پیدائش کا وقت اور ایک نئے وجود کی دنیا میں آمد حیاتیات کا ایک معجزہ ہے۔ کوکھ میں بچے کے پھیپھڑے ایک سیال (amniotic fluid) سے بھرے ہوتے ہیں۔ اور بڑی ہی زبردست ٹائمنگ کے ساتھ یہ نکل جاتا ہے۔ پھیپھڑے پھول جاتے ہیں۔ ننھا اور تازہ دل دھڑک کر خون کو اس بدن میں اپنا پہلا چکر دے دیتا ہے۔ ماں کے بدن کے اندر رہنے والا ایک طفیلیہ اب ایک آزاد وجود بننے کو ہے۔
ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا شے ہے جو پیدائش کے عمل کا محرک بنتی ہے۔ یہاں پر گزارا گیا وقت 280 دن ہے۔ کہیں پر تو دنوں کی گنتی کا حساب ہے لیکن ہمیں پتا نہیں کہ یہ کہاں پر ہے اور وہ کیا میکانزم ہے جو الارم بجا دیتا ہے اور یہ تمام عمل شروع کر دیتا ہے۔
جس چیز کا ہمیں علم ہے، وہ یہ کہ جسم ایسے ہارمون پیدا کرنے لگتا ہے جو prostaglandins ہیں۔ یہ بچہ دانی میں فعال ہو جاتے ہیں۔ اب تکلیف دہ contractions شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے کو باہر نکلنے کے لئے اپنی پوزیشن میں آنا ہے۔ پہلے بچے میں یہ سٹیج بارہ گھنٹے لیتی ہے۔ اگلے بچوں میں یہ وقت کم ہو جاتا ہے۔
کسی بھی ممالیہ کے مقابلے میں انسان کیلئے یہ عمل زیادہ دشوار ہے۔ بچے نے جس نالی سے گزرنا ہے، وہ اس کے سر کے مقابلے میں ایک انچ تنگ ہے۔ اور اس تنگ راہگزر سے گزرنے کیلئے بچے کو ایک نوے ڈگری پر عجیب و غریب سا موڑ کاٹنا ہے۔
قدرت نے اس میں ایک چیز میں مدد کی ہے۔ ابھی سر کی ہڈیاں جڑ کر ایک ٹکرا نہیں بنا۔ اس وجہ سے اس کا سر تھوڑا سا پچک سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک اور عجیب عمل ہوتا ہے۔ بچہ اس نالی سے گزرتے وقت ماں کے دئے گئے جراثیم سے نہلا دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس عمل کی اہمیت اب سمجھ آنا شروع ہوئی ہے۔ آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کو یہ تحفہ نہیں ملتا اور اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس میں دمہ، ٹائپ ون ذیابیطس، شکمی امراض اور موٹاپے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ الرجی کے امکان میں آٹھ گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
اور یہاں ایک دلچسپ بات اور ہے۔ ایک سال کی عمر میں نارمل اور آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں میں جراثیم کا مکسچر یکساں ہو چکا ہوتا ہے۔ اس میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس ابتدائی ایکسپوژر میں کچھ ایسا ہے جس کے دوررس اثرات ہوتے ہیں۔ اس چیز کا اندازہ نہیں کہ ایسا کیا ہے اور کیوں ہو سکتا ہے۔
میڈیکل وجوہات کی بنا پر پانچ سے دس فیصد کیس ایسے ہوتے ہیں جہاں پر آپریشن سے پیدائش کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے آپریشن کئے جانے کی شرح اس سے زیادہ ہے۔
ایک سال کی عمر میں بچہ ایک ہزار کھرب جراثیم جمع کر چکا ہوتا ہے۔ لیکن ابتدا میں ان کے کم ہونے کے اثرات پلٹ نہیں سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی زندگی کا ایک بہت غیرمعمولی فیچر ماں کا دودھ ہے۔ اس میں دو سو اقسام کے پیچیدہ شوگر ہوتے ہیں۔ بچہ ان کو ہضم نہیں کر سکتا کیونکہ انسانوں کے پاس وہ ضروری انزائم نہیں ہوتے۔ ان سے فائدہ اٹھانے والے آنتوں کے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ یہ ان کے لئے رشوت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دودھ اینٹی باڈیز سے بھرا ہوتا ہے۔ اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ دودھ پیتے وقت بچے کا لعاب ماں تک پہنچتا ہے۔ ماں کا امیون سسٹم اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اینٹی باڈیز کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کرتا ہے۔
کیا زندگی کا ہر پہلو شاندار نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ڈیوڈ بارکر نے ایک خیال پیش کیا جو بارکر ہائیپوتھیسس کہلاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر عضو کی ڈویلپمنٹ میں ایک خاص وقت ہوتا ہے جو اس کیلئے بہت اہم ہوتا ہے۔ اور یہ تمام عمر کی صحت کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اس کی ایک مثال نیدرلینڈز میں 1944 کے موسمِ سرما میں پڑنے والا زبردست قحط تھا۔ اس وقت جنگِ عظیم دوئم جاری تھی اور جرمن افواج نے ملک میں خوراک کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس وقت ہونے والی پیدائشوں میں حیرت انگیز طور پر بچوں کا وزن نارمل رہا تھا۔ ماوں کی خوراک کا زیادہ حصہ بچے کی طرف مڑ گیا تھا۔ اور جب جنگ کے خاتمے کے بعد یہ قحط اگلے برس ختم ہوا تو خوراک کی دستیابی عام ہو گئی۔ اس “عظیم بھوک” کے دور سے یہ بچے بغیر کسی مضر اثر کے، بچ نکلے۔ ان میں کسی بھی اور وقت میں پیدا ہونے والوں کے مقابلے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن پھر کچھ غلط ہو گیا۔ جب ان بچوں نے جوانی کی حدود پار کیں تو ان میں دل کی بیماریوں، کینسر، ذیابیطس اور دوسری سنجیدہ بیماریوں کے واقعات ایک سال پہلے اور ایک سال بعد میں پیدا ہونے والوں کے مقابلے میں دگنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے دور میں نوزائیدہ بچوں کو سنجیدہ بھوک کا مسئلہ نہیں لیکن اس کا الٹ اب عام ہو رہا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ خوراک اور ورزش کی کمی کا مسئلہ ہے۔ غلط طرزِ زندگی صرف خود پر ہی اثرانداز نہیں ہوتا۔
کہا جاتا ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچوں کی نسل جدید تاریخ میں وہ پہلی نسل ہو گی جن کی اوسط عمر اپنے والدین سے کم ہو گی۔ عالمی ٹرینڈ یہ بتاتا ہے کہ اپنی بسیارخوری اور کاہلی کی وجہ سے نہ صرف ہم خود قبر کی طرف جانے کی رفتار تیز کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اسی سمت میں کھینچ رہے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...