مصنف : لیو ٹالسٹائی (روس)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
کچھ مہمان ایک امیر گھر میں جمع تھے ۔ زندگی کے بارے میں سنجیدہ گفتگو ہو رہی تھی ۔وہ موجود اور غیر حاضر،سب کے حوالے سے بات کر رہے تھے ۔
نہ تو کوئی شخص اپنے خوش رہنے کی شیخی بھگار رہا تھا اور نہ ہی کوئی ایک بھی شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک عیسائی کے طور پر زندگی گزار رہا ہے ۔ سب نے اعتراف کیا کہ وہ دنیاوی زندگی گزار رہے تھے جس میں وہ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں ہی فکر مند تھے ۔ان میں سے کوئی بھی خدا تو دور کی بات اپنے ہمساۓ کے بارے میں بھی متفکر نہیں تھا ۔
اس بات پر سب متفق تھے اور اپنے آپ کو بغیر خدا کے غیر مسیحی زندگی گزارنے پر مورد الزام ٹھہرا رہے تھے ۔
“ تو پھر ہم کیوں ایسی زندگی گزار رہے ہیں ؟ “ ایک نوجوان نے استفسار کیا ۔ “ ہم وہ کیوں کر رہے ہیں جسے ہم پسند نہیں کرتے ۔ ؟ کیا ہم اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ بدلنے کا اختیار نہیں رکھتے ؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اپنی عیاشی,بزدلی ،اپنی امارت اور سب سے بڑھ کر اپنے تکبر ——-اور اپنے دوستوں سے علیحدگی سے برباد ہو رہے ہیں ۔ عالی مرتبہ اور امیر ہونے کے لئے ہم اپنے آپ کو اس سب سے محروم کر دیتے ہیں ،جس سے آدمی کو خوشی ملتی ہے ۔ ہم شہروں میں بھیڑ کرتے ہیں ، نامرد ہو جاتے ہیں ،اپنی صحت تباہ کر لیتے ہیں ,اپنی تمام تر تفریحات کے باوجود بیزاری سے اور اس تاسف میں کہ ہماری زندگی ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے ،مر جاتے ہیں ۔
ہم ایسے کیوں رہتے ہیں ؟ ہم کیوں اپنی زندگی اور جو اچھائی خدا نے ہمیں دی ہے کو برباد کر دیتے ہیں ؟ میں اس پرانی طرز پر زندہ رہنا نہیں چاہتا ۔میں اپنی پڑھائی جو میں کر رہا ہوں چھوڑ دوں گا ۔ یہ مجھے اسی ازیت دہ زندگی تک لے جاۓ گی جس کی ہم سب شکایت کر رہے ہیں۔ میں اپنی جائیداد چھوڑ دوں گا ،گاؤں چلا جاؤں گا اور غرباء کے ساتھ رہوں گا ۔میں ان کے ساتھ کام کروں گا ،اپنے ہاتھ سے مزدوری کرنا سیکھوں گا ،اور اگر میری تعلیم کا غریبوں کو کوئی فائدہ ہوا تو میں اسے ان کے ، کتابوں اور اداروں کے زریعے نہیں بلکہ براہراست ان کے ساتھ رہ کر برادرانہ طور پر بانٹوں گا ۔ “
“ میں نے ارادہ کر لیا ہے ،” اس نے اپنے والد کی طرف جو وہیں موجود تھا استفسار یہ انداز میں دیکھتے ہوے اضافہ کیا ۔
اس کے والد نے کہا “ تمہاری خواہش بہت عمدہ ہے لیکن سوچ بچار کے بغیر اور عقل و فہم سے عاری ہے ۔ تمہیں یہ سب کچھ آسان لگ رہا ہے اس لئے کہ تم زندگی کو نہیں جانتے ۔ بہت سی چیزیں ہمیں اچھی لگتی ہیں ،لیکن ان کی تکمیل مشکل اور پیچیدہ ہوتی ہے ۔ ایک پامال رستے پر چلنا مشکل ہے لیکن نیا رستہ بنانا مشکل تر ہے ۔نئے رستے وہی مرد بناتے ہیں جو مکمل پختہ کار اور ہر قابل حصول چیز میں مہارت حاصل کر چکے ہوتے ہیں ۔ تمہیں نئے رستے بنانا اس لئے آسان لگ رہا ہے کہ تم زندگی کو نہیں سمجھتے ۔یہ محض کم فہمی اور جوانی کا تکبر ہے ۔ ہم پرانے لوگوں کو تمہاری جلدبازی کو اعتدال میں رکھنے کے لئے اور اپنے تجربات سے تمہاری راہنمائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اس تجربے سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تم نوجوانوں کا ہمارا فرماں بردار ہونا ضروری ہے ۔ تمہاری فعال زندگی تمہارے سامنے ہے ۔تم ابھی بڑھے ہو رہے ہو اور ترقی کر رہے ہو ۔اپنی تعلیم مکمل کرو ، چیزوں کے اچھی طرح واقف ہو جاؤ ، اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ ،اپنے عقائد پختہ کر لو تب نئی زندگی شروع کرنا اگر تم نے سمجھا کہ تم میں ایسا کرنے کی ہمت ہے ۔ لیکن فلحال تم ان کی تابعداری کرو جو تمہارے فائدے کے لئے تمہاری راہنمائی کر رہے ہیں اور زندگی کی نئی راہیں کھولنے کی کوشش مت کرو ۔ “
نوجوان خاموش ہو گیا اور باقی تمام پختہ عمر مہمان والد کے ساتھ متفق تھے ۔
ایک ادھیڑ عمر شادی شدہ شخص نے نوجوان کے والد کی طرف مڑتے ہوے کہا ،” تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ یہ درست ہے کہ ایک لڑکا زندگی کے تجربات سے نابلد زندگی کی نئی راہیں کھوجتے وقت حماقتیں کر سکتا ہے اور اس کے فیصلے دیرپا نہیں ہو سکتے ۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہم زندگی اپنے ضمیر کے خلاف گزار رہے ہیں جس سے ہم خوش نہیں ہیں ۔اس لئے ہمیں اس سے بچنے کی خواہش کو تسلیم کرنا ہو گا ۔
جوان اپنی پسند سے نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کر سکتا ہے ۔ لیکن میں جو اب نوجوان نہیں ہوں ،اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ آج شام کی گفتگو سننے کے بعد یہی سوچ میرے اندر بھی پیدا ہوئی ۔ میرے لئے یہ بلکل واضح ہے کہ جو زندگی میں گزار رہا ہوں مجھے ذہنی سکون یا خوشی نہیں دے سکتی ۔ تجربہ اور دلیل یکساں طور پر مجھے یہی سمجھاتے ہیں ۔ تو پھر میں کس کا انتظار کر رہا ہوں ؟ ۔ہم صبح و شام اپنے خاندانوں کے لئیے جدوجہد کرتے ہیں ،لیکن پتہ یہ چلتا ہے کہ ہم اور ہمارے خاندان لادینی زندگی گزار رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ گناہوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں ۔ ہم اپنے خاندانوں کے لئے کام کرتے ہیں لیکن ہمارے خاندان بہتر نہیں ہیں ۔ اس لئیے کہ ہم ان کے لئے صحیح کام نہیں کر رہے۔اس لئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ بہتر ہوگا اگر میں اپنی زندگی گزارنے کا ڈھب مکمل طور پر بدل دوں اور اس نوجوان کے تجویز کردہ طریقے پر عمل کروں ۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے پریشان ہونا چھوڑ دوں اور اپنی روح کے بارے میں سوچوں ۔ پال نے بلاوجہ نہیں کہا : “وہ جو شادی شدہ ہے وہ بیوی کو خوش رکھنے کا دھیان کرتا ہے ،لیکن جو مجرد ہے وہ خدا کو خوش رکھنے پر دھیان دیتا ہے ۔ “ قبل اس کے کہ وہ اپنی گفتگو کا اختتام کرتا اس کی بیوی اور تمام موجود خواتین نے اس پر ہلہ بول دیا ۔” تمہیں اس کے بارے میں پہلے سوچنا چاہیے تھا ،” ایک پختہ عمر عورت بولی ۔ “ تم نے غلامی کا طوق پہنا ہے اب اس کا بوجھ بھی تم نے ہی اٹھانا ہے ۔ اس طرح تو ہر کوئی جب اسے اپنے خاندان کو پالنا مشکل لگے گا تو کہے گا کہ وہ اپنی روح کی حفاظت کے لئے جانا چاہتا ہے ۔یہ جھوٹ اور بزدلی ہے ۔ آدمی کو اپنے خاندان کے ساتھ ہی دینی زندگی گزارنے کے قابل ہونا چاہیے ۔ بے شک صرف اپنی روح بچانا زیادہ آسان ہے لیکن ایسا کرنا مسیح کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔خدا ہمیں دوسروں سے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے ،لیکن اس طریقے سے تم اس کے نام ہر دوسروں کو ناخوش کردو گے ۔ شادی شدہ شخص کی مخصوص زمہ داریاں ہیں وہ ان سے پہلو تہی نہیں کر سکتا ۔ ہاں جب آپ کا خاندان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو تو بات مختلف ہے ،تب تم جو چاہو اپنی خوشی کے لئے کر سکتے ہو ۔ لیکن کوئی آپنے خاندان کو مجبور نہیں کر سکتا ۔ “
لیکن وہ شخص متفق نہیں ہوا ،” میں اپنے خاندان کو ترک نہیں کر رہا ،” اس نے کہا ،” میرے کہنے کا مطلب ہے کہ خاندان کو دنیاداری کے حساب سے نہیں پالنا چاہیے ۔ نہ ہی انہیں ان کی اپنی خوشی کے لئے پالنا چاہیے بلکہ جیسا کہ ہم ابھی کہہ رہے تھے انہیں شروع سے ہی ایسے پالا جاۓکہ وہ تنگ دستی ، مزدوری ،دوسروں کی خدمت گذاری بلکہ سب کے ساتھ برادرانہ زندگی گزارنے کے عادی ہو جائیں ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی امارت اور امتیازات چھوڑنے پڑیں گے ۔ “
جب آپ خود دینی زندگی نہیں گزارتے تو آپ دوسروں کو پریشان نہیں کر سکتے : اس کی بیوی چڑچڑاہٹ سے بولی ۔ جب آپ جوان تھے تو آپ اپنی خوشی کے مطابق رہے تو اب تم کیوں اپنے بچوں اور خاندان کو ازیت دینا چاہتے ہو ۔ ؟ انہیں آرام سے بڑھنے د و اور بعد میں جو ان کی خوشی ہو بغیر جبر کے کرنے دو ۔
اس کا خاوند خاموش ہو گیا لیکن وہاں موجود ایک اور بزرگ شخص نے اس کی جگہ جواب دیا ۔ اس نے کہا ، “ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ایک شادی شدہ شخص جس نے آپنے خاندان کو ایک خاص حد تک آسائش کا عادی کر دیا ہو یک دم انہیں اس سے محروم نہیں کر سکتا , یہ بھی صحیح ہے کہ اگر آپ نے بچوں کو تعلیم دلوانی شروع کی ہے تو بہتر ہے کہ ہر چیز سے قطع تعلق کرنے کی بجاۓاسے مکمل کریں ۔ جب بچے بڑے ہوجائیں گے تو جو انہیں بہتر لگے گا اس کا انتخاب کر لیں گے ۔ میں اس بات سے بھی متفق ہوں کہ بال بچوں والے شخص کے لئے اپنا طرز زندگی بدلنا گنہگار ہوے بغیر نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔ لیکن ہم بوڑھوں کے لئے یہی خدا کا حکم ہے ۔ مجھے اپنے بارے میں کہنے کی اجازت دیجئے : میرے اوپر اس وقت کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اگر سچ کہوں تو صرف اپنے پیٹ کے سوا ۔ میں کھاتا پیتا ہوں ،آرام کرتا ہوں ، اور اپنے آپ سے متنفر اور بیزار ہو رہا ہوں ۔ اس لئے میرے لئے اب وقت ہے کہ میں یہ طرز زندگی ترک کر کے اپنی جائیداد خیرات کر دوں ، اور مرنے سے قبل کچھ عرصہ اس طرح جئیوں جیسے خدا ایک مسیحی کو زندہ رہنے کا حکم دیتا ہے ۔ “
لیکن باقی سب نے اس سے اختلاف کیا ۔وہاں اس کی بھتیجی اور دینی بیٹا بھی موجود تھے ۔ جن کے بچوں کا وہ کفیل تھا اور جنہیں چھٹیوں میں تحائف دیتا تھا ۔ اس کا بیٹا بھی وہاں موجود تھا ۔ انہوں نے احتجاج کیا ۔
“نہیں ،اس کے بیٹے نے کہا آپ نے اپنے وقت میں کام کر لیا ،اب یہ وقت آپ کے آرام کرنے اور اپنے آپ کو مشقت سے دور رکھنے کا ہے ۔آپ ساٹھ سال مخصوص عادات کے ساتھ رہتے رہے اب انہیں بدلنے کی ضرورت نہیں ،آپ بس اپنے آپ کو خوامخواہ تکلیف پہنچائیں گے ۔ “
“ بلکل ،بلکل درست ، اس کی بھتیجی نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوے کہا ,آپ کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی ،آپ کی طبیعت ناساز ہو سکتی ہے ،جس پر آپ بڑبڑائیں گے اور پہلے سے زیادہ گنہگار ہوں گے ۔خدا مہربان ہے ،وہ تمام گنہگاروں کو معاف کر دے گا ،اور آپ جیسے بوڑھے کو تو ضرور ہی ۔”
“ ہاں ،تم بھلا کیوں؟ “ ۔ایک اور اسی کے ہم عمر نے اضافہ کیا ،” میں اور تم اب کچھ عرصہ ہی مزید جئیں گے تو ہم کیوں نئے طور طریقے شروع کریں ؟ “
“ کتنی عجیب بات ہے ،” وہاں بیٹھے ایک اجنبی نے جو اب تک خاموش بیٹھا تھا ،وضاحت کی ،” کتنی عجیب بات ہے ،ہم سب کہتے ہیں کہ خدا کے بتاۓہوۓ طریقے سے جینا درست ہے اور ہم غلط زندگی گزار رہے ہیں اور بدنی اور روحانی اذیت برداشت کر رہے ہیں ،لیکن جونہی عمل کی بات ہوتی ہے تو فورا” کہا جاتا ہے کہ بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے اور ان کی خدا کے بتاۓہوے طریقے پر نہیں بلکہ پرانے انداز پر ہی پرورش کرنی چاہیے ۔جونواں کو اپنے والدین کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے ، خدا کے بتاۓگئے رستے پر ، لیکن پرانے انداز سے چلنا چاہیے ۔ شادی شدہ شخص کو اپنی بیوی بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے اور خدائی حکم پر نہیں بلکہ پرانے انداز سے جینا چاہیے ۔ اور بوڑھوں کو کوئی ایسا کام جس کے وہ عادی نہ ہوں ،شروع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے اب بہت تھوڑے دن زندہ رہنا ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی درست طرز زندگی نہیں گزارنی ،ہم بس صرف اس بارے میں گفتگو کر سکتے ہیں ۔
انگریزی میں عنوان:
A talk among leisured people
(یہ کہانی 1893 میں لکھی گئی ۔ آخری عمر کی کہانیوں میں سے ہے۔)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...