پاکستان میں سیلاب کی خبریں اور اس سے ہونے والی تباہی پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔ اس پر لکھتے ہوئے قلم ٹوٹ جاتا ہے مگر ظلم کی داستانیں، انسانوں کی نا اہلی، جھوٹے دعوے ، ہُلڑبازی اور میڈیا پر مرغوں کی لڑائی نہیں رکتی۔
سیلاب سے بستیاں اُجڑ گئیں، گھر تباہ ہو گئے اور مصائب کا ایک نا ختم ہوتا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سیلاب سے جہاں مرد متاثر ہوئے وہاں عورتیں، بچے اور معذور افراد بھی بے حد متاثر ہوئے کہ انکا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ فلاحی سرگرمیوں میں، خوراک، راشن اور دیگر ضروریات کے ساتھ ساتھ کیا خواتین اور بچوں کی عام و خاص ضروریات کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے ؟
یہاں میں کسی فلاحی کام کرنے والے ادارے یا شخص کی نیت پر بات نہیں کر رہا نہ ہی کوئی تنقید کیونکہ وہ جو کر رہے ہیں نہایت نیک نیتی اور بے لوث ہو کر کر رہے ہیں۔ میں محض اُنکی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرانے کی کوشش کر رہا ہوں جسے دیکھا ان دیکھا کیا جاتا ہے یا جسکے بارے میں تربیت نہ ہونے کے باعث سوچا ہی نہیں جاتا۔
سیلاب زدہ خواتین اور بچیوں کی ماہواری کے حوالے سے ضروریات بھی اہم مسئلہ ہے۔ اسکے علاوہ حاملہ خواتین کی زیادہ بہتر نگہداشت اور انہیں عام افراد سے زیادہ خوراک دینا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ کے علاوہ پیمپرز اور بچوں کی ادوایات بھی ضروری ہیں ۔ بالکل ایسے ہی بچوں کے لیے کھلونے یا اُنہیں مصروف رکھنے کے لیے سامان بھی اہم ہے تاکہ وہ کچھ لمحے اتنی بڑی قیامت سے گزرنے کے بعد سکون سے گزار سکیں۔ایسے ہی معذور افراد کی بھی اپنی خصوصی ضروریات ہوتی ہیں جن میں ویل چئیرز، سماعت اور بصارت کے آلات وغیرہ شامل ہیں۔
سیلاب صرف مردوں پر نہیں آیا۔اس میں عورتیں، بچے بوڑھے اور معذور افراد سب شامل ہیں ۔۔لہذا جو لوگ سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں اُنہیں چاہیئے کہ معاشرے کے اس طبقے کا بھی خاص خیال رکھیں جنکے حالات سیلاب سے پہلے بھی کچھ اچھے نہیں تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...