چند برسوں پہلے کی بات ہے – آج پھر پہلی تاریخ تھی اور یہاں ہمیشہ کی طرح ایک نئی جھگی کے سامنے بھیڑ جمع تھی لیکن اس بار منظر یوں مختلف تھا کہ ایک جھگی پوری طرح جل کر اب لگ بھگ بجھ رہی تھی اور اس میں اس بار بنگلہ دیش بھیجے جانے والے کنبے کی جوان لڑکی رخسانہ جل کر راکھ میں دب گئی تھی – دیکھنے والوں کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ وہ محض تماشائی بن کر رہ گئے تھے – یہ جگہ دلی کے آ-ٹی-او سے جمنا پار جانے والی سڑک وکاس مارگ کے کنارے تھی – یہ سڑک جمنا کو پار کرکے جہاں جمنا کے کنارے سے ملتی تھی وہیں بائیں طرف کے کونے پر نیچے دریا کی سطح سے کچھ اوپر ریتیلے کنارے پر دور تک جھگیاں آباد تھیں جن میں زیادہ تر بنگلہ دیشی تھے –
ان جھگیوں میں کام کرنے والے طرح طرح کے پیشے میں تھے لیکن عورتیں عموما گھروں میں کام کرتی تھیں – بنگالی حسن کی اپنی ایک خاص جاذبیت ہوتی ہے اور یہ جوان عورتیں اور لڑکیاں جادوگرنیوں کی طرح آس پاس کی کولونیوں میں پھیلی ہوئی تھیں – اس پورے علاقے میں ان کی کہانیاں گشت کرتی رہتی تھیں لیکن ان کہانیوں سے بھی زیادہ پر اسرار کہانیاں ان کے شہر کی کئی بڑی جگہوں پر سیاست دانوں، تاجروں اور ہوٹلوں میں جانے سے متعلق تھیں اور یہ بھی ان کی آمدنی کا ذریعہ اور اس دلال کے ہفتے اور اس کے ذریعے پولس والوں کی مستقل کمائی کا ذریعہ بن چکا تھا – یہاں کوئی نہیں چاہتا تھا کہ یہ واپس جائیں اور اس طرح وہ یہاں کی زندگی میں رچ بس گئے تھے-
رخسانہ بھی انہیں جادو گرنیوں میں ایک تھی- اس کا جادو اس کی آنکھوں میں نہیں تھا جو اس کے بس میں ہوتا – اس کا جادو تو اس کے پورے وجود میں تھا جسے وہ قید نہیں کرسکتی تھی اور نتیجے کے طور پر اس کا وجود ہی اس کا دشمن بن گیا تھا – ایک تندرست بکرا، ایک فربہ مرغ یہاں تک کہ ایک لمبے دانتوں والا ہاتھی بھی اپنے جسم کی وجہ سے مارا جاتا ہے – اس کی جان کو کوئی نہیں دیکھتا – اور اس بستی میں خوب صورت عورتوں کی حیثیت بھی یہی تھی –
رخسانہ ایک دن یونہی بغیر دوپٹے کے اپنی جھگی سے نکل کر سامنے کی دکان سے کچھ سامان خرید کر لانے جارہی تھی کہ ادھر سے اپنے دوست کے ساتھ کچھ گپ شپ کرتے گزرتے ہوئے سلامو دادا کی اٹھی ہوئی نظر اس پر پڑی اور پڑتے ہی ایسے ٹک گئی کہ اس کے منھ سے نکلتا ہوا جملہ اندر ہی اٹک گیا – اس کی نظریں رخسانہ کے قدموں کے ساتھ چند قدموں تک اس کا تعاقب کرنے کے بعد واپس آگئیں اور اس کے منھ میں اٹکا ہوا جملہ نئے سرے سے باہر آیا لیکن جملہ اچانک سنجیدہ ہوگیا تھا –
کوئی چالیس کی لپیٹ کے سلامو نے جھگیوں میں اپنی بہت مستحکم جگہ بنا رکھی تھی – اس نے جھگیوں کو انہدام سے بچانے کے لئے جھگیوں کے درمیان ایک مسجد بنوانے میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور یہاں نئی جھگیاں ڈالنے کے لئے پولس والوں سے اجازت بھی وہی دلواتاتھا – وہ صبح کی نماز پڑھنے بڑے پابندی سے جاتا تھا – کچھ دنوں بعد اس نے داڑھی بھی رکھ لی تھی اور لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لئے مسجد میں ہی ایک ایسے امام کو بھی رکھ دیا تھا جو عربی جانتا تھا – تھوڑے دنوں بعد اس نے کوشش کرکے اپنے ماتھے پر نماز کا ایک اچھا خاصا نشان بھی بنا لیا تھا – رمضان کے مہینے میں روزے بھی پابندی سے رکھتا تھا اور روزے نہیں رکھنے والوں کو ٹوکتا بھی تھا –
رخسانہ دیر تک اس کے ذہن میں اس کے ساتھ جاتی رہی –
اگلے ہفتے رخسانہ چوزوں کے شوقین سب انسپکٹر رندھاوا کے کمرے میں پہنچ چکی تھی – رندھاوا کو اس کے اندر کچھ ایسی لذت ملی کہ اس نے کئی دنوں کے لئے اسے اپنے کھونٹے سے باندھ لیا اور اس کے بعد گرمیاں منانے دہرادون گیا تو اسے ہی ساتھ لیتا گیا – رخسانہ کے اندر کچھ ایسی پراسرار فطری لذت اور دل کشی تھی کہ اس کا وجود مہینوں اور پھر برسوں اسی سفر پر رہا – اس دوران بڑھتی عمر کے ساتھ اس کے نقوش اور خدو خال اور بھی ابھرے اور وہ اب کچھ دوسرے مزاج کے نئے لوگوں کی مرغوب بن گئی – اس کا سارا آنا جانا سلامو کی خاص ذاتی نگرانی میں ہوتا تھا – اور سلامو اسے صرف ضروری اور ان مخصوص جگہوں پر ہی بھیجتا تھا جہاں بھیجنے کی اسے اوپر سے ہدایت ہوتی تھی-
شام ہوتے ہی اپنے ایک بڑے سے پرس جیسے بیگ میں اپنے سینڈل اور کپڑے لئے گھر سے نکل کر کچھ دور کھڑی ایک چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھ کر چلے جانا اور رات کے کسی وقت دھیرے سے اپنی جھگی کے اندر آکر سوجانا اور دن چڑھے تک آرام کرنا اس کا مشینی روٹین بن گیا – ان برسوں میں اسے کئی بار اسقاط کے لئے عالیشان اسپتالوں میں بھی لے جایا گیا – ایک دو بار ایڈز کا ٹسٹ بھی کرایا گیا اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب سیکھ کر وہ اور بھی اسمارٹ لگنے لگی – سلامو نے اسے کچھ دنوں کے لئے انگریزی بولنا سکھانےوالے کے حوالے کردیا اور وہ دس بیس چلتے پھرتے ہیلو ہائے کے جملے بھی خوب صورتی سے بولنے لگی – ان تمام باتوں نے اسے جھگی والیوں سے مکمل طور پر مختلف بنا دیا لیکن اسے اپنے کو جھگیوں میں جھگی والی بنا کر ہی رکھنا پڑتاتھا – سلامو اس کی دیکھ ریکھ بہت دھیان سے کرتا تھا اور چوں کہ وہ اس کی بھت ہی فرماں بردار تھی اس لئے اس کے موڈ کو ٹھیک رکھنے کے لئے اس سے ہمیشہ بہت محبت سے پیش آتا تھا –
اچھے کھانے اور پینے کے انتظامات نے اس کے حسن کو اور نکھارا –
ایک دن کسی وجہ سے جس کا اندازہ خود رخسانہ کو بھی نہیں ہورہا تھا اس کا موڈ آف ہورہا تھا اور دل بڑا اداس تھا – سلامو نے اس کے اس موڈ کو دیکھا تو راستے میں ہی ماروتی روک لی –
کیا بات ہے – بہت خاموش ہو –
وہ کچھ نہیں بولی –
سلامو کچھ پئے ہوا تھا – باہر رات کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی- اور چاندنی پورے آب و تاب سے نکلی ہوئی تھی – سلامو نے سوچا پہلے رخسانہ کا موڈ ٹھیک کرلے ورنہ وہ ایسی ہی رہ گئی تو سارا کام خراب کردے گی – وہ گاڑی سے اتر گیا اور رخسانہ کا بازو پکڑ کر اسے بھی گاڑی سے نیچے آنے کے لئے کہا –
کیوں –
آؤ، تمہیں ٹھنڈی ہوا کھلا کر لاتے ہیں – وہ اسے لے کر جمنا کے کنارے چلا گیا – وہاں کچھ بڑے بڑے پتھروں کا ڈھیر تھا جو کبھی باندھ بنانے کے لئے آیا تھا اور بچنے کی وجہ سے یہیں پڑا رہ گیا تھا – وہ رخسانہ کو لے کر انہیں پتھروں پر بیٹھ گیا – دور دور تک شہر کی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں لیکن قریب تر علاقوں میں اونچے اونچے پیڑوں کے جھنڈ تھے – سامنے جمنا کا پانی دھیرے دھیرے بہ رہا تھا –
سلامو نے رخسانہ کو اپنی گود میں لے لیا – اسے گود میں اس طرح جانے کی تو عادت ہی پڑ چکی تھی – لیکن سلامو نے اسے عجیب رومانٹک اندا زمیں چھیڑ دیا –
تم کو دیکھ کر میں تم میں کھو جاتا ہوں –
تو پھر مجھے یہاں وہاں لے کر کیوں جاتے ہو –
وہ اور بات ہے – لیکن مجھے تم سے بہت پیار ہے –
وہ سلامو کو دیکھتی رہی – چپ چاپ- گم سم –
میں تمہیں بہت چاہتا ہوں –
یہ جھوٹ ہے – تم کو کسی سے پیار ہوہی نہیں سکتا – تم بہت کٹھور ہو –
کیوں –
یہ تم جانتے ہو – تم قصائی کا کام کرتے ہو –
نہیں یہ قصائی کا کام تو نہیں ہے –ایک دھندہ ضرور ہے –
میں اس کی بات نہیں کر رہی ہوں – وہ جو تم لوگوں کو بارڈر پار بھیجتے ہو – سچ پوچھو تو مجھے تم سے ڈر لگتا ہے کہ تم کب مجھ سے کسی بات پر ناراض ہوجاؤ اور میرا بھی نمبر لگا دو-
اور رخسانہ جو چاہتی تھی وہی ہوا –
میں تمہارا نمبر کبھی نہیں لگاؤں گا –
سلامو نے رخسانہ کو آغوش میں لیتے ہوئے ایک بوسہ دے کر کہا –
سلامو کے اس وعدے نے رخسانہ کے دل سے ایک ایسا دیرینہ خوف دور کیا کہ اس نے اندر سے ایک خوش گوار موڈ کو محسوس کیا اور سلامو کے سینے سے لگ گئی-
تھوڑی دیر بعد اس کا موڈ بالکل ٹھیک ہوچکا تھا اور وہ وہاں سے اٹھ کر گاڑی میں چلے گئے – آگے راستے بھر رخسانہ اپنے اندر بیٹھے ہوئے اس خوف سے مکمل آزادی کوآنکھیں بند کرکے محسوس کرتی رہی –
اس دن سلامو دراصل اسے کسی گراہک کے پاس نہیں بلکہ ایک اسٹوڈیو میں فوٹوگرافی کے لئے لے گیا – اسٹوڈیو میں اس کا پورا پروفائل بنا – اس کے چہرے پر ایک عجیب رونق تھی اور انداز میں جنسی کشش عود کر آئی تھی – فوٹو گرافر نے اس کے طرح طرح کے فوٹو لئے – وہ رفتہ رفتہ اس کے کم سے کم لباس میں مختلف جنسی پوز میں تصویریں لیتا گیا تھا –
اس کے بعد ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ جھگیوں میں ایک عجیب سی سنسنی پھیلی – رخسانہ کا پورا پروفائل کال گرلس کے پورٹل پر کسی نے انٹرنیٹ پر دیکھا تھا اور چپکے چپکے کئی لوگوں کو دکھایا تھا – رخسانہ دیکھتے ہی دیکھتے جھگی بستیوں کی ایک بدنام کردار بن گئی – جب سلامو کو اس بات کا پتہ چلا تو اسے یہ بات عجیب سی لگی – جھگیوں میں اس کے اوپر انگلی اٹھنے لگی – کسی نے اس سے اس بات کا ذکر کرکے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اس کا اس پر کیا رد عمل ہے – اس نے خلاف توقع صاف صاف اپنا دامن بچا لیا اور بظاہر رخسانہ کا مخالف بن گیا – اس کے بعد اس نے رخسانہ سے زیادہ دوری اختیار کرلی اور اسے کہیں بھیجنا بند کردیا – اس نے جھگیوں کو بدنام کرنے کی پوری ذمہ داری رخسانہ پر ڈال دیا –
رخسانہ اب گھر پر ہی رہنے لگی – اس کی ماں نے اس کے وہ سارے کپڑے جنہیں وہ اپنے بیگ میں رکھ کر لے جاتی تھی، ایک دن جلا دئے اور اسے کالونی کے ایک گھر میں کام پر لگا دیا – لیکن اب شاید اس کی تقدیر کا ستارہ زوال پر تھا – وقت گزرتا رہا –اور انہیں دنوں میں وہ ایک بار سردی کھانسی میں مبتلا ہوئی تو کافی دنوں تک ٹھیک نہیں ہوئی – کئی بار طبیعت زیادہ مضمحل ہونے کی وجہ سے وہ کام پر نہیں جاتی اور دروازے پر ہی ادھر ادھر بیٹھی وقت کاٹتی رہتی – بیٹھی بیٹھی وہ اکثر ان جھگیوں پر نظر ڈالتی – اب وہ بیگ لے کر سر شام نکنے والی لڑکیوں کو پہچاننے لگی تھی –
ایک دن سبزی کاٹتے ہوئی چاقو سے اس کی انگلی زخمی ہوگئی – اس نے ڈیٹول لگاکر اس پر روئی لپیٹ لی لیکن حسب توقع زخم ٹھیک نہیں ہوا – جب زخم کئی دنوں تک رہ گیا تو اس نے جھگیوں میں ہی علاج کرنے والے ڈاکٹر کو دکھایا – اورکئی روز تک ٹھیک نہ ہونے کے بعد ڈاکٹر نے اسے ایک ٹیسٹ کرنے کے لئے بھیجا – اسے ایڈز ہوچکا تھا – اس کی صحت دن بدن گرتی گئی- اس کی بیماری کی خبر جب اوروں کوہوئی تو وہ اور بھی تنہا ہوگئی – وہ اب زیادہ تر جھگی کے اندر ہی چارپائی پر اپنا وقت کاٹنے لگی –
اور انہی دنوں کی بات تھی جب سلامو نے اگلے مہینے کے لئے اس کا نمبر لگا دیا تھا – گھر والوں کو معلوم ہوچکا تھا لیکن اسے کسی نے نہیں بتایا تھا- اسے تو تب اندازہ ہوا جب ایک صبح دو پولیس والے اس کی جھگی پر پہنچ کر اسے آواز دینے لگے –
وہ باہر نکلی تو دیکھا پولس والے کھڑے ہیں –
چلو تیار ہوجاؤ.
لیکن میرے پاس کپڑے نہیں ہیں –
کیوں – تو اتنی جلدی مفلس ہوگئی – تمہارے وہ سب کپڑے کیا ہوگئے ؟
وہ سب ماں نے جلا دئے –
اچھا – چل- اسی لباس میں چل – گھر والوں سے مل لے –
وہ ہکا بکا دیکھنے لگی –
ارے تجھے کسی نے بتایا نہیں – بارڈر پار ہونا ہے –
رخسانہ نے سپاہیوں کو ایسے دیکھا جیسے اس کی آنکھیں چہرے سے کئی انچ آگے تک پہنچ گئی ہوں – نقاہت کی وجہ سے اس سے ویسے ہی کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا – اسے تو کسی نے یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ ایڈز کی مریضہ ہوگئی تھی – وہ تو اپنی صحت کے بہتر ہونے کی امید میں بیٹھی زندگی کے دن کاٹ رہی تھی – سامنے سے جھگیوں کی تین لڑکیاں ایک ساتھ ہاتھوں میں بیگ لئے اپنی جھگیوں کی طرف جارہی تھیں –
اب تک رخسانہ کی سمجھ میں آگیا تھا کہ وہ زندگی میں کہاں کھڑی ہے – اس کے پاؤں لرزنے لگے اور ذہن میں اس کی اپنی خوف ناک صورت حال اپنے تمام سیاق و سباق کے ساتھ ابھرنے لگی –
اس کی پیدائش سے کچھ برس پہلے اس کے ماں باپ اور ان جھگیوں کے دوسرے بنگلہ دیشی روزی کی تلاش میں اپنے ملک سے ہجرت کرکے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے اور رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھتی ہی گئی – ان کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی یہ لوگوں کی نظر میں آتے آتے سیاست کا ایک موضوع بن گئے – ان کو لے کر ایوان حکومت میں سوال اٹھنے لگے اور مقامی حکومت کو ہدایت ہوئی کہ ایسی آبادی کی نشان دہی کرکے ان کو فوراً ان کے ملک میں واپس بھیجا جائے –
اس فیصلے کے بعد سیاست تو منھ اٹھا کر کہیں اور چل پڑی لیکن اس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے پولیس کو احکامات جاری ہوگئے – یہ احکامات فائلوں میں پڑے تھے کہ کسی نے ایوان حکومت میں ایک دن ان احکامات پر ہوئی کاروائی کے بارے میں پوچھ لیا – تب اچانک کچھ مہاجرین کی دھر پکڑ ہوئی اور اس کی رپورٹ حکومت کو بھیج دی گئی – اس سے پہلے کچھ نہ کرنے کو لے کر افسروں کے خلاف تادیبی کاروائی بھی ہوگئی- ایسی ناخوش گوار کاروائی مستقبل میں نہ ہو اس کے لئے متعلقہ سینیئر افسر نے زبانی احکامات جاری کردئے کہ ہر ماہ دوچار لوگوں کو پکڑ کر واپس بنگلہ دیش بھیجا جائے – اس کام کو پابندی سے کرنے اور اس کا ریکارڈ رکھنے کے لئے تاکہ جب بھی ایوان میں سوال اٹھے تو تعمیل کی رپورٹ بھیجی جاسکے دفتر میں باقاعدہ ایک فائل کھول دی گئی-
جس تھانے میں یہ علاقہ آتا تھا اس کے ایک حولدار کی جس کی تعیناتی اس علاقہ میں تھی یہ ڈیوٹی لگ گئی کہ ہر ماہ وہ تین چار بنگلہ دیشیوں کو پکڑ کر حراست میں لے اور ان کو واپس بھیجنے کی قانونی کاروائی کرکے ان کو بنگہ دیش کی سرحد کے اندر چھوڑ کر آئے –
بنگلہ دیش کے اندر چھوڑ کر آنے کے اس عمل کے بارے میں بہت دہشت ناک اور پراسرار کہانیاں پھیلی ہوئی تھیں – یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ جب بھی اس ملک سے اس ملک میں یا اس ملک سے اس ملک میں کسی کو واپس بھیجا جاتا تھا تو اس کے کچھ دور جانے کے بعد ان پر رائفل سے نشانہ بازی کی جاتی تھی اور نتیجتا کوئی بھی اپنے گھر کبھی نہیں پہنچتا تھا – اس طرح کسی بھی بنگلہ دیشی کے حراست میں لئے جانے کا عملی معنی موت کے پروانہ کا آنا تھا – اور اب ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو تین چار لوگوں کے لئے اس طرح کے پروانے کا آنا لازمی ہوگیا تھا – ہر مہینے ایسے بدقسمتوں کے انتخاب کا اختیار حولدار نے انہیں بنگلہ دیشیوں کے درمیان کے اس تیز طرار آدمی سلاموکو دے رکھا تھا جو ان جھگیوں میں ہونے والے تمام جرائم کا سرغنہ اور پوری بستی کا مخبر تھا –
یہ سرغنہ جو شروع میں چھوٹے موٹے جرم کرتا تھا اور جسے اس بستی والے صرف ایک ایسا تیز طرار آدمی سمجھتے تھے جو پولیس سے متعلق تمام معاملات دیکھتا تھا اور سب کی طرف سے ہفتہ وصول کر دیتا تھا وہ اچانک سب کی زندگیوں کا مالک بن گیا – اور اس کے بعد اس کے تیور بھی بدل گئے –اب وہ جھگی والوں سے بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھنے لگا اور اس کی خوشنودی سب کا مقدر بن گئی –
لیکن ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو یہاں سے تین افراد کا بلی چڑھنا اب ان کی بستی میں گردش کرنے والا ٹیرر بن گیا- وہ دلال جس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا تھا اسے ہی جانا پڑتا تھا – اس انتخاب کا انحصار عموما سزا کے طور پر ہوتا تھا جیسے کسی نے دلال کی بیگار کرنے سے انکار کردیا، کسی نے اپنی بیٹی کو اس کے ساتھ بھیجنے میں رد و کد کی ، کسی کے خلاف کسی نے پیسے دے کر سازش کردی اس سزا و جزا کے اختیارکی بنیاد پر پر اب دلال کی پوری حکومت قائم تھی اور ایسی حکومت کہ کوئی اپنے لب تک ہلانے کی جرات نہیں کرسکتا تھا –
کئی بار اس آبادی کے لوگوں نے سوچا کہ وہ واپس چلے جائیں لیکن ان کی بستی کے انچارج نے ان کی پوری فہرست بنا رکھی تھی اور لوگوں کے اس ارادے کی خبر ہونے کےبعد اس نے ان کو وارننگ دے رکھی تھی کہ اگر کسی نے ایسی کوئی کوشش کی تو وہ بورڈر تک سے ان کو پکڑ کر لائے گا اور پھر سب کا ایک ساتھ وہی حشر ہوگا جو ابھی ایک ایک کرکے ہورہاتھا – بالآخر انہوں نے طے کیا کہ وہ کم از کم ہر مہینہ تین چار بچے پیدا کرتے رہیں اور اس طرح اپنی آبادی کو زندہ رکھیں –
رفتہ رفتہ ادھر ملک کے حالات ایسے ہوگئے تھے کہ بار بار ان بنگلہ دیشیوں کو پکڑنے کے احکامات صادر ہونے لگے اور ان کو ملک بدر کرنے کے عمل کو پابندی سےفائلوں پر دکھانا ضروری ہوگیا –
اب مہینے کی پہلی تاریخ ایک دہشت کی علامت بن کر سب کے ذہنوں میں بس گیی تھی –
لوکل پولس کو ہر مہینے تین بنگلہ دیشیوں کو پکڑ کر پیش کرنے کی ڈیوٹی لگ گئی تھی –
مہینے کی پہلی تاریخ کو جس کو پکڑا جاتا تھا اس کی گرفتاری کو سزائے موت سمجھا جاتا تھا –
کبھی کبھی یہ انتخاب پہلے ہی کر کے بتا دیا جاتا تھا اور اس سے بچنے کے لئے رشوت کے طور پر پیسے لئے جاتے تھے یا عورتوں اور نوخیز لڑکیوں کو عیاشیوں کے لئے بلا لیا جاتا تھا اور نام بدل دئے جاتے تھے–
سلامو ان سب کی زندگی اور موت کا مالک بن بیٹھا تھا –اس کا چہرہ ایک ٹیرر بن کر لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیا تھا اور اس کے سامنے ان بنگلہ دیشیوں کی حالت کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر ہوگئی تھی – وہ خدا کی بنائی ہوئی زمین پر ہوتے ہوئے بھی انسان سمجھے جانے کے حق سے محروم تھے –
رخسانہ اب ایڈز کی مریضہ ہوچکی تھی اور یہ بات خود اس کے علاوہ سب کو معلوم ہوچکی ہے – وہ اب بیمار ہوکر بستر پر گر چکی تھی –
اس کا دماغ شل ہوگیا تو اس کو تب ہوش آیا جب ایک کانسٹبل نے کہا –
چل جلدی کر – جلدی مل ملا لے –
وہ کسی سے کیا مل ملا لے ؟؟؟؟
ماں، ایک بار سلامو کو بلا دو- اس نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا-
ہوسکتا ہے میرا نام نہیں ہو- میرا نام ہوہی نہیں سکتا –
رخسانہ نے سوچا-
بھول جا –
وہ نہیں آئے گا –
کیوں –
وہ فیصلے کے بعد کسی سے نہیں ملتا – تم سے مل کر وہ کیا کرے گا – کسی اور کا نام دینا پڑے گا – تیرے لئے وہ کسی اور کا نام کیوں دے گا-
رخسانہ نے سامنے کھڑے تماشہ دیکھتے ہوئے ایک لڑکے کو بلاکر اس کے کان میں کچھ کہا اور لڑکا تیزی سے بھاگا-
سپاہی نے اس کے کمزور و نحیف جسم کو دیکھتے ہوئے کہا –
آرڈر ہوچکا ہے – یہ دیکھ –
سپاہی نے جیب سے ایک پرنٹیڈ کاغذ پر لکھا ہوا اس کا نام دکھایا –
یہ دیکھ – رخسانہ ولد زین العابدین
وہ انگریزی کے حروف پڑھنا تو سیکھ ہی گئی تھی – کاغذ پر اس کا نام اور اس کی ولدیت لکھی ہوئی تھی –
اسی اثنا میں چائے والا لڑکا سپاہیوں کے لئے چائے لے کر آگیا – سپاہیوں نے چائی کی پیالیاں ہاتھوں میں پکڑیں اور پھر کچھ دور رکی ہوئی جیپ کی طرف اشارہ کیا – چائے والا لڑکا چائے کی کیتلی لے کر تیزی سے جیپ کی طرف بھاگا –
رخسانہ نے نظر اٹھا کر ادھرادھر دیکھا – جیپ میں آگے وہی سب انسپکٹر بیٹھا تھا جس کے پاس سلامو اسے سب سے پہلے لے کر گیا تھا – رخسانہ کو پوری دنیا انسانوں کی روح سے خالی لگی – اس کے ذہن میں چھوٹے بڑے پولس افسر، مجسٹریٹ اور منسٹروں کے کئی وہ چہرے گھوم گئے جنہیں اس نے انتہائی قریب سے دیکھا اور سنا تھا – ان کی صحبت میں کافی عرصہ رہنے کی وجہ سے اس کو اتنا تو اندازہ تھا ہی کہ یہ حکم نامہ انہی تمام لوگوں کے دستخطوں کا نتیجہ تھا –
سامنے کھڑے دونوں سپاہی جھگی والوں کے ذریعےجلدی سے لاکر لگائی گئی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ کر چائے پینے لگے اور رخسانہ کے چلنے کےانتظار میں دوسروں سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے – وہ ہمیشہ یہاں سے لے جائے جانے والوں کو ملنے ملانے کے لئے پورا وقت دے کر اور بلاکر ہی لے جایا کرتے تھے – کبھی کسی کو پکڑ کر یا کھینچ کر نہیں لے جاتے تھے – یہاں سے ہر مہینے کی پہلے تاریخ کو جانے والوں کی وداعی ایک رسم سی بن گئی تھی جس کا وہ خاصا خیال رکھتے تھے – اسی اثنا میں ہمیشہ کی طرح جھگیوں کی آدھی آبادی وہاں آبھی چکی تھی-
جس لڑکے کو رخسانہ نے کچھ کہہ کر بھیجا تھا وہ واپس آرہا تھا – رخسانہ اسے دھیان سے دیکھنے لگی – قریب آیا تو رخسانہ نے اس سے پوچھا
کیا ہوا ؟
سلامو دادا نے کہا کہ وہ نہیں آئیں گے –
اس کے بعد صرف چند سکنڈوں میں رخسانہ کا چہرہ پوری طرح پیلا پڑ چکا تھا – وہ جھگی کے اندر گئی- اور پھر اچانک جھگی سے آگ کی لپٹیں اٹھنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جھگی کے ساتھ رخسانہ بھی بھن کر راکھ میں مل گئی تھی – تھوڑی دیر بعد وہاں بس سپاہی تھے، سلامو تھا، بھیڑ تھی اور جھگی سے اٹھتی آگ کی لپٹیں تھیں –