کی وفات کے بعد حاصل ہوئی تھی ۔ ان کی کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی ۔ تین بیٹیاں تھیں جن کی شادی بڑے بھائی کے تین بیٹوں سے کی تھی ۔ بڑی بیٹی مہرالنساء عرف گھسیٹی بیگم کی شادی نوازش محمد خان کے ساتھ ہوئی تھی جو ڈھاکہ کے نائب ناظم تھے ۔یہ جوڑا لاولد تھا ۔ لہٰذا انہوں نے گھسیٹی بیگم کی چھوٹی بہن امینہ بیگم کے بڑے بیٹے اکرام الدولہ کو گود لیا ۔ مگر اکرام الدولہ کی موت چیچک کے مرض میں مبتلا ہو کر واقع ہو گئ ۔ اس صدمے کی تاب نہ لاکر نوازش محمد خان بھی جلد ہی جاں بحق ہوگئے ۔ گھسیٹی بیگم کافی چالاک عورت تھی ۔ اس نے ڈھاکہ کی تمام سرکاری دولت غائب کر دی اور اس طرح بہت بڑی دولت کی مالکہ بن بیٹھی ۔
نواب علی وردی خان کی منجھلی بیٹی مُنیرہ بیگم تھیں ۔ ان کے بیٹے شوکت جنگ کو پورنیہ کی صوبے داری حاصل تھی ۔
تیسری بیٹی امینہ بیگم کے چھوٹے بیٹے مرزا محمد سراج الدولہ سے نواب علی وردی خان کی تمام امیدیں وابستہ تھیں ۔ وہ سراج الدولہ کو بنگال کا نواب بنانا چاہتے تھے ۔ سراج الدولہ کے والد زین الدین کی موت ۱۷۴۸ء میں افغانوں کے خلاف جنگ میں ہو چکی تھی ۔ سراج الدولہ کی تعلیم و تربیت علی وردی خان اپنے محل میں اور اپنی ذاتی نگہداشت میں کروا رہے تھے ۔ پورا صوبہء بنگال اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ مستقبل قریب میں سراج الدولہ کو بنگال کی نوابی سے سرفراز کیا جانے والا ہے ۔ مگر بڑی خالہ گھسیٹی بیگم کو وہ پھوٹی آنکھ نہ بھاتا تھا ۔ وہ منجھلی بہن کے بیٹے شوکت جنگ کو مرشد آباد کے تخت پر بیٹھا دیکھنا چاہتی تھی ۔ اسے سراج الدولہ ایک بڑے خطرے کی شکل میں نظر آنے لگا تھا ۔ گھسیٹی بیگم کے پاس دولت کا انبار تھا ۔ دولت کی بدولت اس کے دیگر اعلیٰ عہدیداران سے اچھے مراسم ہی نہیں بلکہ اچھا خاصا رسوخ حاصل تھا ۔ اثر و رسوخ کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ نواب علی وردی خان اولادِ نرینہ سے محروم اور ضعیف تھے ۔ گھسیٹی بیگم باپ کی خدمت گزاری کے بہانے اکثر اس کے ساتھ رہا کرتی تھی ۔ اس نے کافی کوشش کی کہ نواب اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہو جائیں مگر علی وردی خان ایک جہاندیدہ آدمی تھے ۔ لہذا اپنے فیصلے پر وہ آخر تک قائم رہے ۔ پہلے محاذ پر ناکام رہنے کے بعد گھسیٹی بیگم کئ مرتبہ پورنیہ جا کر شوکت جنگ سے ملیں اور اس کے آتشِ شوق کو خوب خوب ہوا دی ۔ شوکت جنگ دن رات بنگال کا نواب بننے کے خواب دیکھنے لگا ۔ اس طرح ابھی سراج الدولہ محض بیس اکیس سال کا ایک نوجوان ہی تھا کہ اس کے ارد گرد اس کے اپنے رشتے دار ہی طرح طرح کی سازشوں کا جال بننے لگے ۔
سراج الدولہ کی پیدائش ۱۷۳۳ء میں ہوئ تھی اور وہ اپنے نانا بنگال کے نواب علی وردی خان کے محل اور نگہداشت میں تعلیم و تربیت حاصل کر رہا تھا ۔ وہ مردانہ وجاہت و شجاعت کا پیکر تھا ۔ محض تیرہ سال کی عمر میں اس نے نانا علی وردی خان کے ساتھ مراٹھوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور انہیں شکستِ فاش سے ہم کنار کیا تھا ۔ علی وردی خان نے اسے بہار کا نائب ناظم مقرر کیا اور پھر مئی ۱۷۵۲ء میں اسے اپنا جانشین بنانے کا اعلان کر دیا ۔ ۱۷۵۶ء میں مئ کی ۱۰ تاریخ کو اس کا انتقال ۸۰ سال کی عمر میں ہوگیا ۔ لیکن ان کے انتقال سے قبل ہی منصور الملک ، ہیبت جنگ ، مرزا محمد سراج الدولہ ۹ اپریل ۱۷۵۶ء کو محض ۲۳ سال کی عمر میں بنگال کے نواب کی حیثیت سے تخت نشین ہو چکے تھے ۔
سراج الدولہ کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے بچھے تھے ۔ وہ چہار جانب ، اندر اور باہر دشمنوں اور سازشیوں سے گھرے تھے ۔ ان کی خود کی خالہ گھسیٹی بیگم ، خالہ زاد شوکت جنگ ، افغان ، مراٹھے اور ہندوستان کی دھرتی پر رفتہ رفتہ قدم جماتے انگریزوں کے علاوہ میر جعفر ، رائے دُرلبھ ، یار لطف خان ، اومی چند ، جگت سیٹھ وغیرہ جو علی وردی خان کے دورِ نوابی میں کل پرزے نہیں نکال پا رہے تھے ، کم عمر نواب کے تخت نشین ہوتے ہی گویا کہ ہر قید وبند سے آزاد ہونے کے لئے پر تولنے لگے ۔
سنا کہ شوکت جنگ بہت ساری دولت نذر کر دلّی کی تختِ شاہی سے بنگال کی نوابی کا پروانہ لے آیا ۔ پورنیہ کا صوبیدار تھا ۔ دولت کی کمی نہ تھی ، پھر پیٹھ پیچھے بڑی خالہ گھسیٹی بیگم کا ہاتھ تھا ۔ اس نے اپنی نوابی کا اعلان کر دیا اور سراج الدولہ کو تخت سے دستبردار ہوجانے کا فرمان جاری کیا ۔ سراج الدولہ آگ ببولہ ہو اٹھا ۔ ۱۶ اکتوبر ۱۷۵۶ء کو اس نے راجا رام نارائن کی مدد سے پورنیہ کے ہی مَنی ہاری نامی مقام پر گنگا ندی کنارے شوکت جنگ کو شکست فاش دیا ۔ دورانِ جنگ شوکت جنگ کا کام تمام ہوا اور وہ بنگال کی نوابی کا پروانہ ہاتھ میں لئے دارِ فانی سے کوچ کر گیا.
نواب سراج الدولہ کا گھسیٹی بیگم کے خلاف ایکشن میں آنا طئے تھا ۔ اسے کسی ذریعہ سے اس بات کی بھی جانکاری حاصل ہوئی کہ گھسیٹی بیگم اور حسین قلی خان کے درمیان کچھ ایسے ویسے تعلقات ہیں ۔ اس نے حسین قلی خان کا قتل کروا دیا ۔ گھسیٹی بیگم مرشد آباد سے چند میل کے فاصلے پر موتی جھیل کے کنارے واقع اپنے محل میں چلی گئی ۔ یہاں دس ہزار ہتھیار بند ذاتی سپاہیوں پر مشتمل ایک دستہ اس کی حفاظت پر معمور تھا ۔ اس کے مرحوم شوہر نے یہ محل بنوایا تھا جس کا نام ‘ سنگ دالان ‘ رکھا تھا ۔ موتی جھیل ایک قدرتی جھیل ہے جس کی شکل گھوڑے کی نعل جیسی ہے ۔ یہ بہت پرفضا مقام ہے ۔ گھسیٹی بیگم کی دولت کا بڑا حصہ یہاں محفوظ تھا ۔ وہی دولت جو وہ ڈھاکہ سے لوٹ لائی تھی. لیکن سراج الدولہ بھی اب اسے مزید ڈھیل دینے کو تیار نہ تھا ۔ اس نے ڈھاکہ کے خزانہ سے متعلق حساب کتاب پیش کرنے کا فرمان جاری کیا ۔ گھسیٹی بیگم حساب کیا دیتی ۔ بالآخر سراج الدولہ نے سنگ دالان پر حملہ کردیا اور سارا خزانہ ضبط کر لیا ۔ گھسیٹی بیگم کو بھی نظر بند کر دیا گیا ۔
جگت سیٹھ اپنے دور میں ہندوستان کا ایک بہت بڑا سودی کاروباری اور صراف تھا ۔ اپنے دور کا سب سے بڑا بینکر تھا ۔ اصل نام مادھب رائے تھا ماڑواری خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ وہ سرکاروں کو بھی قرض دیا کرتا تھا ۔ جگت سیٹھ لقب تھا جو شہنشاہِ ہند کے ذریعہ عطا کیا جاتا تھا ۔ اسے یہ لقب ۱۷۴۴ء میں محمد شاہ کے ذریعہ دیا گیا تھا. ظاہر سی بات ہے کہ ملکی سیاست پر بھی اس کی گرفت مضبوط تھی ۔ گھسیٹی بیگم اور شوکت جنگ کے خیر خواہوں میں سے تھا. سراج الدولہ نے اس سے تین کڑوڑ روپے بطور قرض مانگا تھا جسے اس نے دینے سے انکار کر دیا ، کیونکہ شوکت جنگ دلی سے بنگال کی نوابی کا پروانہ حاصل کر چکا تھا ۔ جب گھسیٹی بیگم کا خزانہ ضبط کر لیا گیا تو اسے اپنی بھی فکر لاحق ہو گئی ۔ لہٰذا اس نے اومی چند اور میر جعفر سے مل کر سراج الدولہ کو کسی بھی قیمت پر تخت سے بے دخل کرنے کی ٹھانی خواہ اس کے لئے انگریزوں سے ہی کیوں نہ ہاتھ ملانا پڑے ۔
امیر چند عرف اومی چند امرتسر کا رہنے والا ایک سکھ بیوپاری تھا جو کلکتہ میں بس گیا تھا ۔ وہ کافی مال دار لیکن لالچی ، مکار اور بے غیرت انسان تھا ۔ اس نے سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں ، میر جعفر اور دیگر سازشیوں کے درمیان رابطہ کا کام کیا ۔ بعد میں اس نے دھمکی دی کہ اگر اس کی مطلوبہ رقم اور نواب کے خزانہ سے لوٹے گئے اثاثہ کے پانچ فی صد کے برابر کمیشن دینے کا معاہدہ اس کے ساتھ نہ کیا گیا تو وہ نواب کے سامنے پوری سازش کا پردہ فاش کر دے گا ۔ انگریزوں نے اسے خوش کرنے کے لئے اس سے جھوٹا معاہدہ کر لیا جب کہ اصل معاہدے میں اس کا نام شامل ہی نہیں کیا گیا ۔ اومی چند وہ بے غیرت انسان تھا کہ اس سے قبل شک کی بنیاد پر انگریزوں نے اسے گرفتار کرنے کے لئے اس کی عالی شان کوٹھی پر حملہ کر وا دیا تھا ۔ کہتے ہیں کہ اومی چند نے عزت بچانے کی خاطر کوٹھی کے اندر اپنی تیرہ بیویوں کا قتل کر ڈالا تھا ۔
اس کے باوجود دولت کی ہوس میں وہ آخر تک انگریزوں کا ساتھ دیتا رہا ۔ نواب کی ہار کے بعد جب اسے پتہ چلا کہ انگریزوں نے اس کے ساتھ جعلی معاہدہ کیا تھا تو وہ پاگل ہو گیا اور اسی حالت میں اس کی موت ہو گئی ۔
سراج الدولہ کی نفرت انگریزوں کے تئیں بڑھتی جا رہی تھی ۔ علی وردی خان نے بھی اسے انگریزوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی ۔ انگریز رفتہ رفتہ بڑے شاطرانہ انداز میں اپنی طاقت بڑھاتے جا رہے تھے ۔ فورٹ ولیم قلعے کی بھی نئے سرے سے تعمیر و توسیع کا کام کیا جا رہا تھا جس کی اجازت نواب سے حاصل نہیں کی گئی تھی ۔ انگریز کسٹمز ڈیوٹی کی چوری میں بھی ملوث تھے اور ان کے ذریعہ حکومت کے مجرموں کو بھی پناہ دی جا رہی تھی ۔ کرشنا داس جس نے حکومت کے خزانے میں کافی بڑی رقم کی ہیرا پھیری کی تھی اسے انگریزوں نے پناہ دیا ہوا تھا ۔
سراج الدولہ نے انگریزوں کو فورٹ ولیم کے توسیعی کام کو فورا روکنے کا حکم دیا لیکن انگریزوں نے حکم عدولی کرتے ہوئے کام جاری رکھا ۔ لہذا مجبور ہو کر سراج الدولہ نے ۱۶ جون ۱۷۵۶ء کو فورٹ ولیم پر چڑھائی کردی اور محض چار دنوں کے محاصرے کے بعد اس پر قبضہ کر لیا ۔ سنا کہ اس کے ایک کمانڈر نے چند انگریز مرد و عورت اور بچوں کو فورٹ ولیم کے ہی ایک چھوٹے سے کمرے میں قید کر دیا ۔ اس کی کوئی جانکاری سراج الدولہ کو نہیں تھی ۔ رات بھر چھوٹے سے کمرے میں قید رہنے کی وجہ سے ان میں سے کئ افراد کی موت دم گھٹ جانے کی وجہ سے ہو گئی ۔ مگر اکثر مورخین جن میں کئ انگریز مورخین بھی شامل ہیں ، اس واقعہ کو من گھڑت اور انگریزوں کی افتراء پر محمول کیا ہے اور اسے سراج الدولہ کی شخصیت کو مسخ کرنے اور اس کے خلاف سازشیں رچنے اور اس پر حملہ آور ہونے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا گردانا ہے ۔ انگریز مورخین کے ذریعہ جتنے لوگوں کو اس چھوٹے سے کمرے میں رکھے جانے کی بات کہی گئی ہے وہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ۔
سراج الدولہ چاہتا تو اس دن بنگال سے انگریزوں کا قلع قمع کر ڈالتا اور یوں یہ قصہ ہی پاک ہو گیا ہوتا ۔ لیکن وہ بنگال کا نواب تھا ، شہنشاہِ ہند نہ تھا ۔ دربارِ شاہی سے انگریزوں کی دوستی اور قربت تھی اور اسی بنا پر انہیں تجارت کرنے کا اجازت نامہ اور دیگر مراعات حاصل تھیں ۔ لہٰذا یہ حملہ محض ایک سرزنش کی نوعیت کا حامل تھا ۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جتنی سنجیدگی کا متقاضی یہ معاملہ تھا اتنی توجہ نہیں دی جا سکی ۔ نتیجتاً اگلے ہی سال مارچ ماہ میں انگریزوں نے فورٹ ولیم پر دوبادہ تسلط قائم کر لیا ۔
حقیقتاً دیکھا جائے تو فورٹ ولیم پر دوبارہ انگریزوں کا تسلط مستقبل کے حالات و واقعات اور تاریخ کا پیش خیمہ تھا ۔ انگریزوں نے محسوس کر لیا تھا کہ نواب سراج الدولہ کو طاقت کے بل پر زیر نہیں کیا جا سکتا اور سراج الدولہ وہ واحد ہستی ہے کہ اس کے رہتے برطانیہ کے کولونیل اور سامراجی خواب کبھی پایہء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ لہٰذا چھل کپٹ ، سازش اور ضمیروں کی خرید کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ اس کام کے لئے ان کی نظرِ انتخاب میر جعفر پر ٹھہری ۔
میر محمد جعفر علی خان ولد سید احمد نجفی آیا تو تھا ہندوستان بالکل خالی ہاتھ مگر جلد ہی نواب علی وردی خان کا اعتماد حاصل کر اس کا نہایت قریبی بن بیٹھا ۔ نواب نے نہ صرف یہ کہ ترقی دے کر اسے اپنا بخشی مقرر کیا بلکہ اپنی سوتیلی بہن شاہ خانم کی شادی بھی اس سے کروادی ۔ لیکن میر جعفر نہایت احسان فراموش ، مکار اور سازشی ذہن رکھنے والا انسان تھا ۔ وہ ہر قیمت پر بنگال کا نواب بننا چاہتا تھا ۔ اس نے علی وردی خان کے خلاف راج محل کے فوج دار عطاء اللہ کے ساتھ مل کر سازش کی ۔ حالاں کہ وہ ناکام رہا اور نواب کی نگاہوں میں ذلیل و رسوا بھی ہوا ۔
سراج الدولہ نے تخت سنبھالنے کے بعد اپنے چند خاص لوگوں کو مخصوص عہدوں پر فائز کیا ۔ اس نے میر جعفر کی جگہ میر مدن کو بخشی بنایا ۔ اسی طرح موہن لال کو دیوان خانے کے پیش کار کے عہدہ پر فائز کیا ۔ ان تبدیلیوں سے میر جعفر ، رائے دُرلبھ ، یار لطف خان اور دیگر کئ درباری و اعلیٰ حکام اس سے ناراض ہو گئے ۔ میر جعفر کی نفرت اور نواب بننے کی چاہت حد درجہ بڑھ چکی تھی ۔ آخر کار جگت سیٹھ ، رائے دُرلبھ ، اومی چند اور انگریزوں کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل طے کیا گیا ۔ ۵ جون ۱۷۵۷ء کو ولیم واٹس نے میر جعفر سے حلف نامہ پر دستخط حاصل کیا ۔ حلف نامہ کی رو سے نواب سراج الدولہ کو راستے سے ہٹا کر میر جعفر کو بنگال کا نواب بنوایا جانا طے تھا ۔
میر جعفر کی خفیہ طور پر رابرٹ کلایو سے خط و کتابت جاری تھی ۔ اس کے اشارے پر لارڈ کلایو نے حملہ کر دیا ۔ مرشد آباد سے ستائیس میل دور بھاگیرتھی ندی کے کنارے پلاسی کے میدان میں صف آرائی ہوئی ۔ کلایو کی فوج صرف تین ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی ۔ نواب کی فوج میں پینتیس ہزار پیادے ، پندرہ ہزار سے زائد گھڑ سوار اور پچپن توپیں تھیں ۔ لیکن فوج کا بیشتر حصہ بِک چکا تھا یا یوں کہا جائے کہ میر جعفر کے زیرِ کمان انگریزوں کے ہاتھ سراج الدولہ کا سودا کیا جا چکا تھا ۔
۲۳ جون ۱۷۵۷ء کا وہ ایک گرم دن تھا حالاں کہ تھوڑی سی بارش بھی ہوئی تھی تاہم حبس میں کوئی کمی نہ تھی ۔ سراج الدولہ اپنے خیمے میں جنگ سے متعلق لائحہ عمل مرتب کر رہے تھے یکایک میدانِ کارزار سے ایک شور بلند ہوا ۔ میر مدن مارے گئے ۔ جھڑپ میں شہید ہو گئے ۔ یہ خبر نواب کے ہوش و حواس پر بجلی بن کر گری ۔ ہائے ! پیارا ساتھی اور دست راست انہیں بیچ منجدھار چھوڑ کر چلا گیا ۔ انہیں کون بتاتا کہ اس داہنے ہاتھ کو کاٹنے والا کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی لوگ ہیں جنہوں نے پیسے کی خاطر اپنی وفاداری ، ضمیر اور عزتِ نفس کا سودا کر لیا ہے ۔
سراج الدولہ نے صلاح مشورہ کے لئے میر جعفر کو خیمے میں طلب کیا اور اس سے تمام گلے شکوے بھول کر انگریزوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا وعدہ لیا ۔ میر جعفر نے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر وطن کی حفاظت مرتے دم تک کرتے رہنے کی قسم کھائی ۔ میر جعفر نے سوگوار نواب کو مشورہ دیا کہ آج جنگ نہ لڑی جائے بلکہ صبح تازہ دم ہوکر لڑی جائے ۔ نواب اس کے جھانسے میں آ گئے اور ایسی غلطی کر بیٹھے جس کا ازالہ ممکن نہ تھا ۔ انہوں نے جنگ موقوف کرنے کا حکم صادر کر دیا ۔ سپاہ آرام کرنے کی خاطر بیرکوں میں واپس ہونے لگے ۔ میر جعفر نے لارڈ کلایو کو حملے کا پیغام بھیجا ۔ کلایو اپنی مختصر سی فوج لے کر حملہ آور ہوا ۔ نواب کی فوج میں بھگدڑ مچ گئ ۔ اس بھگدڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میر جعفر اور رائے دُرلبھ جیسے غداروں کی سپاہ نے نواب کے وفادار سپاہیوں کا قتل عام شروع کر دیا ۔ توپ خانہ پہلے ہی خریدا جا چکا تھا ۔ یہ ایسی جنگ تھی جس میں توپیں چلیں ہی نہیں ۔ کچھ گولہ بارود تو بارش کی وجہ سے نم ہوا اور باقی جان بوجھ کے پانی ڈال کر بے کار کر دیا گیا ۔ الغرض نواب سراج الدولہ کے کمانڈر اور اس کی تمام فوج نے پلاسی کی جنگ میں غداری اور ضمیر فروشی کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد کی جاتی رہے گی ۔ اس جنگ میں گنتی کے افراد سراج الدولہ کے جاں نثاروں میں سے تھے جنہیں چن چن کر قتل کیا گیا ۔ ان کے جاں نثار موہن لال کو بھی بالآخر میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ کلایو کی فوج کے تقریباً بیس سپاہ ہلاک اور پچاس سپاہ زخمی ہوئے ۔
سراج الدولہ بری طرح جنگ ہار چکے تھے ۔ تمام سازش کا پردہ فاش ہو چکا تھا لیکن اب کافی دیر ہو چکی تھی ۔ اب سوائے راہِ فرار اختیار کر نے کے کوئی چارہ نہ تھا ۔ مرشد آباد میں بھی انہیں جائے پناہ نہ ملی ۔ اپنی بیگم لطف النساء اور بیٹی قدسیہ بیگم کے ہم راہ بذریعہ ناؤ پٹنہ پہنچے اور وہاں بھیس بدل کر خانقاہ میر بعنہ شاہ میں پناہ گزیں ہوئے ۔ لیکن قسمت کے لکھے کو کون بدل سکتا ہے ؟ جلد ہی میر جعفر کے جاسوسوں کو بھنک لگ گئی اور انہیں گرفتار کر مرشد آباد لایا گیا اور اسی ڈیوڑھی میں جو نمک حرام میر جعفر کی رہائش گاہ تھی ، قید کر دیا گیا ۔
۲ جولائی ۱۷۵۷ء کو میر جعفر کی اسی ڈیوڑھی میں محمد علی بیگ نے میر جعفر کے بیٹے صادق علی خان عرف میر میران کے حکم پر نمازِ فجر کے دوران سجدے کی حالت میں بنگال کے آخری آزاد نواب اور انگریزوں کے دشمن ، محب وطن سراج الدولہ کا سر قلم کر ڈالا ۔
بس میری کہانی ختم ۔ میں وہی بدنصیب ڈیوڑھی جس کا مالک ملک وقوم کا غدار اور اپنے مالک کا نمک حرام تھا ۔ اس کی نسبت سے آج بھی مجھے اسی نام سے پکارا جاتا ہے ۔ چند برس نام نہاد نواب کہلائے جانے کی خوشی ، لیکن درحقیقت انگریزوں کا پالتو کتا بن کر نہایت ذلت آمیز زندگی گزار کر راہیء ملک عدم ہوا لیکن قیامت تک کے لئے دنیا میں رسوا و خوار ہوا اور دنیا کا سب سے بڑا نمک حرام کہلایا ۔ بقول علامہ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جعفر از بنگال و صدق از دکن
ننگِ آدم، ننگِ دین ، ننگِ وطن
ہاں ! میں ہی ہوں ‘ نمک حرام ڈیوڑھی ‘ ۔ کبھی مرشد آباد آنا ہو تو مجھ سے بھی ملو ، دیکھو ، جانو ، سنو ۔۔۔۔۔۔۔ کیسی کیسی حقیقتیں بکھری پڑی ہیں ، کسی افسانے سے بھی زیادہ پر فسوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہو
۔۔۔۔۔
نوٹ: یہ افسانہ ‘ ندائے گل ‘ لاہور کے سالنامہ ۲۰۱۸ ء میں شائع ہوچکا ہے.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...