مصنفہ : اینا لیمکے
کتاب کا ریویو : ندا اسحاق
یہ ایک بہت ہی ضروری کتاب ہے، ہمارا دماغ ہی وہ اوزار ہے جس کے ذریعے ہم خود کو اور دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اس کی ساخت اور اسکے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنا نہایت اہم ہے۔ دماغ کی سائنس(neuroscience) نے پچھلے کئی سالوں میں بہت ترقی کی ہے جس سے کئی روایتی باتوں کا بھید کھلا ہے۔ اس کتاب میں لت (addiction) اور اسکا دماغ پر اثر بیان کیا گیا ہے، اس میں انزائٹی کا بھی ذکر ہے۔ چونکہ کتاب لکھنے والی اینا-لمبکی سائیکاٹرسٹ اور اسٹین فارڈ یونیورسٹی کی لت سے منسلک کلینک (addiction clinic) کی سربراہ ہیں تبھی ان کے پاس آنے والے افراد جن کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے وہ زیادہ تر امیر اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، مثلاً کمپیوٹر سائنسدان، سرجن اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ۔ لیکن اینا نے غربت اور اس سے منسلک مختلف لت کا شکار ہونے کا بھی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ اور جو بات مجھے اینا کی اچھی لگی وہ یہ کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں لت اور اس لت سے جان چھڑانے کے سفر کو بھی کتاب میں بیان کیا ہے، جو یقیناً ہمت کا کام ہے۔ کتاب میں بیشک بہت انفارمیشن ہے جس میں سے کچھ آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گی۔
انسان نے بہت وقت تنگی اور افلاس (scarcity) میں گزارا ہے، لیکن اچانک سائنس نامی ایک جادو کا چراغ ہاتھ لگ جانے کے بعد انسان کا تو جیسے اسٹیٹس ہی تبدیل ہوگیا۔ وہ بھوک اور افلاس کی دنیا سے ایسی دنیا میں آگیا جہاں اب فراوانی (abundance) ہے۔ انسان نے سوچا کہ فراوانی آجانے سے اس کے مسئلے حل ہوجائیں گے لیکن ہمیشہ کی طرح مستقبل کی پیشن گوئی میں ہم ناکام ہی رہے ہیں، اس فراوانی کے اگر فوائد ہوئے تو نقصانات بھی ناقابلِ تلافی ہیں۔ ہم وقت میں پیچھے کی جانب نہیں جاسکتے، ہمیں اب چاہ کر بھی اس فراوانی کو اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو الٹ نہیں سکتے لیکن اس سے نمٹنے کے مختلف طریقے ضرور ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کسی وقت میں تفریح کے لیے لوگ ترس جاتے، آج نظر دوڑائیں تو ہر جگہ تفریح ہی تفریح ہے۔ اور اس تفریح اور پلیژر سے بھری دنیا میں آپ اپنے افکار میں اعتدال کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں یہ آپ کو ڈاکٹر اینا-لمبکی بتاتی ہیں جو اس کتاب “ڈوپامین نیشن” کی لکھاری میں۔
درد-پلیژر کی نیوروسائنس اور ڈوپامین (pain-pleasure and dopamine):
لفظ “ڈوپامین” آج کل بہت ٹرینڈنگ میں ہے۔ یہ ڈوپامین کیا ہے؟؟
ڈوپامین دماغ میں خارج ہونے والے بہت سارے کیمیکل جنکا کام آپ کو پلیژر دینا ہے، میں سب سے اہم ہارمون ہے، اسے “خوشی کا ہارمون” بھی کہتے ہیں۔ یہ مزہ دیتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “مزہ آخر سزا میں کب اور کیوں تبدیل ہوجاتا ہے”؟؟ ہم لت میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں؟؟ آئیے اس لت کو سمجھنے کے لیے دماغ کے سسٹم “ہومیو سٹیسس” (homeostasis) کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ سب نے سنا ہوگا کہ کائنات میں ہر چیز خود کو توازن میں لے کر آتی ہے، اور یہی نظام فطرت نے ہمارے دماغ میں بھی تشکیل دیا ہے۔ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں یوں تصور کیجیے کہ ہمارے دماغ میں ایک ترازو ہے جس پر ایک طرف پلیژر تو دوسری جانب درد موجود ہے اور یہ ترازو ہمیشہ خود کو توازن میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور اس عمل کو “ہومیوسٹیسس” (homeostasis) کہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر لت (addiction) کیسے پڑتی ہے اور توازن کہاں بگڑتا ہے؟؟
جب آپ کوئی پلیژر والا تجربہ کرتے ہیں تو ترازو میں پلیژر والا کانٹا بھاری ہوجاتا ہے، اب چونکہ توازن لانا ہے تو اب وقت ہوا چاہتا ہے درد کو برداشت کرنے کا، لیکن مسئلہ وہاں جنم لیتا ہے جب آپ درد کو توازن میں آنے ہی نہیں دیتے اور اس سے بھاگنے کے لیے مسلسل پلیژر کو حاصل کیے جاتے ہیں۔ مسلسل پلیژر لینے پر اس مخصوص چیز سے ایک وقت میں پلیژر ملنا بند ہوجاتا ہے جسے ڈاکٹر اینا “نیورو-ایڈ پیٹیشن” (neuroadaptation) کہتی ہیں، مطلب کہ وقت کے ساتھ وہ شے جس سے آپ پلیژر حاصل کرتے رہے ہیں اسکا پلیژر کم ہوتا جائے گا اور پلیژر محسوس کرنے کے لیے اب اس شے کی زیادہ سے زیادہ مقدار لینی پڑے گی، اس سے آپ کی درد (pain) والی سائیڈ اور بھی زیادہ تکلیف دینے لگے گی(جس طرح تصویر میں دکھایا گیا ہے)، یہی وہ حالت ہوتی ہے جب آپ نہ صرف لت میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ اب آپ کو لت بہت زیادہ تکلیف دینے لگتی ہے کیونکہ اب لت آپ کے کیریئر، رشتوں ، اخلاقیات اور صحت کے بیچ آکر نقصان پہنچا رہی ہے (حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں نشئی یا لت کا شکار انسان اچھا نہیں لگتا، صحت کی جانب مائل ہونا بھی ہم انسانوں کی فطرت ہے)۔
یہ تو تھا ڈوپامین کا تعارف، اب آتے ہیں لت کو حل کرنے کے لیے مناسب اقدامات پر۔ کتاب میں کئی سائنسی تجربات اور مثالیں دی گئی ہیں لیکن میں چند لفظوں میں سرسری وضاحت کرنا چاہوں گی۔
ڈوپامین (D-O-P-A-M-I-N-E):
ڈ (D) سے ڈیٹا(Data):
کسی وقت میں تفریح کے مواقع بہت نایاب ہوتے تھے لیکن آج کی دنیا تفریح اور پلیژر سے بھرپور ہے، اینا کہتی ہیں کہ سب سے پہلے اپنی لت سے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرنا ضروری ہے، یعنی کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی چیز یا حرکت کی لت میں مبتلا ہیں تو غور کریں کہ اسکا کتنا اور کتنی دفعہ استعمال کرتے ہیں، کہیں وہ چیز یا حرکت آپ کے کیرئیر، صحت، معاشی حالات یا رشتوں کو متاثر تو نہیں کررہی۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اینا کو جب محسوس ہوا کہ انکے رومانوی ناول پڑھنے کی عادت لت میں بدل چکی ہے جب مطالعہ سے انکی رات میں نیندین اور دن میں بہت سے کام ادھورے رہنے لگے کیونکہ گھنٹوں ناولز پڑھنے میں لگ جاتے تھے۔
او (O) سے (Objective) مقصد:
ہماری ہر لت کے پیچھے کچھ جذبات یا وجوہات ہوتے ہیں، کوئی مقاصد ہوتے ہیں۔ آپ کی لت کی چیز (object of addiction) آپ کو کس طرح سے مدد دیتا ہے؟ اینا کہتی ہیں کہ لوگ زیادہ ڈوپامین والی اشیاء یا تجربوں کا استعمال عموماً تکلیف دہ یا بے آرام کردینے والے جذبات یعنی بوریت، احساس کمتری، انزائٹی، ڈپریشن، غصہ، سماجی فوبیا وغیرہ کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اینا اپنی مثال دے کے کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے اس حصے میں ناولز کو فرار (escape) کی طرح استعمال کیا جب انکے بچے ٹین ایج(teenage) میں چلے گئے اور یوں بچوں کے رویے اور نئے مسائل سے فرار ڈھونڈنے کے لیے وہ ناولوں میں کھو جاتیں۔
پی (P) سے (Problems) مسائل:
ڈاکٹر اینا اپنی ایک نوجوان ٹین ایجر مریضہ سے جسے اس کے والدین اسکی انزائٹی کی وجہ سے لے کر آئے تھے، پوچھتی ہیں کہ بہت زیادہ چرس (cannabis) پینے سے تمہیں کیا مسائل درپیش ہیں؟ لڑکی جواب دیتی ہے ‘بس میرے والدین مجھ سے اکثر الجھتے رہتے ہیں اور کوئی مسئلہ نہیں’۔ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں انہوں نے نوجوان لڑکی کی جانب دیکھا جو حد سے زیادہ چرس پینے کے باوجود بظاہر بلکل نارمل دِکھ رہی تھی، اور کہتی ہیں کہ بیشک جوانی ہر عیب اور بیماری پر پردہ ڈال دیتی ہے، جبکہ مڈل ایج (middle age) والے مریض اس ٹین ایجر لڑکی کی مانند تروتازہ نہیں ہوتے اور اکثر یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی لت اور اپنے آپ سے تھک چکے ہیں۔ زیادہ ڈوپامین والے ڈرگز ہمیشہ نقصان کی جانب لے کر جاتے ہیں……رشتوں، صحت اور اخلاقیات میں مسئلوں کی جانب۔
بہت زیادہ مقدار میں ڈوپامین لینے سے ذہن آنے والے مسائل کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے جس سے ہم لت سے ہونے والے مسائل کو دیکھ نہیں پاتے۔ مثال کے طور پر روز ایک ڈونٹ (doughnut) کھانا ہمیں اس لمحے میں پلیژر دیتا ہے لیکن ہم یہ نہیں دیکھ پارہے ہوتے کہ روز زیادہ مقدار میں میٹھا کھانے سے ہم اپنی کمر کے گرد ہر مہینہ پانچ پاؤنڈ کی چربی چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اور خود کو ان مسائل کو دکھانا ہوگا جو ہمارے ڈوپامین کی زیادتی سے گزرتے وقت کے ساتھ اپنا اثر دکھانا شروع کرتے ہیں۔
اے (A) سے (Abstinence) پرہیز/اجتناب:
“میرے پاس ایک آئیڈیا ہے، عمل کرنا بہت مشکل ہوگا لیکن یوں میں تمہارا علاج بہتر طور پر کر پاؤں گی، کیوں نہ تم ایک مہینے کے لیے کینابس پینا چھوڑ دو”، ڈاکٹر اینا نے ٹین ایجر لڑکی سے کہا، جس پر لڑکی نے ڈاکٹر کو حیرانگی سے دیکھا۔ ڈاکٹر اینا نے کہا “ کینابس چھوڑے بغیر انزائٹی کا علاج کرنا ممکن نہیں”، بہت ممکن ہے کہ کینابس کو چھوڑنے پر ایک مہینے میں تمہاری انزائٹی خود بخود ٹھیک ہوجائے گی، اینا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم انزائٹی کو ختم کرنے کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں جن سے بڑی مقدار میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے تو ایسی اشیاء ہمارے دماغ کی بیس-لائن انزائٹی (baseline anxiety) کو تبدیل کردیتی ہیں، اب بہت ممکن ہے کہ آپ کو جو انزائٹی محسوس ہو وہ کینابس کے اثر کے ختم ہونے کی انزائٹی ہو نہ کہ فطری (natural) انزائٹی۔
بلکل ویسے جیسے کسی مخصوص نشے کی لت ہونے کے بعد ہمیں وہ نشہ اپنی انزائٹی کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس نشے کا اثر کم ہونے پر اس کی وجہ سے ہونے والی انزائٹی کو کم کرنے کے لیے وہ خاص نشہ چاہیے ہوتا ہے، یہ کبھی نہ ختم ہونے والا چکر ہے، جسے ختم کرنے کے لیے اس ڈرگز سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔
ڈاکٹر اینا نے لڑکی سے کہا کہ آج سے دس سال بعد بھی تم خود کو کینابس پیتے ہوئے دیکھتی ہو؟؟ لڑکی نے جواب دیا کہ ‘نہیں! دس سال بہت زیادہ ہیں’, ڈاکٹر نے کہا کہ پھر پانچ سال؟، جواب ملا ‘بلکل بھی نہیں’ میں اسے جلد ہی چھوڑ دوں گی، ڈاکٹر نے کہا ‘جب چھوڑنا ہی ہے تو پھر ابھی کیوں نہیں؟؟، لڑکی نے جواب دیا “آپ شاید ٹھیک کہہ رہی ہیں جب میں اسے مستقبل میں جاری نہیں رکھنا چاہتی تو ابھی سے کیوں نہیں چھوڑ دیتی”، میں ایک مہینے کے لیے کینابس کے بغیر رہ کر دیکھوں گی۔
ایم (M) سے مائینڈ فلنس (mindfulness):
ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ لفظ مائینڈفلنس سدھارت گوتم کی تکنیک مائینڈفلنس میڈیٹیشن سے آیا ہے جسے اس وقت مغرب میں بہت پذیرائی ملی ہے، مغرب میں بچوں کو اسکولوں میں بھی اس تصور اور اس سے جڑی پریکٹس سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ ہمارا دماغ صلاحیت رکھتا ہے بہت عجیب و غریب قسم کی باتیں سوچنے اور تصور کرنے کی، کبھی کبھار ذہن میں ایسے خیالات بھی آتے ہیں کہ خود سے نفرت سی ہونے لگتی ہے کہ آخر میں یہ کیا سوچ رہا ہوں، اتنا گھٹیا/ظالم/فضول انسان کیسے ہوسکتا ہوں میں؟؟ مائینڈ فلنس آپ کو ان تمام سوچوں کا مشاہدہ کرنا سکھاتا ہے بنا خود کو برا بھلا کہے یا لیبل لگائے۔
جب اپنی لت سے ملنے والی ڈوپامین سے پرہیز کریں گے تو تکلیف اپنی حدوں کو پار کرنے لگے گی، اس وقت آپ نے اس نشے کو کسی اور نشے سے تبدیل نہیں کرنا بلکہ اپنے درد اور تکلیف کے ساتھ بیٹھ کر اسکا مشاہدہ کرنا ہے اسے برداشت کرنا ہے، یہ آسان کام ہرگز نہیں۔
آئی (I) سے (Insights) بصیرت:
وہی نوجوان لڑکی ڈاکٹر اینا کے پاس ایک ماہ بعد آئی، اور کہنے لگی کہ “ڈاکٹر میری انزائٹی ختم ہوگئی، شروع کا پہلا ہفتہ بہت ہی برا تھا، الفاظ نہیں بیان کرنے کے لیے کہ کتنی تکلیف ہوئی، لیکن مجھے احساس ہوا کہ مجھے واقعی کینابس کی شدید لت تھی اور مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ کینابس چھوڑنے کے بعد میری سوچ صاف اور واضح (clarity) ہوگئی ہے، مجھے اپنے رویے پر مزید غور کرنے کا موقع ملا ہے”۔
ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ بہت ہی سادہ طریقہ یعنی اپنی لت کو خود سے دور کرنا اور اس سے پرہیز کرنا آپ کی لت کو ختم کرسکتا ہے آپ کو مزید واضح سوچ فراہم کرسکتا ہے، لیکن یہ آسان تو ہرگز نہیں پر اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔
این ( N ) سے (Next Step) اگلا قدم:
الکوحلک اینانیمس (Alcoholics anonymous) کے نام سے ایک پروگرام ہے جو الکوحل کی لت سے چھٹکارا دینے میں مدد فراہم کرتا ہے، انکا ماننا ہے کہ الکوحل سے بلکل پرہیز واحد علاج ہے۔ جبکہ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ انکے تجربے کے مطابق ان کے بہت سے مریض کچھ عرصے بعد واپس اپنی ڈرگز(یا جس چیز کی ان کو لت ہو) لینا شروع کردیتے ہیں لیکن بہت کنٹرول انداز میں، وہ اسے بہت کبھی کبھی استعمال کرتے ہیں، بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو مکمل طور پر چھوڑ پاتے ہیں۔ ڈاکٹر اینا نے اسی نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ اب اسکا اگلا قدم کیا ہے؟ اس نے جواب دیا “میں بہت اچھا محسوس کررہی ہوں لیکن میں کینابس سے ملنے والا کریٹو (creative ) احساس اور کچھ دیر کے اس فرار (escape) کی کمی محسوس کررہی ہوں، میں دوبارہ استعمال کروں گی کینابس لیکن اس طرح نہیں جس طرح پہلے کرتی تھی، لت کی مانند نہیں بلکہ ایک ہلکی پھلکی تفریح کی مانند۔
اسکی مثال آپ سوشل میڈیا بھی لے سکتے ہیں، ہمیں مکمل طور پر سوشل میڈیا چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اس کے استعمال کو کنٹرول میں لاکر لت والے معاملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ البتہ کچھ نشے ایسے ہوتے ہیں جن سے مکمل پرہیز ہی واحد حل ہوتا ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ لت اور جس چیز کی لت آپ کو ہے وہ کس حس تک خطرناک ہیں۔
ای (E) سے ایکسپریمنٹ (Experiment) تجربہ:
ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ ڈوپامین سے پرہیز کے بعد اب جب مریض واپس نارمل کی جانب جاتے ہیں تو اب انکی سوچ لت کی جانب تبدیل ہو چکی ہوتی ہے، چاہے آپ ہمیشہ کے لیے پرہیز کرنا چاہیں یا اس نوجوان لڑکی کی مانند کبھی کبھار اپنا نشہ کرنے کا فیصلہ کریں ، آپ کو دراصل مختلف تجربات سے گزرنا ہوتا ہے، مطلب یہ کہ واپس کبھی کبھار کے چکر میں آپ پھر سے اسی طرح پرانی والی لت میں مبتلا ہوگئے تو؟ اسکا مطلب ہے کہ آپ کو مکمل پرہیز کرنا ہے، کیونکہ اس میں جینیات (genetics) کا بھی تعلق ہوتا ہے، کچھ لوگوں میں لت میں مبتلا ہونے کے جینز (genes) موجود ہوتے ہیں، آپ کئی بار غلطیاں کرکے تجربہ سے معلوم کرتے ہیں کہ آپ کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا نہیں۔
ڈاکٹر اینا “جسمانی خود پابندی” (physical self-binding) کو ماڈرن دنیا میں ضروری قرار دہتی ہیں، خود کو لت سے بچانے والی ایپز (applications) سے لے کر زیادہ کھانا نہ کھانے کے لیے میدہ چھوٹا کرنے کی سرجری تک انسان ڈوپامین سے بھری اس دنیا میں خود پر پابندیاں لگانے کے مختلف طریقے ایجاد کررہا ہے۔ جنک فوڈ، موبائل فون، ٹی وی دیکھنا یہ سب کبھی بھی نارمل سے لت کے زمرے میں داخل ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود پر پابندی لگائیں، وہ جگہ جہاں سے آپ کو آپکی لت والی چیز آسانی سے میسر ہو اس پر پابندی لگانا ضروری ہے، ڈاکٹر اینا اپنی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب انہوں نے ایمازون کنڈل (Amazon kindle) خریدا تھا تب انکو ناولز اور بھی آسانی سے میسر تھے جس کی وجہ سے وہ گھنٹوں ناول پڑھنے میں صرف کرتی تھیں، پہلی فرصت میں انہوں نے ای-ریڈر (e-reader) کو بیچا، چونکہ اسٹور جاکر کتابیں خریدنا ایک تھکا دینے والا عمل ہے تبھی وہ چاہ کر بھی اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اسٹور نہیں جا پاتی تھیں۔
آج کی دنیا میں تقریباً ہر لت میں مبتلا کرنے والی چیز بہت آسانی سے میسر ہے اور یہی آسانی ہمارے لیے عذاب بن چکی ہے۔ آپ دنیا کو یا سرمایہ داروں کو نہیں روک سکتے آپ کو لت میں مبتلا کرکے منافع بنانے کے لیے، اگر آپ کو خود سے محبت ہے اور آپ سرمایہ دارانہ نظام کو مات دینا چاہتے ہیں تو سرمایہ دار کے لیے تجربہ کا سامان نہ بنیں، ایک عام انسان پاور والوں کے لیے لیباریٹری میں موجود کسی جانور (چوہے، مینڈک، بندر) کی مانند ہے۔ خود پر پابندیاں لگائیں، سرمایہ دار کو یا دنیا کو آپ کی صحت مندی (wellbeing) کی کوئی پرواہ نہیں، یہ پرواہ آپ کو خود کرنی ہے اور سرمایہ دار کے خلاف یہ سب سے بہترین احتجاج ہوسکتا ہے۔ کتاب میں بہت سی مثالیں (سیکس کی لت، الکوحل کی لت، موبائل کی لت، فینٹسی کی لت، نشے کی لت) موجود ہیں اور بہت سی ریسرچ بھی موجود ہیں۔
درد کا علاج درد ہے (Pain to Treat Pain):
جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ویسے ہی سائنس کہتی ہے کہ “درد کو درد سے صحیح کیا جاسکتا ہے” اس سائنس کو “ہورمیسس” (hormesis) کہتے ہیں (جس میں اسٹریس کے ذریعے مثبت نتائج پیدا ہوتے ہیں اسکی مثال ورزش ہے، جس میں جسم کو درد دے کر اسے مضبوط بنایا جاتا ہے)۔ انزائٹی بھی انزائٹی سے صحیح ہوتی ہے، یعنی اگر آپ کو سوشل انزائٹی ہے تو آپ گھر میں چھپ کر نہیں بیٹھتے بلکہ اسے نارمل کرنے کے لیے مزید انزائٹی یعنی جان بوجھ کر سماجی تقاریب میں جاتے ہیں۔ یہ سب غیر متوقع اور مقابلہ کارگر (counterintuitive) ہے، کیونکہ بقول ڈاکٹر اینا کے پچھلے کئی سالوں سے ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ پلیژر یا سکون ہی درد کا علاج ہے لیکن حقیقت اس کے متضاد ہے۔
درد بھی اتنا نہ ہو کہ انسان کو نقصان پہنچانے لگ جائے یا پھر ہم درد کی لت میں ہی مبتلا ہوجائیں ، لیکن درد ضروری ہے، اس سے بھاگنا ہمیں مزید درد میں مبتلا کرتا ہے۔
ایمانداری اور کھرا پن(Radical Honesty):
وہ دنیا جہاں بھوک اور افلاس کا ڈیرہ ہو وہاں جھوٹ بہت کام آتا ہے(تبھی غریب ممالک میں لوگ جھوٹ کا استعمال کرتے ہیں شاید کیونکہ وسائل اور مواقع محدود ہوتے ہیں) ، لیکن وہاں جہاں فراوانی ہو ادھر جھوٹ آپ کو لت، اکیلاپن، عارضیاتی طور پر ضرورت سے زیادہ چیزوں کے استعمال (pathological overconsumption) کی جانب لے جاتا ہے، بقول ڈاکٹر اینا کے۔
اگر آپ کسی بھی بیماری کا علاج چاہتے ہیں یا کوئی عادت بدلنا چاہتے ہیں تو ایماندارانہ طور پر اپنی عادتوں کے متعلق بتانا بہت ضروری ہوتا ہے، اگر کسی اور سے نہ سہی لیکن خود سے تو سچ کہیں، خود کا اور خود کی عادتوں کا ایماندارانہ جائزہ بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ جب کوئی مریض ایمانداری سے اپنے متعلق بتاتا ہے تو اسکا علاج کرنا آسان ہوتا ہے۔
کتاب میں ایمانداری اور سچ پر ہونے والے کئی تجربے بھی شیئر کیے گئے ہیں۔ سچ صرف لت کے علاج میں مدد نہیں دیتا بلکہ ہمیں اچھے اور مضبوط رشتے بنانے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں مستقبل میں ہونے والی لت سے بھی بچاتا ہے، بقول ڈاکٹر اینا کے۔ کتاب “کیلکٹو ایلوژن” میں بھی ٹاڈ روز نے کہا تھا کہ سچ (truth) اگر کوئی ایک بول دے اور بھرم توڑ دے تو جھوٹ کی مانند یہ بھی پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔آپ چاہیں جھوٹ اور فریب کی کتنی ہی وکالت کیوں نہ کرلیں لیکن اس بات سے منہ پھیرنا ممکن نہیں کہ کھرا انسان ہم سب کو اچھا لگتا ہے، چاہے ہم خود کتنے ہی جھوٹے اور مکار کیوں نہ ہوں۔
ایک بات یاد رکھیے گا کہ سچ ہمیشہ “اچھا” نہیں ہوتا بلکہ “صحیح” ہوتا ہے اور “صحیح “چیز ہمیشہ سننے، دیکھنے، چکھنے اور تجربہ کرنے میں “اچھی“ نہیں ہوتی!
اپنی لت کی جانب ایماندارانہ رویہ رکھنے سے انسان مزید آگاہ (aware) ہونے لگتا ہے۔
شرمندگی (Shame):
یہاں پر سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ کو ڈاکٹر اینا ایک مشورہ دیتی ہیں:
“اپنے مریض سے اسکی میڈیکل ہسٹری نہیں بلکہ کہانی (story) پوچھیں”
ہر لت کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے جسے ہمدردی (compassion) سے سننا نہ صرف ہمیں مریض کا اچھا علاج کرنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے بلکہ اس سے مریض کو صرف مریض نہیں بلکہ انسان ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جنہیں اپنے کام سے دلچسپی ہو وہی اس طرح کا لائحہ عمل اپناتے ہیں۔
ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ لت ہمیں شرمندگی (shame) میں مبتلا کرتی ہے، لیکن شیم دو قسم کے ہیں، ایک تباہ کن شرمندگی (destructive shame) جس میں ہم لت میں مبتلا افراد کو سچ بولنے پر شرمندہ کرتے ہیں اور انہیں اذیت دیتے ہیں، جس سے وہ مزید تنہائی اور تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔
جبکہ دوسری شرمندگی کو سماجی شرمندگی (pro social shame) کہتے ہیں جس میں ہم لت میں مبتلا افراد کو شرمندہ ہونے پر انہیں تسلی دیتے ہیں اور سپورٹ کرتے ہیں، ہم انہیں لت سے نکلنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہم سب انسان ہیں، ہمارے اندر بیش بہا خامیاں ہیں، زندگی نام ہی غلطیاں کرکے ان سے سیکھنے کا ہے۔ ایک ڈاکٹر بھی مکمل نہیں ہوتا اسے بھی مسائل کا سامنا ہوتا ہے کسی بھی عام مریض کی مانند۔ اس لیے ڈاکٹر اینا کے مطابق سماجی شیم جس میں لت میں مبتلا افراد کسی کمیونٹی کی مانند ایک دوسرے کو سہارا دے کرلت کے دلدل سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، لت کو چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
سادہ پلیژر (Simple Pleasures):
ڈاکٹر فام فینوکین کے مطابق ہمارا دماغ اتنی زیادہ فراوانی اور ہمیں میسر بیش بہا پلیژر کے لیے نہیں بنا۔ سب سے بڑی پلیژر مشین ہمارے ہاتھوں میں ہمارا فون ہے، اس ہر وقت کے پلیژر کی وجہ سے ہمارے دماغ زیادہ سے زیادہ پلیژر اور کم سے کم درد کو سہنے کی حالت میں آچکے ہیں۔ ڈاکٹر اینا کے تجربہ کے مطابق جو افراد بہت عرصے جب اپنی لت سے منسلک چیز کا استعمال کرتے ہیں تو لت سے بہت عرصہ پرہیز کرنے کے باوجود وہ اکثر دوبارہ لت کی جانب چلے جاتے ہیں، کچھ لوگ نہیں بھی جاتے لیکن جتنا زیادہ عرصہ آپ کو لت میں مبتلا ہوئے لگتا ہے اتنا ہی اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مریض زندگی کے کسی موڑ پر متحرک (trigger) ہونے پر دوبارہ لت کی جانب آجاتے ہیں، لہٰذا آپ نے خود پر نظر بنائے رکھنی ہے- اکثر جینیات (genetics) سے بھی اسکا تعلق ہوتا ہے۔ لت سے دماغ پر کچھ ایسے نقصان بھی ہوتے ہیں جو واپس کبھی ٹھیک نہیں ہوتے، لیکن دماغ کی خاصیت ہے کہ یہ نئی عادتیں بنا لیتا ہے۔
جب آپ کسی لت سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں تو آپ کا دماغ توازن حاصل کرنے کے بعد سادہ سرگرمیوں سے بھی لطف اندوز ہونے لگتا ہے، جیسے دوستوں کے ساتھ گپ شپ، کہیں گھومنے چلے جانا، اگر آپ کے بچے ہیں تو ان کے ساتھ وقت گزارنا، اور وہ تمام عام سی سادہ سرگرمیاں جو ہمارے لیے مطلب کھو دیتی ہیں کیونکہ وہ ہمیں اکساتی (stimulate) نہیں۔ اپنے پلیژر کو سادہ رکھیں، بہت کم لوگوں کو زندگی میں بنا لت کے بڑے پلیژر ملتے ہیں، زیادہ تر ہماری طرح عام زندگی ہی گزارتے ہیں اور جن لوگوں کو بڑے پلیژر ملتے بھی ہیں تو بھی بہت کم۔
ہم سب انسانوں کا دن بوریت اور یکسانیت سے بھرپور ہی ہوتا ہے، اس بوریت سے بھاگنا نہیں ہے بلکہ بوریت اور یکسانیت سے بھری دنیا میں غوطے اور ڈ بکیاں لگائیں۔ کسی کے عشق میں نہیں بلکہ بوریت میں ڈوبنا ہمارے درد کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
“میرا اپنے ذاتی “ڈوپامین ڈیٹاکس” کا سرسری جائزہ (Dopamine Detox)”:
بہت سے انسانوں کی مانند مجھے بھی لت تھی، کھانے اور کافی کی لت….. میں اپنا پلیژر کھانے سے حاصل کرتی تھی اور سارا دن کافی پیتی تھی، دین، ایمان، عشق محبت، کام سب بس کھانا ہی تو تھا۔ میں فلمیں نہیں دیکھتی لیکن کھانے اور کافی سے متعلق کوئی ایسی ڈاکیومنٹری نہ ہوگی جو میں نے دیکھ نہ رکھی ہو، سوشل میڈیا پر بھی کھانے والی وڈیوز ہی دیکھتی تھی۔ جب ٹین ایجر تھی تب جنک فوڈ اتنا نقصان نہیں دیتا تھا کیونکہ ٹین ایج(teenage) میں جوانی ہمارے عیب پر پردہ ڈال دیتی ہے، میں پتلی تھی لیکن تقریباً تیئس سال کی عمر کے بعد میرا وزن بڑھنا شروع ہوا۔ تکلیف دہ جذبات سے لڑنے کے لیے میرے پاس ایک ہی ہتھیار تھا “کھانا”۔ جب معاملہ میری خراب صحت پر آیا تو پھر مجبوراً وزن کے متعلق سوچنا پڑا۔ میں نے چھتیس کلو (36kg) وزن کم کیا ہے۔
وزن کم کرنے کے لیے مجھے ڈوپامین سے پرہیز کرنے سے گزرنا پڑا، یہ بہت لمبا اور غلطیوں سے بھرپور سفر تھا۔ جب جسم سے چربی کم ہوئی تو انکشاف ہوا کہ ‘دماغ ‘ پر بھی اچھی خاصی چربی ہے جسے کم کرنا بہت ضروری ہے، مطلب یہی کہ سوشل انزائٹی، جذبات، خودتوقیری (self-esteem)، وغیرہ سے وابستہ مسئلے تھے مجھے، کھانے کے علاوہ میرے اور بھی کئی فرار (escape) تھے جنکا سامنا کرنا ضروری تھا۔
جتنا بڑا پلیژر ہوتا ہے اسے دماغ میں درد کے ساتھ توازن میں لانے کے لیے تکلیف بھی اتنی ہی ہوتی ہے، کسی وقت چینی سے اتنا زیادہ پرہیز کیا کہ پھل تک کھانا چھوڑ دیے کیونکہ اس میں بھی چینی ہوتی ہے، بھوکے رہنا، ایک وقت کے لیے میں سخت قسم کی سبزی خور (vegetarian) والی غذا پر آگئی۔ سوشل میڈیا کو ایک سال کے لیے بند کردیا تاکہ خود پر غور کرسکوں لیکن ایک غلطی ہوئی کہ واٹس ایپ نامی ایک ایپ کو نہیں ہٹایا فیملی اور دوستوں کی وجہ سے اور پھر پلیژر وہاں سے ملنے لگا (آپ ایک پلیژر کو دوسرے سے بدل کر اپنا دماغ توازن میں نہیں لاسکتے، ڈوپامین کو توازن میں لانے کے لیے پلیژر سے پرہیز ضروری ہے)اسٹیٹس پر تصاویر لگا کر لوگوں کی توثیق (validation) اور توجہ (attention) حاصل کرکے۔ اس غیر صحتمندانہ توجہ اور توثیق کو نارمل کیا، لیکن اس نئے پلیژر نے میری خودتوقیری (self-esteem) کو بہت نقصان دیا تھا۔ یہ کبھی نہ بجھنے والی پیاس ہوتی ہے، جس میں آپ بار بار اسٹوری کے ویوز (views) دیکھتے ہیں اور ہر ایک ویو (view) پر دماغ میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے۔
کسی ٹائم میڈیٹیشن کو اتنے زیادہ دورانیہ کے لیے اور غلط تکنیک کے ساتھ کیا کہ بیہوش ہوتے ہوتے بچی اور بہت دقت بھی ہوئی۔ ورزش بھی تین گھنٹے کرتی جیسے مجھے پیرس میں کسی فیشن شو میں ماڈلنگ کرنی ہےمستقبل میں! یوگا کو بھی بیوقوفوں کی طرح کیا۔ جرنلنگ اتنی کہ کاپیاں بھر گئیں۔ سوشل انزائٹی تھی تو جان بوجھ کر گھومتی، مزہ کم اور تکلیف زیادہ ہوتی گھومنے سے لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہی تکلیف اور درد مجھے توازن میں لے کر آئے گا۔ فوکس کرنا میرے لیے مشکل تھا تو جان بوجھ کر غیر افسانوی (non-fiction) اور انتہائی مشکل کتابیں پڑھتی اور یوں مطالعہ کے ذریعے میں نے اپنے فوکس کو تھوڑا بہتر کیا۔ تقریباً ہر وہ کام کیا، ہر اس صورتِ حال میں خود کو ڈالا جہاں سے بوریت ، گھبراہٹ، اکتاہٹ ہوتی یا تکلیف ملتی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ فلاح کا راستہ یہیں سے ہوکر جاتا ہے۔
آج سب کچھ اپنی جگہ کافی حد تک واپس آچکا ہے، میڈیٹیشن اب آدھے گھنٹے اور ورزش پینتیس منٹ پر آچکی ہیں۔ لیکن یہ سب شدید رویوں کا تعلق شاید درد-پلیژر کو توازن میں لانے کے لیے ہوتا ہے، آپ اس سب سے گزر کر غلطیاں کرکے اپنے لیے ایک بہتر لائف اسٹائل اپنی شخصیت ، ثقافت، ٹائم اور مالی حالات کے حساب سے تشکیل دیتے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں یہ سب کوششیں نہیں کروں کی تو اپنی مشکلات (sufferings) کو دوگنا کردوں گی۔ لیکن یہ سفر آسان نہیں ہوتا ، آپ کئی بار گر کر دوبارہ اٹھتے ہیں۔ خود-احتسابی(self-efficacy) کو عادت بنانا بہت ضروری ہے۔
اب ایسا نہیں ہے کہ میری کہانی میں “اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے” والا معاملہ ہے، دماغ کی چربی پگھلانے کا سلسلہ جاری ہے اور مرتے دم تک جاری رہے گا۔ البتہ اتنا فرق ضرور پڑا ہے زندگی میں کہ اب میں دوسروں کی بھی مدد کرنے اور انہیں سپورٹ کرنے کے قابل ہوئی ہوں، جب کہ آج سے پہلے میں خود بے سہارا تھی تو کسی اور کو کیا سہارا یا مشورہ دیتی۔ نشئی، لت کا شکار اور محض باتیں کرنے اور ان پر عمل نہ کرنے والے لوگ نہ خود کو سہارا دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ارد گرد والوں کو۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...